وجود

... loading ...

وجود
وجود

کشمیر کہانی ۔۔۔۔خون کہانی

منگل 08 نومبر 2016 کشمیر کہانی ۔۔۔۔خون کہانی

27؍ اکتوبر 1947ء کو بھارتی سامراج نے سرزمین جموں و کشمیر پر فوجیں اُتار کر جابرانہ قبضہ جمایا اور ایک امن پسند قوم کو بنیادی حق سے محروم کرکے جبری غلامی میں مبتلا کرکے رکھ دیا۔ جابرانہ فوجی قبضے کے بعد ڈوگرہ فورسز اور آر ایس ایس سے وابستہ غنڈوں اوردہشت گردوں نے نہرو اور پٹیل کی براہ راست آشیرباد سے نہتے مسلمانوں کا بے دریغ قتلِ عام کیا اور اُن کی جائیدادوں کو قبضے میں لے لیا گیا۔ 6؍ نومبر 1947ء کو جموں کے مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کے بہانے پولیس لائنز میں جمع کیا گیا اور شہر کے مضافات میں لے جاکر بے دردی سے شہید کیا گیا۔ جوان عورتوں کو برہنہ کرکے اُن کو جلوس کی شکل میں پورے شہر میں گھمایا گیا۔لندن ٹائمز کی 10اگست 1948کی رپورٹ کے مطابق 2,37,000 مسلمانوں کو ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت صفحہ ہستی سے مٹایا گیا۔اور اس کام میں ہندو ،سکھ انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ مہاراجہ کے سپاہیوں نے بھی کردار ادا کیا۔رپورٹ کے مطابق یہ واقعات قبائلی حملے سے پہلے 5دن پہلے شروع ہوئے تھے۔جموں صوبے میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 1941ء میں 61%تھا جو 1961میں صرف 38%رہ گیا۔ السٹر لیمب نے ان واقعات کے بارے میں جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق جموں میں 350 مساجد کو جلا کر شہید کیا گیا۔ جموں ضلع میں مسلمان 1941ء میں کل آبادی کا 37 فیصد تھے، جبکہ 1961ء میں وہ صرف 10 فیصد رہ گئے۔ اس طرح مسلمانوں کا مکمل صفایا کر دیا گیا۔ مسلمانوں کی جائیدادیں کسٹوڈین کو دی گئیں، لیکن ان پر بھی ہندو دہشت گردوں نے قبضہ کرلیا۔
Statesman اخبار کے ایڈیٹر آئن ا سٹیفنز کی کتاب “Horned Moon” میں تمام واقعات کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔
مسلمانوں کے قتل عام میں پنجاب کے راجواڑوں، پٹیالہ، کپور تھلہ، فرید کوٹ اور نواحی علاقوں کے مہاراجوں کے علاوہ نہرو اور پٹیل کی ہندو دہشت گردوں کو مکمل حمایت حاصل تھی۔ جس طرح ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان ہجرت کے موقع پر حیوانیت کا نشانہ بنایا گیا، اسی طرح جموں کے مسلمانوں پر بھی قیامتیں ٹوٹ پڑیں۔تقریباً 20 لاکھ سے زائد لوگ پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔
ریاست کے حریت پسند عوام بھارتی جابرانہ قبضے اور فوجی مظالم کے سامنے سرنگوں ہوئے نہ اُس کے خاتمے کیلیے جاری جدوجہد میں ذرا بھی حوصلہ ہار ے۔ آج تک کی اڑسٹھ (68) سالہ جدوجہد میں فقید المثال قربانیاں پیش کی گئی ہیں۔ زائد از پانچ لاکھ فرزندانِ وطن جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ہزاروں عفت مآب ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی آبرو لٹ چکی ہے۔ سینکڑوں بستیاں اور بازار تاخت و تاراج ہوچکے ہیں۔ تادمِ ایں 6 ہزار گمنام قبریں دریافت ہوچکی ہیں اور زائد از دس (10) ہزار معززینِ وطن مفقود الخبر ہیں۔ قربانیوں کا یہ سلسلہ ہنوز رواں تحریکِ آزادی کی آبیاری کر رہا ہے۔ بھارت مقبوضہ ریاست میں اپنی فوجی گرفت مضبوط اور مستحکم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہا۔ اس وقت کم و بیش 28 لاکھ کنال زرعی، باغاتی، جنگلاتی زمین اور صحت افزاء مقامات فوج کے قبضے میں ہیں۔ خالصتاً فوجی اورجنگی مقاصد کی خاطر ریلوے لائنیں بچھائی جا رہی ہیں اور ٹنلیں نکالی جا رہی ہیں اور فوجی مقبوضات اور تنصیبات کو وسیع سے وسیع تر کیا جا رہا ہے۔مقبوضہ ریاست کے مسلم اکثریتی تشخص کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بند کوششیں کی جا رہی ہیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت مغربی پاکستان سے بھاگے ہوئے لاکھوں ہندو شرنارتھیوں اور دیگر غیر ریاستی باشندوں کو مستقل شہریوں کی حیثیت سے بسانے کے مذموم اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ جموں کے دور دراز دیہاتی و سرحدی علاقوں میں سکونت پذیر مسلمانوں کو “Forest Land Evacuation” پروگرام کے نام پر بالجبراپنی رہائشگاہوں اور جائیدادوں سے محروم کرکے کھُلے آسمانوں تلے مہاجرانہ زندگی بسر کرنے پر مجور کیا جا رہا ہے۔ آر ایس ایس (RSS) اور دیگر انتہا پسند ہندو دہشت گرد سرکاری پشت پناہی میں مسلح پریڈ اور مارچ کرکے جموں کے مسلمانوں کو مرعوب کرنے کی مذموم حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ ریاستی انتظامیہ بالخصوص جموں کی صوبائی انتظامیہ میں کلیدی عہدوں پر مسلم آفسرز کو ہٹانے کے بعد ہندوتوا کے حامی افسران کو تعینات کیا جا رہا ہے۔ ’’بھارت میں رہنا ہے تو وندے ماترم کہنا ہے‘‘ کا روح فرسا پیغام اعلانیہ سنایا جا رہا ہے۔ ریاست کے مسلم اکثریتی علاقوں باالخصوص وادئ کشمیر کو معاشی بدحالی سے دوچار کرنے کی منصوبہ بند کوششیں ہو رہی ہیں۔ سیاحت، گھریلو دستکاری، فروٹ انڈسٹری، قیمتی تعمیراتی لکڑی، گھنے جنگلات اور قیمتی معدنیات کے ذخائر کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ لوٹ بھی لیا جاتا ہے۔ ریاست کے آبی ذخائر سے محتاط اندازے کے مطابق 24000 کروڑ مالیت کی بجلی سالانہ بیرونِ ریاست پنجاب، ہریانہ، راجستھان اور دہلی وغیرہ کو ٹرانسفر کی جا رہی ہے جبکہ خود مقبوضہ ریاست کے بیشتر علاقہ جات اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ حریت پسند عوام کے جذبۂ حریت اور عزمِ صمیم کو کمزور کرنے کیلئے کشمیریوں کا معاشی مقاطعہ Economic Blockade کرنے کا نسخہ آزمایا جارہا ہے۔
اپنا جابرانہ قبضہ جاری رکھنے کے لیے،یہ تمام حربے استعمال کیے جارہے ہیں ،لیکن عالمی برادری خاموشی سے تماشہ دیکھ رہی ہے۔ 1930 سے 1940 کے اختتام تک لاکھوں یہودیوں کے قتل کا ہٹلر پرالزام ہے، دنیا اسے ہولوکاسٹ کے نام سے یاد کرتی ہے اور حد یہ ہے کہ اس مبینہ قتل عام کی نہ تحقیق کرنے کی اجازت ہے اور نہ اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جموں میں لاکھوں لوگوں کے قتل عام جسے عالمی شہرت یافتہ محققین و مصنفین نے ثا بت کیا ہے،کے ذمہ داروں کو کبھی بے نقاب کرنے کی ٹھوس کو شش نہیں کی گئی۔ حد تو یہ ہے کہ اس قتل عام کے ذمہ دار اب نریندر مودی کی شکل میں پورے بھارت پر حکمران ہیں اور آج یہ وہی نسخے پھر آزما رہے ہیں ،لیکن عالمی امن کے ٹھیکیدار خا موش ہیں ۔اور خاموشی سے خون مسلم بہتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔اللہ رحم فرمائے


متعلقہ خبریں


تحریک ِکشمیر دلالوں کے نرغے میں الطاف ندوی کشمیری - جمعه 28 اپریل 2017

یوں تو انسانی سماج دلالوں سے ہر وقت پریشان رہتا ہے مگر تحریک کشمیر کے دلالوں کی کہانی کئی حوالوںسے انتہائی نرالی ہے ۔دلال باضمیراور دیانت دار ہوتو اس کے کاروبارپر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا ہے ،مگر جب معاملہ کسی قوم کا ہومسئلہ سنگین تر ین بن جاتا ہے اس لیے کہ قوموں کے اجتماع...

تحریک ِکشمیر دلالوں کے نرغے میں

جنوبی کشمیر کے دہشت ناک حالات کی اصل کہانی الطاف ندوی کشمیری - جمعه 21 اپریل 2017

قارئین کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ 2016ء کے عوامی احتجاج سے قبل بھارتی فوج کے ایک اعلیٰ ترین فوجی آفیسرجنرل ڈوانے ببانگ دہل یہ بات کہی تھی کہ جنوبی کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور یہاں ہماری حالت بطخوں کے مانند ہو چکی ہے ۔عوام کھل کر عسکریت پسندوں کی حمایت کرتے ہیں حتیٰ کہ وہ ان...

جنوبی کشمیر کے دہشت ناک حالات کی اصل کہانی

ذاتی رائے ۔۔۔غور کرنے میں کوئی مضا ئقہ نہیں !!! شیخ امین - جمعرات 08 دسمبر 2016

جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور جموں و کشمیرنیشنل کانفرنس کے سربراہ نے 5دسمبر 2016کو اپنے والد اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ مرحوم شیخ محمد عبد اللہ کے یوم پیدائش کے موقع پرایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "یہ آگ تب تک بجھ نہیں سکتی ،جب تک ہندوستان اور پاکستان ہم سے انصاف ن...

ذاتی رائے ۔۔۔غور کرنے میں کوئی مضا ئقہ نہیں !!!

قابل غورمشورہ!!! شیخ امین - پیر 28 نومبر 2016

8جولائی 2016کو حزب المجاہدین کے جواں سال قائد برہان مظفر وانیؒ بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہادت سے سرفراز ہوئے۔ان کی شہادت کے فوراََ بعد پوری ریاست میں با لعموم اور وادی میں با لخصوص بھارت مخالف مظا ہرے شروع ہوئے ،جو تادم تحریر جاری ہیں۔شہید برہان کے جنازے میں ایک ملین سے زیادہ لوگوں...

قابل غورمشورہ!!!

 بھارتی فوج کی دیدہ دلیری فوجی پوسٹ کے بعد مسافر بس،ایمبولینس پر گولہ باری ابو محمد نعیم - جمعرات 24 نومبر 2016

وادیٔ نیلم میں مسافر بس کو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایاگیا ، تین شہری موقع پر شہید ، زخمیوں میں شامل سات افراد ہسپتال میں دم توڑ گئے گزشتہ روز ہندوستانی فوج نے اپنے 3 فوجیوں کی ہلاکت تسلیم کی تھی اور ٹوئٹ میں اس کارروائی پر شدید ردعمل دینے کی دھمکی دی تھی بھارتی افواج کی...

 بھارتی فوج کی دیدہ دلیری فوجی پوسٹ کے بعد مسافر بس،ایمبولینس پر گولہ باری

مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر