وجود

... loading ...

وجود
وجود

ضرب عضب کامیاب: لیکن اجڑنے والے بحالی کے منتظر

بدھ 28 ستمبر 2016 ضرب عضب کامیاب: لیکن اجڑنے والے بحالی کے منتظر

pakistan-idps

ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانے کیلئے پاک فوج کی جانب سے شروع کیا جانے والا آپریشن ضرب عضب اب اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوچکاہے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی نگرانی میں شروع ہونے والا آپریشن ضرب عضب زبردست کامیابی سے ہمکنار ہواہے یہاں تک کہ اب تک پاکستان پردہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں تساہل برتنے کاالزام لگانے والی بین الاقوامی قوتیں بھی اس بات کااعتراف کررہی ہیں کہ پاک فوج کے جوانوں نے انتہائی مختصر مدت میں قلیل وسائل کے باوجود دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اوراب دہشت گرد اپنا وجود برقرار رکھنے کیلئے بھاگتے اور چھپتے پھر رہے ہیں۔پاک فوج کے جوانوں نے آپریشن ضرب عضب کے دوران افغانستان سے ملنے والی پاکستانی سرحدوں کے ساتھ دہشت گردوں کے قائم کئے ہوئے مضبوط اڈوں کاصفایا کردیاہے اور اب شمالی علاقوں سمیت افغان سرحد کے قریب واقع کسی بھی پاکستانی علاقے میں دہشت گردوں کاکوئی مضبوط ٹھکانہ یا نیٹ ورک موجود نہیں ہے اور دوبارہ اس طرح کے نیٹ ورک کے قیام کے امکانات کو بھی ختم کردیاگیا ہے۔

آپریشن ضرب عضب کی کامیابی پر یقینا پاک فوج کے سربراہ اور اس آپریشن میں حصہ لینے والے تمام فوجی جوان اور افسران مبارکباد کے لائق ہیں اور ان کی جرات وبہادری اور فرائض سے لگن کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، لیکن پاک فوج کی جانب سے سیکڑوں قیمتی جانوں کی قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی یہ کامیابی اس وقت تک ادھوری تصور کی جائے گی جب تک کہ اس آپریشن کیلئے پاک فوج کو ہموار راستہ فراہم کرنے کیلئے اپنا گھر بارچھوڑ کر دربدر ہونے والے ہزاروں خاندانوں کی دوبارہ باعزت اور باوقار طور پر بحال نہیں کردیاجاتا۔یہ درست ہے کہ حکومت نے آپریشن کی وجہ سے بے گھر ہونے والوں کی امداد کیلئے اقدامات کئے ہیں لیکن حکومت کے ان اقدامات کو کافی قرار نہیں دیاجاسکتاکیونکہ اب بھی ہزاروں بے گھر خاندان انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔حکومت بے گھر ہونے والے ان خاندانوں کو درپیش مشکلات ومسائل سے اچھی طرح واقف ہے جس کااندازہ گورنر پختونخوا اقبال جھگڑا کے حالیہ بیان سے ہوتاہے جس میں انھوں نے بے گھر ہونے والے خاندانوں کی بحالی کیلئے حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کی وضاحت کی تھی۔

آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں بے گھر ہونے والوں کی اصل تعداد کااندازہ لگانا تو بظاہر بہت مشکل نظر آتاہے لیکن رواں سال پناہ گزینوں کی آبادکاری اور بحالی سے متعلق اقوام متحدہ کی تنظیم یو این ایچ سی آر کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق اس آپریشن کے نتیجے میں ساڑھے4 لاکھ سے زیادہ گھرانے بے گھر ہوئے ہیں اور اس وقت ملک کے مختلف شہروں میں پناہ گزینوں جیسی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔اگرچہ حکومت بے گھر ہونے والے ساڑھے3 لاکھ خاندانوں کو دوبارہ آباد کرنے کادعویٰ کرتی ہے لیکن اخبارات میں وقتاً فوقتاً شائع ہونے والی خبروں اور تجزیوں میں بیان کردہ حقائق اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتے اس کے علاوہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ان بے گھر ہونے والے خاندانوں کوان کے آبائی علاقوں میں مستقل طورپر آباد کرنے اور ان کی گزر بسر کا معقول انتظام کرنے پر توجہ دے، کیونکہ بے گھر ہونے کے ساتھ ان میں سے بیشتر خاندان اپنی روزی کے ذرائع سے بھی محروم ہوچکے ہیں ان کی زمینیں آپریشن کی وجہ سے بنجر ہوچکی ہیں ان کے باغات اجڑ چکے ہیں اور ان کی دکانیں اپنا وجود کھو چکی ہیں۔اجڑے ہوئے خاندانوں کو اپنے گھروں کی دوبارہ تعمیر کے نام پر صرف 25 ہزار روپے کی حقیر رقم دینے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، اس رقم سے نہ تو ان کے گھر دوبارہ تعمیر ہوسکتے ہیں اور نہ ہی وہ دوبارہ کاروبار زندگی شروع کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔

جہاں تک اجڑے ہوئے لوگوں کی آبادکاری کاتعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت اور پاک فوج اس حوالے سے بھی غافل نہیں ہے اور اس مقصد کیلئے کام یا منصوبہ بندی جاری ہے لیکن اس کی رفتار اور معیار وہ نہیں جو ہونا چاہئے تھا اس وقت حقیقت یہ ہے کہ سردیاں قریب آرہی ہیں اور پختونخوا میں سردیاں ان اجڑے ہوئے خاندانوں کیلئے موت کاپیغام ثابت ہوسکتی ہیں ، اس لئے حکومت کو ان کی فوری آبادکاری کیلئے ایک جامع پروگرام تیار کرناچاہئے اور سردیوں کی آمد سے قبل ہی ان کو سرچھپانے کی جگہ کے ساتھ ہی اشیائے خوردونوش کی فراہمی کو بھی یقینی بنانا چاہئے،حکومت اور ہماری مسلح افواج اس بات سے اچھی طرح واقف اور چشم دید گواہ ہے کہ اس آپریشن اور دہشت گردوں کی کارروائیوں کی وجہ سے ان کے علاقے میں بنیادی سہولتوں کے تمام ذرائع تہس نہس ہوچکے ہیں ہسپتال اور اسکول ملبے کاڈھر بن چکے ہیں اور صاف پانی کی فراہمی کا بھی کوئی نظام باقی نہیں رہاہے ، اس لئے ضروری ہے کہ حکومت ان سب کی تکمیل کیلئے فوری اور موثر اقدامات پر توجہ دے۔

ایک اندازے کے مطابق متاثرہ علاقوں میں مجموعی طورپرڈیڑھ ہزار تعلیمی ادارے تباہ ہوئے ہیں ان میں سے اب تک چند ہی دوبارہ تعمیر ہوسکے ہیں اور ان کی دوبارہ تعمیر بھی حکومت نے نہیں کرائی بلکہ بعض امدادی اداروں نے وہاں پہنچ کر یہ ذمہ داری پوری کی ہے۔

آپریشن کی وجہ سے بے گھر ہونے والے ان خاندانوں کی مستقل بحالی کا یہ کام آسان نہیں ہے اور حکومتی ڈھانچہ اس قابل نہیں ہے کہ وہ تنہا یہ بڑی ذمہ داری احسن طورپر پورا کرسکے اس لئے اس اہم کام کی بہتر اور احسن طورپر انجام دہی کیلئے حکومت کو فوج اورملک خاص طورپر پختونخوا کے تاجروں اور صنعت کاروں کی مدد اور اعانت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ، اور سب سے پہلے ٹوٹے پھوٹے اسکولوں کی تعمیر مکمل کرکے ان میں اساتذہ تعینات کرنے چاہئیں تاکہ اجڑے ہوئے خاندانوں کے بچے بچیاں دوبارہ تعلیم کی طرف راغب ہوسکیں ۔فوج کی انجینئرنگ کور کے ماہر انجینئر ان لوگوں کیلئے زلزلہ پروف کم لاگت کے مکانوں کی تعمیر کے ساتھ ہی ان کو روٹی کمانے کے قابل بنانے کیلئے بے گھر ہونے والے گھرانوں کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو فنی تعلیم سے بھی آراستہ کرسکتے ہیں اورہمارے محب وطن تاجر اور صنعت کار ان لوگوں کو اپنی صنعتوں میں ملازمت فراہم کرسکتے ہیں۔ اس طرح قوم ووطن کی خاطر اپنے گھر بار کو خیر باد کہنے والوں کو نہ صرف یہ کہ باعزت طریقے سے زندگی گزارنے کاموقع مل جائے گا، بلکہ اس سے پورے ملک کے عوام کو یہ پیغام بھی جائے گا کہ قوم اور ملک کی خاطر قربانیاں دینے والوں کا ایثار رائیگاں نہیں جاتا اور ہماری حکومت ،عوام اور مسلح افواج ان لوگوں کو عزت ووقار کے ساتھ زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنے کی ذمہ داری پوری کرنے سے غافل نہیں رہتی۔


متعلقہ خبریں


تنازعات اور قدرتی آفات، دنیا بھر میں 27.8 ملین افراد دربدر وجود - منگل 10 مئی 2016

ایک معروف امدادی ادارے نے کہتا ہے کہ گزشتہ سال دنیا بھر میں 27.8 ملین افراد داخلی طور پر بے گھر ہوئے، جس کی وجہ خانہ جنگیاں اور قدرتی آفات ہیں۔ یہ دنیا کے چار بڑے شہروں نیو یارک، لندن، پیرس اور قاہرہ کی مشترکہ آبادی سے بھی زیادہ لوگ ہیں۔ بدھ کو جاری ہونے والی نارویجیئن ریفیوج...

تنازعات اور قدرتی آفات، دنیا بھر میں 27.8 ملین افراد دربدر

ضرب عضب آپریشن نہیں نظریہ ہے! فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف وجود - بدھ 13 اپریل 2016

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن کو ایک نئی جہت دیتے ہوئے پہلی مرتبہ اس کا نظری اور فکری تناظر دیا ہے۔ اُنہوں نے غیر معمولی طور پر دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے کہا ہے کہ ضرب عضب صرف ایک آپریشن نہیں، پورا نظریہ ہے اور اس کا مقصد ش...

ضرب عضب آپریشن نہیں نظریہ ہے! فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف

پاک افغان تعلقات پر شکوک کے سائے گہرے ہونے لگے وجود - منگل 29 ستمبر 2015

پہلے سے ہی پستی کے شکار پاک افغان تعلقات میں گزشتہ دوروز میں مزید زوال آیا ہے۔ اور دونوں ممالک کی حکومتوں کی طرف سے ماضی میں ظاہر کی گئی خوش گمانیاں تیزی سے تحلیل ہو رہی ہیں۔ جس کا واضح اظہار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی طرف سے خطاب ...

پاک افغان تعلقات پر شکوک کے سائے گہرے ہونے لگے

بڈھ بیڑ حملہ اور آپریشن ضربِ عضب ابو محمد نعیم - هفته 19 ستمبر 2015

پاکستان ایئرفورس پشاور بڈھ بیر میں واقع بیس کیمپ پر حملے میں کیپٹن اسفندیار سمیت انتیس سے زائد افراد شہیدہوگئے -واقعے میں شہید افراد کےاہل خانہ سے اظہار افسوس کے ساتھ یہ بھی صدمہ کہ اس بار بھی دہشت گردوں کا نشانہ وہی شہر بنا ہے جہاں گزشتہ سال تاریخ کابدترین واقعہ ہوا۔کئی دہائیوں ...

بڈھ بیڑ حملہ اور آپریشن ضربِ عضب

ستمبر پھر آگیا! عبید شاہ - اتوار 06 ستمبر 2015

لہو کے آخری قطرے تک مادرِوطن کے دفاع کے جذبے سے سرشار قوم کی گرمجوشی دیدنی ہے ۔ 2015کا یہ ستمبر 1965کے ستمبرسے زیادہ مختلف نہیں ۔ تب بھی قوم کی امیدوں کا محورمسلح افواج تھیں اور آج بھی ایسی ہی صورتحال ہے ۔’’اے وطن کے سجیلے جوانوں‘‘ گانے کیلئے اب ملکۂ ترنم بقید ِحیات تو نہیں مگر ج...

ستمبر پھر آگیا!

مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر