... loading ...
لہو کے آخری قطرے تک مادرِوطن کے دفاع کے جذبے سے سرشار قوم کی گرمجوشی دیدنی ہے ۔ 2015کا یہ ستمبر 1965کے ستمبرسے زیادہ مختلف نہیں ۔ تب بھی قوم کی امیدوں کا محورمسلح افواج تھیں اور آج بھی ایسی ہی صورتحال ہے ۔’’اے وطن کے سجیلے جوانوں‘‘ گانے کیلئے اب ملکۂ ترنم بقید ِحیات تو نہیں مگر جنید جمشید’’قسم اس وقت کی‘‘گنگنا کر قوم کا لہو گرمانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔جنرل راحیل شریف کی مقبولیت اس وقت اپنی انتہا پر ہے بس اتنی ہی کسر باقی ہے کہ ان کا نام تمام مصنوعات اور روٹیوں تک پر لکھا ہوا پایا جائے ۔ جنرل راحیل شریف اور فیلڈ مارشل ایوب خان میں کون سی اقدار مشترک ہیں یا پھر جنرل راحیل کس طرح ایوب خان سے مختلف ہیں؟ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے مگر یہ درست ہے کہ اس ستمبر میں بھی پاکستان ویسے ہی حالتِ جنگ میں ہے جیسے 1965کے ستمبر میں تھا اور اس بار لڑائی صرف مشرقی سرحدوں پر ہی نہیں بلکہ سرحدی حدود کے اندر بھیہر طرف جاری ہے ۔ آپریشن ضربِ عضب، کراچی آپریشن اور بلوچستان کے فراری ہی نہیں جنرل راحیل شریف نے بدعنوانی اور دیگر وائٹ کالر جرائم کے خلاف بھی محاذ کھول رکھاہے ۔ 50سال پہلے مارچ میں ’’رن آف کچھ‘‘ میں ایک سڑک کی تعمیر سے شروع ہونے والی جھڑپ ستمبر کی ایک فل اسکیل وار میں تبدیل ہو گئی تھی جسکا فیصلہ تاریخ نے 18ویں روز ہی صادر کر دیا تھا مگر اس بار لڑائی طویل ہے ، یہ جنگ کون جیتے گا ابھی دیکھنا باقی ہے ۔ جنرل ضیاء الحق نے ایک بار تضحیک آمیز لہجے میں کہا تھا ’’آئین کیا ہے ۔۔۔محض کاغذ کا ایک ٹکڑا‘‘
جنرل راحیل شریف آئین کو کیا سمجھتے ہیں معلوم نہیں۔ مگر یہ طے ہے کہ وہ تحفظِ پاکستان آرڈیننس کو دوسرے فوجداری قوانین سے بہتر گردانتے ہیں۔شاید اسی لئے کرپشن کے الزامات میں بھی ملزمان کو رینجرز کی حراست میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں پیش کیا جا رہا ہے ۔ڈاکٹر عاصم کا ریمانڈ انسداد دہشت گردی کی عدالت سے لئے جانے پر قمرالزمان کائرہ تلملا اٹھے انہوں نے کہاکہ کم از کم دہشت گردی کا الزام تو پیپلز پارٹی پر نہیں لگایا جا سکتا ہم تو خود دہشت گردی کا نشانا ہیں ۔وہ پیپلز پارٹی کے اُن معدودے چند رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی گفتگو میں معقولیت کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ دوسری طرف خورشید شاہ نے پہلے توپوں کا رخ وفاق کی طرف کیااور اعلانِ جنگ کی دھمکی دیتے ہوئے انہوں نے حکمراں جماعت کو پیپلزپارٹی کے احسانات بھی یاد دلائے مگر اگلے ہی روز’’رجوع‘‘ کرلیا۔ پرویز رشید کی وضاحتیں بھی مان لیں اور صورتحال کا ’’بین السطور‘‘ ادراک بھی کر لیا۔تب ہی تو منہ قبلے کی طرف کرکے لجاجت سے گویا ہوئے کہ’’فوج پارلیمانی جمہوری نظام کو چلنے دے‘‘۔اس کا مطلب ایک عام آدمی اس طرح لیتا ہے جیسے خورشید شاہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ فوج کرپشن کے معاملات میں داخل اندازی نہ کرے ۔
ڈاکٹر عاصم کی گرفتار ی نے بھٹو کے داماد کی یادداشت بھی تازہ کر دی ۔انہیں نہ صرف ماڈل ٹاؤن میں گزشتہ برس ہونے والی قتل و غارت گری یاد آگئی بلکہ ٹوٹے ہوئے تار اصغر خان کیس تک سے جا ملے۔ بہر حال دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار انہوں نے ذمہ داری برسر اقتدار سیاسی جماعت پر ہی ڈالنے کو غنیمت جانا اور نوّے کی دہائی کی سیاست کو دُھرائے جانے کا رونا رویا جبکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اس کارروائی کے پیچھے وہی ہیں جن کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا وہ دیار ِغیر کوچ کرنے سے قبل بر ملا اعلان کر گئے تھے ۔ لندن سے جاری اپنے بیان میں انہوں نے اپنے تئیں بہادری کا دعویٰ بھی کیا اورکہا کہ ہم جیلوں سے ڈرنے والے نہیں ۔ان کے طعنوں کا عنوان باالخصوص وزیر اعظم تھے جنکے لئے اسی بیان میں کہا گیا کہ ہم وہ نہیں جو معافی مانگ کر جدہ بھاگ جائیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف نے سندھ حکومت کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے ۔
بات آگے بڑھانے سے پہلے چند ’’سازشی نظریات‘‘ بیان کرتا چلوں۔ بعض حلقوں میں چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ ڈاکٹر عاصم وطن واپسی کیلئے راضی نہ تھے مگر وہ شرجیل میمن کی طرف سے کلیٔرنس ملنے پر آمادہ ہوئے۔ یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ شرجیل میمن وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں۔دوسری طرف ایسی قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں کہ ڈاکٹر عاصم کو واپسی کیلئے خود آصف زرداری نے کہا تھا یعنی آصف زرداری نے ڈاکٹر عاصم کو پنیر کے ٹکڑے کے طور پر اٹکا کر چیک کرنے کی کوشش کی کہ خود انکی وطن واپسی کی راہ سازگار ہے یا نہیں۔ ایک طرف تو یہ قضیہ، دوسری طرف یہ دعوے جاری ہیں کہ آصف زرداری کا وزیر اعظم کے خلاف بیان ’’فرمائشی‘‘ تھا اور خواہشمند خود وزیر اعظم کی جانب سے کی گئی تھی۔واﷲ عالم !سچ خواہ کچھ بھی ہو پیپلز پارٹی کے رہنمازیرِلب کہہ رہے ہیں کہ ’’مفاہمت‘‘نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا۔عمران خان اسی بات کو یوں کہتے ہیں کہ پی پی، نون لیگ مُک مُکاخطرے میں ہے ۔
قصہ کوتاہ ۔مدعا یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم کا ریمانڈ تحفظِ پاکستان آرڈنینس کے تحت ہی کیوں لیا گیا اور انہیں رینجرز نے ہی عدالت میں کیو ں پیش کیا ؟ خُورد بُرد، بدعنوانی، سرکاری اختیارات کے نا جائز استعمال ، ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ وغیرہ جیسے وائٹ کالر کرائمزکو پکڑنے کیلئے ایف آئی اے اور نیب کیوں بروئے کار نہیں لائے گئے ؟خالصتاً امن و امان کے حوالے سے کام کرنے والی پیرا ملٹری فورس کو ہی کیوں آگے کیا گیا اور الزامات کو دہشت گردی سے کیوں منسلک کیا جا رہا ہے ۔ڈاکٹر عاصم کی اہلیہ کی جانب سے معزز عدالت عالیہ میں دائر پٹیشن میں بھی یہی سوال اٹھایا گیا ہے ۔اسکا بظاہر تو سیدھا سا جواب یہ ہے کہ عسکری قیادت کو سول تفتیشی اداروں اور استغاثے پر اعتماد نہیں۔ اس لئے وہ کرپشن کو کسی نہ کسی طرح دہشت گردی سے جوڑ کر پیرا ملٹری فورس کے کردار کو اس معاملے میں بھی متحرک اور کلیدی رکھنا چاہتے ہیں۔
دل کہتا ہے کہ جو ہو رہا ہے ٹھیک ہی ہو رہا ہے ۔ آگ لگاؤ قانون کی ساری کتابوں کو ،بھاڑ میں جھونکو سارے اصولوں کو ۔ کس کام کے یہ قوانین جن پر عمل درآمد صرف مسکین کیلئے ضروری ہے ۔کیوں غریب دو وقت کی روٹی کیلئے ترستا ہے اور چند طاقتور اپنی خفیہ کمین گاہوں میں دو دو سو کلو سونا گاڑے بیٹھے ہیں۔مائیں بھوکے بچوں کو لیکر نہر وں میں چھلانگیں ماریں اور ان کے لیڈر ایک رات میں کروڑوں کی شرابیں پی لیں، عید ہو یا عاشورہ قاتل سڑکوں پر لاشیں گراتے دند نا تے پھرتے ہیں مرنے والے کی شناخت کبھی شیعہ کے طور پر ہوتی ہے اور کبھی سنی کی حیثیت سے ، کبھی مہاجر کبھی پٹھان ، کبھی ڈاکٹر اورکبھی استاد۔بس قاتل نا معلوم رہتے ہیں ۔کوئی بھی قانون بنایا جائے یا توڑا جائے، کام کسی سے بھی لیا جائے خواہ نیب ہویا ایف آئی اے یاپھررینجرز ۔ لوگو ں کو اس سے کیا غرض؟ عوام کو امن چاہئے ،جان کا تحفظ چاہئے ، روزگار ، بجلی، پانی، گیس چاہئے۔ یہ انہیں کون سا قانون دے سکتا ہے اور کون اس کی راہ میں حائل ہے یہ عوام کا مسئلہ نہیں ۔اس صورتحال میں فوجی قیادت کے اقدامات پر انگریزی کی ایک کہاوت یاد آتی ہے۔
Desperate times call for desperate measures.
یعنی: ناگزیر صورتحال میں ناگزیر اقدامات
حالات بتاتے ہیں کہ عسکری قیادت اسی بدبو دار جمہوریت کا مکروہ چہرہ آگے رکھ کر اپنے اہداف پورے کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے جبکہ میاں نواز شریف بھی بلا چُون وچِرا فوج سے تنازع لئے بغیر اپنی مدتِ اقتدار پوری کرنا چاہتے ہیں انہوں نے آصف زرداری کی شاگردی کا سبق اچھی طرح یاد رکھاہے۔
یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین شیخ روحیل اصغرسے انہوں نے وہی کام لینے کی کوشش کی ہے جو زرداری نے یوسف رضا گیلانی سے 2010میں لیا تھا ۔کمیٹی کے 3؍ستمبرکو منعقدہ اجلاس کے بعد شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ فوج 2019تک قبائلی علاقوں میں رہے گی۔یہ بیان الفاظ کے ہیرپھیر کے ساتھ دراصل جنرل راحیل شریف کو توسیع دیئے جانے کا اشارہ ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ’’ تینوں بڑے‘‘ 2013تک اپنے عہدوں پر برا جمان رہیں گے۔ ’’تینوں بڑوں‘‘ سے ان کی مراد آرمی چیف ، چیف جسٹس اورصدر مملکت آصف زرداری تھے۔ بنیادی سوال اب یہ ہے کہ جنرل راحیل 2016ء میں ریٹائر ہو جائیں یا پھر انہیں مزید تین سال کی توسیع دی جائے اور انکی مدت ملازمت 2019ء تک بڑھا دی جائے دونوں صورتوں میں ان کے بعدکا قومی منظر نامہ کیا ہو گا ؟
ستمبر2013میں شروع کئے گئے کراچی آپریشن کے حوالے سے اب تک کے اعداد و شمار پر غور کیا جائے اور ٹھنڈے دماغ سے سوچا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ سب محض وقتی اُبال سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں گزشتہ دو سال کے دوران 20ہزار 879نئے مقدمات قائم کئے گئے لیکن اب تک صرف 862مقدمات کا فیصلہ کیا جا سکا ہے ۔ دو سالوں کے دوران قائم کئے گئے ان مقدمات میں نامزد ملزمان میں سے تقریباً 11سو ملزمان عدالتوں سے با عزت بری کئے جا چکے ہیں ۔ان ہی اعداد وشمار کی بنیاد پر اندازہ لگائیے کہ90روز کے بعد ڈاکٹر عاصم حسین کے مقدمے کا کیا ہو گا ؟کیا استغاثہ کرپشن کی رقوم کے دہشت گردی میں استعمال کئے جانے کو ثابت کر سکے گا؟ڈاکٹر عاصم کو اس کی بدعنوانیوں کے بدلے سزا کاٹنی ہو گی یا پھر وہ عدالتوں سے تحفظ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟یہ بھی یاد رہے کہ تحفظِ پاکستان آرڈیننس (پوپا) اگلے سال خود بخود غیر موثر ہو جائے گا اس کے بعد نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے دوبارہ پرانے قوانین پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔
یہ درست ہے کہ فوجی قیادت کے حالیہ اقدامات کے قلیل المدتی نتائج سو فیصد ہیں مگر لانگ ٹرم میں شاید یہ اتنے پائیدار ثابت نہ ہو سکیں، دہشت گردی ہو ، بد امنی یا بد عنوانی مستقل بنیادوں پر اسکا حل شفاف انتخابات اور ایماندار و مخلص قیادت کے چناؤ میں ہی پنہاں ہے ۔شاید قصور وار وہ نہیں جنہوں نے اس ملک کو مال ِغنیمت سمجھ رکھا ہے بلکہ قصور وار ہم خود ہیں جو ڈاکوؤں کو اپنے ہی کندھوں پر بٹھا کر کھمبوں پر چڑھاتے ہیں تاکہ وہ ہمارے گھروں میں کودسکیں ۔
یومِ دفاع مناتے ہوئے ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ جنگ اب بھی جاری ہے،اشارہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی یا ورکنگ باؤنڈری کے اس پار سے ہونے والی گولہ باری کی طرف نہیں۔ 65ء کے ستمبر کو یاد کرتے ہوئے 2015کے اس ستمبر میں ہمیں خود سے عہد کرنا ہو گا کہ دہشت گردی اور بدعنوانی کے اندرونی دشمن سے لڑنے کیلئے ہم آج ایک بار پھر ایسے ہی متحد ہوں گے جیسے کل بیرونی دشمن کے خلاف ہوئے تھے۔ یاد رکھئے افواج جنگیں لڑتی ضرور ہیں مگر جنگوں کی کامیابی یا ناکامی کا بہی کھاتہ تاریخ میں اقوام کے نام درج ہو تا ہے۔ ہم بھی عجیب قوم ہیں ووٹ کرپٹ سیاستدانوں کو دیتے ہیں اور انصاف جرنیلوں سے مانگتے ہیں ۔
سابق صدر آصف علی زرداری ہسپتال سے بلاول ہاؤس منتقل ہوگئے۔ گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری کے معالج ڈاکٹرعاصم حسین نے اپنے سوشل میڈیا پیغام میں کہا تھا کہ سابق صدر کی صحت میں نمایاں بہتری ہوئی ہے تاہم ذرائع کے مطابق آصف زرداری کو ہسپتال سے بلاول ...
سابق صدرمملکت اورپاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ہم اداروں اور جرنیلوں کو عمران خان کی ہوس کی خاطر متنازع نہیں بننے دیں گے۔ بلاول ہاؤس میڈیا سیل سے جاری کیے گئے بیان میں انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی کی گزشتہ روز کی افواجِ پاکستان سے متعلق تقریر کو تن...
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور دہشت گردی کے معاملہ پر تین رکنی کمٹی تشکیل دے دی۔ کمیٹی وزیر اعظم کے مشیر برائے کشمیر افیئرز وگلگت بلتستان چودھری قمر زمان کائرہ، وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی س...
بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض عمران خان اور آصف زرداری کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے سرگرم ہو گئے ہیں۔ وائرل آڈیو کال نے سیاست میں نئی ہلچل پیدا کر دی۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور ملک ریاض کی ٹیلیفونک گفتگو سامنے آئی ہے جس میں ملک ریاض ...
سندھ کابینہ میں تبدیلی کرکے رکنِ سندھ اسمبلی شرجیل انعام میمن کو ایک بار پھر صوبائی وزیر بنا دیا گیا ہے جبکہ وزیرِ ٹرانسپورٹ سندھ اویس قادر شاہ کا نام سندھ کابینہ سے ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا۔ شرجیل انعام میمن کو صوبائی وزیر بنانے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ...
پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے شہباز شریف سے اپنی خفیہ ملاقات کا انکشاف کیا ہے اور کہا کہ انہیں وزیراعظم بنانے کی پیشکش اسی دوران کی، سابق وزیراعظم عمران خان بال ٹیمپرنگ کے بغیر سیاست میں کامیاب نہیں ہوسکتے، پی ٹی آئی کو سمجھنا چاہیے کہ اسمبلی میں واپس آجائی...
سابق صدر آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے زیر صدارت پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا جس میں قومی اسمبلی کے جمعہ کے اجلاس کی حکمت عملی پر مشاورت کی گئی۔آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں پاکست...
اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ اور امیر جمعیت علمائے اسلام(ف) مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ الگ الگ مارچ سے تقسیم کا تاثر ملتا ہے، پیپلز پارٹی اپنا لانگ مارچ ملتوی کرے۔یاد رہے کہ گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی ز...
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد پر اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سابق صدر آصف علی زرداری سے ٹیلی فو...
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دور ان وزیر اعظم عمران خان ، اپوزیشن شہباز شریف ، آصف علی زر داری ، بلاول بھٹو زر داری اور اختر مینگل ایوان سے غیر حاضر رہے ۔ جمعرات کو قومی اسمبلی کے اہم اجلاس سے قائد حزب اختلاف شہباز شریف ، آصف علی زر داری ، بلاول بھٹو زر داری اور اختر مینگل غیر حاضر رہ...
سابق صدر آصف علی زرداری وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچ گئے۔ذرائع کے مطابق آصف علی زرداری اسلام آباد میں مختلف سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کریں گے۔ایک نجی ٹی وی کے مطابق سابق صدر اس دوران ملکی سیاسی صورتحال اور اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف ممکنہ عدم اعتماد کی تحاریک...
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پہلے دن ہی کہا تھا نیب چلے گی تو حکومت نہیں چلے گی، نیا پاکستان بنانا بہت آسان ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف نے پرانے کا بھی بیڑا غرق کر دیا،ملک چلا نے کیلئے تیار ہیں لیکن پہلے ان حکمرانوں کی چھٹی کرو، پھر...