وجود

... loading ...

وجود
وجود

اتوار بازار اور خوشونت سنگھ

جمعرات 31 مارچ 2016 اتوار بازار اور خوشونت سنگھ

ہم نے سوچا آپ کو شریک مطالعہ کرلیں۔

ڈیفنس کراچی کے فیز آٹھ میں چھ ماہ پہلے تک ایک اتوار بازار لگا کرتا تھا، اب نہیں لگتا۔ بازار کا ٹھیکیدار بے ایمان تھا اور مجاز افسران عالی مقام سخت گیر، نازک مزاج۔ خالصتاً عسکری نقطۂ نگاہ رکھنے والے کہ If you are not with us , you are against us۔ (ہم اس کا شاعرانہ ترجمہ احمد فراز کے اس مصرعے سے کیے دیتے ہیں کہ ع جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں) یہاں دور دراز سے لوگ آکر خریداری کرلیتے تھے۔ اس ہفتہ وار میلے کے تین بڑے فوائد تھے۔ اوّل تو بہت سے لوگوں کا مہنگائی کے اس دور پر آشوب میں ہفتے بھر کے لیے دال روٹی کا بندوبست ہوجاتا تھا۔ دوم یہ کہ فیملی کی تفریح کا اچھا سامان تھا۔ لوگ دور دراز سے آتے تھے سہ پہر تک وہاں گھوم پھر کر پٹھان دکانداروں کی جھڑکیاں سن کر سستا کھانا کھالیتے تھے۔ ان میں کچھ نوجوانان ملت ایسے بھی ہوتے تھے جو شام کو سمند رکی لہریں گن کر ڈوبتے سورج اور ہرجائی چاند کو دیکھ کر اس کا موازنہ اپنی رفیق حیات، یا غیر منکوحہ دوست، جسے مفتی عبدالقوی نے تو اب آن کر حلال قرار دیا ہے، کے حسن جہاں تاب سے کرتے۔ اسی وارفتگی اور بے اختیاری میں اس کو کبھی ایشوریا رائے تو کبھی سیلینا گومز سے ملاتے تھے (اس موازنہ پر فریب میں یہ فیڈرل بی ایریا اور لیاری کے دل پھینک عاشق قندیل بلوچ کو بھی شامل کرلیتے مگر وہ انگارہ بر زباں تب تک مُنی کی طرح بدنام نہیں ہوئی تھی۔ قندیل کا ارادہ تو پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے لیے جھنڈو بام بننے کا بھی تھا مگر ٹیم کی کارکردگی سے وہ اتنی مایوس ہوئی ہے کہ شکستہ دلی کی کیفیت میں رجوع الی اللہ کی خاطر وینا ملک اور مبشر لقمان سے مولانا طارق جمیل کا فون نمبر مانگ رہی تھی)۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ دکھ کی بات یہ ہے کہ افغانستان کی کرکٹ ٹیم کے پٹھان دیکھ کر کرکٹ سیکھ گئے مگر ہمارے نجم سیٹھی کی آنکھ کے تارے اور شہریار کے راج دلارے کھیل کر بھی کرکٹ نہ سیکھ پائے۔ آپ کی طرح ہم بھی دوسرے فائدے سے زیادہ ہی جڑ گئے۔ سوئم فائدہ یہ تھا کہ یہاں بہت سا ایسا سامان جسے کراچی کے بازاروں میں ڈھونڈنا آسان نہیں ہوتا وہ بآسانی یہاں مل جایا کرتا تھا۔ مثلاً ہمارے ایک دوست نے کوہ پیمائی کے پرانے مگر بے حد اعلیٰ کوالٹی کے سامان کی ایک پوری KIT کل چار ہزار روپے میں خریدی تھی۔ دوسرے وہاں پر وہ کتابیں اور رسالے جو وزن کے حساب سے دنیا بھر سے آتے تھے وہ سستے داموں مل جایا کرتے تھے۔ سنگاپور کی ایک لائبریری کی کئی کتب ایسی تھیں جو زراعت اور معاشیات کے حوالے سے پاکستان میں دستیاب نہ تھیں مگر ہمارے ایک کرم فرما نے اتوار بازار سے کوئی سو کے قریب ایسی کتابیں کل آٹھ ہزار روپے میں خریدیں اور انہیں پنجاب میں مختلف تعلیمی اداروں کو تحفتاً بھجوادیا۔

sunday-bazaar-books

ڈیفنس اتھارٹی کے ایڈمنسٹریٹر صاحب اور کور کمانڈر صاحب جن کے بارے سنا ہے کہ وہ کتب بینی کے شوقین ہیں۔ ان کے کافی پرانے پیشرو جنرل طارق وسیم غازی سے تو ہماری ایک دفعہ ملاقات لیاری کے ایک ایسے گودام میں ہوئی تھی جو کراچی میں پرانی کتابوں اور رسائل کے لیے بہت عمدہ مگر بے حد گمنام مرکز تھا۔ وہیں ہم نے انہیں ایک ایسا مینوئل ڈھونڈ کر دیا جو Sniper Training کا بڑا جدید کورس تھا۔ وہ وہاں سے اپنے ایک اور شوق بونسائی کے بارے میں بہت کتابیں لیا کرتے تھے۔

کور کمانڈر صاحب اگر مناسب سمجھیں تو اس بازار کے نئے مقام پر دوبارہ انعقاد سے بالخصوص سمندر کے کنارے دو دریا کے سامنے ایسا بہت بڑا خالی علاقہ موجود ہے جہاں یہ اتوار بازار آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس میں ایک حصہ Student Corner ہو تو کیا ہی اچھا ہو۔ اس میں ادارے بھی شریک ہوسکتے ہیں۔ بالخصوص کنسٹرکشن اور فوڈ انڈسٹری سے متعلق جو ڈیفنس میں بہت کثرت سے ہورہی ہے۔ اس میں ایک ماہ کے لیے وہ باقاعدہ طالب علم ہی سیلز مین ہوں جو غریب ہوں۔ پاکستان میں تعلیم یافتہ مڈل کلاس کی تشکیل ایک اہم مسئلہ ہے۔ شاید یہاں کے سیکھے ہوئے سبق یہ طالب علم اپنی تعلیم کی روشنی میں کامیاب زندگی میں ڈھال سکیں۔ ہندوستان کے علاقے بنگلور اور حیدرآباد کے شہر ایسے ہی Entrepreneur کی وجہ سے آج امریکہ کی Silicon Valley پر راج کررہے ہیں۔

سوچئے نا اس ڈیفنس بستی میں چائے خانے جو رات بھر آپ کا ناک میں دم کیے رہتے ہیں، ان کو کھولنے پر کوئی قدغن نہ ہو مگر ایسا میلہ جو بہ یک وقت تفریح، حلال روزگار اور ذہنی نشوونما کا مرکز ہو، اسے ٹھیکیدار کی بدنیتی کی وجہ سے جڑ سے ہی اکھاڑ دیں۔ یہ مناسب نہیں اتھارٹی کے لیے۔

khushwant-singh

ایک اتوار ہمیں اسی بازار سے خوشونت سنگھ کی چار پانچ کتابوں کا سیٹ مل گیا۔ چونکہ کتابیں دل چسپ اور آسان انگریزی زبان میں تھیں لہذا ہمارے ایک دوست جذباتی ہوکر لے گئے۔ کتاب، کرائے کا مکان اور قرضہ واپس مانگیں تو احباب ناراض ہوجاتے ہیں۔ انہیں مانگتے وقت آپ سائل کا رویہ دیکھا کریں اور لوٹانے کے مطالبے پر ان کی کمینگی کا مظاہرہ بھی، ایک مقام عبرت ہوتا ہے۔ اس کا شکار داغ دہلوی بھی ہوئے تھے جنہوں نے کہا تھا:

دل لے کہ مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں
الٹی شکایتیں ہوئیں، احسان تو گیا

خوشونت سنگھ کی انہیں کتابوں میں ایک کتاب تھی جس کا نام تھا ’’اچھے بُرے اور مضحکہ خیز ‘‘” The Good, The Bad and The Ridiculous”۔ اس سے ہم نے کچھ نوٹس محفوظ کرلیے تھے۔ سو درد اب جا کے اٹھا چوٹ لگے دیر ہوئی کے مصداق سوچا اس میں بیان کردہ کچھ خاکوں سے لیے گئے اقتباسات آپ سے شیئر کرلیں۔ وہ تمام لوگ جو خوشونت سنگھ کے حلقۂ احباب میں نہیں رہے انہیں خوش ہونا چاہیے کہ وہ اس میں مذکور نہیں۔ انسانوں کو دیوتا بنانا شاید الیکٹرانک میڈیا نے ہندوستان سے سیکھا ہے۔ کامیاب افراد ہوں یا عمر رسیدہ یا وفات شدگان سب کی بے وجہ تکریم ہم نے اپنے آپ پر لازم کر رکھی ہے۔ جب کہ مغرب میں ایسے افراد جو پبلک لائف میں اس رعایت کے مستحق نہیں ٹہرتے۔ اگر ہمارے ہند وپاک والے معیار سے جانچا جائے تو پھر یزید، حسن بن سبا، مامون الرشید، ہلاکو، محمد شاہ رنگیلا سبھی لائق تعظیم ٹہرتے ہیں۔

فیض کی شخصیت ایک عجیب مجموعہ تضاد تھی۔ ایک جانے مانے کمیونسٹ ہونے کے باوجود انہیں سکون روساء اور امراء کے حلقۂ احباب میں محسوس ہوتا تھا

خوشونت سنگھ اس لحاظ سے ان چند بے باک صحافیوں میں سے ایک ہیں جن کے ہاں کوئی بلا وجہ لائق تعظیم نہیں ٹہرتا، جو جیسا ہے اسے ویسا ہی بیان کرتے ہیں۔ ان کے انسان سچ مچ کے انسان دکھائی دیتے ہیں جعلی دیوتا نہیں۔ سوچیں ایسے شخص سے آپ سجدۂ تعظیم کی کیسے توقع کرسکتے ہیں جو اپنے والدین کی ایک رات کی جنسی رفاقت بھی اپنی جزئیات سمیت بیان کردے۔ یہ امر اس لیے بھی حیرت کا باعث ہے کہ یہ کتاب لکھنے کی فرمائش ان کی صاحبزادی نے کی تھی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ چینی قوم کہتی ہے کہ مدھم ترین روشنائی بھی طاقتور ترین یادداشت پر بھاری پڑتی ہے۔

فیض احمد فیض

faiz-ahmed-faiz

فیض احمد فیض سے خوشونت سنگھ کا تعلق دیرینہ تھا۔ گورنمنٹ کالج کے دنوں کا۔ ان کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ فیض صاحب کو سولہ سال کی عمر سے ہی پزیرائی ملنا شروع ہوگئی تھی۔ جب انہوں نے کسی مشاعرے میں یہ شعر پڑھا ع

لب بند ہیں ساقی میری آنکھوں کو پلا
وہ جام جو منت کش صہبا نہیں ہوتا

اس شعر کو سنتے ہی سخن شناس لوگوں نے ان کے آئندہ کے تیور بھانپ لیے تھے۔ لاہور آن کر وہ اس حلقے میں نشست و برخاست کے حق دار ٹہرے جس میں امتیاز علی تاج، پطرس، صوفی تبسم اور ایم ڈی تاثیر جو سلمان تاثیر مرحوم کے والد اور فیض کے ہم زلف بھی بنے۔ فیض کی رنگت سیاہی مائل جس کی چمک پر تیل کی مالش کا شائبہ ہوتا تھا۔ قد پستہ، بہت ہی کم اور نرم گو اور غیر جذباتی طرز عمل کے مالک، وہ لیڈی کلر نہ تھے مگر اپنی شاعری کی وجہ سے نگاہ بن کر حسینوں کی انجمن میں رہتے تھے۔ وہ بہت انسان دوست تھے ہر قسم کے تعصب سے بلند و بالاتر۔ لیکن ان کی شخصیت ایک عجیب مجموعہ تضاد تھی۔ ایک جانے مانے کمیونسٹ ہونے کے باوجود انہیں سکون روساء اور امرا ء کے حلقۂ احباب میں محسوس ہوتا تھا۔ خدا کے وجود کو نہ ماننے کہ باوجود بھی ان سے زیادہ اللہ کا خوف رکھنے والا انسان کم ہی دیکھنے میں آتا تھا۔ صوفیا کے نزدیک اللہ کا خوف ہی دین کی اصل ہے اور اعمال کی درستگی کی ضمانت ہے۔ اپنی تخلیقات میں وہ معاشرے کے مفلوک الحال اور غربت اور افلاس کے ہاتھوں ستائے ہوئے افراد کا دکھ سمیٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ ان کا اپنا طرز زندگی شاہانہ تھا۔ ایک دن میں ان کا سگار اور ولایتی شراب کا جو خرچہ تھا وہ ایک مزدور کے گھرانے کو مہینے بھر خوراک مہیا کرسکتا تھا۔

(جاری ہے)


متعلقہ خبریں


فیض احمد فیض کو مداحوں سے بچھڑے 38 برس گزر گئے وجود - اتوار 20 نومبر 2022

اردو ادب کے معروف انقلابی شاعر فیض احمد فیض کو مداحوں سے بچھڑے 38 برس گزر گئے۔ فیض احمد فیض نے جہاں اپنی شاعری میں لوگوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھائی وہیں ان کی غزلوں اور نظموں نے بھی عالمی شہرت حاصل کی۔ اپنی شاعری اور نثری تحریروں میں فیض احمد فیض نے مظلوم انسانوں کے حق میں آواز اٹ...

فیض احمد فیض کو مداحوں سے بچھڑے 38 برس گزر گئے

ملک میں سستے بازار بھی سستے نہ رہے وجود - پیر 03 جنوری 2022

ملک بھر میں مہنگائی بڑھنے سے خریداروں کے ساتھ دُکاندار بھی پریشان ہوگئے ،ملک میں سستے بازار بھی سستے نہ رہے،ملک میں بڑھتی مہنگائی کے سبب دالیں، انڈے، گوشت اور سبزی سمیت تمام ہی اشیا کی قیمتوں کو پر لگ گئے،نئے سال کے آغاز پر حکومت کے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ شہریوں کے لی...

ملک میں سستے بازار بھی سستے نہ رہے

سقوط ڈھاکہ پر لکھی گئی نظمیں وجود - جمعرات 16 دسمبر 2021

سقوطِ ڈھاکہ پر لکھی گئیں۱۶دسمبر۱۹۷۱ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعدپھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعدکب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہارخون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعدتھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کےتھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعددل تو چاہا پر شکست...

سقوط ڈھاکہ پر لکھی گئی نظمیں

راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2) محمد اقبال دیوان - جمعرات 06 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...

راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2)

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱) محمد اقبال دیوان - بدھ 05 اکتوبر 2016

ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط) محمد اقبال دیوان - پیر 03 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط)

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2) محمد اقبال دیوان - اتوار 02 اکتوبر 2016

ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول) محمد اقبال دیوان - هفته 01 اکتوبر 2016

بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول)

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط) محمد اقبال دیوان - جمعرات 29 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط)

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط) محمد اقبال دیوان - منگل 27 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط)

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟ محمد اقبال دیوان - پیر 26 ستمبر 2016

پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے محمد اقبال دیوان - هفته 24 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے

مضامین
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ وجود منگل 07 مئی 2024
سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ

فری فری فلسطین فری فری فلسطین!! وجود منگل 07 مئی 2024
فری فری فلسطین فری فری فلسطین!!

تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت وجود منگل 07 مئی 2024
تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت

کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر