وجود

... loading ...

وجود
وجود

دایاں بازو اور اسلامسٹ

منگل 22 مارچ 2016 دایاں بازو اور اسلامسٹ

right-wing-and-islamists

گزشتہ ماہ قلم کی کاٹ رکھنے والے کالم نگار آصف محمود نے سیکولرازم کو اس کے جدی مطالب کے ساتھ واضح کرتے ہوئے اسے لادین نظریہ کہا تو اس کے ماننے والوں کو یہ بات بہت ناگوار گزری۔ ظاہر ہے کسی بھی چیز کی درست پہچان، اس کے موجد اور اسے آغوش فراہم کرنے والے ہی بہتر خدوخال کے ساتھ کروا سکتے ہیں لیکن مسلم معاشروں میں رہنے والے سیکولر علمبرداروں کے لیے یہ ہمہ گیر بحران کا کھلنے والا دروازہ ہوگا اگر ان کے نظریاتی عقائد کو ان کے حقیقی معنوں میں لادین اور لااسلام کے نام کے ساتھ پیش کیا جائے. سیکولرازم کی اصطلاح اور اس کے نظریات مسلم مارکیٹ کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے، کیونکہ جب بھی اسلامی مارکیٹ میں ‘لااسلام’ اور ‘لادین’ چیز بکنے کے لیے آئے گی، گاہک اسے خریدنے کے بجائے کراہت اور نفرت کا اظہار کرنے لگیں گے۔ عجب نہیں کہ چند اس دکان کو بھی ڈھا دینے کا مطالبہ کرنے لگیں جو اسلام کو کاٹ کر کچھ بیچنا چاہتی ہو۔

اس اسلام کو جو غارِ حرا سے اٹھ کر دنیا سے مخاطب ہوا تھا، آج پاکستانی رائٹ ونگ کے ایک دوسرے کالم نگار عامر ہاشم خاکوانی نے بے سمت سفر اور مکالمے کا کھیل دکھایا تو ہمارے عزیزوں نے اسلامسٹ اور دائیں بازو کو اسی طریق استدلال سے متنازع بنانے کی کوشش کی جیسا سیکولرازم کے ساتھ آصف محمود صاحب نے سیکولر ازم کی قلعی کھول دی تھی، لیکن میرے عزیز بھول گئے کہ اسلامسٹ ہو یا دایاں بازو، یہ دونوں اصطلاحیں مسلم انٹیلی جینشیا کی پیدا کردہ نہیں ہیں۔ اسلامسٹ کی اصطلاح تو خاص طور پرمغربی فلسفیوں نے مسلمانوں کو پڑھنے کے لیے استعمال کی اور پھر یہ مختلف حالات میں ارتقاء سے بھی گزرتی رہی، اٹھاویں صدی عیسوی میں فرانسیسی سیکولر دانشور والٹیئر نے اسلامزم کی اصطلاح پیش کی تھی یہ ان تمام مسلمانوں کو مخاطب کرتی تھی جو پریکٹکل اسلام پر یقین رکھتے تھے، انیسویں صدی تک مغربی مستشرقین کے ہاں اس کا مثبت استعمال کیا جاتا رہا لیکن آہستہ آہستہ ختم ہو گیا، خود مغربی مستشرقین نے جب 1938ء میں ‘انسائیکلوپیڈیا آف اسلام’ مرتب کیا تو وہاں بھی لکھا کہ اس لفظ کا استعمال ترک ہو چکا ہے، بہت سے اہل علم اب اس کی جگہ چھوٹا مگر خالص عربی کا لفظ اسلام استعمال کرتے ہیں۔

اس دور میں برصغیر میں سید مودودیؒ کے افکار ابھرے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خلافت اسلامیہ کے بعد مسلمانوں میں مایوسی پھیل رہی تھی اور اسلام سکڑ رہا تھا، وہ عقائد اور تعلیمات محدود ہو رہا تھا، مسجدکی حیثیت صرف ایک عبادت گاہ کی سی ہو رہی تھی، علماء اپنے علم میں محدود ہو رہے تھے، ان کی نظر میں عبادات و شعار اسلام ہی مکمل مذہب تھا اس کے ساتھ وہ معاشرتی زندگی میں اسلام کے احکامات کا کچھ حصہ رکھ رہے تھے لیکن ان کے مباحث صرف عبادات تک تھے ۔ سید مودودیؒ نے اسلام کو اس چنگل سے آزاد کر کے وسیع تر نقطہ نظر واپس دلایا، انہوں نے پورے دین کو پروجیکٹ کیا۔ جہاں انسان کے کردار کو بنا کر توحید کی روشنی عطا کی اور عبادات سے اسے مضبوط کرنے پر زور دیا وہیں انسان کی بناوٹ اور ارتقاء، معاشرے کی تعمیر و ترقی اور ریاست کی تشکیل اور سیاسی رجحانات کو اسلام کی بھولی ہوئی تعلیمات سے اٹھانے کا بیڑااٹھایا۔ اس سے اسلام کے جو پہلودب گئے تھے وہ دوبارہ سے واضح ہو گئے ۔

ساختی تشدد کی تھیوری پر یقین رکھنے والوں نے اسلامزم، سیاسی اسلام، بنیاد پرستی، شدت پسندی اور دہشت گردی کو ایک دوسرے کی متبادل شکلوں کے طور پر لیا اور اس کے زیر اثر ان تمام اصطلاحات کو نئے معنی اور مفہوم دیے گئے

حسن البناء جو مصر میں اخوان المسلمین کے نام سے ایک اصلاحی، صوفی تحریک برپا کیے ہوئے تھے جب یہ خیالات ان تک پہنچے تو انہوں نے 1951-52ء میں اپنی جماعت کے مقاصد میں اسلامی حکومت بھی شامل کر لی، مغربی ذرائع ابلاغ ان خیالات کے تحریک سے مسلمان ممالک میں اٹھنے والی ہر گروہ کے لیے پولیٹکل اسلام کی اصطلاح استعمال کی تو فرانسیسی میڈیا نے دوبارہ والٹیئر کی اصطلاح اسلامزم اچھالنا شروع کردی، یہاں تک ان کا استعمال تمام گروہوں کی طرف سے مثبت رہا، یہی وجہ ہے ان تحریکوں سے جڑے افراد نے خود کو اسلامسٹ کہلانے میں کوئی شرم محسوس نہ کی۔

1979ء میں انقلاب کے بعد ایران ایک شیعہ حکومت کے طور پر سامنے آیا اور اسلام کے بنیادی عقائد و تعلیمات پر ریاست کی تعمیر شروع کی تو مغربی میڈیا نے ایرانی انقلاب پسندوں کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ‘اسلامی بنیاد پرست’ کی اصطلاح کو پہلی بار استعمال کیا، کیونکہ ان کے خیال میں ایرانی انقلاب پسندوں کے نظریات ظاہری طور پر ان پروٹسٹنٹ عیسائیوں سے ملتے جلتے تھے، پروٹسٹنٹ روشن خیالی کی تحریک سے خود کو بچانے کے لیے اپنے لیے ‘بنیاد پرست’ کی اصطلاح استعمال کر چکے تھے، یہی وہ لمحہ تھا جب مغربی فلاسفہ کو پولیٹکل اسلام کے بارے سنجیدگی سے ساتھ سوچنا پڑا،جنہیں تخصیص کے ساتھ اسلامی تحریکیں کہا جا سکتا ہے، انہیں صاف نظر آنے لگا کہ جس مذہبی جن کو وہ یورپ میں بوتل میں بند کر چکے ہیں، وہ مسلمان ممالک میں ایک جاندار تحرک رکھتا ہے ۔

تب اسلامی بنیاد پرستی اور سیاسی اسلام کو ایک دوسرے کا متبادل سمجھا جانے لگا، افغان جہاد کے بعد جب القاعدہ اور طالبان جیسی تنظیمیں دنیا کے نقشے پر ابھریں تو شدت پسند اور دہشت گرد جیسے الفاظ استعمال کیے جانے لگے اور نائن الیون کے بعد ان اصطلاحات کا شدت کے ساتھ استعمال کیا گیا جو تاحال جاری ہے، یہیں ساختی تشدد کی تھیوری پر یقین رکھنے والوں نے اسلامزم، سیاسی اسلام، بنیاد پرستی، شدت پسندی اور دہشتگردی کو ایک دوسرے کی متبادل شکلوں کے طور پر لیا اور اس کے زیر اثر ان تمام اصطلاحات کو نئے معنی اور مفہوم دیے گے جنہیں ہمارے عزیز نے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن سنجیدہ مغربی اہل علم آج بھی اسلامی تحریکوں کے بارے بات کرتے ہوئے پولیٹکل اسلام یا اسلامزم اور اسلامسٹ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

جہاں تک دائیں اور بائیں بازو کی بات ہے، میں سمجھتا ہوں اپنی پیدائش میں جو پس منظر ہی کیوں نہ رکھتی ہوں لیکن پاکستان کے حوالے سے دایاں بازو، نظریہ پاکستان کے علمبرداروں کے لیے بولا جاتا ہے، چونکہ نظریہ پاکستان، ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کے مقاصد رکھتا ہے، یہیں اسلامی تحریک یا سیاسی اسلام کا ایجنڈا رکھنے والی جماعتیں اور وہ جماعتیں جنہوں نے تحریک پاکستان میں تاریخی طور پر کردار ادا کیا، ایک ہی منزل کے راہی بن جاتے ہیں، یہی وہ وجہ ہے جس کی بنیاد پر جماعت اسلامی، یا دوسری مذہبی سیاسی جماعتیں یا پھر مسلم لیگ کو دائیں بازو کی جماعتیں بولا جاتا رہا ہے، نومبر 2015ء کے پہلے ہفتے، مسلم لیگ ن کے وزیر اعظم نے لبرل پاکستان کا نعرہ بلند کر دیا، یہ غیر معمولی حرکت تھی اور اسے دائیں بازو سے باہر نکلنے کے اعلان سے موصوم کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ عامر ہاشم خاکوانی اب دائیں بازو کو صرف اسلامسٹ تک محدود کر رہے ہیں جو پُرامن جمہوری سیاسی جدوجہد کے ذریعے ملک کو تحریک پاکستان کی خواہش کے تسلسل میں اسلامی ریاست بنانے کے مقاصد رکھتے ہیں

پولیٹکل اسلام کے نظریات بارے حلقہ دیوبند کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے، قیام پاکستان سے پہلے مولانا آزاد و مدنی، علی میاں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان کی مخالفت کر رہے تھے، صرف مخالفت ہی نہیں بلکہ کانگریس کے اسٹیج پر کھڑے ہو کر باقاعدہ فریق بن رہے تھے، مذہب کی بنیاد پر تقسیم کو مسلمانوں کے لیے زہر قرار دے کر مشترکہ سیکولر ریاست کے حامی تھے لیکن مسلمانان برصغیر کی اکثریت نے ان کو رد کرتے ہوئے مسلم لیگ کا ساتھ دیا اور پاکستان، ایک نظریاتی ریاست کے طور پر ابھرا۔

سید مودودیؒ جو قیام پاکستان سے قبل مسلم لیگ کو ایک اسلامی ریاست کے معمار کے طور پر ناموزوں سمجھ رہے تھے، قیام کے بعد پاکستان ہجرت کر آئے اور اسی نئی ریاست کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو گئے، انہوں نے پہلا سیاسی اجتہاد کرتے ہوئے اسلامی جمہوریت کے لیے دلائل فراہم کیے اور جماعت اسلامی کو جمہوری سیاسی جدوجہد کے لیے میدان میں اتارنے لگے، خود جماعت کے اندر بعض شخصیات نے ان کے اس سیاسی اجتہاد کو مسترد کردیا، لیکن وہ اکثریت کی بنیاد پر آگے بڑھ گئے، دوسری طرف پاکستان میں رہ جانے والے دیوبندی طبقات نے خود کو منظم کیا اور انہوں نے بھی جمہوری سیاسی جدوجہد کرنے کی ٹھانی، یہ سیاسی سطح پر دیوبند کی ہند شاخ سے بغاوت تھی یا جمعیت علمائے اسلام ہند کے سیاسی نظریات کو مسترد کر دیا جانے کے برابر تھا، اس کے بعد جن جن مذہبی جماعتوں نے پولیٹکل اسلام کے ایجنڈے پر سیاست میں حصہ لیا ان کے لیے اسلامسٹ کی اصطلاح ہی استعمال کی گئی۔


متعلقہ خبریں


مارچ میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں دُگنا اضافہ وجود - هفته 02 اپریل 2022

فروری میں دہشت گردی میں کمی کے بعد مارچ میں جنگجو حملوں میں بھی دو گنا اضافہ ہوا ، دہشت گردی کے رجحانات پر نظر رکھنے والے اسلام آباد میں قائم آزاد تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ماہ مارچ میں ملک میں سلامتی کی صورتحال ...

مارچ میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں دُگنا اضافہ

انار کلی دھماکے کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں درج وجود - جمعرات 20 جنوری 2022

انار کلی بازار سے ملحقہ پان منڈی میں ہونے والے دھماکے کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں درج کر لیا گیا ۔ مقدمہ سی ٹی ڈی کے انسپکٹر عابد بیگ کی مدعیت میں درج کیا گیا ۔ مقدمے میں سیون اے ٹی اے،3/4ایکسپلو زو ایکٹ ، 302،324،بی 120اور 109کی دفعات کے تحت درج کیا گیا ۔مقدمے کے متن میں کہا گیا...

انار کلی دھماکے کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں درج

افغانستان، مسجد میں بم دھماکا، 37فراد جاں بحق، 70سے زائد زخمی وجود - هفته 16 اکتوبر 2021

افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں جمعے کے روز ایک شیعہ مسجد میں ہوئے بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 37 ہو گئی ہے جبکہ ستر سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ بم دھماکا ٹھیک اس وقت ہوا جب مسجد میں نماز جمعہ ادا کی جا رہی تھی۔ میڈیارپورٹس کے مطابق اس بم دھماکے کا ہدف صوبے کی سب سے بڑی شیعہ م...

افغانستان، مسجد میں بم دھماکا،  37فراد جاں بحق، 70سے زائد زخمی

ابوبکرالبغدادی کے نائب کی گرفتاری کے پیچیدہ آپریشن کی نئی تفصیلات جاری وجود - منگل 12 اکتوبر 2021

عراق کے وزیراعظم مصطفی الکاظمی نے نام نہاد دولت اسلامیہ داعش کے مقتول سربراہ ابو بکر البغدادی کے نائب اور تنظیم کے بیرون ملک مالی امور کے انچارج سامی الجبوری کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے۔دوسری طرف عراقی فوج نے اس ہائی پروفائل گرفتاری کی مزید تفصیلات جاری کی ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق...

ابوبکرالبغدادی کے نائب کی گرفتاری کے پیچیدہ آپریشن کی نئی تفصیلات جاری

شمالی وزیرستان میں سیکورٹی فورسز کی گاڑی پر دہشت گردوں کا حملہ، 5 سیکورٹی اہلکارشہید وجود - اتوار 03 اکتوبر 2021

شمالی وزیرستان کے علاقے سپن وام میں سیکورٹی فورسز کی گاڑی پر دہشت گردوں کے حملے میں 5 سیکورٹی اہلکارشہید ہوگئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق شہداء میں ایف سی کے 4 جوان اورایک لیویز سب انسپکٹر شامل ہے۔ شہداء میں حوالدار اسحاق، حوالدار زاہد، لانس نائیک ولی ،لا...

شمالی وزیرستان میں سیکورٹی فورسز کی گاڑی پر دہشت گردوں کا حملہ، 5 سیکورٹی اہلکارشہید

طالبان کی فتح نے پاکستان میں عسکریت پسندوں کو حوصلہ دیا ،امریکی تھنک ٹینک وجود - هفته 02 اکتوبر 2021

امریکی تھنک ٹھینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرنے اور اپنے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کی کسی بھی جہادی کوشش کو پسپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق بروکنگز کی رپورٹ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا اذیت ناک مسئلہ میں کہا گیا کہ افغانستان میں طالبا...

طالبان کی فتح نے پاکستان میں عسکریت پسندوں کو حوصلہ دیا ،امریکی تھنک ٹینک

دہشت گردی سے پاکستان کا کافی نقصان ہوا ،امریکا کا اعتراف وجود - هفته 02 اکتوبر 2021

امریکی محکمہ خارجہ میں ڈپٹی سیکرٹری وینڈی شرمن نے کہاہے کہ پاکستان کو تمام انتہا پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔میڈیارپورٹس کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ میں ڈپٹی سیکرٹری وینڈی شرمن نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ہم دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ ایک مضبوط شراکت دا...

دہشت گردی سے پاکستان کا کافی نقصان ہوا ،امریکا کا اعتراف

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارا 152ارب ڈالر کا نقصان ہوا،ترجمان پاک فوج وجود - جمعه 27 اگست 2021

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کا خاتمہ سب کی امیدوں کے برعکس تھا،افغانستان میں ابھرتی ہوئی صورتحال اور ہمیں درپیش قومی سلامتی کے مسائل اور کسی قسم کے عدم استحکام سے نمٹ رہے ہیں،پاکستان افغانستان میں بگاڑ پیدا کرنے والوں کے من...

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارا 152ارب ڈالر کا نقصان ہوا،ترجمان پاک فوج

ترکی: شادی کی تقریب میں دھماکے سے 51 افراد جاں بحق، 94 زخمی وجود - اتوار 21 اگست 2016

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت سے پہلے دہشت گردی کی منظم وارداتوں کا جو سلسلہ دیکھا گیا تھا وہ بغاوت کے بعد پھر شروع کر دیا گیا ہے۔ اب دہشت گردی کی وارداتوں میں کچھ نئے رجحانات بھی دیکھنے میں آرہے ہیں۔ جس کا تازہ اظہار شام کی سرحد کے قریب ترکی کے شہر غازی عنتب میں ایک شادی کی تقریب می...

ترکی: شادی کی تقریب میں دھماکے سے 51 افراد جاں بحق، 94 زخمی

دہشت ناک رویے وجود - بدھ 10 اگست 2016

چرچل نے کہا تھا: رویہ بظاہر ایک معمولی چیز ہے مگر یہ ایک بڑا فرق پیدا کرتا ہے۔ ‘‘دہشت گردی کے متعلق ہمارا رویہ کیاہے؟ اگر اس ایک نکتے پر ہی غور کر لیاجائے تو ہماری قومی نفسیات ، انفرادی عادات اور اجتماعی حرکیات کا پورا ماجرا سامنے آجاتا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کا شکار آج سے ت...

دہشت ناک رویے

فرانس: قومی دن کی تقریب پر حملہ، 80 افراد ہلاک وجود - جمعه 15 جولائی 2016

فرانس کے جنوبی شہر نیس میں قومی دن کا جشن منانے کی تقریب میں شریک بڑی تعداد میں لوگوں پر ٹرک میں سوار حملہ آور نے گاڑی چڑھا دی، حملہ آور پہلے لوگوں کو سو میٹر تک کچلتا ہوا گیا پھر اس نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں کم از کم 80 افراد ہلاک جب کہ اٹھارہ بُری طرح زخمی ہو گئے، ہلاک او...

فرانس: قومی دن کی تقریب پر حملہ، 80 افراد ہلاک

یورو2016ء میں دہشت گردی کا خطرہ، برطانیہ کی افواج بھی تیار وجود - بدھ 15 جون 2016

برطانیہ کی اسپیشل سروسز کے اہلکار اور ایم آئی6 کے جاسوس فرانس کی انسداد دہشت گردی فورس کی مدد کر رہے ہیں جنہیں خطرہ ہے کہ ایک حملے کے لیے برطانیہ سے دہشت گرد حملے کے لیے فرانس میں داخل ہو چکے ہیں۔ 350 برطانوی چھاتہ بردار سپاہی بھی تیار ہیں تاکہ یورو 2016ء کے دوران کسی بھی دہشت گر...

یورو2016ء میں دہشت گردی کا خطرہ، برطانیہ کی افواج بھی تیار

مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر