وجود

... loading ...

وجود
وجود

ترک بغاوت اور ہماری تعبیرات

بدھ 03 اگست 2016 ترک بغاوت اور ہماری تعبیرات

pak-turkey

ترکی میں ۱۵؍ جولائی کو ہونے والی ناکام فوجی بغاوت داخلی، علاقائی اور عالمی تناظر میں ایک انتہائی اہم واقعہ ہے۔ جس طرح ہارٹ اٹیک کے بعد آدمی کا طرز زندگی، معمولات، میل جول، محلے داری سب کچھ اچانک بدل جاتا ہے، اسی طرح اس واقعے کا اثر پورے ترک معاشرے اور ریاست پر بہت گہرا ہوا ہے۔ اگر ہارٹ اٹیک کے جلو میں کابوس بھی چلا آتا ہو، تو جسم و جاں کے احوال کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ہارٹ اٹیک تو اندر کا معاملہ ہے لیکن کابوس کہیں باہر سے آتے ہیں۔ اس وقت ترک معاشرہ داخلی حملے اور مغربی کابوس سے نمٹنے کے عمل میں ہے۔ ترکی کی سالمیت کو ختم کرنے اور ترک معاشرے کو ادھیڑنے کی جنگ کے اس پہلے مرحلے کے نتائج کیا ہوں گے، ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن ابتدائی ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوری ترک قوم کو اس واقعے کی سنگینی اور اس کے بھیانک مضمرات کا نہ صرف بخوبی اندازہ ہے بلکہ وہ اس سے نمٹنے کے لیے مطلوبہ قومی عمل بھی سامنے لا رہی ہے۔

ہمارے ہاں بھی اس اہم سیاسی واقعے پر مختلف رد عمل اور اس کی کئی تعبیرات سامنے آئیں۔ یہ ردعمل اور تعبیرات اس واقعے کی جانکاری اور تفہیم کے حوالے سے عموماً غیر اہم تھے۔ انہوں نے واقعے کے بارے میں کم اور ہمارے اپنے قومی ذہن کے بارے میں زیادہ آگہی فراہم کی۔ اس سے نہ صرف یہ اندازہ لگانا آسان ہو گیا کہ ہم دنیا کو کیسے دیکھتے ہیں، بلکہ یہ بھی کہ ہم خود کیا ہیں۔ سیاسی ادراک چونکہ معاشروں کے اجتماعی عمل کی بنیاد ہے، اس لیے یہ براہ راست قومی سلامتی اور بقا سے جڑا ہوا ہے۔ میڈیا بھی اسی لیے اہم ہے کہ یہ کسی بھی معاشرے کے سیاسی ادراک پر اثرانداز ہونے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر قوموں کے سیاسی ادراک کو کمزور کر دیا جائے تو غالب قوتوں کے لیے ان پر اثرانداز ہونا آسان ہو جاتا ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے میڈیا میں ظاہر ہونے والا سیاسی ادراک نہ صرف منقسم اور منتشر ہے بلکہ وہ عصری دنیا کو معروف فکری شرائط پر دیکھنے کی استعداد نہیں رکھتا اور یہ امر صحت سیاسی عمل کا معاون نہیں۔

”غلبے کی صورت حال“ سے مراد یہ ہے کہ مسلم دنیا کی سب سے بڑی ہم عصر سیاسی حقیقت مغرب کا مکمل اور ہمہ جہتی غلبہ ہے۔ اور مسلمانوں کی علاقائی اور عالمی سیاسی صورت حال کا کوئی تجزیہ اس حقیقت کو بنیادی حوالہ بنائے بغیر بدترین درجے کی بددیانتی ہے۔

اس اہم سیاسی واقعے کو ہمارے ہاں جو میڈیا کوریج ملی، اس میں دو چیزیں بہت اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہمارے تجزیہ نگاروں میں اہلِ معلومات تو بہت ہیں، لیکن صاحبِ مطالعہ یا صاحب علم لوگ اب خال خال ہیں، جو ان معلومات کو کسی تاریخی تناظر میں رہتے ہوئے سیاسی معنی دے سکیں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ ماضی قریب تک کم از کم ہمارے پرنٹ میڈیا میں صاحبِ علم صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کی موجودگی کا سراغ ملتا ہے۔ تجزیے کا بنیادی مقصد کسی ”سیاسی صورت حال“ پر ایک تناظر میں رہتے ہوئے رائے قائم کرنا ہوتا ہے، جس کی معلومات پہلے ہی قارئین یا ناظرین تک پہنچ چکی ہوتی ہیں۔ تجزیہ ان معلومات کی تناظری نسبتوں کو واضح کر دیتا ہے۔ تجزیوں میں شخصیات کو ”سیاسی صورت حال“ کے ضمن میں زیربحث لایا جاتا ہے۔ شخصیات پر فرقہ وارانہ دم کرتے رہنے سے یا ان کے بارے میں اپنے تعصبات وغیرہ کا اظہار کرنے سے یا ان کو وعظ نصحیت کرنے سے تجزیہ جذبے کو تحریک تو دیتا ہے لیکن ذہن تک رسائی نہیں پاتا جو اس کی اصل منزل ہوتی ہے۔ سادہ لفظوں میں سیاسی تجزیہ طاقت کے نظام کو سامنے لائے بغیر ایک بے معنی بلکہ مضر سرگرمی ہے اور معاشرے کے سیاسی ادراک کے لیے مہلک ہے۔

ہمارے رد عمل اور تجزیوں کا دوسرا پہلو زیادہ اہم ہے اور جو ہمارے قومی ذہن کی مجموعی حالتِ انکار کو ظاہر کرتا ہے۔ ہمارے ہاں اس ناکام فوجی بغاوت کے تجزیوں میں اسے ایک معروضی سیاسی واقعے کے طور پر ہی تسلیم نہیں کیا گیا۔ اس واقعے کو پاکستان کی داخلی صورتحال کے تناظر میں زیربحث لا کر اسے پہلے سے طے شدہ نتائج کے تابع رکھا گیا۔ یا کسی نجی تجربے کو بنیاد بنا کر اس کی تعبیر کی گئی۔ اس بے معنی اپروچ سے نہایت پوچ اور بودے نتائج اخذ کر کے قارئین کا دل بہلانے کی کوشش کی گئی۔ ہم نے یہ قطعاً فراموش کر دیا کہ ترکی کے داخلی اور علاقائی حالات پاکستانی قومی صورتحال سے یکسر مختلف ہیں، اور اس واقعے کی تفہیم پاکستانی داخلی حالات کے تناظر میں ممکن نہیں۔ سیاسی حالات و واقعات اور ان میں جہد آزما شخصیات کے مابین مماثلتیں تلاش کرتے رہنے سے سیاسی ادراک اور تاریخی بصیرت ہی کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ”تصویر“ امتیازات پیدا کرنے اور ان کو واضح رکھنے سے بنتی ہے۔ اگر تصویر میں ایک ہی رنگ ہو تو وہ تصویر نہیں رہتی۔ سیاسی حالات کا فکری تجزیہ بھی اسی طرح کی سرگرمی ہے۔

ہمارے ہاں لبرل اور سیکولر طبقے نے اس واقعے کو بہت ہی معمولی اہمیت دی، اور ان پر خاصی اداسی چھائی رہی۔ اداسی کے اثر کی وجہ سے ان کے تجزیے بھی روکھے پھیکے ہی رہے، جن کا مقصد اس واقعے کی سنگینی کو اجاگر کرنا نہیں تھا، بلکہ اسے ایک غیراہم واقعہ ثابت کرنا تھا۔ خیر ہمیں ان اصحابِ علم اور اعلیٰ اخلاقیات کے حاملین سے کوئی توقع بھی نہیں تھی، کیونکہ ان کی ترتیب ہستی میں یہ ایک غیراہم واقعہ ہی تھا۔ ان کا تو یہی مطالبہ ہوتا ہے کہ دیکھو بھئی ہمارے ہوتے ہوئے انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہونی چاہیے، قانون کی پاسداری ہونی چاہیے، مغربی اقدار کی بالا دستی ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ صاف ظاہر ہے یہ ناکام فوجی بغاوت ان اصولوں سے کہیں فروتر تھی۔ جب قاتلوں اور باغیوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو ان کا ”اصولی اور انسانی“ موقف بڑی شد و مد سے سامنے آنا شروع ہوا۔ ان کے خیال میں حقوق صرف ان لوگوں کے ہوتے ہیں جن کی مغرب سے نسبتیں دوٹوک اور واضح ہوں۔ اور بچارے ترک عوام تو یہ شرط پوری نہیں کرتے، ہاں مغرب کے تنخواہ دار باغی ان اعلیٰ انسانی خواص کے مالک اور حقوق کے سزاوار ضرور ہیں۔

جہاں تک مارکسسٹوں کا تعلق ہے، اہل مغرب کی طرح ان کی خوشی بھی ادھوری ہی رہ گئی اور ان کی بڑی امیدیں ٹوٹ گئیں۔ یہ بات تو اندھوں کو بھی سجھائی دیتی ہے کہ ترک عوام اور ان کے رہنما نے عین اسی استعماری اور سرمایہ داری نظام کے خلاف مزاحمت کی ہے جس کے خلاف یہ لوگ دن رات شمشیر برہنہ رہتے ہیں۔ ہمارے مارکسسٹ دوستوں کا تاریخی شعور ہم سے کہیں گہرا ہے، اور جدید دنیا میں سیاسی عمل کو وہ تاریخ کے جس جدلیاتی تناظر میں دیکھتے ہیں، اس میں رہتے ہوئے ترک فوجی بغاوت کی اس کے علاوہ کوئی اور تعبیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر وہ اس کے علاوہ کوئی اور تعبیر کرتے ہیں وہ یقیناً جھوٹ بول رہے ہیں اور بددیانتی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ لیکن انہیں بغاوت ناکام ہونے کا بڑا رنج ہوا ہے۔ اس بدحواسی میں ان کا طبقاتی شعور کہیں سٹک گیا، یعنی ان کی عقل گھاس چرنے جا نکلی، اور جدلیاتی تاریخی تناظر کی عینک بھی کہیں کھو گئی۔ انہیں سجھائی دینا اور دکھائی دینا بیک آن موقوف ہو گیا۔ یہاں دراصل مسئلہ اور ہے جس کا ذکر ضروری ہے۔ مارکسسٹ مغربی تہذیب سے اپنی وجودی عینیت کے باعث سرمایہ داری نظام کو تو قبول کر سکتے ہیں لیکن وہ اسلام کو کسی طرح کی سیاسی یا تہذیبی گنجائش دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے ترکی کے معاملے میں ان کا موقف ہمارے نزدیک لغویات اور ہفوات کا مجموعہ بن گیا، بھلے وہ دانشوری بگھارتے ہی رہیں۔ مارکسسٹ سیاسی تناظر میں طبقاتی جدوجہد محض ایک تعصب کا اظہار بن جاتی ہے، اگر کسی تاریخی واقعے کی اسلام سے نسبتیں بالکل سامنے کی چیز ہوں۔ ہم ہیوگو شاویز کے بڑے قدردان رہے ہیں، اور جب ہمارے مارکسسٹ اس کے لیے نعرے بلند کرتے تھے تو ہم بھائی چارے میں ان کے لیے سبیلیں تو لگا ہی دیتے تھے۔ لیکن اس بار ان کی بینائی کا مسئلہ زیادہ سنگین رہا، اور قریب کی چیزیں دکھائی دینا چھوڑ گئیں، اور لاطینی امریکا ان کو گھر کے پچھواڑے میں دکھائی دیتا رہا۔ ان کی نام نہاد فکری صلابت اور عوام دوستی اس واقعے سے بالکل عیاں ہو گئی۔ فکری تفصیلات طے کیے بغیر، طبقاتی وژن کو مذہب کے خلاف استعمال کرنا محض تعصب کا اظہار ہے اور تاریخ سے حالتِ انکار کا ایسا معاملہ ہے جس سے جدلیاتی ادراک بھی انہیں باہر نہیں لا سکتا۔

چند ایک کے علاوہ، ہمارے ہاں دائیں بازو کے مذہبی اور غیر مذہبی دانشوروں نے اردوگان کے خلاف پوزیشن لی ہے، اور جو آوازیں اس کے حق میں ہیں وہ ہم جیسے عام لوگوں کی ہیں۔ اب اس طبقے اور گروہ سے کسی فکری تجزیے کی توقع تو نہیں رکھی جا سکتی کیونکہ یہاں عقل سے زیادہ نقل کو اولیت حاصل ہے۔ ان کی نگاہ عاجزانہ اور دعائیہ انداز میں مغربی میڈیا پر جمی رہتی ہے۔ وہاں کا موقف ان کے لیے الہام اور دیدۂ بینا کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب چونکہ پورا مغرب اور اس کا گماشتہ میڈیا اردوگان کی ”آمریت“ کی خلاف یک آواز ہے، تو ظاہر ہے کہ ہمارے دائیں بازو کے دانشوروں کے نزدیک بھی ”آمریت“ کا مسئلہ ہی اہم ہو گا۔ مغربی میڈیا کے تتبع میں انہوں نے بھی ”آمریت“ کے خلاف وعظ کرنا شروع کیا جیسا کہ الحمد للہ ضیا الحق اور مشرف کے دور میں ان کی ”آمریت دشمنی“ سامنے آ چکی ہے۔ چونکہ مغرب کا موقف ”اصولی“ ہے، تو صاف ظاہر ہے کہ ان کا موقف بھی عین ”اصولی“ ہی ہو گا۔ اس کے علاوہ بھلا کیا ہو سکتا ہے؟ اور یہ اس وقت تک اصولی ہے جب تک ادھر بھی اصولی ہے۔ یہ سارے اصولی ایک ساتھ طلوع ہوتے ہیں، اور ایک ساتھ غائب ہوتے ہیں۔

اردوگان کی ”آمریت“ دراصل ان کا اپنا موقف نہیں ہے کیونکہ جمہوریت کے لیے ہم ان کی عظیم الشان خدمات سے بخوبی واقف ہیں۔ مسلم دنیا میں ”آمریت“ کے خاتمے کے لیے یہ حضرات دانشور دراصل مغرب کے ساتھ ہیں، کیونکہ ”آمریت“ کے خاتمے کی اصل خدمات تو مغربی دنیا ہی کی ہیں، اور یہ صرف توجہ دلانے کے لیے ہیں۔ مثلاً مغربی دنیا نے افغانستان میں ملا عمر کی ”آمریت“ کا خاتمہ کیا، جیسا کہ مصر میں مورسی کی ”آمریت“ کا خاتمہ کیا، لیبیا میں قذافی کی ”آمریت“ کا خاتمہ کیا، الجرائر میں ”آمریت“ کو روکنے کے لیے خون خرابا کرایا اور عراق میں صدام کی ”آمریت“ کا خاتمہ کیا۔ الحمد للہ اب افغانستان، مصر، لیبیا، الجزائر اور عراق وغیرہ میں جمہوریت کا دور دورہ ہے، اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جمہوریت کی یہ خونیں بہار ہمارے دائیں بازو کے اصولی موقف ہی کو آگے بڑھاتی ہے۔ اب یہ تلے ہوئے ہیں کہ ترکی میں ”آمریت“ کا خاتمہ کر کے ہی دم لیں گے۔ اللہ ہمیں ان سے محفوظ رکھے۔

ضمناً عرض ہے کہ ہم سے بھی یہ سوال کیا گیا ہے کہ دنیا کو دیکھنے کا ہمارا تناظر کیا ہے؟ ہمارا جواب بہت سادہ ہے۔ دنیا کو دیکھنے کا ہمارا تناظر سیاسی ہے۔ ہمارے نزدیک تجزیے کا مطلب سیاسی طاقت کے واقعاتی نظام اور اس کی امکانی حرکیات کا تجزیہ ہے، جس میں طاقت کو ایک لمحے کے لیے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے نزدیک مسلم دنیا کی سب سے بنیادی اور مرکزی سیاسی حقیقت غلبے کی صورتحال ہے۔ ”غلبے کی صورت حال“ سے مراد یہ ہے کہ مسلم دنیا کی سب سے بڑی ہم عصر سیاسی حقیقت مغرب کا مکمل اور ہمہ جہتی غلبہ ہے۔ اور مسلمانوں کی علاقائی اور عالمی سیاسی صورت حال کا کوئی تجزیہ اس حقیقت کو بنیادی حوالہ بنائے بغیر بدترین درجے کی بددیانتی ہے۔ ہاں اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ایسی بات نہیں ہے، یعنی مسلم دنیا مغرب کے غلبے سے آزاد ہے، تو پھر ہماری بات غیراہم بلکہ غلط ہے۔

ہمارے نزدیک اسلام اور سیکولرازم کی بحث کا بنیادی تناظر یہی ”غلبے کی صورت حال“ ہے، جمہوریت اور عسکریت کی گفتگو کا بنیادی تناظر یہی ہے، ترقی اور پسماندگی کا بنیادی تناظر یہی ہے، جبر و استحصال اور امن و عدل کا بنیادی تناظر یہی ہے۔ مسلم دنیا اپنے ہونے سے جس بنیادی ترین سیاسی حقیقت کی مظہر ہے وہ یہی ”غلبے کی صورت حال“ ہے، اور کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک اس ”غلبے کی صورتحال“ سے حالت انکار میں رہ کر نہ کوئی سیاسی تجزیہ کیا جا سکتا ہے، نہ وہ درست ہو سکتا ہے، نہ وہ دیانتدارانہ ہے، اور نہ وہ انسانی ہو سکتا ہے۔ اگر مسلم ذہن کوئی سیاسی ادراک رکھتا ہے تو اس ادراک کا جزوِ اول یہی ہے۔ سیاسی تجزیے کی اول ذمہ داری اس غلبے کو ایڈریس کرنا ہے۔ اگر اس ”غلبے کی صورت حال“ کی یاد دہانی کے لیے بھی کسی سیاسی تجزیے کی ضرورت ہے، تو ہمارے نزدیک وہ ذہن سیاسی ادراک سے نہ صرف خالی ہے بلکہ وہ کسی سیاسی تجزیے کا مخاطب بھی نہیں ہے۔


متعلقہ خبریں


امریکا مجھے بے دخل نہیں کرے گا! فتح اللہ گولن کا امریکا پر اظہاراعتماد وجود - پیر 22 اگست 2016

ترکی میں فوج کی ناکام بغاوت کے بعد اب یہ بات ہرگزرتے دن پایہ ثبوت کو پہنچ رہی ہے کہ اس کی پشت پر فتح اللہ گولن اور امریکا کی مشترکہ منصوبہ بندی موجود تھی۔ اس تاثر کو مضبوط کرنے میں خود فتح اللہ گولن کے بیانات نے بھی خاصا کردار ادا کیا ہے۔ اب فتح اللہ گولن نے العربیہ نیوز چینل سے ...

امریکا مجھے بے دخل نہیں کرے گا! فتح اللہ گولن کا امریکا پر اظہاراعتماد

ترکی میں ناکام انقلاب : امریکا اور روس میں براہ راست ٹکراؤ کے امکانات محمد انیس الرحمٰن - منگل 16 اگست 2016

ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...

ترکی میں ناکام انقلاب : امریکا اور روس میں براہ راست ٹکراؤ کے امکانات

تمہارے جوان، اب کے نہ جیت پائے! محمد دین جوہر - جمعرات 11 اگست 2016

مروہ شبنم اروش ترجمہ: محمد دین جوہر تمہید [ترکی کی ناکام فوجی بغاوت پر ہمارے ہاں تبصرے اور اظہار خیال ابھی جاری ہے۔ ہم نے وجود ڈاٹ کام پر شائع ہونے والے اپنے ایک گزشتہ مضمون میں قومی میڈیا کے ”تجزیاتی رویوں“ کا ایک مختصر جائزہ لینے کی کوشش کی تھی۔ لبرل، سیکولر اور مارکسی تجز...

تمہارے جوان، اب کے نہ جیت پائے!

ترکی بغاوت امریکا اور سعودی عرب کی ملی بھگت سے ہوئی: جولین اسانج وجود - منگل 09 اگست 2016

وکی لیکس کے بانی جولین اسانج نے امریکی سابق وزیر خارجہ اور موجودہ صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن پر الزام لگایا ہے کہ وہ سعودی عرب کی ملی بھگت کے ساتھ ترکی میں میں بغاوت کی کوشش کر رہی تھیں، جو ناکام بنا دی گئی۔ سابق امریکی وزیر خارجہ کے امریکا میں مقیم ترک رہنما فتح اللہ گولن کے...

ترکی بغاوت امریکا اور سعودی عرب کی ملی بھگت سے ہوئی: جولین اسانج

جمہور کی طاقت کا عظیم مظاہرہ، استنبول میں 10 لاکھ افراد کا سمندر وجود - پیر 08 اگست 2016

ترکی میں 15 جولائی کی فوجی بغاوت سے لے کر اب تک ہر رات عوام سڑکوں پر بیٹھ کر جمہوریت کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے رہے اور اب 10 لاکھ سے زیادہ افراد نے طاقت کے ایک عظیم الشان مظاہرے کے ساتھ اپنا فرض مکمل کردیا ہے۔ 15 جولائی کی شب ہونے والی بغاوت کے دوران 270 لوگ مارے گئے تھے لیکن ...

جمہور کی طاقت کا عظیم مظاہرہ، استنبول میں 10 لاکھ افراد کا سمندر

ترکی کی ناکام بغاوت کے اسباب محمد اقبال دیوان - منگل 02 اگست 2016

جس طرح ہمارے کچھ وزراء صاحبان ترکی کی ناکام فوجی بغاوت پر اپنے علاوہ سب کی بغلیں بجاتے ہوئے پائے گئے تھے ویسا ہی معاملہ ہمارے کسی عزیز کا بھی ہوا ۔وزیر تو بے چارے اپنے حاکم عالی مرتبت کے ہاتھوں مجبور ہیں، دکھانے کے لیے اپنے ہی منھ پر طمانچے مار کر گال لال رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں ...

ترکی کی ناکام بغاوت کے اسباب

رجب طیب اردوغان کی نظم جسے سن کر عوام آبدیدہ وجود - پیر 01 اگست 2016

ترک صدر رجب طیب اردوغان ترک عوام کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ جس قوم کے افراد اس رہنما کے لیے ٹینکوں کے آگے لیٹ جائیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ان سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے تقریر کے دوران شہدا کی یاد میں ایک خوبصورت ن...

رجب طیب اردوغان کی نظم جسے سن کر عوام آبدیدہ

مغربی ممالک اپنے کام سے کام رکھیں، طیب اردوغان وجود - هفته 30 جولائی 2016

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے ملک میں ناکام بغاوت کے بعد مغربی رہنماؤں کی جانب سے انقرہ کے ساتھ اظہار یکجہتی نہ کرنے پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملک جنہیں ترکی میں جمہوریت کے بجائے باغیوں کی فکر کھائے جا رہی ہے، ہر گز ترکی کے دوست نہیں ہو سکتے۔ انقرہ کے صدارتی محل م...

مغربی ممالک اپنے کام سے کام رکھیں، طیب اردوغان

ناکام بغاوت وجود - جمعه 29 جولائی 2016

یہ ایک اوسط درجے سے بھی کم ذہانت کا مظاہرہ ہے کہ یہ سوال بھی اُٹھایا جائے کہ بغاوت تو فوج نے کی اور سزا ججوں کو کیوں دی جارہی ہے۔ اول تو کسی بھی بغاوت سے پہلے اُس کے معمار اسی پر غور کرتے ہیں کہ بغاوت کے بعد خود کو قانونی شکنجے سے بچانے اور آئینی خرخرے سے سنبھالنے کا طریقہ کیا ہو...

ناکام بغاوت

فتح اللہ گولن سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں: روس وجود - جمعه 29 جولائی 2016

ترکی میں ناکام بغاوت کے منصوبہ ساز فتح اللہ گولن امریکا کی سینٹرل انٹیلی جینس ایجنسی (سی آئی اے) کے لیے کام کرچکے ہیں، یہ بات روس کی دوما کےنمائندے اور اس کی تعلیمی کونسل کے سربراہ ویاکیسلاف نکونوف نے بتائی ہے۔ سرکاری ٹیلی وژن پر جاری ہونے والی ایک تقریر میں نکونوف نے کہا کہ "گول...

فتح اللہ گولن سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں: روس

ترکی کی قبل از وقت بغاوت وجود - پیر 25 جولائی 2016

امریکا کی کامیابی یہ نہیں کہ وہ دنیا کے حالات پر گرفت رکھتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ ان حالات کی جس طرح چاہے تفہیم پیدا کرانے میں کامیاب رہتا ہے۔ ترک بغاوت پر جتنے پراگندہ خیال و حال پاکستان میں پیدا ہوئے، اُتنے خود ترکی میں بھی دکھائی نہیں پڑتے۔ مگر امریکا کے لیے تقدیر ن...

ترکی کی قبل از وقت بغاوت

فتح اللہ گولن کے تمام ادارے بند کے جائیں، ترک حکومت کی پاکستان سے درخواست! وجود - هفته 23 جولائی 2016

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کےبعد ترک حکومت نے نہایت سنجیدگی سے بغاوت کے محرکین کے خلاف ٹھوس کارروائیوں کا سلسلہ جاری کررکھا ہے۔ ترک حکومت نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ترکی کی حالیہ ناکام بغاوت میں فتح اللہ گولن کا مرکزی کردار تھا۔ اور اس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ اس ضمن میں ترک حکوم...

فتح اللہ گولن کے تمام ادارے بند کے جائیں، ترک حکومت کی پاکستان سے درخواست!

مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر