وجود

... loading ...

وجود
وجود

اسلام مکمل ضابطہِ حیات ہی ہے

جمعرات 14 اپریل 2016 اسلام مکمل ضابطہِ حیات ہی ہے

کل جناب آصف محمود صاحب کا ایک کالم پڑھا جس میں آپ ‘اسلام ایک ضابطہ حیات ہے’ کی نفی کرتے ہوئے اپنی رائے قائم کرتے ہیں، زیادہ تفصیل ضروری نہیں لیکن جس استدلال پر وہ کھڑے ہوتے ہیں سردست وہ قابل غور ہے- آصف محمود صاحب دانشور اینکر پرسن بھی ہیں اور ایڈووکیٹ بھی، اب معلوم نہیں وہ پہلے دانشور اور اینکرپرسن ہیں یا ایڈووکیٹ لیکن چیزوں کو فقط قانونی نظروں سے دیکھنے والے بعض اوقات بعض چیزوں کا درست ادراک نہیں کر پاتے- آپ نے ضابطہِ حیات کو قانونی نقطہِ نظر سے دیکھا اور اسے بھی ضابطہِ فوجداری اور ضابطہِ دیوانی کی طرح کی کوئی چیز سمجھ لیا اور پھر ضابطے کا حدود اربعہ متعین کرتے ہوئے کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ دو اور دو چار کی طرح کا ایک لفظ ہے جو اسلام کے ساتھ نتھی ہو جائے تو اسے محدود اور جامد تصور بنانے کا تاثر دیتا ہے، بے لچک بنا دیتا ہے جو زمانے کے ساتھ نہیں چل پاتا اور پُرانا ہو جاتا ہے، اجتہاد کا راستہ بند کر دیتا ہے، نئے راستے پیدا کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے، تقلید اور صرف تقلید محض کا تقاضا کرتا ہے، آخر پر کہتے ہیں اسلام کو اس محدود تصور میں قید نہیں کیا جا سکتا- اسلام ایک ضابطہِ حیات ہے کی نفی کے بعد آپ اسلام کا تاثر دوبارہ قائم کرتے ہوئے کہتے ہیں اسلام کوئی ضابطہ ہے اور نہ کوئی نظام، اسلام نے کچھ بنیادی اصول طے کر دئیے ہیں- یہ طے کرنے کے بعد وہ ایک پورا جہان تعمیر کر دیتے ہیں-

حالانکہ ضابطہ اس قسم کا محدود لفظ نہیں ہے جس بنیاد پر وہ اسے رد کرتے ہوئے، اسلام کی کمزوری کا اظہار سمجھنے لگے ہیں- ضابطہ اپنے اندر ایک وسعت رکھتا ہے- یہ عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم صفت ‘ضابط’ کے ساتھ ‘ہ’ لاحقۂ تانیث لگانے سے ‘ضابطہ’ بنا ہے جس کے معنی قاعدہ کے بھی ہیں، اصول کے بھی ہیں، دستورالعمل اور آئین کے بھی ہیں، یہ کلیے اور فارمولے کے معنی بھی رکھتا ہے اور اسے قانون کے معنوں میں بھی بولا جاتا ہے جس کا حوالہ بطور دلیل، ضابطہِ فوجداری کے فاضل وکیل نے دیا ہے- یہ تمام معنی مستند آن لائن ‘ اردو لغت’ میں موجود ہیں-

اسلام کس طرح انسانی زندگی کو آراستہ و پیراستہ کرتا ہے، نہ تو اسے بالکل حیوانوں اور پتنگوں کی سی آزادی دے دیتا ہے اور نہ پتھروں اور درختوں کی طرح ایک ہی زمین سے باندھ کر رکھ دیتا ہے

لہٰذا ضابطہ، قانون اور دستورالعمل کے معنی بھی رکھتا ہے جس کی بنیاد پر اسے محدود اور جامد سمجھا جا رہا ہے اور قاعدے، اصول اور کلیے کے معنی بھی دیتا ہے جس کی بنیاد پر اسے حرکی اور اجتہادی مزاج رکھنے والا سمجھا جا سکتا ہے- استدلال کی اس بنیادی غلطی کے بعد تو وہ پوری عمارت جو اٹھائی گئی ہے دھڑام سے نیچے آ گرتی ہے- لیکن بات یہیں تک ختم نہیں ہو جاتی کہ اب ہم اسلام کو ضابطہِ حیات اس لیے کہہ دیں کہ اس کے معنی اصولِ زندگی، قاعدہِ زندگی یا کلیہِ حیات کے ہیں، اور یہ خیال قائم کر لیں کہ اسلام میں کوئی اٹل قانون، حتمی احکامات کا کوئی آئین اور کوئی نہ بدلنے والا دستور سرے سے موجود ہی نہیں ہے سوائے عبادات کے طریقے کے- بدقسمتی سے یہ ‘سوفٹ سیکولرازم’ کی راہ ہموار کر دیتا ہے کہ ٹھیک ہے مذہب کو ہم ‘ریاست نکالا’ نہیں دیتے، اس کے اصول کو تسلیم کیے لیتے ہیں لیکن باقی کی تمام چیزوں کا مکمل اختیار انسانوں کو دئیے دیتے ہیں کہ جس طرح چاہیں وہ ان اصولوں پر نظام اور دستور بناتے جائیں- یہ طریقہ تو خود اللہ تعالیٰ نے پیغمبراسلام ﷺ کو بھیج کر رد کر دیا ہے، اس خدائے قادر مطلق کیلئے یہ زیادہ آسان تھا کہ یہ اصول اور قاعدے کسی پہاڑ پر نازل کر دیتا جس سے انسان بالکل ایسے ہی فیض اٹھاتے کہ ان اصولوں پر اپنے اپنے لیے دستور اور نظام استوار کرتے چلے جاتے، اور آفاقیت کا تصور بھی اس سے نہ ٹوٹتا کہ پہاڑ کروڑہا صدیوں موت سے نا آشنا رہتے ہیں، لیکن اس نے یہ ضابطہِ حیات انسان پر ہی اتارا ہے صرف اس لیے نہیں کہ وہ بانٹ دے بلکہ اس لیے بھی کہ اس کی تشریح اور وضاحت کر کے عملی نمونہ بھی پیش کر دے تاکہ انسانوں پر حجت قائم ہو جائے اسی کو ہم شریعت محمدی ﷺ کا نام دیتے ہیں-

اسلام ضابطہِ حیات ہے یہ جامع ترین ترکیب ہے جو اسے دینِ اعتدال بناتی ہے کہ نہ تو یہ محض قوانین اور احکامات کے مجموعے کا نام ہے کہ اسے ایک جامد مذہب بنا کر رکھ دیں اور نہ اس کے اندر نرے اصول ہی اصول ہیں جن کو سامنے رکھ کر انسان اپنی زندگی کے شعبوں کی بناوٹ کرتا چلا جائے- یہ ضابطہِ حیات ہے کہ اس میں احکامات و قوانین، آئین و دستور العمل بھی ہیں اور اصول، قاعدے اور کلیے بھی ہیں- اسی لیے نہ تو یہ اس قدر جامد قوانین رکھتا ہے کہ مکان و زمان کے ساتھ اپنی آفاقیت کھو بیٹھے اور نہ اس قدر لچک اصول رکھتا ہے کہ انسانی قوانین کی طرح ہر لمحے تغیر سے گزرتا چلا جائے-

اب ذرا کھانے پینے کے متعلق اسلام کے احکامات دیکھئے، سور اور شراب سمیت کئی چیزیں قطعیت کے ساتھ حرام قرار دی گئی ہے، لباس کے معاملے میں ستر چھپانے کا واضح حکم ہے، ازدواجی زندگی میں شادی، مہر، رضاعت، طلاق اور عدت کے بارے واضح ترین احکامات ہیں، اجتماعی زندگی میں دیکھیں تو یہ طے شدہ دستور ہے کہ نظام حکومت میں خدا کی حاکمیت ہوگی، چلانے والے اہل لوگ ہوں گے، شورائیت کے ساتھ مسائل کو حل کیا جائے گا، قانون کا ماخذ شریعت محمدیﷺ ہوگی، نماز، زکوٰۃ اور منکر کو روکنا اور معروف کو پھیلانا بنیادی ترین ریاستی ذمہ داری ہوگی- لیکن دوسری طرف دیکھیں تو حرام چیزوں کے علاوہ باقی تمام چیزوں کے بارے انسان کو اس کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ آداب دستر خوان کے ساتھ جتنا چاہے کھائے پیئے، جو چیز ان احکامات کی گرفت میں نہیں آتی ان کے بارے خود فیصلہ کرے، اسی طرح لباس کے معاملے میں حکم کے ساتھ ساتھ چند اصول بھی بتا دئیے ہیں کہ وہ زیادہ مسرفانہ نہ ہو، شوخ اورغنڈہ پن کا اظہار نہ کرتا ہو، مرد کیلئے زنانہ اور عورت کیلئے مردانہ لباس کی ممانعت ہے لیکن اس کی تفصیل انسان کے اپنے اختیار پر چھوڑ دی ہے، اب اسلام روکتا نہیں کہ تم قسم قسم کے دھاگے بناؤ، کپڑے کی نئی نئی اقسام تیار کرو اور نت نئے لباس تیار کرو، اسی طرح خانگی زندگی کے چند احکامات کے بعد وہ چند اصول متعین کر دیتا ہے کہ مرد کے حقوق کیا ہیں اور عورت کے حقوق کیا ہیں، ان حقوق کو کیسے پورا کرنا ہے اس اختیار مرد اور عورت پر چھوڑ دیتا ہے اسی طرح سیاسی نظام میں ترقی اور ارتقاء کا راستہ کھلا چھوڑ دیتا ہے، ریاست کے وسائل کو استعمال کرو، فیکٹریاں اور انڈسٹریاں لگاؤ، سڑکیں اور عمارتیں بناؤ اس طرح کی تمام چیزیں وہ انسان پر چھوڑتا چلا دیتا ہے- یہ چند مثالیں ہیں جس سے صاف نظر آتا ہے کہ اسلام بذات خود دو چیزوں پر مشتمل ہے ایک قوانین پر اور دوسرے اصول، ایک دستور اور دوسرا قاعدہ، ایک احکامات اور دوسرا کلیہ- قوانین، دستور اور احکامات زمانے کے ساتھ کسی صورت نہیں بدل سکتے یہاں زمان و مکان کو قید کر دیا گیا ہے، اصول، قاعدے اور کلیے میں ایک اصولی آزادی ہے یہاں وہ اجتہاد سے نئے آنے والے مسائل سے بھی نبٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور تیسرا باب ایسا ہے جہاں انسان کو کھلی آزادی دے دی گئی ہے- اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام کس طرح انسانی زندگی کو آراستہ و پیراستہ کرتا ہے، نہ تو اسے بالکل حیوانوں اور پتنگوں کی سی آزادی دے دیتا ہے اور نہ پتھروں اور درختوں کی طرح ایک ہی زمین سے باندھ کر رکھ دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام مکمل ضابطہِ حیات ہی ہے۔


متعلقہ خبریں


فرانس میں''اسلام میں اصلاحات لانے'' کے نام پر نیا کھیل وجود - اتوار 06 فروری 2022

فرانسیسی حکومت نے فرانس میں اسلام کو نئی شکل دینے اور اسے انتہا پسندی سے علیحدہ کرنے کی کوششوں کے تحت مسلم کمیونٹی کی رہنمائی کے لیے مذہبی علما اور عام مرد و خواتین پر مشتمل ایک نیا ادارہ تشکیل دے دیا، میڈیارپورٹس کے مطابق گزشتہ برسوں میں فرانس پر مسلم انتہاپسندوں کے خوں ریز حملو...

فرانس میں''اسلام میں اصلاحات لانے'' کے نام پر نیا کھیل

بنگلادیش سیکولر ازم کیلئے تیار، قومی مذہب اسلام نہیں رہے گا وجود - جمعه 22 اکتوبر 2021

بنگلا دیش کی حکمران جماعت ملکی آئین کو سیکولر ازم کی جانب واپس لے جانے کی تیاری کررہی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق حکومتی وزیر مراد حسن نے بتایاکہ1972 کے سیکولر آئین کی طرف پلٹنے کیلئے نئی ترمیم جلد پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی، اس ترمیم کے بغیر کسی رکاوٹ کے ایوان سے منظور ہو...

بنگلادیش سیکولر ازم  کیلئے تیار، قومی مذہب اسلام نہیں رہے گا

سب سے زيادہ تیزی سے پھیلتا مذہب کون سا؟ وجود - اتوار 22 مئی 2016

ایک تازہ ترین تحقیق کے مطابق اسلام دنیا کے کسی بھی مذہب کے مقابلے میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق درحقیقت 2050ء تک دنیا کے تمام ہی مذاہب آگے بڑھیں گے، لیکن اسلام بالآخر عیسائیت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے 2070ء تک دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ کسی بھی مذہب...

سب سے زيادہ تیزی سے پھیلتا مذہب کون سا؟

دایاں بازو اور اسلامسٹ ڈاکٹر محمد غیث المعرفہ - منگل 22 مارچ 2016

گزشتہ ماہ قلم کی کاٹ رکھنے والے کالم نگار آصف محمود نے سیکولرازم کو اس کے جدی مطالب کے ساتھ واضح کرتے ہوئے اسے لادین نظریہ کہا تو اس کے ماننے والوں کو یہ بات بہت ناگوار گزری۔ ظاہر ہے کسی بھی چیز کی درست پہچان، اس کے موجد اور اسے آغوش فراہم کرنے والے ہی بہتر خدوخال کے ساتھ کروا سک...

دایاں بازو اور اسلامسٹ

مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر