وجود

... loading ...

وجود
وجود

سی پیک اور "مولانا"

منگل 25 اکتوبر 2016 سی پیک اور

’’ بنی گالہ ‘‘ اسلام آباد میں گزشتہ دنوں عوامی جمہوریہ چین کے پاکستان میں متعین سفیر جناب ’’سن وی ڈونگ ‘‘نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان سے ملاقات کی ۔ذرائع کے بقول’’ اس ملاقا ت میں پاکستان تحریک انصا ف کی جانب سے دو نومبر کے مجوزہ احتجاج پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ عمران خان نے اپنی جماعت کے احتجاج کے حوالے سے حکومتی موقف کو حقائق کے بر عکس قرار دیتے ہوئے چینی سفیر کو بتایا کہ ہمارا دھرنا کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے لیے ہے ۔ ہم پاکستان میں جاری چینی منصوبوں کی نہ صرف مکمل حمایت کرتے ہیں بلکہ سی پیک سمیت تمام منصوبوں کی کامیابی کے متمنی بھی ہیں ۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کی حکومت اس منصوبے کی تکمیل کے لیے بھر پور تعاون کرے گی۔ اس موقع پر عمران خان نے خیبر پختونخوا کی حکومت کے اُن تحفظات کا بھی ذکر کیا جو صوبائی حکومت اور صوبے کے لوگوں کی اکثریت رکھتی ہے۔ انہوں نے عوامی جمہوریہ چین سے کہا کہ کے پی کے کی صوبائی حکومت کے تحفظات کو سنجیدگی سے لیا جانا ضروری ہے ‘‘۔۔۔۔
پاک چائنا راہداری منصوبہ خطے کے مستقبل پر دور رس اثرات کا حامل منصوبہ ہے ۔ اس کی علاقائی اور بین الاقوامی حیثیت مسلمہ ہے اور اس کی افادیت سے بھی کسی کو انکار نہیں ہے ۔لیکن اس سب کچھ کے باوجود اگر اس کے روٹ کے کسی حصے پر بات کی جائے یا کسی صوبے کے موقف کو سامنے لایا جائے تو ’’ ثنا خوانِ تقدیسِ شریف حکومت ‘‘ ملک دشمنی اور پاک چائنا کاریڈور کی مخالفت کا فتویٰ داغ دیتے ہیں ۔ یہ سب کچھ ہمارے سیاسی کلچر اور اُس طرزِ عمل کا حصہ ہے جس کے تحت موجودہ حکومت کی مخالفت کو جمہوریت سے دشمنی قرار دیا جاتا ہے ۔ یا جیسے خیبر پختونخوا میں اپنے سیاسی مخالفین کو ’’ یہودیوں کا ایجنٹ ‘‘ قرار دینے کی رسم رائج ہے ۔
ہمارے ہاں سی پیک کے حوالے سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے مفادات کا ذکر اس عظیم منصوبے کے خلا ف سازش قرار دی جا رہی ہے ۔ ’’ اسٹیٹس کو‘‘ کی حامی قوتوں کے اپنے دستور اور ضابطے ہیں ۔ یہ ہمیشہ سے ’’ ذاتیات ‘‘ کو ’’اخلاقیات‘‘ قرار دیتے چلے آ رہے ہیں ۔
خیبر پختونخوا کے عوام اور حکومت سی پیک کے مٖغربی روٹ کے بارے میں اعتراضات اُٹھا رہے ہیں ۔جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں اس منصوبے کا آغاز ہوا تھا ، آصف علی زرداری کے دورِ صدارت میں اس کے خدوخال واضح ہوئے اور اسے ’’ کاشغر گوادر اکنامک اینڈ پاور کوریڈور‘‘ کا نام دیا گیا اُس وقت اس کے مغربی روٹ میں خنجراب، گلگت ، بلتستان ، شاہراہِ قراقرم، تھا کوٹ، بٹگرام، مانسہرہ ، ایبٹ آباد ، حویلیاں ، ہری پور، صوابی ، اور ایم ون سے پشاور کے علاقے شامل تھے لیکن موجودہ حکومت کے بر سرِ اقتدار میں آنے کے بعد اس روٹ میں کیپٹن صفدر اور مولانا فضل الرحمن کی منشاء کے مطابق تبدیلی کر دی گئی ۔
تبدیل شدہ روٹ کی حتمی منظوری سے پہلے وفاقی حکومت نے کیپٹن صفدر کے ہمراہ مولانا فضل الرحمن کو اس منصوبے کا فضائی جائزہ لینے کے لیے ہیلی کاپٹر بھی فراہم کیا تھا۔ سی پیک پر وفاقی حکومت نے جس طرح مولانا فضل الرحمن کی خواہشات کا خیال رکھا ہے اور صوبے کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور دوسری مؤثر قوت اے این پی کو جیسے نظر انداز کیا وہ کسی بھی وفاقی حکومت کو زیب نہیں دیتا ۔ اس منصوبے کے مغربی روٹ پر صوبہ کے پی کے میں بہت زیادہ تحفظات پائے جاتے ہیں ۔ موجودہ نقشے کے مطابق یہ شاہراہ ہزارہ ڈویژن ( کیپٹن صفدر ) کے علاقے سے گزرتی ہوئی پنجاب میں داخل ہو کر میانوالی کے راستے دریائے سندھ کو عبور کرتی ہوئی کنڈل کے تاریخی قصبے کے قریب سے صوبہ سرحد کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں عین اُس مقام پر داخل ہوتی ہے جس کے چند میل بعد مولانا فضل الرحمن کے آبائی علاقہ عبد الخیل ( پنیالہ ) کی حدود شروع ہو جاتی ہیں ۔ اب اسے مغربی روٹ کہا جا رہا ہے۔ جو ڈی آئی خان سے ہوتا ہوا پنجاب میں داخل ہوتا ہے اور پنجاب سے پھر ہزارہ کے نزدیک خیبر پختونخوا میں داخل ہو جاتا ہے، اسطرح سے یہ تقریبا15 سے 20 فی صد خیبر پختونخوا میں جائے گا ۔ کمال دیکھیے پہلے مولانا فضل الرحمن او ر ان کی جماعت سڑک کے اس حصے کو شمال مغربی موٹر وے قرار دیتی تھی۔
شریف برادران جس طرح حکومت پر اپنے خاندان اور وفاداروں کے کنٹرول کو ضروری سمجھتے ہیں اسی طرح قومی منصوبوں خاص طورپر اقتصادی معاملات میں اپنے سیاسی اور کاروباری پارٹنرز کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔یہ سبق شاید انہوں نے جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دورِ حکومت کے گورنر پنجاب جنرل جیلانی سے حاصل کیا ہے جس نے اپنے کاروباری پارٹنر میاں نواز شریف کو وہ اہمیت اور فوقیت دی جس پر وہ پاکستانی قوم کو ہمیشہ رہیں گے۔ خیبر پختونخوا کے معاملات ہاتھ سے جانے کے بعد جب سے مولانا فضل الرحمن نے شریف حکومت سے رجوع کیا ہے۔ وہ وفاق کے کنٹرول میں ان تمام معاملات کے مالک اور مختار بن بیٹھے ہیں جو خیبر پختونخوا کا حق اور استحقاق بنتا ہے ۔
پختونخوااولسی تحریک کے سربراہ اور کوریڈور فرنٹ کے رہنما ڈاکٹر سید عالم محسود اور تحریک کی سرگرم رہنما محترمہ فرزانہ زین جو مغربی روٹ کا مقدمہ لڑنے میں سب سے آگے ہیں ،اب وفاقی حکومت سے با لکل ہی مایوس نظر آتے ہیں ۔انہوں نے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے مطالبہ کر دیا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کو براہ راست خط لکھا جائے جس کے ذریعے پڑوسی اور دوست ملک کو بتایا جائے کہ ہم موجودہ کاریڈور کو ’’ چائنا پنجاب اکنامک کاریڈور ‘‘ سمجھتے ہیں ۔ ہم سے آل پارٹیز کانفرنس ( منعقدہ 15 فروری2016 )میں جو وعدے کیے گئے تھے خاص کر حویلیاں ، صوابی اور پشاور تک روٹ کی تعمیر کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا نہیں کیا جا رہا ہے ۔ صوبے میں لوگوں کی اکثریت حیدر خان ہوتی ، محمود خان اچکزئی ، آفتاب احمد شیر پاؤ کے بارے میں یہ کہنے لگے ہیں کہ جس طرح افغان جنگ کے دوران سرحدی گاندھی کے خاندان نے پختونوں سے منہ موڑ لیا تھا اُسی طرح آج یہ لیڈر بھی ذاتی اور سیاسی مفادات کی خاطر پختونوں کے حقوق کے معاملے پر چُپ سادھے ہوئے ہیں ۔ سید عالم محسود اس شاہراہ کے ٹھیکے بغیر ٹینڈر کے پنجاب گروپس کو دینے کو بھی انصاف کے منافی قرار دیتے ہیں ۔ ایسی صورتحال پر محترمہ فرزانہ زین کا یہ تبصرہ غور طلب ہے کہ ’’ وزیر اعلیٰ پنجاب بڑے طمطراق سے کہتے پھر رہے ہیں کہ چین کو ہماری آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی ۔ لیکن اصل صورتحال کچھ یوں ہو گی کہ آپ کو پنجاب کی آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی کہ آپ لوگوں نے چھوٹے صوبوں کی حد سے زیادہ حق تلفی کی اس سے جو نفرت پھیلے گی اس کے ذمہ دار آپ لوگ ہوں گے ۔
سی پیک منصوبے کے مختلف سیکشنوں پر کام جاری ہے ۔ چھوٹے صوبوں کے تحفظات پر وفاقی حکومت نے ہٹ دھرمی سے کام لیا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس عظیم الشان منصوبے کی ساکھ متأثر ہو رہی ہے ۔ عوامی جمہوریہ چین اور اس منصوبے کی ضامن پاکستان کی مسلح افواج کو چھوٹے صوبوں کے تحفظات کو احسن طریقے سے دور کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ پاکستانی قوم متحد ہو کر اس منصوبے کی مخالف بیرونی اور عالمی طاقتوں کا مقابلہ کر سکیں ۔


متعلقہ خبریں


گوادر کے باسیوں کا خوف :سی پیک کی چکا چوند میں مچھیروں کا کیا بنے گا۔۔۔؟؟ وجود - جمعه 02 جون 2017

گوادر کی بندرگاہ تیزی کے ساتھ تکمیل کے مراحل سے گزر رہی ہے، لیکن یہاں کے مچھیروں کو گھر بار اور ذریعہ معاش چھن جانے کا خوف ہے۔بندرگاہ پر کوئی 20کلومیٹر پر واقع گوادر کے مقابلے میں کافی سناٹا ہے، جہاں گہرے پانیوں کی چین کے تعاون سے بندرگاہ تعمیر کی جارہی ہے، جس کے بارے میں کہا جات...

گوادر کے باسیوں کا خوف :سی پیک کی چکا چوند میں مچھیروں کا کیا بنے گا۔۔۔؟؟

سی پیک پر رکاوٹ ڈالنے کے بھارتی منصوبے میں تیزی وجود - اتوار 28 مئی 2017

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے بچھائے ہوئے جاسوسی اور تخریب کاری کے منصوبوں پر عملدرآمد تیزہوتا محسوس ہورہاہے اور کلبھوشن کے تنخوا ہ دار بھارتی ایجنٹوں نے اب کلبھوشن کو سزا سے بچانے اور حکومت پاکستان کو اسے رہا کرکے بھارت کے حوالے کرنے پر مجبور کرنے کے لیے تخریب کاری کی نئی حکمت ...

سی پیک پر رکاوٹ ڈالنے کے بھارتی منصوبے میں تیزی

سی پیک پاکستان کی ادائیگیوں کے توازن پر شدید دبائو پڑنے کا خدشہ ایچ اے نقوی - هفته 13 مئی 2017

[caption id="attachment_44512" align="aligncenter" width="784"] جیسے ہی قرضوں کی واپسی کا سلسلہ اور چینی کمپنیاں منافع اپنے ملک لے جانا شروع کریں گی تو پاکستانی کرنسی شدید دباؤ کا شکار ہوجائے گی‘ خدشات غلط ہیں ، چین سے آنے اور جانے والی اشیا پر فیس کی مد میں پاکستان کثیر رقم کم...

سی پیک پاکستان کی ادائیگیوں کے توازن پر شدید دبائو پڑنے کا خدشہ

سی پیک منصوبہ :بھارت کوشمولیت کے لیے چینی دعوت سے شکوک وشبہات میں اضافہ ایچ اے نقوی - جمعرات 11 مئی 2017

[caption id="attachment_44491" align="aligncenter" width="784"] ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ چین اور بھارت کو نئے مواقع فراہم کریں گے،یہ نظریہ غلط ہے کہ چین بھارت کو ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا، بھارت میں تعینات چینی سفیر ‘چین سی پیک کو بھارت کے ساتھ تجارت بڑھانے کے لیے استعمال کرن...

سی پیک منصوبہ :بھارت کوشمولیت کے لیے چینی دعوت سے شکوک وشبہات میں اضافہ

شاہرا ۂ ترقی اور پاکستان بھارت کے تحفظات (آخری قسط) محمد اقبال دیوان - پیر 24 اکتوبر 2016

چین اس وقت جو تیل عرب ممالک سے خریدتا ہے وہ بیجنگ تک سمندری راستے سے پہنچنے کے لیے لگ بھگ بارہ ہزار میل کا سفر طے کرتا ہے۔اس دوران اسے بحیرہ ہرمز (جو گوادر اور ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کے درمیان ہے) سے آبنائے ملاکہ جو انڈونیشیا کہ سب سے بڑے ٹاپو (ہندی میں جزیرہ سماترا )اور ملائی...

شاہرا ۂ ترقی اور پاکستان بھارت کے تحفظات (آخری قسط)

شاہرا ۂ ترقی اور بھارت کے تحفظات ( قسط ۔ 2) محمد اقبال دیوان - هفته 22 اکتوبر 2016

نومبر1978ء میں چین کے سربراہ Deng Xiaoping کی ملاقات سنگاپور کے صدر لی کوان یو سے ہوئی تو اُنہوں نے چینی سربراہ کو تین اہم مشورے دیے تھے کہ چین جیسے ملک میں مغربی ممالک کے طرز کی جمہوریت سے پرہیز کریں اور ایک پارٹی کی حکومت کو فروغ دیں۔ دوسرے وہ براہ راست کسی جنگ میں ملوث نہ ہوں ...

شاہرا ۂ ترقی اور بھارت کے تحفظات ( قسط ۔ 2)

شاہراۂ ترقی اور بھارت کے تحفظات (پہلی قسط) محمد اقبال دیوان - جمعه 21 اکتوبر 2016

تاجران اکبری منڈی لاہور (پٹھا نون لیگ )پٹھا: دیسی کشتی کے پنجابی محاورے میں شاگرد کو کہتے ہیں ) اور قصہ خوانی بازار پشاور (پٹھا اے این پی او رپرویز خٹک )کے باہمی اختلافات سے بہت پرے بھی شاہرا ۂ معاشی ترقی و سہولت گوادر کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک کاشغر کچھ ایسا پھیلاؤ نہیں سب ہی ک...

شاہراۂ ترقی اور بھارت کے تحفظات (پہلی قسط)

جلسے، اقتصادی راہداری اور ملکی ترقی رضوان رضی - هفته 08 اکتوبر 2016

بُرا ہو اس پاکستانی صحافت کے موجودہ رحجانات کا کہ جس نے پوری قوم کو’جلسہ جلسہ ‘کے کھیل پر لگا رکھا ہے اور ’ترقیاتی خبروں ‘کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جانے دیا جا رہا۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ملک کے معاشی منظر نامے پر بہت بنیادی قسم کی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اور سب سے بڑی تبدیلی ت...

جلسے، اقتصادی راہداری اور ملکی ترقی

مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر