وجود

... loading ...

وجود
وجود

سکوک کا باندر کلہ اور سوشل میڈیائی بریگیڈ

اتوار 09 اکتوبر 2016 سکوک کا باندر کلہ اور سوشل میڈیائی بریگیڈ

گزشتہ دنوں پاکستان کے ایک ٹی وی پر نظر پڑی جس میں ایک صاحب اس امر کا رونا روتے پائے جا رہے تھے کہ حکومت پاکستان نے اب ریڈیو پاکستان کی عمارت ،موٹروے اور دوسری اہم ملکی قیمتی اثاثوں کے عوض قرض لینا شروع کر دیا ہے اور اس طرح یہ حکومت پورا ملک بیچ دے گی اور آخر کار جس طرح ایسٹ انڈیا نے برصغیر پر قبضہ کیا تھا اسی طرح عین ممکن ہے کہ قرض دینے والے ممالک اورادارے جن سے یہ قرض لیا جا رہا ہے وہ بھی پاکستان کے ان اثاثوں پر قبضہ کر لیں۔ بس پھر کیا تھا سوشل میڈیا پر ہمیشہ کی طرح ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہو گیا اور ریاست پر تبریٰ بازی اور چاند ماری کا آغاز ہو گیا۔
خاکسار گزشتہ ایک دہائی سے یونیورسٹی کی سطح پر ’کاروباری صحافت‘ کا مضمون پڑھا رہا ہے۔ یہ مضمون ہماری تجویز پر ہی ہماری آبائی مادرِ علمی (جامعہ پنجاب) میں متعارف ہوا اور اب تک کئی صحافی یہ مضمون اپنی صحافت کی ڈگری کے لازمی حصے کے طورپرپڑھ کر عملی زندگی میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ لیکن اس وقت ہمارے میڈیا کی موجودہ صورتِ حال دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید ہم نے ان دس سالوں میں جھک ہی ماری ہے۔
ہمارے ابلاغی منظر نامے میں ٹیلی ویژن کی آمد نے جہاں دوسرے رحجانات کو جنم دیا ہے ،وہاں یہ قباحت بھی درآئی ہے جس کے تحت صحافیوں کے شعبہ ہائے تخصیص ختم کر دیے ہیں۔ تین شفٹوں میں کام کرنے والے اس شعبے میں جب بھی کوئی قابلِ رپورٹ واقعہ یا خبر آتی ہے تو جو بھی صحافی ڈیوٹی پر دستیاب ہوتا ہے، وہ اس کو کرنے چل پڑتا ہے۔ اب ظاہر ہے جب اس کو اس شعبے کے الف ب کا بھی نہیں پتا تو پھر وہی کچھ ہو گا جو اب ہورہا ہے۔ ہرصحافی کو ہر شعبے کا ماہر بنانے کا نتیجہ نکلا ہے کہ کوئی صحافی کسی شعبے کی بنیادی شد بد حاصل نہیں کر پاتا ہے اور ملکی اور قومی مفادات کے ساتھ وہی کچھ ہوتا رہتا ہے جو اب ہورہا ہے یعنی ’’کھلواڑ‘‘۔اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستانی صحافت اپنی اعتباریت کے نچلے ترین درجے تک پہنچ چکی ہے۔
اقتصادی صحافت ہمیشہ سے ہی ایک تخصیصی شعبہ رہی ہے اور کبھی بھی کسی سیاسی عامی صحافی کو اس میں منہ مارنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے اس شعبے کو ہمیشہ ہی طبقہ اشرافیہ کی صحافت کہا جاتا ہے اور اس شعبے میں تخصیص کا حامل رپورٹر اپنی پوری ٹیم میں امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔
پاکستان کا ایک پورا مالیاتی نظام ہے جو بین الاقوامی نظامِ زر سے منسلک ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اس کا مرکزی نکتہ ہے۔ وفاق میں اسٹیٹ بینک کو وہی حیثیت ہے جو گھر میں حساب کتاب رکھنے والی امی یا دادی کو ہوتی ہے۔ اسٹیٹ بینک ریاست کے تمام مالی، معاشی اور اقتصادی معاملات پر نظر رکھتا ہے اور اباجی (یعنی حکومت) کو بتاتا رہتا ہے کہ گھر میں کتنے پیسے بچ گئے ہیں اور ادھار کس سے پکڑنا ہے اور کس سے نہیں اور اگر ’’منے‘‘ کی سیمسٹر فیس آن پڑی ہے تو وہ کہاں سے ادا ہو گی؟
جہاں تک ریاست کے روزمرہ مالی معاملات چلانے کی بات ہے تو مرکزی بینک ہر دوسرے یا تیسرے ہفتے سرمایہ کاری بینکوں سے قلیل مدتی سے لے کر طویل مدتی تک، ہر سطح کے قرض لیتا ہے۔ یہ قرض اربوں روپے میں ہوتے ہیں جو سرکاری اور غیر سرکاری بینک اسٹیٹ بینک کے ذریعے ریاست کو دیتے ہیں ، اور یہ کام کوئی یونہی ایک معمول میں چلتا رہتا ہے خواہ وفاق میں جیسی بھی فوجی ، سیاسی ،نیم سیاسی یا نیم فوجی حکومت برسرِ اقتدار ہو۔ جب ٹیکسوں کی مد میں وصولیاں ہوتی ہیں تو سرکار ان رقوم کو ادا کر کے اس قرض کو واپس کر دیتی ہے اور یوں گلشن کا کاروبار بغیر کسی تعطل کے چلتا رہتا ہے۔
اسٹیٹ بینک جو قرض ان ملکی اور غیر ملکی بینکوں سے لیتا ہے اس کے عوض ان کو جو دستاویز دیتا ہے اس کو ’بانڈ‘ کہا جاتا ہے اور اس بانڈ پر ادا کی جانے والی شرح منافع ہی پوری بینکنگ کی صنعت کا شرحِ منافع طے کرنے کا بنیادی معیار قرار پاتی ہے۔ اس وقت امریکا کی بانڈ مارکیٹ میں سعودی عرب نے سوا سو ارب ڈالر کے لگ بھگ جب کہ چین نے تین ہزار ارب ڈالر کے لگ بھگ سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ بانڈز اور ان پر ادا ہونے والا شرحِ منافع کسی بھی ریاست کی مالیاتی اعتباریت کا مظہر ہوتا ہے ۔اس کے مزید تیکنیکی محاسن اور تفصیلات پر روشنی اس لیے نہیں ڈالیں گے کہ ایک عام قاری کے لیے اس کی اہمیت و افادیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس وقت دنیا میں جہاں جہاں بھی زری نظام رو بہ عمل ہے (اور ہر جگہ یہی نظام ہے) وہاں پر یہی طریقہ کار تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ رو بہ عمل ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مشرقِ بعید کے کرنسی بحران سے لے کر امریکا کے ریئل اسٹیٹ بحران تک مالیاتی نظام کے لال بجھکڑوں کو یہ بات سوجھی کہ محض کاغذ پر چھاپی گئی کرنسی کے لین دین سے یہ معاملات اسی طرح پھر تباہی سے دوچار ہو سکتے ہیں لہٰذا کوئی اور سلسلہ کیا جائے۔ تحقیق کے بعد انہیں پتا چلا کہ اسلامی نظام مالیات میں’’ سکوک ‘‘ ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے اگر یہ کام کیا جائے تو معاملات کافی حد تک محفوظ ہوں گے کیوں کہ اس ذریعے سے قرض حاصل کرنے والے ادارے ، تنظیم یا ملک کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ قرض کی رقم کے برابر اپنے اثاثوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اور یوں اس وقت ’سکوک‘ امریکا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ذریعہ ہو گیا ہے۔
چوں کہ اس طرح کا کوئی بھی بانڈ کسی بھی ریاست کی مالیاتی اعتباریت کا مظہر ہوتا ہے اس لیے ہر ریاست وقتاً فوقتاً ایسے بانڈز عالمی مالیاتی منڈیوں میں فروخت کرتی رہتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے شوقین حضرات نے بھلے گھر نہ بھی بیچنا ہو لیکن ہر دو تین سال بعد اپنے پراپرٹی ڈیلر سے گھر کی قیمت ضرور لگواتے رہتے ہیں۔
پاکستان نے کافی سالوں کے بعد عالمی منڈی میں ایک ارب ڈالر مالیت کا ایک سکوک بانڈ بیچا ہے ۔ یہ بانڈ ساڑھے چھ فی صد کی شرحِ منافع کی بجائے ملکی تاریخ کے سب سے کمترین سطح یعنی ساڑھے پانچ فی صد پر بیچا گیا ہے۔ اصل میں اولاً پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ وہ ساڑھے چھ فی صد پر پچاس کروڑ ڈالر عالمی منڈی سے قرض لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ خاکسار جیسے ناقدین سمیت بہت سے لوگوں کاخیال تھا کہ بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی کے باعث شاید یہ وقت ایسے بانڈ کی فروخت کے لیے مناسب نہیں۔ لیکن اسحاق ڈار صاحب بضد رہے۔ اورجب صرف پچاس کروڑ روپے کے مقابلے میں دو ارب چالیس کروڑ ڈالر کی پیش کشیں موصول ہوئیں تو اسحاق ڈار صاحب کی ’’نیت ‘‘ بدل گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پچاس کروڑ کی بجائے ایک ارب ڈالر کاقرض لیں گے اور وہ بھی ایک فی صد کم شرحِ منافع یعنی
ساڑھے پانچ فی صد پر ، جس نے قرض دینا ہے دوجس نے نہیں دینا نہ دو۔ دنیا کے 124 سرمایہ کاروں نے اس بانڈ میں حصہ ڈالنے کے لیے اپنے ارادے کا اظہار کیا جن میں سے نوے ایسے مالیاتی ادارے تھے جن کی کسی سودے میں شرکت عالمی خبر ہوجایا کرتی ہے۔یہ ایک کھلا پیغام ہے کہ دنیا بھر کے نجی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے بے چین ہیں۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ شرح سود کو ایک فی صد کم کرنے کے باوجود صرف بیس کروڑ ڈالر کے سرمایہ کاروں نے ہی اپنی پیش کشوں سے مراجعت اختیار کی جب کہ باقی وہیں پررہے کہ ہمیں پاکستان کو قرض دینا ’قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے‘۔
ایسے میں کچھ میڈیائی بندر جن کے ہاتھ میں استرا آ گیا ہے، وہ بازار میں نکل آئے کہ ’نواز حکومت ہمارے اثاثے رہن رکھ رہی ہے‘ اور اب فلاں، فلاں اور فلاں چیزیں بھی رہن رکھی جائیں گی۔ حالاں کہ ان کو ’’رہن ‘‘اور ’’گارنٹی ‘‘ کے فرق کا پتا ہینہیں ۔ اور ان کی بندربازیوں کو کچھ اور حضرات سوشل میڈیا پر لے دوڑے۔ ارے بابا کسی شعبے کو تو اپنی استرابازی سے بخش دو، یہ آپ کی عقل و فہم میں آنے والی چیز ہی نہیں ہے۔ لیکن ان کا کیا ہے کل کو یہ بھی کہہ دیں گے کہ ہمیں بتایا جائے کہ ایٹم بم کیسے چلتا ہے اور کیا یہ محفوظ ہاتھوں میں ہے بھی کہ نہیں؟
ان حضرات سے ایک ہی گزارش ہے کہ اللہ کا خوف کریں ، اور ملک کے اہم اور نازک معاملات کے ساتھ ’’باندر کلا‘‘ نہ کھیلیں۔ اسٹیٹ بینک کی مالیت کے خاتمے کا مطلب ہے کہ خاکم بدہن ملک کی مالی اعتباریت کا خاتمہ، اور ملک کی مالی اعتباریت کا خاتمہ ہو گیا تو پھر کسی بھارت کو یا امریکا کو ہم پر ایک گولی چلانے کی ضرورت نہیں ہو گی، ہمارے ملک کے نام کا کوئی ملک دنیا کے نقشے پر موجود ہی نہیں ہوگا۔ اللہ کرے یہ دن کبھی نہ آئے اور انشاء اللہ کبھی نہیں آئے گا۔


متعلقہ خبریں


عمران خان کی نتھیا گلی میں مصروفیات‘ پنجاب کی سیاست میں زبردست ارتعاش انوار حسین حقی - هفته 03 جون 2017

پاکستان کو فطرت نے بے پناہ حسن اور رعنائی عطا کی ہے ۔ملک کے شمالی علاقے خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ گلیات میں جھینگا گلی اور نتھیا گلی کے علاقے آب و ہوا اور ماحول کی خوبصورتی کے حوالے سے خصوصی شہرت رکھتے ہیں ۔ موسم گرما خصوصاً رمضان المبارک میں خیبر پختونخوا اور ملک کے دوسر...

عمران خان کی نتھیا گلی میں مصروفیات‘ پنجاب کی سیاست میں زبردست ارتعاش

نواز شریف کو انتخابی مہم میں کڑے سوالوں کاسامنا کرناہوگا ایچ اے نقوی - منگل 23 مئی 2017

وزیراعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت گزشتہ روز قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں سالانہ منصوبے پی ایس ڈی پی اور آئندہ بجٹ کے اہداف کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں وزیراعظم آزاد کشمیر ، گورنر کے پی کے، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وزیراعلیٰ گلگت و بلتستان اور دیگر ممبران نے شرکت کی۔ ق...

نواز شریف کو انتخابی مہم میں کڑے سوالوں کاسامنا کرناہوگا

تحریک انصاف کی طرف سے سندھ میں مزید جلسے کرنے کی حکمت عملی ، پیپلز پارٹی سے دور رہنے کا فیصلہ باسط علی - پیر 24 اپریل 2017

  [caption id="attachment_44254" align="aligncenter" width="784"] عمران خان نے سندھ کے ویتنام دادو میں کامیاب جلسہ کرکے پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقوں میں خطرے کی گھنٹی بجادی[/caption] پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دادو میں ایک کامیاب جلسہ کرکے ہی سب کو نہیں...

تحریک انصاف کی طرف سے سندھ میں مزید جلسے کرنے کی حکمت عملی ، پیپلز پارٹی سے دور رہنے کا فیصلہ

پاناما فیصلہ :وزیر اعظم کو کلین چٹ نہیں مل سکی ابو محمد نعیم - جمعه 21 اپریل 2017

[caption id="attachment_44201" align="aligncenter" width="784"] جسٹس اعجاز افضل ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن نے وزیراعظم کے خاندان کی لندن میں جائیداد، دبئی میں گلف اسٹیل مل اور سعودی عرب اور قطر بھیجے گئے سرمائے سے متعلق تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا جے آئی ٹی کے قیام...

پاناما فیصلہ :وزیر اعظم کو کلین چٹ نہیں مل سکی

’یہ بھی خوش وہ بھی خوش‘ کیا میاں صاحب کے لیے آنے والا وقت اچھا ہے؟ وجود - جمعه 21 اپریل 2017

تحریک انصاف نواز شریف کو ان کے عہدے سے ہٹا دیے جانے کی توقع کر رہی تھی، ایسا نہیں ہوا، مسلم لیگ ن کا دعویٰ تھا کہ وزیر اعظم کے خلاف الزامات مسترد کر دیے جائیں گے، وہ بھی نہ ہوا،فیصلہ بیک وقت فریقوں کی جیت بھی ہے اور ناکامی بھیپاناما کیس کے فیصلے پر ہر کوئی اپنی اپنی کامیابی کا دع...

’یہ بھی خوش وہ بھی خوش‘ کیا میاں صاحب کے لیے آنے والا وقت اچھا ہے؟

عام انتخابات 2018ءکی تیاریاں‘سیاسی تنظیمیں اکھاڑے میں اتر گئیں الیاس احمد - جمعرات 30 مارچ 2017

ملک بھر میں ایسا ماحول تیار ہونا شروع ہوگیا ہے کہ جیسے لگتا ہے کہ عام انتخابات کی ابھی سے تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ تبھی تو تینوں صوبوں سندھ‘ پنجاب اورخیبر پختونخوا میں سیاسی جلسے جلوس شروع ہوگئے ہیں البتہ بلوچستان میں ابھی انتخابات کا ٹیمپو نہیں بن سکا ہے۔ نواز شریف نے ٹھٹھہ کے بع...

عام انتخابات 2018ءکی تیاریاں‘سیاسی تنظیمیں اکھاڑے میں اتر گئیں

نظریاتی کارکن (دوسری اور آخری قسط) ابو محمد نعیم - جمعرات 02 مارچ 2017

وہ جب چاہتے ہیں عمران خان کو چھوڑدیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں پھر دوبارہ جوائن کرلیتے ہیں کیونکہ بقول برگر گروپ کے عمران خان صاحب کو ان کے لیے ہینڈل کرنا یا چلانا بہت آسان ہے، بس تھوڑا سا چندہ جمع کرکے اور ایک دو اچھی پارٹیاں کرلو تو خان صاحب ان کے ساتھ ہی ہوتے ہیں اور ان کی یہ بات ...

نظریاتی کارکن    (دوسری اور آخری قسط)

نظریاتی کارکن ابو محمد نعیم - بدھ 01 مارچ 2017

لگ بھگ 30 برس پہلے جب گیارہ برس کے وقفے کے بعد ملک میں سیاسی جماعتوں کی اعلانیہ سرگرمیاں بحال ہوئیں اور 1988 کے انتخابات میں سیاسی جماعتیں باہم مدمقابل ہوئیں تو ملک کے بیدار حلقوں کو جلد ہی احساس ہوگیا کہ ملک میں 2 بڑے سیاسی گروہ ہیں جنہیں محبان بھٹو یا حریفان جو اتحادیوں کو ملاک...

نظریاتی کارکن

عمران خان کے دستِ راست سیف اللہ خان نیازی کی چھٹی۔۔عاطف خان ایڈیشنل سیکرٹری جنرل مقرر انوار حسین حقی - اتوار 18 دسمبر 2016

پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی جنرل سیکرٹری جہانگیر خان ترین کے اعلان کے مطابق سابق ایڈیشنل جنرل سیکرٹری سیف اللہ خان نیازی کی جگہ خیبر پختونخوا کے علاقے مردان سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر عاطف خان کو پارٹی کا مرکزی ایڈیشنل جنرل سیکرٹری بنا دیا گیا ہے ۔ بظاہر یہ ایک عام سا اعلامی...

عمران خان کے دستِ راست سیف اللہ خان نیازی کی چھٹی۔۔عاطف خان ایڈیشنل سیکرٹری جنرل مقرر

نمل شہر علم کی کہانی… عمران خان کی زبانی انوار حسین حقی - هفته 17 دسمبر 2016

’’نمل شہر علم ‘‘ پنجاب کے ایک دور اُفتادہ علاقے میانوالی میں کوہستان نمک کے طویل پہاڑی سلسلہ کے سب سے اُونچے پہاڑ’’ڈھک‘‘ کی ڈھلوان اور ایک خوبصورت جھیل نمل کے کنارے عمران خان نے آج سے پانچ سال پہلے آباد کیا تھا ۔ اس عظیم الشان منصوبے کے پہلے پڑاؤکے طور پر یہاں نمل کالج قائم کی...

نمل شہر علم کی کہانی… عمران خان کی زبانی

پی ٹی آئی کی پارلیمان میں واپسی انوار حسین حقی - جمعرات 15 دسمبر 2016

عمران خان حقیقی حزب اختلاف کے لیے کوشاں مگر تحریک انصاف کے رہنما مفادات کے اسیرٗتحریک انصاف کے اراکین اپنے پارلیمانی کردار کو ادا کرنے سے مسلسل قاصر رہے، اکثر اراکین اپنی مدت پوری کرنے کے خواہشمند پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے دو روز قبل اپنی پارٹی کی کور کم...

پی ٹی آئی کی پارلیمان میں واپسی

رجوع کا وقت رضوان رضی - منگل 08 نومبر 2016

اگر بارِ خاطر گراں نہ گزرے اور جان کی امان عطا ہو تو عرض بس اتنا ساکرنا تھا کہ جن لوگوں نے بہت بڑے بڑے منہ کھول کر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ، ان کے بچوں ، رشتے داروں اور دیگر ساتھیوں کے مالی معاملات کے عدلیہ کے پاس جانے پر بغلیں بجائی تھیں اور اسے اپنی فتح پر محمول کیا تھا ،...

رجوع کا وقت

مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر