وجود

... loading ...

وجود
وجود

ستمبر پھر آگیا!

اتوار 06 ستمبر 2015 ستمبر پھر آگیا!

guards-at-mazar-e-quaid

لہو کے آخری قطرے تک مادرِوطن کے دفاع کے جذبے سے سرشار قوم کی گرمجوشی دیدنی ہے ۔ 2015کا یہ ستمبر 1965کے ستمبرسے زیادہ مختلف نہیں ۔ تب بھی قوم کی امیدوں کا محورمسلح افواج تھیں اور آج بھی ایسی ہی صورتحال ہے ۔’’اے وطن کے سجیلے جوانوں‘‘ گانے کیلئے اب ملکۂ ترنم بقید ِحیات تو نہیں مگر جنید جمشید’’قسم اس وقت کی‘‘گنگنا کر قوم کا لہو گرمانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔جنرل راحیل شریف کی مقبولیت اس وقت اپنی انتہا پر ہے بس اتنی ہی کسر باقی ہے کہ ان کا نام تمام مصنوعات اور روٹیوں تک پر لکھا ہوا پایا جائے ۔ جنرل راحیل شریف اور فیلڈ مارشل ایوب خان میں کون سی اقدار مشترک ہیں یا پھر جنرل راحیل کس طرح ایوب خان سے مختلف ہیں؟ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے مگر یہ درست ہے کہ اس ستمبر میں بھی پاکستان ویسے ہی حالتِ جنگ میں ہے جیسے 1965کے ستمبر میں تھا اور اس بار لڑائی صرف مشرقی سرحدوں پر ہی نہیں بلکہ سرحدی حدود کے اندر بھیہر طرف جاری ہے ۔ آپریشن ضربِ عضب، کراچی آپریشن اور بلوچستان کے فراری ہی نہیں جنرل راحیل شریف نے بدعنوانی اور دیگر وائٹ کالر جرائم کے خلاف بھی محاذ کھول رکھاہے ۔ 50سال پہلے مارچ میں ’’رن آف کچھ‘‘ میں ایک سڑک کی تعمیر سے شروع ہونے والی جھڑپ ستمبر کی ایک فل اسکیل وار میں تبدیل ہو گئی تھی جسکا فیصلہ تاریخ نے 18ویں روز ہی صادر کر دیا تھا مگر اس بار لڑائی طویل ہے ، یہ جنگ کون جیتے گا ابھی دیکھنا باقی ہے ۔ جنرل ضیاء الحق نے ایک بار تضحیک آمیز لہجے میں کہا تھا ’’آئین کیا ہے ۔۔۔محض کاغذ کا ایک ٹکڑا‘‘

جنرل راحیل شریف آئین کو کیا سمجھتے ہیں معلوم نہیں۔ مگر یہ طے ہے کہ وہ تحفظِ پاکستان آرڈیننس کو دوسرے فوجداری قوانین سے بہتر گردانتے ہیں۔شاید اسی لئے کرپشن کے الزامات میں بھی ملزمان کو رینجرز کی حراست میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں پیش کیا جا رہا ہے ۔ڈاکٹر عاصم کا ریمانڈ انسداد دہشت گردی کی عدالت سے لئے جانے پر قمرالزمان کائرہ تلملا اٹھے انہوں نے کہاکہ کم از کم دہشت گردی کا الزام تو پیپلز پارٹی پر نہیں لگایا جا سکتا ہم تو خود دہشت گردی کا نشانا ہیں ۔وہ پیپلز پارٹی کے اُن معدودے چند رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی گفتگو میں معقولیت کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ دوسری طرف خورشید شاہ نے پہلے توپوں کا رخ وفاق کی طرف کیااور اعلانِ جنگ کی دھمکی دیتے ہوئے انہوں نے حکمراں جماعت کو پیپلزپارٹی کے احسانات بھی یاد دلائے مگر اگلے ہی روز’’رجوع‘‘ کرلیا۔ پرویز رشید کی وضاحتیں بھی مان لیں اور صورتحال کا ’’بین السطور‘‘ ادراک بھی کر لیا۔تب ہی تو منہ قبلے کی طرف کرکے لجاجت سے گویا ہوئے کہ’’فوج پارلیمانی جمہوری نظام کو چلنے دے‘‘۔اس کا مطلب ایک عام آدمی اس طرح لیتا ہے جیسے خورشید شاہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ فوج کرپشن کے معاملات میں داخل اندازی نہ کرے ۔

تحفظِ پاکستان آرڈیننس (پوپا) اگلے سال خود بخود غیر موثر ہو جائے گا اس کے بعد نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے دوبارہ پرانے قوانین پر ہی انحصار کرنا پڑے گا

ڈاکٹر عاصم کی گرفتار ی نے بھٹو کے داماد کی یادداشت بھی تازہ کر دی ۔انہیں نہ صرف ماڈل ٹاؤن میں گزشتہ برس ہونے والی قتل و غارت گری یاد آگئی بلکہ ٹوٹے ہوئے تار اصغر خان کیس تک سے جا ملے۔ بہر حال دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار انہوں نے ذمہ داری برسر اقتدار سیاسی جماعت پر ہی ڈالنے کو غنیمت جانا اور نوّے کی دہائی کی سیاست کو دُھرائے جانے کا رونا رویا جبکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اس کارروائی کے پیچھے وہی ہیں جن کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا وہ دیار ِغیر کوچ کرنے سے قبل بر ملا اعلان کر گئے تھے ۔ لندن سے جاری اپنے بیان میں انہوں نے اپنے تئیں بہادری کا دعویٰ بھی کیا اورکہا کہ ہم جیلوں سے ڈرنے والے نہیں ۔ان کے طعنوں کا عنوان باالخصوص وزیر اعظم تھے جنکے لئے اسی بیان میں کہا گیا کہ ہم وہ نہیں جو معافی مانگ کر جدہ بھاگ جائیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف نے سندھ حکومت کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے ۔

بات آگے بڑھانے سے پہلے چند ’’سازشی نظریات‘‘ بیان کرتا چلوں۔ بعض حلقوں میں چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ ڈاکٹر عاصم وطن واپسی کیلئے راضی نہ تھے مگر وہ شرجیل میمن کی طرف سے کلیٔرنس ملنے پر آمادہ ہوئے۔ یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ شرجیل میمن وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں۔دوسری طرف ایسی قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں کہ ڈاکٹر عاصم کو واپسی کیلئے خود آصف زرداری نے کہا تھا یعنی آصف زرداری نے ڈاکٹر عاصم کو پنیر کے ٹکڑے کے طور پر اٹکا کر چیک کرنے کی کوشش کی کہ خود انکی وطن واپسی کی راہ سازگار ہے یا نہیں۔ ایک طرف تو یہ قضیہ، دوسری طرف یہ دعوے جاری ہیں کہ آصف زرداری کا وزیر اعظم کے خلاف بیان ’’فرمائشی‘‘ تھا اور خواہشمند خود وزیر اعظم کی جانب سے کی گئی تھی۔واﷲ عالم !سچ خواہ کچھ بھی ہو پیپلز پارٹی کے رہنمازیرِلب کہہ رہے ہیں کہ ’’مفاہمت‘‘نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا۔عمران خان اسی بات کو یوں کہتے ہیں کہ پی پی، نون لیگ مُک مُکاخطرے میں ہے ۔

قصہ کوتاہ ۔مدعا یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم کا ریمانڈ تحفظِ پاکستان آرڈنینس کے تحت ہی کیوں لیا گیا اور انہیں رینجرز نے ہی عدالت میں کیو ں پیش کیا ؟ خُورد بُرد، بدعنوانی، سرکاری اختیارات کے نا جائز استعمال ، ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ وغیرہ جیسے وائٹ کالر کرائمزکو پکڑنے کیلئے ایف آئی اے اور نیب کیوں بروئے کار نہیں لائے گئے ؟خالصتاً امن و امان کے حوالے سے کام کرنے والی پیرا ملٹری فورس کو ہی کیوں آگے کیا گیا اور الزامات کو دہشت گردی سے کیوں منسلک کیا جا رہا ہے ۔ڈاکٹر عاصم کی اہلیہ کی جانب سے معزز عدالت عالیہ میں دائر پٹیشن میں بھی یہی سوال اٹھایا گیا ہے ۔اسکا بظاہر تو سیدھا سا جواب یہ ہے کہ عسکری قیادت کو سول تفتیشی اداروں اور استغاثے پر اعتماد نہیں۔ اس لئے وہ کرپشن کو کسی نہ کسی طرح دہشت گردی سے جوڑ کر پیرا ملٹری فورس کے کردار کو اس معاملے میں بھی متحرک اور کلیدی رکھنا چاہتے ہیں۔

دل کہتا ہے کہ جو ہو رہا ہے ٹھیک ہی ہو رہا ہے ۔ آگ لگاؤ قانون کی ساری کتابوں کو ،بھاڑ میں جھونکو سارے اصولوں کو ۔ کس کام کے یہ قوانین جن پر عمل درآمد صرف مسکین کیلئے ضروری ہے ۔کیوں غریب دو وقت کی روٹی کیلئے ترستا ہے اور چند طاقتور اپنی خفیہ کمین گاہوں میں دو دو سو کلو سونا گاڑے بیٹھے ہیں۔مائیں بھوکے بچوں کو لیکر نہر وں میں چھلانگیں ماریں اور ان کے لیڈر ایک رات میں کروڑوں کی شرابیں پی لیں، عید ہو یا عاشورہ قاتل سڑکوں پر لاشیں گراتے دند نا تے پھرتے ہیں مرنے والے کی شناخت کبھی شیعہ کے طور پر ہوتی ہے اور کبھی سنی کی حیثیت سے ، کبھی مہاجر کبھی پٹھان ، کبھی ڈاکٹر اورکبھی استاد۔بس قاتل نا معلوم رہتے ہیں ۔کوئی بھی قانون بنایا جائے یا توڑا جائے، کام کسی سے بھی لیا جائے خواہ نیب ہویا ایف آئی اے یاپھررینجرز ۔ لوگو ں کو اس سے کیا غرض؟ عوام کو امن چاہئے ،جان کا تحفظ چاہئے ، روزگار ، بجلی، پانی، گیس چاہئے۔ یہ انہیں کون سا قانون دے سکتا ہے اور کون اس کی راہ میں حائل ہے یہ عوام کا مسئلہ نہیں ۔اس صورتحال میں فوجی قیادت کے اقدامات پر انگریزی کی ایک کہاوت یاد آتی ہے۔

Desperate times call for desperate measures.

یعنی: ناگزیر صورتحال میں ناگزیر اقدامات

حالات بتاتے ہیں کہ عسکری قیادت اسی بدبو دار جمہوریت کا مکروہ چہرہ آگے رکھ کر اپنے اہداف پورے کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے جبکہ میاں نواز شریف بھی بلا چُون وچِرا فوج سے تنازع لئے بغیر اپنی مدتِ اقتدار پوری کرنا چاہتے ہیں انہوں نے آصف زرداری کی شاگردی کا سبق اچھی طرح یاد رکھاہے۔

یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین شیخ روحیل اصغرسے انہوں نے وہی کام لینے کی کوشش کی ہے جو زرداری نے یوسف رضا گیلانی سے 2010میں لیا تھا ۔کمیٹی کے 3؍ستمبرکو منعقدہ اجلاس کے بعد شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ فوج 2019تک قبائلی علاقوں میں رہے گی۔یہ بیان الفاظ کے ہیرپھیر کے ساتھ دراصل جنرل راحیل شریف کو توسیع دیئے جانے کا اشارہ ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ’’ تینوں بڑے‘‘ 2013تک اپنے عہدوں پر برا جمان رہیں گے۔ ’’تینوں بڑوں‘‘ سے ان کی مراد آرمی چیف ، چیف جسٹس اورصدر مملکت آصف زرداری تھے۔ بنیادی سوال اب یہ ہے کہ جنرل راحیل 2016ء میں ریٹائر ہو جائیں یا پھر انہیں مزید تین سال کی توسیع دی جائے اور انکی مدت ملازمت 2019ء تک بڑھا دی جائے دونوں صورتوں میں ان کے بعدکا قومی منظر نامہ کیا ہو گا ؟

ستمبر2013میں شروع کئے گئے کراچی آپریشن کے حوالے سے اب تک کے اعداد و شمار پر غور کیا جائے اور ٹھنڈے دماغ سے سوچا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ سب محض وقتی اُبال سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں گزشتہ دو سال کے دوران 20ہزار 879نئے مقدمات قائم کئے گئے لیکن اب تک صرف 862مقدمات کا فیصلہ کیا جا سکا ہے ۔ دو سالوں کے دوران قائم کئے گئے ان مقدمات میں نامزد ملزمان میں سے تقریباً 11سو ملزمان عدالتوں سے با عزت بری کئے جا چکے ہیں ۔ان ہی اعداد وشمار کی بنیاد پر اندازہ لگائیے کہ90روز کے بعد ڈاکٹر عاصم حسین کے مقدمے کا کیا ہو گا ؟کیا استغاثہ کرپشن کی رقوم کے دہشت گردی میں استعمال کئے جانے کو ثابت کر سکے گا؟ڈاکٹر عاصم کو اس کی بدعنوانیوں کے بدلے سزا کاٹنی ہو گی یا پھر وہ عدالتوں سے تحفظ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟یہ بھی یاد رہے کہ تحفظِ پاکستان آرڈیننس (پوپا) اگلے سال خود بخود غیر موثر ہو جائے گا اس کے بعد نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے دوبارہ پرانے قوانین پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔

یہ درست ہے کہ فوجی قیادت کے حالیہ اقدامات کے قلیل المدتی نتائج سو فیصد ہیں مگر لانگ ٹرم میں شاید یہ اتنے پائیدار ثابت نہ ہو سکیں، دہشت گردی ہو ، بد امنی یا بد عنوانی مستقل بنیادوں پر اسکا حل شفاف انتخابات اور ایماندار و مخلص قیادت کے چناؤ میں ہی پنہاں ہے ۔شاید قصور وار وہ نہیں جنہوں نے اس ملک کو مال ِغنیمت سمجھ رکھا ہے بلکہ قصور وار ہم خود ہیں جو ڈاکوؤں کو اپنے ہی کندھوں پر بٹھا کر کھمبوں پر چڑھاتے ہیں تاکہ وہ ہمارے گھروں میں کودسکیں ۔

یومِ دفاع مناتے ہوئے ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ جنگ اب بھی جاری ہے،اشارہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی یا ورکنگ باؤنڈری کے اس پار سے ہونے والی گولہ باری کی طرف نہیں۔ 65ء کے ستمبر کو یاد کرتے ہوئے 2015کے اس ستمبر میں ہمیں خود سے عہد کرنا ہو گا کہ دہشت گردی اور بدعنوانی کے اندرونی دشمن سے لڑنے کیلئے ہم آج ایک بار پھر ایسے ہی متحد ہوں گے جیسے کل بیرونی دشمن کے خلاف ہوئے تھے۔ یاد رکھئے افواج جنگیں لڑتی ضرور ہیں مگر جنگوں کی کامیابی یا ناکامی کا بہی کھاتہ تاریخ میں اقوام کے نام درج ہو تا ہے۔ ہم بھی عجیب قوم ہیں ووٹ کرپٹ سیاستدانوں کو دیتے ہیں اور انصاف جرنیلوں سے مانگتے ہیں ۔


متعلقہ خبریں


سابق صدر آصف علی زرداری اسپتال سے بلاول ہاؤس منتقل وجود - پیر 10 اکتوبر 2022

سابق صدر آصف علی زرداری ہسپتال سے بلاول ہاؤس منتقل ہوگئے۔ گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری کے معالج ڈاکٹرعاصم حسین نے اپنے سوشل میڈیا پیغام میں کہا تھا کہ سابق صدر کی صحت میں نمایاں بہتری ہوئی ہے تاہم ذرائع کے مطابق آصف زرداری کو ہسپتال سے بلاول ...

سابق صدر آصف علی زرداری اسپتال سے بلاول ہاؤس منتقل

اداروں اور جرنیلوں کوعمران کی ہوس کی خاطر متنازع نہیں بننے دیں گے،آصف زرداری وجود - پیر 05 ستمبر 2022

سابق صدرمملکت اورپاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ہم اداروں اور جرنیلوں کو عمران خان کی ہوس کی خاطر متنازع نہیں بننے دیں گے۔ بلاول ہاؤس میڈیا سیل سے جاری کیے گئے بیان میں انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی کی گزشتہ روز کی افواجِ پاکستان سے متعلق تقریر کو تن...

اداروں اور جرنیلوں کوعمران کی ہوس کی خاطر متنازع نہیں بننے دیں گے،آصف زرداری

کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے معاملہ پر تین رکنی کمٹی تشکیل وجود - اتوار 12 جون 2022

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور دہشت گردی کے معاملہ پر تین رکنی کمٹی تشکیل دے دی۔ کمیٹی وزیر اعظم کے مشیر برائے کشمیر افیئرز وگلگت بلتستان چودھری قمر زمان کائرہ، وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی س...

کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے معاملہ پر تین رکنی کمٹی تشکیل

عمران خان کی جانب سے زرداری سے معاملات کرانے پر زور، آصف زرداری، ملک ریاض کی مبینہ آڈیو لیک وجود - هفته 28 مئی 2022

بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض عمران خان اور آصف زرداری کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے سرگرم ہو گئے ہیں۔ وائرل آڈیو کال نے سیاست میں نئی ہلچل پیدا کر دی۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور ملک ریاض کی ٹیلیفونک گفتگو سامنے آئی ہے جس میں ملک ریاض ...

عمران خان کی جانب سے زرداری سے معاملات کرانے پر زور، آصف زرداری،  ملک ریاض کی مبینہ آڈیو لیک

شرجیل میمن کو پھر صوبائی وزیر بنا دیا گیا،محکمہ اطلاعات سندھ کا قلمدان دینے کا فیصلہ وجود - جمعرات 21 اپریل 2022

سندھ کابینہ میں تبدیلی کرکے رکنِ سندھ اسمبلی شرجیل انعام میمن کو ایک بار پھر صوبائی وزیر بنا دیا گیا ہے جبکہ وزیرِ ٹرانسپورٹ سندھ اویس قادر شاہ کا نام سندھ کابینہ سے ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا۔ شرجیل انعام میمن کو صوبائی وزیر بنانے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ...

شرجیل میمن کو پھر صوبائی وزیر بنا دیا گیا،محکمہ اطلاعات سندھ کا قلمدان دینے کا فیصلہ

آصف علی زرداری کا شہباز شریف سے اپنی خفیہ ملاقات کا انکشاف وجود - جمعرات 14 اپریل 2022

پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے شہباز شریف سے اپنی خفیہ ملاقات کا انکشاف کیا ہے اور کہا کہ انہیں وزیراعظم بنانے کی پیشکش اسی دوران کی، سابق وزیراعظم عمران خان بال ٹیمپرنگ کے بغیر سیاست میں کامیاب نہیں ہوسکتے، پی ٹی آئی کو سمجھنا چاہیے کہ اسمبلی میں واپس آجائی...

آصف علی زرداری کا شہباز شریف سے اپنی خفیہ ملاقات کا انکشاف

پی پی کی پارلیمانی پارٹی بیٹھک، قومی اسمبلی اجلاس کی حکمت عملی پر مشاورت وجود - جمعرات 24 مارچ 2022

سابق صدر آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے زیر صدارت پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا جس میں قومی اسمبلی کے جمعہ کے اجلاس کی حکمت عملی پر مشاورت کی گئی۔آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں پاکست...

پی پی کی پارلیمانی پارٹی بیٹھک، قومی اسمبلی اجلاس کی حکمت عملی پر مشاورت

پیپلز پارٹی اپنا لانگ مارچ ملتوی کرے، مولانا فضل الرحمان وجود - منگل 22 فروری 2022

اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ اور امیر جمعیت علمائے اسلام(ف) مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ الگ الگ مارچ سے تقسیم کا تاثر ملتا ہے، پیپلز پارٹی اپنا لانگ مارچ ملتوی کرے۔یاد رہے کہ گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی ز...

پیپلز پارٹی اپنا لانگ مارچ ملتوی کرے، مولانا فضل الرحمان

تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کے ساتھ ہیں،آصف زرداری کی مولانا فضل الرحمن کو یقین دہانی وجود - هفته 12 فروری 2022

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد پر اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سابق صدر آصف علی زرداری سے ٹیلی فو...

تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کے ساتھ ہیں،آصف زرداری کی مولانا فضل الرحمن کو یقین دہانی

قومی اسمبلی، وزیر اعظم ، شہباز شریف ، آصف زر داری اور بلاول بھٹو زر داری غیر حاضر وجود - جمعه 31 دسمبر 2021

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دور ان وزیر اعظم عمران خان ، اپوزیشن شہباز شریف ، آصف علی زر داری ، بلاول بھٹو زر داری اور اختر مینگل ایوان سے غیر حاضر رہے ۔ جمعرات کو قومی اسمبلی کے اہم اجلاس سے قائد حزب اختلاف شہباز شریف ، آصف علی زر داری ، بلاول بھٹو زر داری اور اختر مینگل غیر حاضر رہ...

قومی اسمبلی، وزیر اعظم ، شہباز شریف ، آصف زر داری اور بلاول بھٹو زر داری غیر حاضر

آصف زرداری بے نظیر بھٹو کی برسی میں شریک نہیں ہوں گے،اسلام آباد پہنچ گئے وجود - پیر 27 دسمبر 2021

سابق صدر آصف علی زرداری وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچ گئے۔ذرائع کے مطابق آصف علی زرداری اسلام آباد میں مختلف سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کریں گے۔ایک نجی ٹی وی کے مطابق سابق صدر اس دوران ملکی سیاسی صورتحال اور اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف ممکنہ عدم اعتماد کی تحاریک...

آصف زرداری بے نظیر بھٹو کی برسی میں شریک نہیں ہوں گے،اسلام آباد پہنچ گئے

پہلے ان حکمرانوں کی چھٹی، پھر ہم سے بات کرو،آصف زرداری وجود - پیر 20 دسمبر 2021

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پہلے دن ہی کہا تھا نیب چلے گی تو حکومت نہیں چلے گی، نیا پاکستان بنانا بہت آسان ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف نے پرانے کا بھی بیڑا غرق کر دیا،ملک چلا نے کیلئے تیار ہیں لیکن پہلے ان حکمرانوں کی چھٹی کرو، پھر...

پہلے ان حکمرانوں کی چھٹی، پھر ہم سے بات کرو،آصف زرداری

مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر