وجود

... loading ...

وجود
وجود

رجوع کا وقت

منگل 08 نومبر 2016 رجوع کا وقت

اگر بارِ خاطر گراں نہ گزرے اور جان کی امان عطا ہو تو عرض بس اتنا ساکرنا تھا کہ جن لوگوں نے بہت بڑے بڑے منہ کھول کر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ، ان کے بچوں ، رشتے داروں اور دیگر ساتھیوں کے مالی معاملات کے عدلیہ کے پاس جانے پر بغلیں بجائی تھیں اور اسے اپنی فتح پر محمول کیا تھا ،ان کا اپنی پہلی رائے سے رجوع کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ اہلِ نظر کو تو بات سمٹتی نظر آ رہی ہے اور اگر کسی کس و ناکس کو اب تک بھی نظر نہیں آ رہی تو وہ اپنی آنکھوں کا علاج کروائے۔
خواہشات کے انبوہ اور نفرتوں کے انبار اپنی جگہ لیکن عام محاورہ یہی ہے کہ ’’قانون اندھا ہوتا ہے ‘‘ اور یوں قانون کے ایوانوں میں بیٹھے اس کے نمائندے وہی کچھ دیکھتے ہیں جو انہیں ثبوتوں کے ساتھ ان کی میز پر لا کر دکھایا جاتاہے۔ ہمارے ملک میں نافذ برطانوی قانون کے مطابق اگر جج اپنی آنکھوں کے سامنے کسی بے گناہ کا قتل ہوتے ہوئے بھی دیکھ لے تو وہ اس کا فیصلہ اس وقت تک کرنے کا مجاز نہیں ہوتا جب تک کہ ریاست کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کے سامنے اس واقعے کے تمام ثبوت اور گواہیاں لا کر پیش نہ کر دیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ ’سوموٹو‘ (خود اختیار کردہ ) نوٹس کے تحت ان اداروں کو ثبوت جلدی اور ایمانداری سے پیش کرنے کاتو کہہ سکتا ہے لیکن اپنے آنکھوں دیکھے واقعے پر بھی کوئی فیصلہ سنانے سے عاری ہوتا ہے۔ جج تو خود کسی واقعے کی تحقیقات بھی نہیں کرسکتا اس کے لیے پھر اسے ریاست کے دیگر اداروں پر ہی انحصار کرنا ہوتا ہے۔
دراصل ہماری عمومی عدالتوں میں جج ایڈووکیٹ جنرل (جیگ) برانچ سے معاملات ذرا مختلف طریقے سے فیصل ہوتے ہیں ، اگرعدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کئے جانے معاملات اور ان کے ثبوت جیگ برانچ کے سامنے پیش ہوتے اور ملزم کوئی سویلین ہوتا تو وہ یقیناً سزا سے نہ بچ پاتا، وردی پوش جرنیلوں کا معاملہ تا ہم دیگرہے کہ ان کے منہ سے نکلا ہر لفظ ہی دراصل قانون ہوتا ہے۔ اس لیے کشمیر پر بھارتی فوج کے خلاف دفاع سے لے کر مشرقی پاکستان اور چار مارشل لاؤں تک کے معاملے پر کسی ذمہ دار جرنیل کے خلاف یہ قانون کبھی حرکت میں نہیں آیا، لیکن تخریب کاری کے ’شک‘ میں پکڑے جانے والوں کی پھانسیاں نان اسٹاپ جاری ہیں۔
کہیں تو کس سے کہیں؟
گورے نے اپنی نوآبادیات میں جیگ برانچ متعارف ہی اس لیے کروائی تھی کہ غلاموں کی فوج میں نظم و ضبط کے نام پر اپنے حکم اور حکمرانی کا شکنجہ اچھی طرح کس کے رکھا جائے کہ کسی کو ملکہ کے نام پر جان دینے کے علاوہ کچھ اور سوچنے کی ہمت ہی نہ ہو۔ سوچوں پر پہرے بٹھانا اسے ہی کہتے ہیں۔
سارے معاملات کی فائل اسی حوالے سے تیار کی گئی تھی لیکن وہ کیا ہے کہ مقدمہ ایک سویلین عدالت میں پیش ہو گیا ہے اور چوں کہ ملک کی عدالتیں برطانوی ترکے میں چھوڑے رومن قانون کے تحت رو بہ عمل ہیں تو یہ انہی حقائق پر اسی معیار کی بناء پر فیصلہ کریں گی ۔ اب معاملہ یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف صاحب نے بیرونِ ملک اثاثے کیسے بنائے؟ اور اگر یہ اثاثے بنائے تو ان کے لیے ذرائع آمدن کہاں ہیں؟ اور اگر یہ ذرائع آمدن موجود ہیں تو ان کا اظہار ان کاغذات میں کیوں نہیں جو انہوں نے اپنی نامزدگی کے وقت الیکشن کمیشن کو پیش کئے تھے؟ اور چوں کہ انہوں نے ایسا کرکے جھوٹ بولا ہے ، اس لیے ان کو نا اہل قرار دیا جائے۔
آج کل ویسے بھی بہت سے لوگوں کو چچا یاد آ رہے ہیں لیکن ہمیں ایسے وقت میں چچا غالب یاد آئے اور کیا خوب یاد آئے
مگس کو جنگل میں جانے نہ دیجیو
کہ نا حق خون پروانے کا ہوگا
کیسی کیسی کہانیاں گھڑی ہیں ہمارے محترمین نے۔ جب حالات غیر معمولی ہوں تواقدامات بھی غیر معمولی ہی ہوا کرتے ہیں۔ اگر میاں شریف اور ان کے خاندان کے اثاثوں کے بارے میں شکوک ہیں تو دونوں مواقع پر جب ان سے تمام کاروبار اور جائیداد چھین کر ان کو جلاوطن کیا گیا ، توکیا وہ حالات شکوک کے ہالے میں گھرے ہوئے نہیں ہیں؟ جس قانون کے تحت ان کی اتفاق فاؤنڈری کو قومیایا گیا اور بعد ازاں صرف ان کو واپس تھمایا گیا جب کہ باقیوں کے اثاثوں کو سرکاری تحویل میں ہی رکھا گیا ، یا جس قانون کے تحت ان کو قتل کے مقدمے میں سزا یافتہ ہونے کے باوجود سعودی شاہی جہاز پر جلاوطن کیا گیا تھا بس اسی قانون کے تحت یہ رقوم بھی ملک سے باہر گئی ہیں۔ چوں کہ ہم میں بحیثیت قوم یہ یارا نہیں کہ ہم کسی وردی پوش جرنیل سے اس قانون کی کسی شق کے بارے میں استفسار کر سکیں تو پھر میاں صاحب اور ان کے خاندان سے بھی یہ سوال کرنے کا حق نہیں رکھتے، یہاں پر یقیناً ہمارے معاشرے اور قانون کے پر جلتے ہیں۔
یہ تمام باتیں کسی مظاہرے یا دھرنے کے کنٹینر پر بنے اسٹیج سے اوئے توئے کے ساتھ کرنے کے لیے تو اچھا مصالحہ ہیں لیکن ’اندھے قانون‘ کے سامنے ان کی حیثیت پرِ کاہ کے برابر بھی نہیں۔
تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ کوئی تین ماہ قبل میاں صاحب کے بڑے صاحبزادے کچھ ہفتے سعودی عرب میں مقیم رہے۔ بظاہر تو مقصد اپنی دوسری اہلیہ کے ساتھ کچھ وقت گزار نا تھا لیکن دراصل اپنے ان اثاثوں کو قانونی غلاف پہنانا تھا۔ ایک شخص جو بیس کروڑ والی آبادی اور 270 ارب ڈالر سے زائد جی ڈی پی والے ملک کا تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکا ہو، کیا اس کو پوری دنیا میں کوئی ایک شخص بھی دستیاب نہیں ہوگا جو یہ کہہ سکے کہ میاں صاحب کی تمام ناجائز دولت اس کے تحفے کا شاخسانہ ہے؟ اور ظاہر ہے کسی نے کہہ دیا ہے اور ہمارے ملک میں نافذ ’اندھے قانون‘ نے تو پیش کیے گئے ثبوتوں پر جانا ہے۔
مقدمہ بنانے والوں کو پتہ نہ چل سکا کہ سال 2011 میں سالانہ ٹیکس ریٹرن کے فارم میں (Dependent)کا خانہ ہی نہیں تھا ۔ اس بات کا باقاعدہ سرٹیفیکیٹ ملک کی سب سے بڑی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرم سے حاصل بھی کر لیا گیا ہے۔ رہی بات بیرونِ ملک اثاثوں کی تو اس کی ٹریل بھی مکمل کی جا چکی ہے۔ اب تو ان ملزموں کو سزا دینے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کو آرمی ایکٹ مجریہ 1942 کے تحت گرفتار کرلیا جائے ، جس خواہش کا اظہار جناب شیخ رشید روزانہ ٹی وی کے مختلف حالاتِ حاضرہ (Entertainment ) کے پروگراموں میں بیٹھ کر کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں تو پھر ہی ان کو ان کردہ گناہوں کے الزام میں لٹکایا جا سکتا ہے۔
خاکسار نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں ان تمام امور کی رپورٹنگ کر رکھی ہے اور یہ تمام حقائق میری انگلیوں کے رستے ہی قرطاس پر منتقل ہوئے تھے، اس لیے میری بہت واضح یادداشت کا حصہ ہیں۔ جن معاملات پر ہمارے ’دوست ‘ ہاتھ ڈال رہے ہیں ان پر میاں صاحب کو پکڑا تو کیا انگلی بھی نہیں لگائی جا سکتی۔ لیکن جن معاملات پر پکڑ اجا سکتا ہے اس طرف کسی کا دھیان ہی نہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حدیبیہ پیپر اینڈ بورڈ ملز کے لیے استعمال شدہ مشینری جب اتفاق فاؤنڈری کے اسکریپ کے پردے میں بغیر کوئی ٹیکس یا ڈیوٹی دیے درآمد کر کے نصب کی گئی تھی توپھر اس کے بدلے نیشنل بینک سے قرض جاری کرتے وقت اسے نئی مشینری کیسے ظاہر کیا گیا؟ اور بعد میں یہ قرض جان بوجھ کر ڈیفالٹ کیوں کر دیا گیا ؟ اور دیگر اداروں کے ساتھ یہ ادارہ بینک کے حوالے کردیا گیا کہ بیچ کر اپنے پیسے پورے کر لو؟ شائد اس لیے کہ اسکریپ کے بدلے نئی مشینری کی قیمت وصول کر کے اب اس مل کو کون بیوقوف چلاتا۔
یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ میاں صاحبان کی اس طرح کی بے شمار مالیاتی داستانیں اور ان کے کاغذات آج بھی خاکسار کی ذاتی لائبریری میں محفوظ ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میاں صاحب کے مخالفین کی نظر اس تک کیوں نہیں جاتی؟ تو کیا پھر معاملہ وہی ہوا ناں کہ ہماراسیاسی طبقہ اشرافیہ آپس میں ملا ہواہے ، یہ کبھی بھی ایک دوسرے کے خلاف ’درست الزام‘ نہیں لگائیں گے تا کہ ان میں سے ہر فریق کا کام چلتا رہے اور ان کے ووٹرز ایک دوسرے سے لڑتے رہیں؟


متعلقہ خبریں


عمران خان کی نتھیا گلی میں مصروفیات‘ پنجاب کی سیاست میں زبردست ارتعاش انوار حسین حقی - هفته 03 جون 2017

پاکستان کو فطرت نے بے پناہ حسن اور رعنائی عطا کی ہے ۔ملک کے شمالی علاقے خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ گلیات میں جھینگا گلی اور نتھیا گلی کے علاقے آب و ہوا اور ماحول کی خوبصورتی کے حوالے سے خصوصی شہرت رکھتے ہیں ۔ موسم گرما خصوصاً رمضان المبارک میں خیبر پختونخوا اور ملک کے دوسر...

عمران خان کی نتھیا گلی میں مصروفیات‘ پنجاب کی سیاست میں زبردست ارتعاش

نواز شریف کو انتخابی مہم میں کڑے سوالوں کاسامنا کرناہوگا ایچ اے نقوی - منگل 23 مئی 2017

وزیراعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت گزشتہ روز قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں سالانہ منصوبے پی ایس ڈی پی اور آئندہ بجٹ کے اہداف کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں وزیراعظم آزاد کشمیر ، گورنر کے پی کے، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وزیراعلیٰ گلگت و بلتستان اور دیگر ممبران نے شرکت کی۔ ق...

نواز شریف کو انتخابی مہم میں کڑے سوالوں کاسامنا کرناہوگا

تحریک انصاف کی طرف سے سندھ میں مزید جلسے کرنے کی حکمت عملی ، پیپلز پارٹی سے دور رہنے کا فیصلہ باسط علی - پیر 24 اپریل 2017

  [caption id="attachment_44254" align="aligncenter" width="784"] عمران خان نے سندھ کے ویتنام دادو میں کامیاب جلسہ کرکے پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقوں میں خطرے کی گھنٹی بجادی[/caption] پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دادو میں ایک کامیاب جلسہ کرکے ہی سب کو نہیں...

تحریک انصاف کی طرف سے سندھ میں مزید جلسے کرنے کی حکمت عملی ، پیپلز پارٹی سے دور رہنے کا فیصلہ

پاناما فیصلہ :وزیر اعظم کو کلین چٹ نہیں مل سکی ابو محمد نعیم - جمعه 21 اپریل 2017

[caption id="attachment_44201" align="aligncenter" width="784"] جسٹس اعجاز افضل ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن نے وزیراعظم کے خاندان کی لندن میں جائیداد، دبئی میں گلف اسٹیل مل اور سعودی عرب اور قطر بھیجے گئے سرمائے سے متعلق تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا جے آئی ٹی کے قیام...

پاناما فیصلہ :وزیر اعظم کو کلین چٹ نہیں مل سکی

’یہ بھی خوش وہ بھی خوش‘ کیا میاں صاحب کے لیے آنے والا وقت اچھا ہے؟ وجود - جمعه 21 اپریل 2017

تحریک انصاف نواز شریف کو ان کے عہدے سے ہٹا دیے جانے کی توقع کر رہی تھی، ایسا نہیں ہوا، مسلم لیگ ن کا دعویٰ تھا کہ وزیر اعظم کے خلاف الزامات مسترد کر دیے جائیں گے، وہ بھی نہ ہوا،فیصلہ بیک وقت فریقوں کی جیت بھی ہے اور ناکامی بھیپاناما کیس کے فیصلے پر ہر کوئی اپنی اپنی کامیابی کا دع...

’یہ بھی خوش وہ بھی خوش‘ کیا میاں صاحب کے لیے آنے والا وقت اچھا ہے؟

عام انتخابات 2018ءکی تیاریاں‘سیاسی تنظیمیں اکھاڑے میں اتر گئیں الیاس احمد - جمعرات 30 مارچ 2017

ملک بھر میں ایسا ماحول تیار ہونا شروع ہوگیا ہے کہ جیسے لگتا ہے کہ عام انتخابات کی ابھی سے تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ تبھی تو تینوں صوبوں سندھ‘ پنجاب اورخیبر پختونخوا میں سیاسی جلسے جلوس شروع ہوگئے ہیں البتہ بلوچستان میں ابھی انتخابات کا ٹیمپو نہیں بن سکا ہے۔ نواز شریف نے ٹھٹھہ کے بع...

عام انتخابات 2018ءکی تیاریاں‘سیاسی تنظیمیں اکھاڑے میں اتر گئیں

نظریاتی کارکن (دوسری اور آخری قسط) ابو محمد نعیم - جمعرات 02 مارچ 2017

وہ جب چاہتے ہیں عمران خان کو چھوڑدیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں پھر دوبارہ جوائن کرلیتے ہیں کیونکہ بقول برگر گروپ کے عمران خان صاحب کو ان کے لیے ہینڈل کرنا یا چلانا بہت آسان ہے، بس تھوڑا سا چندہ جمع کرکے اور ایک دو اچھی پارٹیاں کرلو تو خان صاحب ان کے ساتھ ہی ہوتے ہیں اور ان کی یہ بات ...

نظریاتی کارکن    (دوسری اور آخری قسط)

نظریاتی کارکن ابو محمد نعیم - بدھ 01 مارچ 2017

لگ بھگ 30 برس پہلے جب گیارہ برس کے وقفے کے بعد ملک میں سیاسی جماعتوں کی اعلانیہ سرگرمیاں بحال ہوئیں اور 1988 کے انتخابات میں سیاسی جماعتیں باہم مدمقابل ہوئیں تو ملک کے بیدار حلقوں کو جلد ہی احساس ہوگیا کہ ملک میں 2 بڑے سیاسی گروہ ہیں جنہیں محبان بھٹو یا حریفان جو اتحادیوں کو ملاک...

نظریاتی کارکن

افسران کواصل محکمے میں بھیجنے کے معاملے پر سندھ حکومت کی ایک اور قلابازی وجود - هفته 25 فروری 2017

سندھ میں گریڈ18کے افسر مہدی علی شاہ کی بھی ایک تاریخ ہے وہ آج کل ضلع کورنگی میں ڈپٹی کمشنر کے طورپرکام کررہے ہیں مگروہ براہ راست گریڈ17میں کس طرح اسسٹنٹ کمشنر بنے؟ اس کی طویل اوردلچسپ کے علاوہ متنازع تاریخ ہے۔ذرائع بتاتے ہیں کہ بینظیربھٹو جب دوسری مرتبہ وزیراعظم بنیں تو سیشن جج آ...

افسران کواصل محکمے میں بھیجنے کے معاملے پر سندھ حکومت کی ایک اور قلابازی

کیا لوگ ہیں ہم؟ رضوان رضی - جمعرات 16 فروری 2017

جب یہ سطور آپ کی نظروں سے گزریں گی تو عدالتِ عظمیٰ کے سامنے زیر سماعت پاناما لیکس کی بنا ء پر شروع ہونے والے کیس کی سماعت کا وقفے کے بعد دوبارہ آغاز ہوچکا ہوگا۔ جنوبی امریکا میں واقع ریاست پانامہ میں ٹیکس بچانے کے لئے قائم کی جانے والی آف شور کمپنیوں کو رجسٹر کرنے والے ادارے ’...

کیا لوگ ہیں ہم؟

دل میرا دوا چاہتا ہے باسط علی - پیر 06 فروری 2017

حکومت کے پاس کوئی دل ہی نہیں اس لیے دل کے معاملے میں بھی وہ مجرمانہ غفلت کی شکار دکھائی دیتی ہے۔ عدالت عظمیٰ میں غیر معیاری اسٹنٹس کی فروخت سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت میں ایسے معاملات سامنے آئے ہیں کہ ہر دل، درد سے تڑپ اٹھا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ طب کی دنیا میں ا...

دل میرا دوا چاہتا ہے

جسٹس شیخ ریاض سے جسٹس ثاقب نثار تک انوار حسین حقی - جمعرات 19 جنوری 2017

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار نے سندھ کے علاقے گھوٹگی کے رہائشی علی حسن مزاری کی درخواست پر تین سالہ بچی کو ونی کرنے کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے جرگے کی تفصیلات طلب کر لی ہیں ۔ جرگے نے علی حسن مزاری پر تین لاکھ روپے جُرمانہ عائد کرتے ہوئے اُس کی تین سالہ بچی کو ونی ...

جسٹس شیخ ریاض سے جسٹس ثاقب نثار تک

مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر