وجود

... loading ...

وجود
وجود

اقتدار کے مقدمین

منگل 24 جنوری 2017 اقتدار کے مقدمین

ہمارے معاشرے میں یا تو مسلمانوں کی سو سالہ غلامی کے اثرات ابھی تک باقی ہیں یا پھر ہم ابھی تک جاگیردارانہ ذہنیت سے ایک مکمل شہری (یا تہذیب یافتہ) معاشرہ نہیں بن پائے کہ یہاں ہر فرد یا ادارہ ، اپنی سرشت میں جاگیردرانہ رویوں کا اسیر محسوس ہوتا ہے۔ ہر ادارہ یا اس کے ذریعے رو بہ عمل افراد ، بھلے وہ وردی میں ہوں یا وردی کے بغیر ، دنیا کا ہرکام خود کرنے یا پھر اپنی ذات کے گرد گھمانے کے خبط میں مبتلا ہیں۔ شائد بیشتر فیصلہ سازوں کے لاشعور میں بچپن میں سنی فاتحین اور بادشاہوں کی وہ کہانیاں پنہاں ہیں کہ جہاں سلطان صلاح الدین ایوبی سے لے کر سلطان محمود غزنوی تک اور شیر شاہ سوری سے لے کر سلطان ٹیپو تک، تمام رموزِ ہائے مملکت ایک ہی ذات کے گرد گھومے یا گھمائے جاتے رہے ہیں۔حالاں کہ حقیقت شائد اس کے برعکس ہوتی ہے ۔ اگر تاریخ کا ذرا عمیق نظری سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ تاریخ کے ان نامور کرداروں کے جلو میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہر افرادِ کار کی ایک نابغہ روزگار ٹیم ہوا کرتی تھی، جو ان کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے میں دن رات مصروفِ عمل ہوتی تھی۔ دنیا بھر سے ماہر اور اوصاف والے افراد بادشاہ کے دربار کے ساتھ منسلک ہونے آتے یا لائے جاتے اور پھر پوری پوری عمر وہیں بسر کر دیتے۔
اگر موجودہ دور کی بات کریں تواس وقت اس کی سب سے بڑی مثال امریکا میں اقتدار کی منتقلی کو قرار دیا جا سکتا ہے جو حالیہ دنوں میں وقوع پذیر ہوئی ہے۔ امریکا دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور، جہاں ہرکام کے ہونے یا کرنے کے لیے ایک باقاعدہ نظام موجود ہے ، یہاں دو پارٹی نظام لاگو ہے، لیکن یہاں پر بھی جب ایک پارٹی کی حکومت ختم ہوتی ہے اور دوسری پارٹی کا نمائندہ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہوتا ہے تو لگ بھگ تیس ہزار سرکاری افسروں کا ایک جم غفیر ہوتا ہے جو ایک عہدے کا چارج چھوڑکر دوسرے عہدے پر چلا جاتا ہے اور ان کی جگہ جیتنے والی نئی پارٹی کے ’حامی ‘ افسران انکے عہدوں پر آبراجمان ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ نظام کے اندر سے ہی لائے جاتے ہیں ، لیکن اقتدار میں آنے والی پارٹی نے حکومت کے تمام اہم عہدوں کے لیے اپنے تئیں قابل اور اس کی پالیسیوں کوآگے بڑھانے والے افراد کی بخوبی نشاندہی کر رکھی ہوتی ہے اور پارٹی نے اپنے تئیں ان لوگوں کی فہرستیں مرتب کر رکھی ہوتی ہیں۔ اس پورے عمل پر نظام کے اندر یا باہر کوئی اعتراض نہیں کرتا ، نہ ہی وہاں کی سول سوسائٹی، نہ ہی فوج، نہ ہی مخالف پارٹی۔ کیوں کہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تبدیلیاں اُس پارٹی کا حق ہیں جنہیں عوام نے مینڈیٹ دے کر منتخب کیا ہے تا کہ وہ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی پالیسیوں کا اطلاق کر سکیں۔
میاں محمد نوازشریف جب 2012 تک سیاست نہ کرنے والے معاہدے کے باعث اقتدار کے ایوانوں سے باہر بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے، تب تک تو وہ مکمل خاموش رہے جب تک کہ معاہدے میں تسلیم کی گئی ڈیڈ لائن ختم نہ ہو گئی، لیکن جیسے ہی یہ معاہداتی ڈیڈلائن گزرگئی توموصوف نے ملک کے ہر گلی محلے والے اجتماعات اور ٹی وی انٹرویوز میں یہ کہنا شروع کیاکہ ان کے پاس اہل اور قابل افرادِ کار کی ایک ٹیم موجود ہے جس کے ذریعے وہ عوام کے تمام دلدردور کردیں گے۔ اُس وقت ، ایسے میں عوام کو یہ بات بہت خوش کن اور پُرمسرت لگی جب کہ زرداری صاحب، خارجہ اور خزانہ کی وزارتوں کے لیے ’’مقدمین‘‘ پر انحصار کررہے تھے، اس سے خیال یہی آیا کہ میاں نواز شریف کے پاس یقیناً ایسی کوئی نہ کوئی ٹیم ضرور ہوگی جو ان امریکی مقدمین سے قوم کی جان چھڑائے گی۔
مقدمین دراصل ’مقدم‘ کی جمع ہے۔ ہماری بینکاری نظام میں جب کوئی نجی ادارہ یا کمپنی کسی بینک سے سود پر قرض لیتی ہے تو اس کے عوض کچھ اثاثے بینک کے پاس رہن رکھے جاتے ہیں۔ ان اثاثوں کی مسلسل نگرانی ضروری ہوتی ہے ورنہ مقروض فریق ان اثاثوں کی خورد برد کرکے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی بھی کر لیا کرتا ہے۔ اگرچہ اس مقدم کی تنخواہ بینک ہی ادا کرتا ہے لیکن غیرجانبداری کے تقاضوں کے پیش نظر اس کو بینک کا ملازم نہیں مانا جاتا اور ظاہر یہی کیا جاتا ہے کہ وہ ایک آزاد فریق کے طور پر ہی رو بہ عمل ہے۔ اسلام آباد میں وردی والوں کی حکومت ہو یا پھر جمہوریوں کی، ایسے مقدم حضرات آپ کو اقتدار کے ایوانوں میں اہم اور حساس جگہوں پر گزشتہ پندرہ سال سے مسلط نظر آئیں گے، جناب ڈاکٹر مصدق ملک اس کی ایک زندہ مثال ہیں جن کو اقتدار کے ایوانوں کی راہ بہادر کمانڈو، جنرل پرویز مشرف صاحب نے دکھائی تھی، اُس کے بعد وہ کیا زرداری اور کیا نواز شریف، ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔
اگر ا س وقت دیکھا جائے تو میاں صاحب کی پوری حکومت ان مقدمین کی مرہونِ منت نظر آتی ہے۔ وزیر قانون زاہد حامد سے لے کر وزیر اعظم کے ترجمان ڈاکٹر مصدق ملک تک اور نجم سیٹھی سے لے کر سابق مشیر سکیورٹی امور تک، (ہم دانیال عزیز ٹائپ کے مقدمین کا ذکر کرکے آپ کا اپنا منہ کا ذائقہ خراب نہیں کرنا چاہتے) یہ سب سات سمندر پار بیٹھی قوتوں کے مقدم ہی تو ہیں ، جن قوتوں نے شراکتِ اقتدار کے مبینہ معاہدے کی گارنٹی دی تھی جس کے تحت ابھی تک معاملات چلائے جا رہے ہیں۔ جس نے بھی اس معاہدے سے دائیں بائیں ہونے کی کوشش کی، جیسے مرحومہ بے نظیر بھٹو صاحبہ، تو ان کا وہ حشر کیا گیا کہ اپنوں نے کچھ یوں عبرت پکڑی کہ ان کے قتل اور قاتلوں کے نشان مٹانے اور چھپانے میں خود ہی مصروف ہو گئے اور اس انجام سے عبرت پکڑتے رہے،میاں محمد نواز شریف صاحب جاتی امراء میں بیٹھے بیٹھے ٹھٹھرتے پائے گئے۔
اور ہاں یاد آیا ہم نے دو دہائیوں کے لگ بھگ ہائی کورٹ کی کمپنی بینچ کی رپورٹنگ میں یہ بات اخذ کی کہ جب تک مقدم مقروض کے ساتھ نہ ملے، قرض کبھی بھی ڈیفالٹ نہیں کرتا، ہمارے موجودہ نظامِ حکومت سے تو یہی لگتا ہے کہ مقدمین کو اعلیٰ اور حساس عہدوں سے نواز کر ان کا منہ بند کردیا گیا ہے اور یہ اپنے افسران ہائے بالا کو یہ مسلسل باور کروانے میں مصروف رہتے ہیں کہ ’’فدوی آپ سے کئے گئے معاہدوں کی روح کے مطابق ان پر عمل پیرا ہے‘‘۔ تا کہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔
میاں نواز شریف کے دو پیادے، جناب پرویز رشید اور جناب مشاہد اللہ خان ، سیاست کی بساط میں کیا پٹے ،میاں صاحب تمام تر چوکڑیاں بھرنا ہی بھو ل گئے۔ اس کے بعد تو ان کی پوری حکومت ہی مقدمین کی مرہونِ منت نظر آتی ہے، تو پھر کہاں گئے وہ افرادِ کا ر جن کا میاں صاحب دعویٰ نما واویلا فرمایا کرتے تھے؟ شہباز شریف صاحب نے کوئی ڈیڑھ درجن وزارتیں اور بڑے میاںنوازا شریف صاحب نے کوئی آدھ درجن وزارتیں اپنی ذات کے گرد گھما رکھی ہیں ، وہ اگر تمام نشستوں پر اپنی تصویریں رکھ کر کابینہ کا اجلاس بھی طلب کر لیں تو آئینی طور پر ان کے رستے میں کوئی رکاوٹ نہیں لیکن پھر وہ قابل ٹیم کا دعویٰ کیا ہوا؟
شائد یہ خدشہ ہو کہ اگر یہ وزارتیں اپنے نام سے اتاریں تو ان کو بھی کسی مقدم کو بخشنا نہ پڑ جائے، اس لیے وہ کئی اہم وزارتوں پر وزراء کاتقرر ہی نہیں کرتے؟
شہباز شریف صاحب نے اقتدار کے ساڑھے آٹھ سال مکمل ہونے کے بعد جب لگ بھگ آدھے درجن صوبائی وزراء کو شریکِ اقتدار کیا بھی تو یہ پخ لگا دی کہ کوئی وزیر اپنے محکمے میں نائب قاصد کو ڈانٹنے سے پہلے ان سے اجازت طلب کرے گا۔ سنا ہے (اور دیکھا بھی) کہ پنجاب کے نئے وزراء اپنی نئی ملنے والی وزارتوں سے جان چھڑاتے اور میڈیا سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں (ان کو تو سندھ کے صوبائی وزیر جناب ’پتافی‘ والی سہولت بھی دستیاب نہیں کہ خادمِ اعلیٰ نے تعدد ازدواج سے یہ سہولت بھی اپنی ذات کے لیے مخصوص کر رکھی ہے)۔ انہیں لیکن اقتدار میں شراکت میاں شہباز شریف کے مزاج پر اس قدر گراں گزری کہ موصوف کو جا کر باقاعدہ کئی دنوں کے لیے لندن کے ہسپتال میں داخل ہونا پڑ گیا۔ اقتدار سے اس قدر محبت؟ اللہ کی پناہ!!
اب پوچھنا تو بنتا ہے کہ جناب کہاں گئی وہ ٹیم ؟ آپ کو تو پیمرا اور پی ٹی وی کا چیئرمین لگانے کے لیے اپنے گھر کا بندہ بھی تین سال بعد دستیاب ہو سکا۔ یہ کیسی ٹیم ہے، جو بی بی سی کی خبر کی تردید اے پی پی سے جاری کرواتی ہے، اور پوری دنیا میں بھد اڑاتی ہے اور اخلاقی بحران کی لمبی داستانوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہی۔ انگریزی محاورہ تو یاد ہی ہوگا کہ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ تو جناب وزیر اعظم صاحب، کیا آپ کے کردار ، صلاحیت اور قابلیت کا اندازہ آپ کے ارد گرد اکٹھے بوزنوں سے لگایا جائے؟
٭٭


متعلقہ خبریں


مراد علی شاہ سابق وزیر اعلیٰ سے بھی زیادہ بے اختیار الیاس احمد - اتوار 19 مارچ 2017

گزشتہ سال جب پی پی کی قیادت یعنی آصف زرداری نے دبئی میں بیٹھ کر زندگی کی لگ بھگ 9 دہائیاں دیکھنے والے سید قائم علی شاہ کو ہٹا کر سید مراد علی شاہ کو وزیراعلیٰ نامزد کیا تو اس وقت صرف خورشید شاہ نے دام میں پھنسنے والے پرندے کی طرح پھڑپھڑایا ،باقی سارے خاموش رہے۔ پھر خورشید شاہ کو ...

مراد علی شاہ سابق وزیر اعلیٰ سے بھی زیادہ بے اختیار

مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر