وجود

... loading ...

وجود
وجود

تمہارے جوان، اب کے نہ جیت پائے!

جمعرات 11 اگست 2016 تمہارے جوان، اب کے نہ جیت پائے!

turkey-coup

مروہ شبنم اروش

ترجمہ: محمد دین جوہر

تمہید

[ترکی کی ناکام فوجی بغاوت پر ہمارے ہاں تبصرے اور اظہار خیال ابھی جاری ہے۔ ہم نے وجود ڈاٹ کام پر شائع ہونے والے اپنے ایک گزشتہ مضمون میں قومی میڈیا کے ”تجزیاتی رویوں“ کا ایک مختصر جائزہ لینے کی کوشش کی تھی۔ لبرل، سیکولر اور مارکسی تجزیوں کی شورہ پشتی متوقع تھی، لیکن استعماری متجددین اور جدیدیت پرست مذہبی حلقوں کے تجزیے تو بددیانتی کے ”شاہکار“ بن گئے۔ یہ کئی اعتبار سے نہایت اہم ہیں۔ ان تجزیوں میں بھرپور کوشش کی گئی کہ امریکااور یورپی یونین کا نام نہ آنے پائے، اور الزام انہی آقاؤں کے تتبع میں اردوگان کے سر تھوپ دیا جائے تاکہ گلین اور اس کے سرپرست مغرب سے فیضیابی کا عمل جاری رہ سکے۔ دوسری کوشش یہ کی گئی کہ ایک خالص سیاسی واقعے کی واعظانہ تعبیرات سے اسے گھریلو سطح کا جھگڑا بنا دیا جائے تاکہ مذہب کی آڑ میں مسلمانوں کے سیاسی ادراک پر کاری ضرب لگائی جا سکے۔ پھر سی آئی اے کے ایجنٹ اور قوم دشمن گلین کے نام نہاد ”تصوف“ اور اس کے ”معتدل اسلام“ کو آڑ بنا کر اسے دو شخصیتوں کی فکری کشمکش ظاہر کرنے پر بھی کافی زور صرف کیا گیا تاکہ امریکاکے ”درباری جدید اسلام“ کو مسلمانوں کے گلے میں اتارا جا سکے۔

ہم ذیل میں ترک انگریزی روزنامے ”ینی شفق“ کی کالم نگار مروہ شبنم اروش کے مضمون کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ اس ترجمے کا مقصد اس سیاسی تناظر کو واضح کرنا ہے، جو اس واقعے کا اصل پس منظر ہے۔ یہ مضمون ۴؍اگست کو شائع ہوا۔]


جمہوریت کا وکیل، امریکا، پندرہ جولائی کی رات انتظار میں رہا کہ دیکھیں کون جیتتا ہے۔ انقرہ میں امریکی سفارت خانے نے جو ایمرجنسی پیغام اپنے شہریوں سے مخاطب ہوتے ہوئے شائع کیا، اس میں گلینی دہشت گردوں کی طرف سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کو ”uprising“ قرار دیا، اور یہ اصطلاح عموماً بہارِ عرب کے دوران حکومت مخالف عرب مظاہروں کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ جب عوام نے تختہ الٹنے کی کوشش ناکام بنا دی تو امریکی صدر اوباما نے کہا کہ وہ جمہوری طور پر منتخب حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن اب تو بہت دیر ہو چکی تھی!

بغاوت کی ناکامی کے بعد گلینی دہشت گرد تنظیم کے سربراہ، فتح اللہ گلین کو ترکی کے حوالے کرنے پر جو سوالات کیے گئے ان کے امریکی جواب بھی نہایت دلچسپ تھے۔ امریکی انتظامیہ نے صورت حال کو ”پہلے شہادتیں تو دیکھ لیں“ جیسے بیانات سے ٹالنے کی کوشش کی، اور بغاوت کے سازشی منصوبہ ساز اور دہشت گرد کو گرفتار کرنے، اسے حراست میں لینے یا اسے ملک سے فرار ہونے سے روکنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا، بلکہ امریکی میڈیا اسی کی بات کو بڑھا چڑھا کے پیش کرتے رہے۔ گلین نے سی این این پر فرید زکریا سے بات کرتے ہوئے اس بغاوت کو ہالی وڈ کی فلم سے تشبیہ دی، اور ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ اس کے پیچھے خود طیب اردوگان ہے۔ یہ مذاق لگتا ہے لیکن واقعہ یہی ہے۔ امریکی میڈیا ترکوں پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ سازشی نظریئے گھڑے جا رہے ہیں، کیونکہ ترک عوام کو اس بغاوت پر امریکی پنجے ہی کی چھاپ نظر آتی ہے۔ ایک تو اس لیے کہ وہ سالوں سے گلین کا میزبان ہے، اور پھر میڈیائی رپورٹنگ کی ہیراپھیری اور بغاوت کے وقت سامنے آنی والی موقع پرستی ایسے موقف کے لیے کافی گنجائش پیدا کر دیتی ہے۔ اور گلین ہے کہ وہاں بیٹھا ترک قوم کا تمسخر اڑائے جا رہا ہے اور اس کے پیروکاروں کی طرف سے سوشل میڈیا پر دی گئی گلین کی ویڈیو گفتگؤوں میں ترکی کو مسلسل دھمکیاں ہی مل رہی ہیں۔

کیا ۱۹۶۰؍ کی بغاوت میں امریکا کا کوئی عمل دخل نہیں تھا؟ یہ وہ زمانہ تھا جب عدنان مندریس معاشی متبادلات کے لیے روس کا دورہ کرنے والے تھے کیونکہ ترکی حد سے زیادہ امریکا کا دست نگر ہو گیا تھا۔ جب ترکی نے نیٹو میں شمولیت اختیار کی، اور ادانہ کے انجرلک فوجی اڈے کا معاہدہ ہوا، اس وقت عدنان مندریس ہی وزیر اعظم تھے اور وہ امریکا یا نیٹو کے خلاف بھی نہیں تھے۔

یہی وجہ ہےکہ اس بغاوت میں امریکی شرکت کے جو شواہد سامنے آئے ہیں وہ بہت اہم ہیں۔ خصوصاً ”ینی شفق“ میں اس واقعے پر دی گئی رپورٹیں نہایت قابل توجہ ہیں۔ تاہم امریکی انتظامیہ ایسی رپورٹوں کی وجہ سے خاصی آشفتہ ہے، جبکہ ترکی میں دباؤ اور امریکا دشمنی کے جذبات عروج پکڑ رہے ہیں۔ امریکی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ ان سب کو سازشی نظریے سمجھتے ہیں۔ تکلف بر طرف، اگر کوئی چیز بطخ کی طرح چلتی ہو، بطخ کی طرح تیرتی ہو، اور بطخ کی طرح ہی قیں قیں کرتی ہو، تو امکان ہے کہ وہ بطخ ہی ہو گی۔ گلین ہی اس بغاوت کا سرغنہ ہے، وہ امریکا میں سترہ سال سے رہ رہا ہے، اور امریکا اسے حوالے کرنے پر بھی تیار نہیں، اور اس تنظیم کی کاروائیاں خطے میں امریکی ایجنڈے کے عین مطابق ہیں، تو میں افسوس سے کہوں گی کہ ترک قوم یہ ماننے میں قطعی حق بجانب ہے کہ امریکا ہی اس بغاوت کے پیچھے ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے، جو بغاوتیں کروانے کی حیثیت عرفی رکھتا ہے، دوسری جنگ عظیم کے بعد ہمارے داخلی اور خارجی معاملات میں جس جس طرح مداخلت کی ہے وہ ہماری یادوں پر کھدی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر ٹرومین کے ڈاکٹرائن (نظریۂ) اور گلیڈیو آپریشن کے تحت ترکی میں ”بغاوتوں“ کو کچلنے کا عملی منصوبہ کیا تھا؟ کیا یہ مسلح تنظیم، جس کا قیام کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا، اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اسے کھلا چھوڑ دیا گیا تھا، امریکا کا کیا دھرا نہیں ہے؟

پھر کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ۱۹۶۰؍ کی بغاوت میں امریکا کا کوئی عمل دخل نہیں تھا؟ یہ وہ زمانہ تھا جب عدنان مندریس معاشی متبادلات کے لیے روس کا دورہ کرنے والے تھے کیونکہ ترکی حد سے زیادہ امریکا کا دست نگر ہو گیا تھا۔ جب ترکی نے نیٹو میں شمولیت اختیار کی، اور ادانہ کے انجرلک فوجی اڈے کا معاہدہ ہوا، اس وقت عدنان مندریس ہی وزیر اعظم تھے اور وہ امریکا یا نیٹو کے خلاف بھی نہیں تھے۔ اس زمانے کی یہ ہوائی بات قابل التفات بھی نہیں کہ نیٹو ترک معیشت کی بہتری کے لیے قرضہ دینے ہی والا تھا، کیونکہ وہ تو ہمیں صنعت کاری کی اجازت دینے کے لیے بھی تیار نہیں تھے کہ ہم ایک زرعی ملک سے آگے کا سفر کر سکیں۔

آئیے ہم وہ خط بھی یاد رکھیں جو ۶۰ کی دہائی میں قبرصی واقعات کے دوران امریکی صدر لنڈن جانسن نے وزیر اعظم عصمت انونو کو لکھا تھا۔ اس میں صدر جانسن نے ترکی کو دھمکی دی تھی کہ اگر ترکی نے قبرص میں مداخلت کی تو نیٹو اس کے ساتھ نہیں رہے گا۔ جواباً انونو نے لکھا تھا کہ ”ایسی صورت میں ایک نیا عالمی نظام جنم لے گا اور ترکی اس میں اپنی جگہ ڈھونڈ لے گا“۔ تاہم ایک سال بعد ہی انونو کو اس وقت مستعفی ہونا پڑا جب بجٹ پر رائے شماری کے دوران بحرانی صورت حال پیدا ہو گئی۔

اوزال کی موت کے بعد نو سالوں میں آٹھ حکومتیں تبدیل ہوئیں، اور ایک پوسٹ ماڈرن فوجی بغاوت ہوئی۔ ان حکومتوں میں سے سات مخلوط تھیں۔ اے کے پارٹی کے برسراقتدار آنے پر اس انتشار کا خاتمہ ہو گیا اور ملک کو استحکام نصیب ہوا۔ تاہم یکم مارچ کی فوجی یادداشت کو ترک پارلیمنٹ نے رد کر دیا تو امریکا کے ساتھ تعلقات پھر کشیدہ ہو گئے۔

اور بلند ایجوت پر کیا گزری؟ قبرص میں مداخلت کے جواب میں اسلحے کی امریکی پابندیوں کے باوجود اس کی مقبولیت عروج پر تھی اور اس نے استعفیٰ دے کر جلد الیکشن کروانا چاہے تاکہ بھاری اکثریت سے مضبوط حکومت بنا سکیں۔ لیکن دو سو دن تک کوئی حکومت ہی تشکیل نہ دی جا سکی۔کیا ہمیں اس وقت بننے والے مخلوط اتحاد یاد نہیں؟ یا انتہائی دائیں بازو کی کشمکش اور جھڑپیں یاد نہیں؟ اور پھر اس کے فوراً بعد ۱۹۸۰ء میں فوج نے حکومت کا تختہ ہی الٹ دیا۔ جب فوجی آمر کینان ایورن اور اس کے گروہ نے ملک پر تسلط قائم کر لیا، تو کیا یہ رپورٹیں بار بار نہیں آتی رہی تھیں کہ ایک سی آئی اے ایجنٹ نے امریکی صدر جمی کارٹر کو خوشی سے بتایا کہ ”ہمارے جوان جیت گئے ہیں“؟

طورغت اوزال ۱۹۸۳ میں برسراقتدار آئے۔ انہوں نے ترکی کو ترقی دینی شروع کی، اور ساتھ ہی کرد مسئلے کے حل کی کوشش شروع کر دی۔ عین انہی دنوں وہ ایک پراسرار اور مشکوک ہارٹ اٹیک سے وفات پا گئے۔ بعد ازاں یہ انکشاف ہوا کہ فوجی افسر مصطفیٰ سارسلماز اس وقت گلہانی ملٹری میڈیکل اکیڈمی میں حفاظت پر مامور تھا اور اس کے گلین کی تنظیم کے ساتھ گہرے روابط تھے اور اوزال کی موت کو گلین تنظیم کے اٹھائے ہوئے ارگینیکان کے سازشی بھد نامے سے جوڑنے کی کوشش بھی کی گئی۔ کیا اس انکشاف نے ان شکوک کو دوبارہ زندہ نہیں کر دیا جو اس زمانے میں ظاہر کیے گئے تھے؟

اوزال کی موت کے بعد نو سالوں میں آٹھ حکومتیں تبدیل ہوئیں، اور ایک پوسٹ ماڈرن فوجی بغاوت ہوئی۔ ان حکومتوں میں سے سات مخلوط تھیں۔ اے کے پارٹی کے برسراقتدار آنے پر اس انتشار کا خاتمہ ہو گیا اور ملک کو استحکام نصیب ہوا۔ تاہم یکم مارچ کی فوجی یادداشت کو ترک پارلیمنٹ نے رد کر دیا تو امریکا کے ساتھ تعلقات پھر کشیدہ ہو گئے۔ تب ایسے لوگ تھے جو امریکا سے عدم اتفاق کی وجہ سے ترکی کو نیٹو سے باہر دیکھنا چاہتے تھے اور اس کے قابل اعتبار ہونے پر سوال اٹھاتے تھے۔ شامی خانہ جنگی کی طرز پر عالمی میڈیا میں ترکی کے خلاف ایک طوفان برپا کر دیا گیا۔ ارگینیکان اور بیلاز کے اسکینڈلوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ اگر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یکم مارچ کی یادداشت اور گلین تنظیم کے انتقام نے ان دو اسکینڈلوں کے ذریعے فوج میں جو تبدیلیاں کیں، ان کی حیثیت فوج کی تشکیل نو کر کے اسے مکمل طور پر امریکی مفادات کے تابع کرنا تھا۔

بالفاظ دیگر، امریکا کو اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ ترکی میں فرمانروا حکومت بائیں بازو کی ہے یا دائیں بازو کی، مذہبی ہے یا سیکولر، بلکہ جس نے بھی اس کے مفادات کی خدمت بجا لانے سے انکار کیا، اس کا انجام ایک ہی ہوا۔ ترکی میں امریکی مداخلت کا یہ پہلا موقع نہیں ہے، بلکہ یہ پہلا موقع ہے کہ وہ ایسا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اب تیز دھار خنجر نمودار ہو چکا ہے، اور ہمیں اپنی قومی یکجہتی باقی رکھنا ہو گی، کیونکہ سالہا سال کے بعد ظاہر ہونے والی یہی قومی یکجہتی ہے جس نے ہمیں اس خنجر پر گرنے سے بچا لیا ہے۔


متعلقہ خبریں


امریکا مجھے بے دخل نہیں کرے گا! فتح اللہ گولن کا امریکا پر اظہاراعتماد وجود - پیر 22 اگست 2016

ترکی میں فوج کی ناکام بغاوت کے بعد اب یہ بات ہرگزرتے دن پایہ ثبوت کو پہنچ رہی ہے کہ اس کی پشت پر فتح اللہ گولن اور امریکا کی مشترکہ منصوبہ بندی موجود تھی۔ اس تاثر کو مضبوط کرنے میں خود فتح اللہ گولن کے بیانات نے بھی خاصا کردار ادا کیا ہے۔ اب فتح اللہ گولن نے العربیہ نیوز چینل سے ...

امریکا مجھے بے دخل نہیں کرے گا! فتح اللہ گولن کا امریکا پر اظہاراعتماد

ترکی میں ناکام انقلاب : امریکا اور روس میں براہ راست ٹکراؤ کے امکانات محمد انیس الرحمٰن - منگل 16 اگست 2016

ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...

ترکی میں ناکام انقلاب : امریکا اور روس میں براہ راست ٹکراؤ کے امکانات

ترکی بغاوت امریکا اور سعودی عرب کی ملی بھگت سے ہوئی: جولین اسانج وجود - منگل 09 اگست 2016

وکی لیکس کے بانی جولین اسانج نے امریکی سابق وزیر خارجہ اور موجودہ صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن پر الزام لگایا ہے کہ وہ سعودی عرب کی ملی بھگت کے ساتھ ترکی میں میں بغاوت کی کوشش کر رہی تھیں، جو ناکام بنا دی گئی۔ سابق امریکی وزیر خارجہ کے امریکا میں مقیم ترک رہنما فتح اللہ گولن کے...

ترکی بغاوت امریکا اور سعودی عرب کی ملی بھگت سے ہوئی: جولین اسانج

جمہور کی طاقت کا عظیم مظاہرہ، استنبول میں 10 لاکھ افراد کا سمندر وجود - پیر 08 اگست 2016

ترکی میں 15 جولائی کی فوجی بغاوت سے لے کر اب تک ہر رات عوام سڑکوں پر بیٹھ کر جمہوریت کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے رہے اور اب 10 لاکھ سے زیادہ افراد نے طاقت کے ایک عظیم الشان مظاہرے کے ساتھ اپنا فرض مکمل کردیا ہے۔ 15 جولائی کی شب ہونے والی بغاوت کے دوران 270 لوگ مارے گئے تھے لیکن ...

جمہور کی طاقت کا عظیم مظاہرہ، استنبول میں 10 لاکھ افراد کا سمندر

ترک بغاوت اور ہماری تعبیرات محمد دین جوہر - بدھ 03 اگست 2016

ترکی میں ۱۵؍ جولائی کو ہونے والی ناکام فوجی بغاوت داخلی، علاقائی اور عالمی تناظر میں ایک انتہائی اہم واقعہ ہے۔ جس طرح ہارٹ اٹیک کے بعد آدمی کا طرز زندگی، معمولات، میل جول، محلے داری سب کچھ اچانک بدل جاتا ہے، اسی طرح اس واقعے کا اثر پورے ترک معاشرے اور ریاست پر بہت گہرا ہوا ہے۔ اگ...

ترک بغاوت اور ہماری تعبیرات

ترکی کی ناکام بغاوت کے اسباب محمد اقبال دیوان - منگل 02 اگست 2016

جس طرح ہمارے کچھ وزراء صاحبان ترکی کی ناکام فوجی بغاوت پر اپنے علاوہ سب کی بغلیں بجاتے ہوئے پائے گئے تھے ویسا ہی معاملہ ہمارے کسی عزیز کا بھی ہوا ۔وزیر تو بے چارے اپنے حاکم عالی مرتبت کے ہاتھوں مجبور ہیں، دکھانے کے لیے اپنے ہی منھ پر طمانچے مار کر گال لال رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں ...

ترکی کی ناکام بغاوت کے اسباب

رجب طیب اردوغان کی نظم جسے سن کر عوام آبدیدہ وجود - پیر 01 اگست 2016

ترک صدر رجب طیب اردوغان ترک عوام کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ جس قوم کے افراد اس رہنما کے لیے ٹینکوں کے آگے لیٹ جائیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ان سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے تقریر کے دوران شہدا کی یاد میں ایک خوبصورت ن...

رجب طیب اردوغان کی نظم جسے سن کر عوام آبدیدہ

مغربی ممالک اپنے کام سے کام رکھیں، طیب اردوغان وجود - هفته 30 جولائی 2016

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے ملک میں ناکام بغاوت کے بعد مغربی رہنماؤں کی جانب سے انقرہ کے ساتھ اظہار یکجہتی نہ کرنے پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملک جنہیں ترکی میں جمہوریت کے بجائے باغیوں کی فکر کھائے جا رہی ہے، ہر گز ترکی کے دوست نہیں ہو سکتے۔ انقرہ کے صدارتی محل م...

مغربی ممالک اپنے کام سے کام رکھیں، طیب اردوغان

ناکام بغاوت وجود - جمعه 29 جولائی 2016

یہ ایک اوسط درجے سے بھی کم ذہانت کا مظاہرہ ہے کہ یہ سوال بھی اُٹھایا جائے کہ بغاوت تو فوج نے کی اور سزا ججوں کو کیوں دی جارہی ہے۔ اول تو کسی بھی بغاوت سے پہلے اُس کے معمار اسی پر غور کرتے ہیں کہ بغاوت کے بعد خود کو قانونی شکنجے سے بچانے اور آئینی خرخرے سے سنبھالنے کا طریقہ کیا ہو...

ناکام بغاوت

فتح اللہ گولن سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں: روس وجود - جمعه 29 جولائی 2016

ترکی میں ناکام بغاوت کے منصوبہ ساز فتح اللہ گولن امریکا کی سینٹرل انٹیلی جینس ایجنسی (سی آئی اے) کے لیے کام کرچکے ہیں، یہ بات روس کی دوما کےنمائندے اور اس کی تعلیمی کونسل کے سربراہ ویاکیسلاف نکونوف نے بتائی ہے۔ سرکاری ٹیلی وژن پر جاری ہونے والی ایک تقریر میں نکونوف نے کہا کہ "گول...

فتح اللہ گولن سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں: روس

ترکی کی قبل از وقت بغاوت وجود - پیر 25 جولائی 2016

امریکا کی کامیابی یہ نہیں کہ وہ دنیا کے حالات پر گرفت رکھتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ ان حالات کی جس طرح چاہے تفہیم پیدا کرانے میں کامیاب رہتا ہے۔ ترک بغاوت پر جتنے پراگندہ خیال و حال پاکستان میں پیدا ہوئے، اُتنے خود ترکی میں بھی دکھائی نہیں پڑتے۔ مگر امریکا کے لیے تقدیر ن...

ترکی کی قبل از وقت بغاوت

فتح اللہ گولن کے تمام ادارے بند کے جائیں، ترک حکومت کی پاکستان سے درخواست! وجود - هفته 23 جولائی 2016

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کےبعد ترک حکومت نے نہایت سنجیدگی سے بغاوت کے محرکین کے خلاف ٹھوس کارروائیوں کا سلسلہ جاری کررکھا ہے۔ ترک حکومت نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ترکی کی حالیہ ناکام بغاوت میں فتح اللہ گولن کا مرکزی کردار تھا۔ اور اس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ اس ضمن میں ترک حکوم...

فتح اللہ گولن کے تمام ادارے بند کے جائیں، ترک حکومت کی پاکستان سے درخواست!

مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر