وجود

... loading ...

وجود
وجود

فاٹاکی بدترین غلامی کاآغاز

هفته 18 مارچ 2017 فاٹاکی بدترین غلامی کاآغاز

جب پاکستان بنا اس وقت محمدعلی جناح صاحب نے فاٹاکے قبائیلوں کو آزاد رہنے دیا۔ یہی آزادی تھی جس نے فاٹا کے لوگوں کو ہمیشہ مسلمانوں کی مدد کرنے کاموقع دیا۔ مگر آخر کب تک؟ آخر وہ دن آگیا جب دنیا کے چند اصل حالت میں باقی رہ جانے والے علاقوں میں شامل فاٹاکی آزادی چھننے جارہی ہے ۔فاٹاکی آزادی کے خاتمے کاآغازکردیاگیاہے ۔مگرمیٹھی گولی کی طرح فاٹاکے معصوم لوگوں کوبتایاجارہاہے کہ دراصل ان کوحقوق دیئے جارہے ہیں ۔ وزیر اعظم صاحب نے فرمایاکہ یہ فاٹاکے لوگوں کاحق ہے کہ وہ کراچی ،کوئٹہ ،پشاور اور لاہور کے شہریوں کی طرح زندگیاں گزاریں اوران جیسی سہولیات کوحاصل کرسکیں ۔کاش! کوئی فاٹا کے لوگوں کو ان شہریوں کی عظیم زندگیوں کے بارے میں بتائے جو ان شہروں میں رہنے والے گزار رہے ہیں بلکہ دنیا کے ہر شہر میں رہنے والوں پر کیا گزرتی ہے۔ میں کراچی میں رہتا ہوں اور میں شہری زندگی سے مکمل طورپر لطف اندوز ہو رہا ہوں ۔میں کیا کیا لطف اٹھاتاہوں ابھی آپ کو بتاتا ہوں ۔ میں جس ہوا میں سانس لیتاہوں وہ پیٹرول، ڈیزل کے دھوئیں سے بھری ہوئی ہے۔ میں سڑکوں پر گاڑیوں کے ٹائروں کاربڑ اپنے گردوں میں روز ڈلواتا ہوں ۔ میں اپنے گھرسے کچرااٹھانے کے پیسے دیتا ہوں اور اس کچرے کوپھینکنے کے بھی پیسے دیتا ہوں ۔ نہ کچرامفت میں اٹھایاجاتاہے نہ مفت میں پھینکاجاتاہے ۔صبح اورشام گھنٹوں ٹریفک میں پھنس کرخوب لطف اٹھاتاہوں ۔ ہرمہینے پینے کا پانی خریدتا ہوں اور خوب لطف اٹھاتا ہوں ۔ فاٹا کے لوگ حیران ہونگے کہ پانی بھی بکتاہے ؟ نہیں حکومت نے آزادی دی ہوئی ہے کہ اگرکوئی بوتل کاپانی نہیں پیناچاہتاتواس پرکوئی زبردستی نہیں ہے وہ نل کاپانی پی کرمرنے کی آزادی رکھتاہے۔ حکومت بہت اچھی ہے شہریوں کومکمل آزادی دیتی ہے۔ ہمارا شہر بہت اچھاہے، اگرکسی کوکوئی مسئلہ ہوا اور مسئلے کاحل نہ نکلے تووہ پریس کلب کے باہر احتجاج کرسکتاہے۔ میرے شہرمیں مردعورتیں اکثر پریس کلب کے باہراحتجاج کرکے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں ۔کبھی کبھارپولیس ان کوگھسیٹتی ہے مگریہ بھی ایک لطف کی چیزہے ۔فاٹاکے لوگوں کو کیا پتا کہ پولیس کے ہاتھوں ڈنڈے کھانا یا روڈ پر گھسیٹے جانے میں کیامزہ آتاہے ۔یہ لطف قبائلیوں کواس وقت تک نہیں مل سکتاجب تک وہ قومی دھارے میں شامل نہ ہوں ۔ہمارے شہرمیں سرکاری اسپتال کی سہولت بھی ہے۔ جہاں لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں اورصحت کی سہولت سے خوب لطف اندوزہوتے ہیں ۔ہمارے شہر میں غیر سرکاری ہسپتال بھی ہیں جہاں لوگ لاکھوں روپے دے کراورگھروں کے کاغذات تک رکھوا کر اپنا مریض آخرکارمردہ حالت میں لے کرجاتے ہیں ۔ ہمارے شہرمیں ڈاکٹر اگر بتا بھی دے کہ آپ کا مریض نہیں بچ سکتا، اس کوگھرلے جائیں تب بھی لواحقین نہیں مانتے کیونکہ گھروں میں سب مصروف ہیں ، کون بیمار کی تیمارداری کرے گا۔ شہروں میں مردہ مفت میں دفن نہیں کیاجاتا، اس کے پیسے لیے جاتے ہیں ۔اس لیے شہری مرنے کے بعدبھی سکون نہیں لے پاتالیکن یہ بھی لطف کی چیز ہے ۔ ہمارے شہرمیں جب کوئی سڑک پرماراجاتاہے تو اس کے گھروالوں کوآسانی مہیاکرنے کے لیے ایدھی یاچھیپاکی گاڑیاں آجاتی ہیں وہ اس مرے شخص کواٹھاکرلے جاتی ہیں ۔چنددن انتظار کرتے ہیں ،اس کوبرف والے کمرے میں رکھتے ہیں جہاں مردہ شہری خوب لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ پھر دو چار بندے جمع ہوکراس کوکسی گڑھے میں ڈال کر اوپر سے مٹی ڈال دیتے ہیں اوراس مردے کی تصویر ایک تصویروالی کتاب میں لگادیتے ہیں تاکہ اگر بعد میں اس کے گھرسے کوئی آجائے تووہ آسانی سے اس کوشناخت کرسکے۔ فاٹاکے لوگوبولو!یہ مزے کبھی ملے ہیں ؟تم توعجیب لوگ ہوجومرنے والے کے ساتھ چپکے رہتے ہواورہفتوں اس کے گھرجمع ہوکراس کے لواحقین کاغم بانٹتے ہو۔ پاگل لوگ۔۔۔ہمارے شہر میں پاکستان میں سب سے زیادہ طلاقیں ہوتی ہیں ۔ جب کوئی لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہناچاہتی توہمارے شہر میں تمہارے گائوں کی طرح بزرگ بیچ میں آکرٹانگ نہیں اڑاتے بلکہ وہ عدالت جاکرچندماہ میں آزادی حاصل کرکے خوب لطف اندوزہوتی ہے۔ ہمارے شہرمیں لڑکیاں غیرت کے نام پرقتل نہیں ہوتیں کیونکہ ہم نے عرصہ قبل غیرت کاقتل کردیا، اس کے بعد اب شہروں میں غیرت کسی کوتنگ نہیں کرتی۔ ہمارے شہر میں عورت آزاد ہے۔ جیسی چاہے جوانی گزارے، پڑھے لکھے، نوکری کرے اور بڑھاپے میں ایدھی ہوم جا کر مرجائے۔ یہ لطف فاٹاکی عورتوں کو کہاں نصیب؟ وہ تو گھروں میں ’’قید‘‘ ہیں اوراپنے بچوں کے ہاتھوں میں مرنے جیسی ’’غلامی ‘‘پرمجبور ہیں ؟ہمارے شہر میں پاگل خانے بھی ہیں ۔پاگل خانے شہروں میں ہی ہوتے ہیں کیونکہ شہری زندگی کاایک کمال یہ بھی ہے کہ یہاں لوگ سب سے زیادہ پاگل ہوتے ہیں ۔ جب کوئی شہرمیں پاگل ہوجاتاہے تواسے پاگل خانے میں جمع کروادیا جاتا ہے۔ روایتی معاشروں میں پاگل کو خاندان سنبھالتا تھا، وہ مجذوب پورے قبیلے اورخاندان کی ذمہ داری ہوتا تھا، اور اس کے ساتھ معاملہ ثواب، اجراوراللہ پاک کی خوشنودی کے لیے کیاجاتاتھا۔مگرکیونکہ ہمارے شہر میں خاندان وقبیلہ، فرد کی شکل میں بدل گیا ہے، اب خاندان کے فرد اکیلے اکیلے رہتے ہیں ۔اس لیے اب پاگل کوکوئی گھروں میں نہیں رکھتا بلکہ اس کے لیے پاگل خانے ہیں ،یہ مزے فاٹا والوں کو اگلے 30 سال تک ہی میسرآسکیں گے ۔ ہمارے شہر میں بھکاری بہت ہیں اوریہ سب پیشہ وربھکاری ہیں کیونکہ ان کوروزبکرے کاگوشت خیراتی ادارے مفت میں کھانے کودیتے ہیں اور اس عمل کوثواب سمجھتے ہیں ۔ بکرے کاگوشت غریب آدمی محنت مزدوری کرکے مہینے میں بھی ایک مرتبہ نہیں کھاسکتا مگر خیراتی ادارے ثواب سمجھ کر روزکھلاتے ہیں ، اس لیے لوگ محنت کرکے کھانے کی زحمت نہیں اٹھاتے اوراس کوبرابھی نہیں سمجھتے ۔ ہمارے شہر میں لوگ اکثر بہت سے مزوں سے لطف اندوزہوکرپھرایک دن کسی ٹرین کے نیچے آجاتے ہیں یا کسی پُل کے اوپرسے کود جاتے ہیں تاکہ وہ مرنے کا لطف اٹھاسکیں ۔ لوگ ایسا اس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ زندگی کا لطف برداشت کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اورکیونکہ شہروں میں لوگ ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے ،اس لیے کوئی کسی مزے لینے والے کے لطف میں مداخلت نہیں کرتا۔ ہمارے شہرمیں اکثر نامعلوم لوگوں کی لاشیں بھی ملتی ہیں اوراس طرح کے لوگوں کی تعداد ہمارے شہرکے قبرستانوں میں 30ہزارہے ۔یہ لطف توفاٹا کے لوگ کم ازکم 50 سال بعدہی لے سکیں گے۔ ہمارے شہر میں چند عورتیں بچے گرادیتی ہیں یا پیداکرکے پھینک دیتی ہیں ، یہ حرام کے عمل سے پیدا بچے یا کسی کی مجبوری میں گرائے گئے بچے ہم چوم چاٹ کرسینے لگاتے ہیں ، ان کوپالنے کی ذمہ داری رفاہی ادارے اٹھاتے ہیں ۔ اوراس طرح پھرسے کوئی دو اجنبی اس حرام عمل کو انجام دینے کے لیے محنت شروع کردیتے ہیں ۔ آزادی ملی تو فاٹامیں بھی یہ سب ایک دن ضرور ہوگا مگروہ دن چند سالوں بعدآئے گا۔ شہروں میں اتنے مزے ہیں کہ بیان کرنے بیٹھ جائوں تو کتابیں لکھ سکتاہوں ۔فاٹاکے لوگ آج تک کبھی احتجاج نہیں کرتے تھے مگراب فاٹامیں احتجاج کے ایک دورکاآغازہونے جارہاہے ۔فاٹامیں خاندان باقی تھا، لوگ اپنے مسئلے خاندان میں حل کرتے تھے ۔فاٹاکے لوگ بے روزگارنہیں تھے، وہ سادہ زندگی جیتے تھے، وہ اسکول، کالج اوریونیورسٹی جاکر نوکریوں کے لیے دھکے نہیں کھاتے تھے، اب کھائیں گے ۔فاٹاکی عورتیں 2017ء تک آزاد تھیں ۔ان کے 14,12,10بچے ہوتے تھے ،بڑے قبیلے اورخاندان کی وارث ہوتی تھیں ۔ان کو تمام حقوق حاصل تھے مگراب ان عورتوں کو اطلاع ملے گی کہ وہ غلام تھیں اب تک،ان کوپاورکی ضرورت ہے ۔ فاٹا کی عورتیں میٹرنٹی ہوم کے بغیر درجنوں بچوں کو پیدا کرتی آئی ہیں مگراب اسپتال ان کواطلاع دے گاکہ بچہ صرف اسپتال میں پیداہوتاہے ورنہ ماں کی جان کوخطرہ ہوتاہے اورزیادہ تربچے آپریشن سے ہوتے ہیں ۔اوربچے کوماں کے دودھ سے زیادہ فائدہ ڈبے کادودھ پہنچاتاہے۔ اب فاٹاکی 12,10اور14بچے پیداکرنے والی عورتوں کی بہوئوں کوڈاکٹربتائے گی کہ 2 اور 3 بچے بہت ہوتے ہیں ’’تم اپنے اوپرظلم نہ کرو‘‘۔ اور بہوئیں یہ نہیں سوچیں گی کہ وہ خود12بہن بھائی تھے توان کی ماں کی صحت کوکیاخطرہ لاحق تھا، ہاں ماضی کی عورتیں لیزچپس اورسیون اپ نہیں پیتی تھیں ، اس لیے نارمل بچے پیداکرسکتی تھی،مگراب یہ کچرا کھا کر قدرتی عمل سے بچہ پیداکرنامشکل ہے۔ اب فاٹاکے لوگ سالوں عدالتوں میں انصاف کی بھیک مانگیں گے اور’’شہری انصاف‘‘ سے لطف اندوز ہونگے۔ سب سے زیادہ ظلم عورتوں کے ساتھ ہوگا، میرا دل خون کے آنسورورہاہے، میں آج سے 20 سال بعد کا فاٹا سوچتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ فاٹا میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں کھل جائیں گی۔ ان تعلیمی اداروں میں لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے جائیں گی۔ ان لڑکیوں کو موبائل فون ملے گا،یہ کھیل کے مقابلوں میں حصہ لیں گی۔ ان اداروں میں این جی اوز کی آنٹیاں ان کوان کے حقوق سے آگاہ کریں گی۔ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والی معصوم لڑکیاں جب اپنی پسند کااظہاراپنے باپ بھائی سے کریں گی تب وہ ان لڑکیوں کوبتائیں گے کہ تم شادی ہماری مرضی سے کروگی۔اورایساصدیوں سے فاٹامیں ہوتا آیا ہے اورکوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ایسے میں کچھ لڑکیاں صبر کریں گی۔ جبکہ کچھ لڑکیاں بغاوت کرینگی۔ ان باغی لڑکیوں کواین جی اوزکی آنٹیاں مددفراہم کریں گی ۔اگرکوئی باغی لڑکی گھروالوں کے ہاتھ لگ گئی تواس کاقتل کردیاجائے گا، تب انسانی حقوق کی علمبردار آنٹیاں اور حقوق نسواں والی آنٹیاں پریس کلب کے باہرمرنے والی معصوم لڑکی کی تصویر کے سامنے موم بتیاں جلائیں گی ۔پھرآنٹی شرمین عبید چنائے کانزول ہوگا،وہ ایک فلم بنائے گی جس کو ایک آسکرایوارڈملے گا۔مگرکوئی یہ سوال نہیں کرے گاکہ جب ریاست فاٹاکی لڑکیوں کوتحفظ نہیں دے سکتی تھی توآزادی کیوں دی؟امریکا اوریورپ صرف اپنی عورتوں کوآزادی نہیں دیتے، ساتھ ساتھ اس آزادی کاتحفظ بھی دیتے ہیں ۔ میں چشم تصورمیں بدلتے فاٹاکودیکھ کرافسردہ ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ فاٹاکوجوحقوق کے نام پرملنے جارہاہے لوگ اس کوفاٹاکی آزادی سے تعبیر کر رہے ہیں مگر مجھے یہ فاٹا کی بدترین غلامی کا آغاز معلوم ہوتا ہے ۔


متعلقہ خبریں


فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام وجود - هفته 04 مارچ 2017

وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت اجلاس میںگزشتہ روز وفاقی کابینہ نے فاٹا اصلاحات کے لیے قانونی اور آئینی ترامیم کی سفارشات کی منظور ی دی ،وفاقی کابینہ کی منظور کردہ سفارشات کے مطابق فاٹا آئندہ 5 برس میں خیبر پختونخوا کا حصہ بن جائے گا، کابینہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیرا...

فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر