وجود

... loading ...

وجود
وجود

قائد کی اک تقریر اتنی نہ الجھاؤ کہ سلجھا نہ سکو

پیر 11 اپریل 2016 قائد کی اک تقریر اتنی نہ الجھاؤ کہ سلجھا نہ سکو

Quaid-e-Azam

ہمارے ہاں ایک چھوٹا سا طبقہ یہ ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ 11 اگست 1947ء کو سندھ اسمبلی کی موجودہ عمارت میں پیدا ہوئے، اسی دن تحریک پاکستان پورے جوش و خروش کے ساتھ چلی اور چند ہی گھنٹوں میں پاکستان معرض وجود میں آ گیا، اسی دن قائد نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں ایک خطاب کے ذریعے ریاست پاکستان کی نظریاتی اساس کی اینٹ رکھی اور شام کو وفات پا گئے۔ عقل و خرد کے دعویداروں سے ایسی نا معقولیت کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ فکرِ قائد کے بارے کوئی تاثر قائم کرنے کے لیے11 اگست سے قبل اور بعد ان کی تمام زندگی کو فراموش کردیا جائے۔ اس سے قطع مراد یہ نہیں کہ ان کی یہ تقریر سنسرکر دی جائے یا نظر انداز کردی جائے بلکہ اس تقریر کی کوکھ سے سیکولر ازم پیدا کرنے کے بجائے، اس کی تشریح و توضیح قائد اعظمؒ کی پچھلی اور اگلی زندگی سے کی جائے۔ جب ہم ایسا کریں گے تو خود دیکھیں گے کہ قائد محض اپنی تقریروں سے ہی نہیں اپنی عملی زندگی میں کئی مواقع پر سیکولر ازم کے اہم ترین نکات کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً سیکولر ازم محض ریاستی معاملات سے ہی مذہب کو نکالنے کا نظریہ پیش نہیں کرتا بلکہ دوسرے اجتماعی شعبوں سے بھی اسے باہر کرتا ہے۔

نظام تعلیم بھی ایک ایسا ہی شعبہ ہے، تعلیم تاریخ کی ہو یا عمرانیات کی، حیاتیات کی ہو یا طبعیات کی، کیمیاء کی ہو یا جغرافیات کی ، فلسفہ کی ہو یا معاشیات کی، تعلیم کی ہر ہر شاخ کو مذہبی احساسات و اثرات سے پاک رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن محمد علی جناح لنکنز ان کو اپنی تعلیم کے لیے منتخب کرنے کی پہلی وجہ مذہبی احساسات کو بناتے ہیں، لندن میں بیرسٹریٹ کی ڈگری کے لیے چار ادارے اعلیٰ شہرت رکھتے تھے، لنکنز اِن، مڈل ٹیمپل، انر ٹیمپل اور گریز اِن۔ قائد اعظمؒ ان اداروں کی تعلیمی سہولیات کا تقابلی جائزہ کرنے کے بجائے اس بنیاد پر لنکنز اِن کو چنتے ہیں کہ اس میں دنیا کے عظیم ترین آئین یا نظام قانون دینے والوں(Greatest Law Givers) کی فہرست میں رسولِ خدا اور مسلمانوں کے سیاسی رہنما حضرت محمد ﷺ کا نام گرامی بھی شامل تھا۔ اس سے قبل وہ اپنی ابتدائی تعلیم بھی سندھ مدرسۃ الاسلام سے حاصل کر چکے تھے حالانکہ ان کے والد کراچی کے مشنری اسکول، مشن ہائی سکول میں پڑھاتے تھے، جہاں عیسائیت کا پرچار کیا جاتا تھا، اگرچہ لندن جانے سے قبل وہ مختصر عرصہ کے لیے مشن ہائی اسکول میں بھی گئے جس کی وجوہات صفحہ تاریخ میں نہیں ملتیں۔ ابتدائی تعلیم میں مذہب کو اہمیت دینا اس لیے قابل غور نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ اُس عمر میں بچے اپنے والدین کے شعور سے ادارے کو چنتے ہیں لیکن لنکنز اِن کے چناؤ میں محمد علی جناحؒ نہ صرف بالغ ہو چکے تھے بلکہ فیصلہ سازی میں بھی آزاد تھے۔

بات یہیں نہیں رکتی، سیکولرازم ریاستی قوانین میں شریعت کو دخل در ‘معقولات’ نہیں سمجھتا، پھر اس سے بھی بڑھ کر کہ ریاستی جائیداد کو کسی ایسے مقصد کے لیے وقف سمجھے جو مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، لیکن ایسا ہی ایک قانون وقف علی الاولاد ہے جس کی بنیاد شریعت اسلامیہ نے رکھی ہے، آج کے کارپوریٹ کلچر میں تو ایسا قانون سیکولرازم کی آنکھ کا شہتیر ہے جب اہم وقف جائیدادات پرائم لوکیشنز پر آ چکی ہوں، قانونی طور گنجائش موجود ہے کہ ایسی جائیداد کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا مکمل منافع وقف علی الخیر ہو جو شریعت متعین کرتی ہے۔ 15 دسمبر 1894ء میں پریوی کونسل نے نظر ابو الفتح کیس میں وقف علی الاولاد کی قانونی جوازیت کو ختم کردیا، مولانا شبلی نعمانیؒ نے اس کی شرعی حثیت کو بحال کروانے کے لیے سترہ سالہ طویل قانونی جدوجہد کی، 1910ء میں قائد اعظمؒ امپیریل لیجسلیٹو کونسل (اعلیٰ ترین قانون ساز اسمبلی) کے رکن منتخب ہوتے ہیں، انہوں نے بطور مسلمان ممبر پہلی بار وقف علی الاولاد کا شرعی بل پیش کیا جو ان کی مسلسل محنت اور کوشش سے قانون بن گیا۔

آگے بڑھیے، 1918ء میں قائد اعظمؒ کی شادی بمبئی کی ممتاز شخصیت سر ڈنشا پیٹٹ کی بیٹی رتن بائی (رتی) سے ہوئی۔ سر ڈنشا پیٹٹ قائد اعظمؒ کے قریبی دوستوں میں شمار کیے جاتے تھے، وہ ان کے بنگلے پر اکثر قوم پرست ہندوستانی لیڈروں کی محافل میں بیٹھا کرتے تھے، لمبے قد اور صاف رنگت کے چھریرے جسم والے قائد اعظمؒ کی پرمغز بحثوں نے رتی کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ رتی بھی حسن کی مالا تھی، محمد علی جناحؒ بھی ان سے کشش محسوس کرنے لگے۔ لیکن کوئی غیر شرعی تعلق قائم کرنے کے بجائے سر ڈنشا سے اس کا رشتہ مانگ لیا۔ قائد اعظمؒ اس وقت چالیس کو عبور کر رہے تھے، اور رشتہ مانگنے کی ہمت اور حوصلہ بھی سر ڈنشا کی ہی ایک بات سے پیدا ہوا جب انہوں نے کہا کہ جب تک ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم نہیں ہوتی تب تک فسادات ہوتے رہیں گے اس لئے بین المذاہب شادیاں ہونی چاہئیں۔ لیکن چالیس سالہ قائد اعظمؒ کی اس جرات نے سر ڈنشا کو آگ بگولا کر دیا۔ قائدؒ اور رتی پر پابندیاں عائد کر دی گئیں، قائد اعظمؒ نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، ایک سال بعد رتی کے بالغ ہونے پر شادی کی اجازت ملی۔ پیار کی شدت کے باوجود قائد اعظمؒ کی مذہبی حمیت نے گوارا نہ کیا کہ رتی کو اس کے مذہب کے ساتھ قبول کر لیں، آج زندہ ہوتے تو لبرل ازم کی بنیادوں پر بنے قانون تحفظ نسواں کی زد میں آتے اور کڑا پہنے دکھائی دیتے۔ رتی سے شادی کے واقعے میں قائد اعظمؒ کی شخصیت کا ایک اور وصف بھی سامنے آتا ہے کہ آپ مذہبی فرقہ پرستی سے بالاتر مسلمان تھے۔ گھریلو پس منظر میں وہ اسماعیلی شیعہ تھے اگرچہ بعد میں 12 اماموں کے قائل ہو گئے۔ شادی سے قبل رتی کو مذہب تو تبدیل کرواتے ہیں لیکن اپنی مرضی کا فرقہ اس پر نہیں تھوپتے۔ اس لیے سنی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مولانا نذیر احمد صدیقی (مولانا شاہ احمد نورانی کے تایا) رتن بائی کو کلمہ پڑھواتے ہیں اور محمد علی جناحؒ نے ان کا اسلامی نام مریم نام رکھ دیا۔

مریم جناح جو قائد کی پہلی محبت تھی، اس کی آخری نشانی ان کے بطن سے پیدا ہونے والی انکی بیٹی دینا جناح تھیں۔ دنیا جناح نے کسی مسلمان لڑکے کے بجائے ایک پارسی نوجوان نیوائل واڈیا سے شادی رچا لی تو قائد اعظمؒ نے اسے قرآنی تعلیمات سے انحراف سمجھا اور اکلوتی اولاد سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تعلق توڑ لیا آج بھی ہمارے یہاں لبرل سوچ رکھنے والے آدھے پونے اسلام پر گزارہ کر لیتے ہیں اور قرآنی احکامات سے انحراف کرتے ہوئے اپنی منحرف اولادوں سے سماجی تعلق نبھاتے رہتے ہیں، لیکن قائد اعظمؒ نے دینا کو ایسے بھلایا کہ پھر کبھی بھول کر بھی یاد نہ کیا۔ شادی کے بعد دنیا جناح نے اپنے والد کو کئی خطوط لکھے، آپؒ نے ان خطوط کا جواب لکھتے ہوئے ڈیئر دینا یا ڈیئر ڈاٹر کے بجائے مسز واڈیا کے نام سے مخاطب کیا۔ پاکستان بننے کے بعد دینا جناح کی شدید خواہش تھی کہ وہ پاکستان جائیں اور اپنے والد سے ملیں، انہوں نے آپؒ کے دوستوں کی وساطت سے اجازت چاہی لیکن قائد اعظمؒ نے انکار کر دیا چنانچہ وہ آپؒ کی وفات پر تشریف لائیں اور مرحوم باپ کی میت پر آنسو بہا کر واپس چلی گئیں۔

قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی کے یہ چار غیر معمولی واقعات ہیں جو ان کی پوری زندگی کا عکس ہیں۔ ہم ان کے سیاسی بیانات اور خطبات کے متعلق تو یہ دعویٰ تو جرات پیدا کر کے کر سکتے ہیں کہ وہ محض سیاسی لفاظی تھی جو 11 اگست کی صبح قائد ردی کی ٹوکری میں ڈال آئے تھے، لیکن ان کی اس زندگی کو کیسے سیاسی چال بازی کے اوراق میں لپیٹ سکتے ہیں جو نہ صرف سیکولرازم اور لبرل ازم کے بجائے مذہب کو اس کا درست مقام دے رہی ہے بلکہ اس کی تمام سیاسی جدوجہد کی تائید کرتی دکھائی دیتی ہے۔ معلوم نہیں یہ طبقہ مطالعہ پاکستان کو جھوٹ قرار دے کر کونسا سچ لکھنا چاہتا ہے۔ بات یہ نہیں کہ قائد اعظمؒ کی زندگی اس خودساختہ سچ سے تضاد کا منبع بنانے کی پُرخلوص کوشش ہو رہی ہے، لیکن اس زمینی سچائی کو جھوٹ کہہ رہے ہیں جس کو دیکھ کر ایک عام پاکستانی بھی محسوس کر سکتا ہے کہ برصغیر کی مسلمان اکثریت کانگریس اور مولانا آزاد کے سیکولرازم کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگاتے ہوئے ایک اسلامی ریاست کے لیے کمر بستہ ہو گئی اور ان کی رہنمائی کرنے والے قائداعظمؒ بھی عزم کرتے رہے کہ

“مسلمانوں میں نے دنیا کو بہت دیکھا، دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ میں مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی…. میں آپ کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل‘ ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا‘ جناح تم مسلمانوں کی حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں علم اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے (روزنامہ انقلاب۔22 اکتوبر 1939ء)

جس اجتماعی کوشش سے پاکستان معرض وجود میں آیا، اسی کے تسلسل میں ایک عوامی امنگوں کے مطابق قرارداد مقاصد پاس ہوتی ہے تو یہ کسی خودساختہ سچ سے اب مزید الجھائی نہیں جا سکتی۔


متعلقہ خبریں


قائداعظم کے خطاب کا تحقیقی جائزہ (خواجہ رضی حیدر) وجود - هفته 25 دسمبر 2021

مسلم معاشرے میں اعلیٰ صلاحیتوں اور نمایاں اوصاف کے حامل افراد کو ان کی شخصیت سے مختص وصف و صلاحیت کے اعتراف کے طور پر خطاب و القاب دینے کی روایت قدیم و دیرینہ رہی ہے۔ دورِ رسالت مآبؐ میں بھی کئی ایسے صحابہؓ موجود تھے جن کو ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے القابات ...

قائداعظم کے خطاب کا تحقیقی جائزہ  (خواجہ رضی حیدر)

بنگلادیش سیکولر ازم کیلئے تیار، قومی مذہب اسلام نہیں رہے گا وجود - جمعه 22 اکتوبر 2021

بنگلا دیش کی حکمران جماعت ملکی آئین کو سیکولر ازم کی جانب واپس لے جانے کی تیاری کررہی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق حکومتی وزیر مراد حسن نے بتایاکہ1972 کے سیکولر آئین کی طرف پلٹنے کیلئے نئی ترمیم جلد پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی، اس ترمیم کے بغیر کسی رکاوٹ کے ایوان سے منظور ہو...

بنگلادیش سیکولر ازم  کیلئے تیار، قومی مذہب اسلام نہیں رہے گا

سیکولرزم اور لبرلزم میں کیا فرق ہے؟ محمد دین جوہر - جمعرات 01 ستمبر 2016

سیکولرزم اور لبرلزم میں فرق کو مختلف اسالیب میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ یہ دونوں تحریک ِتنویر کی جڑواں اولاد ہیں اور جدیدیت کی پیدا کردہ مغربی تہذیب میں ایک ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ اب سیکولرزم سٹھیا گیا ہے اور لبرلزم پوپلا گیا ہے۔ تنویری اور جدید عقل نئے انسان اور...

سیکولرزم اور لبرلزم میں کیا فرق ہے؟

فرانسیسی عدالت کا تاریخی فیصلہ، 'برقینی' پر پابندی ہٹا دی گئی وجود - هفته 27 اگست 2016

فرانس کی اعلیٰ ترین عدالت نے مسلمان خواتین کے لیے تیار کیے گئے تیراکی کے لباس "برقینی" پر عائد سرکاری پابندی کے خلاف تاریخی فیصلہ دے دیا ہے اور اس پابندی کو "بنیادی آزادی کی سنگین اور کھلم کھلا غیر قانونی خلاف ورزی قرار دیا۔" یہ مقدمہ انسانی حقوق کے ادارے 'ہیومن رائٹس لیگ' نے...

فرانسیسی عدالت کا تاریخی فیصلہ، 'برقینی' پر پابندی ہٹا دی گئی

نظریۂ پاکستان اور ہم عصر مسلم دنیا محمد دین جوہر - منگل 09 اگست 2016

اس وقت مسلم دنیا جن حالات میں ہے، وہ معلوم ہیں اور روزمرہ مشاہدے اور تجربے میں ہیں۔ واقعاتی سطح پر حالات کے بارے میں ایک عمومی اور غیررسمی اتفاق پایا جاتا ہے کہ بہت خراب ہیں، اور یہ امکان بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ مزید خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔ لیکن اس بارے میں آرا بہت زیادہ مختلف ہ...

نظریۂ پاکستان اور ہم عصر مسلم دنیا

مخلوط تیراکی سے انکار، مسلمان لڑکیاں شہریت سے محروم وجود - هفته 02 جولائی 2016

سوئٹزرلینڈ نے دو مسلمان لڑکیوں کی شہریت کی درخواست محض اس بنیاد پر رد کردی ہے کہ انہوں نے اپنے اسکول میں تیراکی سیکھنے کے دوران لڑکوں کے ساتھ سوئمنگ پول میں اترنے سے انکار کردیا تھا۔ امریکی اخبار 'یو ایس اے ٹوڈے' کے مطابق 12 اور 14 سال کی ان لڑکیوں کو تیراکی کے لازمی اسباق لینے ت...

مخلوط تیراکی سے انکار، مسلمان لڑکیاں شہریت سے محروم

عام تعطیل کا معاملہ، سیکولر ازم بالجبر کی ایک اور مثال ڈاکٹر محمد غیث المعرفہ - پیر 21 مارچ 2016

مسلمان معاشروں کے اندر جب بھی سیکولر ازم آیا ہے، نیچے سے نہیں ابھرا بلکہ جبر، دباؤ اور ضد کے بل پر اوپر سے مسلمانوں پر نافذ کیا گیا ہے، ایسے لوازمات کے ساتھ جو چیز بھی آتی ہے اس میں خردمندی سے زیادہ انتہا پسندی کی جھلک دکھائی دیتی ہے، انتہا پسند سوچیں جس چیز کا قتل سب سے پہلے کرت...

عام تعطیل کا معاملہ، سیکولر ازم بالجبر کی ایک اور مثال

گر تم نہ کرو گے تو جفا کون کرے گا؟ - اچّھے بُرے افسروں کے قصّے محمد اقبال دیوان - اتوار 31 جنوری 2016

[caption id="attachment_34856" align="aligncenter" width="594"] حیدرآباد کے قریب سکندر آباد میں ایک پالتو چیتے کے ساتھ چند گورے افسران [/caption] ہمارے یہاں جنرل مشرف کے دور میں مارکیٹ سے اٹھائے ہوئے ایک افسر ایف بی آر کے چیئرمین جالگے۔ ایک رات ایوان صدر میں تقریب میں درجہ دوم...

گر تم نہ کرو گے تو جفا کون کرے گا؟ - اچّھے بُرے افسروں کے قصّے

مسلمان معاشروں میں سیکولرزم کا ہمہ وقتی بحران ڈاکٹر محمد غیث المعرفہ - جمعرات 28 جنوری 2016

درآمد شدہ نظریات جب کسی اجنبی معاشرے میں آتے ہیں تو پہلا مسئلہ جو انہیں درپیش آتا ہے وہ اپنی پروڈکٹ کا نام اور خصائص کو مقامی زبان میں پیش کرنے کا ہے، ظاہر ہے ایک ایسا شہر جس میں سب گنجے آباد ہوں، اس کے بازار میں کنگھے کے نام سے کوئی چیز نہیں بک سکتی، چہ جائیکہ کنگھے کا نام بدل ک...

مسلمان معاشروں میں سیکولرزم کا  ہمہ وقتی بحران

آزادی کا مطلب، مکمل آزادی! برطانوی اقتدار سے بھی اور ہندو غلبے سے بھی! قائد اعظم کی تاریخی تقریر وجود - جمعه 25 دسمبر 2015

قائد اعظم محمد علی جناح کی یہ تقریر دسمبر 1946ء میں ریکارڈ کی گئی تھی جو ہندوستان کی تقسیم کے حوالے سے ان کی نظریے کو واضح طور پر پیش کرتی ہے۔ وڈیو کے ساتھ ان کی تقریر کا مختصر اردو ترجمہ بھی ذیل میں پیش ہے۔ "آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں بہت سارے عقائد، نسل اور مذاہب سے ت...

آزادی کا مطلب، مکمل آزادی! برطانوی اقتدار سے بھی اور ہندو غلبے سے بھی! قائد اعظم کی تاریخی تقریر

دوقومی نظریئے کے تحت جدوجہد کرکے الگ ملک حاصل کرنے والے عظیم قائد کا آج یوم ولادت منایا جارہا ہے وجود - جمعه 25 دسمبر 2015

مسلمانانِ ہند کے لئے دوقومی نظریئے کے تحت عظیم جدوجہد کے بعد الگ ملک حاصل کرنے والے بانئ پاکستان بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا 139واں یوم ولادت ملک بھر میں آج ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876 کو سندھ کے موجودہ دارالحکومت کراچ...

دوقومی نظریئے کے تحت جدوجہد کرکے الگ ملک حاصل کرنے والے عظیم قائد کا آج یوم ولادت منایا جارہا ہے

برصغیر میں سیکولر ازم کے نتائج کاشف نصیر - جمعرات 26 نومبر 2015

سات سمندر دور کینیڈا اور اس کے نو منتخب وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی طرف دیکھنے سے پہلے ہم کیوں نہ اپنے ارد گرد کے ماحول کا ہی جائزہ لے لیں۔ ہماری مشرقی سرحد کے ساتھ جو آہنی لکیر ہے اسکی دوسری طرف ہندوستان ہے اور اس سے کچھ آگے بنگلادیش۔ ان دونوں ممالک کے ساتھ ہمارا جغرافیائی، تاریخی، ...

برصغیر میں سیکولر ازم کے نتائج

مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر