... loading ...
پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ سرکاری اداروں کا بااثر لوگوں کے ہاتھوں غیر قانونی استعمال ہے۔ یہ ملک میں جاری دہشت گردی سے زیادہ سفاکانہ عمل ہے کہ کچھ بااثر لوگ سرکاری اداروں کو اپنے مخالفین کے خلاف بلاہچکچاہٹ استعمال کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔اور اُن کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔ اس ضمن میں ایف آئی اے کا بھیانک استعمال اب ایک معمول بن چکا ہے۔ اے کے ڈی سیکورٹیز کے خلاف ایف آئی اے کے مقدمے کے حقائق جوں جوں سامنے آرہے ہیں ، یہ حقیقت بھی واضح ہو رہی ہے کہ ایف آئی اے کو کس بُری طرح جہانگیر صدیقی اور اُن کے سمدھی میر شکیل الرحمان کے ذرائع ابلاغ اپنی مرضی سے استعمال کر رہے ہیں۔ اور اس میں ڈائریکٹر سندھ شاہد حیات بُری طرح ملوث دکھائی دیتے ہیں۔ کم ازکم اے کے ڈی سیکورٹیز اور بول کے حوالے سے قائم دوبڑے مقدمات میں اب ایف آئی اے کے اس مشکوک کردارکی پوری وضاحت موجود ہے۔بول کا معاملہ کسی اور وقت کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں، یہاں صرف اے کے ڈی سیکورٹیز کے حوالے سے بعض سنگین نوعیت کے حقائق کا جائزہ لیا جانا مقصود ہے۔سب سے پہلے اس پر غور کیا جانا چاہئے کہ آخر ایف آئی اے نے اچانک اے کے ڈی سیکورٹیز کو اس اسکینڈل میں کیوں گھسیٹا؟
ای او بی آئی کے خلاف اربوں روپے کے اس اسکینڈل کی تحقیقات میں ایف آئی اے کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ یہ گزشتہ پانچ برسوں سے اس پر تحقیقات کر رہی ہے اور ان پانچ برسوں میں وہ کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔ ایک انتہائی ننگے اور واضح اسکینڈل کے سارے ثبوت وشواہد موجود ہونے کے باعث ایف آئی اے نے اپنی نہ ختم ہونے والی لالچ میں ای او بی آئی کے ذمہ داروں کو مسلسل محفوظ رکھنے کے لئے ایسے اقدامات کئے جو اُس کے کردار کو مشکوک بناتے ہیں۔ مگر اس سے قطع نظر اہم بات یہ ہے ان پانچ برسوں کی تحقیقات کے دوران میں کسی ایک موقع پر بھی ایف آئی اے نے اے کے ڈی سیکورٹیز کو یا اُس کی ریسرچ رپورٹ کو اس کا کہیں پر بھی ذمہ دار نہیں ٹہرایا۔ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر لاء ملک جاوید احمد کی جانب سے ایک برس قبل جمع کرائی گئی عدالت عظمیٰ کی ایک دستاویزی رپورٹ سے منکشف ہوتا ہے کہ ایف آئی اے نے اپنی تحقیقات میں کہیں پر بھی اے کے ڈی سیکورٹیز کونہ تو اس اسکینڈل میں ملوث قراردیا اور نہ ہی اس پر کسی شک کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ اس اسکینڈل کے تمام حقائق اور اعداد وشمار پیش کرتے ہوئے اے کے ڈی سیکورٹیز کا ذکر تک بھی نہیں کیا۔
یہ بات پہلے سے ہی واضح ہو چکی ہے کہ سیکورٹی اینڈایکسچینج کمیشن آف پاکستان(ایس ای سی پی )نے خود بھی اس پورے گورکھ دھندے کی تحقیقات کر رکھی ہے، جو کسی بھی کمپنی کے اسٹاک مارکیٹ میں ان لسٹ کرنے کی منظوری بھی دیتی ہے۔ایس ای سی پی نے اس پورے اسیکنڈل کے تمام تر پہلوؤں کا احاطہ کرکے ایک رپورٹ 2013ء میں مرتب کی تھی۔ جس میں ایمٹیکس اور ای او بی آئی کے معاملات کی کھوج لگا کر اس کے ذمہ داروں کا تعین کر دیا گیا تھا۔ مذکورہ رپورٹ میں کہیں پر بھی اے کے ڈی سیکورٹیز کو ذمہ دار نہیں ٹہرایا گیا تھا۔
ایف آئی اے اپنی تحقیقات کے اول روز سے ہی آگاہ تھی کہ ایس ای سی پی نے اس پورے اسکینڈل کا فنی جائزہ لیا ہے اور اس کے تمام ذمہ داروں کاتعین کر دیا ہے۔ کیونکہ ایس ای سی پی ان معاملات کی تہہ داریوں کو زیادہ بہتر جانتی ہے، اس لئے کسی بھی قانونی فورم پر اس کے اخذ کردہ نتائج کو سب سے زیادہ اہمیت دینا ایک فطری امر ہوگا۔ لہذا ایف آئی اے نے جان بوجھ کر ایس ای سی پی کی تحقیقاتی رپورٹ پر پردہ ڈالے رکھا۔ یہاں تک کہ انسدادِ دہشت گردی کی وفاقی عدالت نے بار بار اس رپورٹ کو جمع کرانے کے احکامات دیئے۔ ایف آئی اے پہلے تو عدالتی حکم کو مختلف بہانوں سے ٹالتی رہی۔ پھر جب اُسے جمع کرانے کی نوبت آ ہی گئی تو اِسے خاموشی سے جمع کرایا۔ تاکہ اس کا کوئی چرچا نہ ہو سکے۔مذکورہ رپورٹ کے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بن جانے کے بعد جب اِسے کسی نہ کسی طرح حاصل کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ایس ای سی پی کی اس رپورٹ میں اے کے ڈی سیکورٹیز کو سرے سے ذمہ دار سمجھا ہی نہیں گیا۔
ایف آئی اے نے پہلے تو ریسرچ رپورٹ کی بنیاد پر اے کے ڈی سیکورٹیز کا میڈیا ٹرائل کیا ۔ جب یہ موقف حقائق اور شواہد کی روشنی میں ایک عامیانہ اور قانون کی نگاہوں میں زیادہ موثر دکھائی نہیں دیا تو اچانک ایف آئی اے نے اپنے موقف کا چولا بدلتے ہوئے اے کے ڈی سیکورٹیز کو ایمٹیکس کی اسٹاک مارکیٹ میں لسٹنگ کا ذمہ دار قرار دے کر اُس پر سارانزلہ گرانے کی کوشش کرنےلگی۔ مگر اس ضمن میں جو حقائق ہیں، وہ نہایت دلچسپ ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایف آئی اے کے لئے خود اپنی ہی تحقیقات ایک وبالِ جان بن چکی ہے۔ اور وہ اپنے ہی پھیلائے ہوئے جال میں خود پھنسنے جارہی ہے۔
وجود ڈاٹ کام نے اے کے ڈی سیکورٹیز کی جانب سے ایمٹیکس کی اسٹاک مارکیٹ میں لسٹنگ کے معاملے کی چھان بین کے لئے جب ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر ہارون عسکری سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے لسٹنگ کے مراحل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کسی بھی کمپنی کی اسٹاک مارکیٹ میں لسٹنگ کے تین مراحل ہوتے ہیں۔ اولاً :لسٹنگ ریگولیشن کی روشنی میں کسی کمپنی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ثانیاً :مذکورہ لسٹنگ ریگولیشن کے معیار پر مذکورہ کمپنی کی متعلقہ باڈی سے منظوری لی جاتی ہے۔ ثالثا: ایک انٹرنیشنل چیک لسٹ کو متعلقہ کمپنی پر لاگو کیا جاتا ہے۔ایمٹیکس کی لسٹنگ میں اوپر دیئے گئے دومراحل کے تحت کمپنی سوفیصد معیار پر پوری اُترتی تھی۔ تیسرے مرحلے یعنی انٹرنیشنل چیک لسٹ کے حوالے سے ہارون عسکری صاحب کا کہنا تھا کہ اس میں کم وبیش پینتالیس سے چھیالیس نکات کے تحت کمپنی کے ایک ایک پہلو کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ہارون عسکری کے مطابق کمپنی نے ان تمام نکات کی بھی سوفیصد تکمیل کی ۔ اُنہوں نے اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس تیسرے مرحلے میں ہم پہلے یہ جانچتے ہیں کہ کمپنی کا ڈائریکٹر اسٹیٹ بینک کی نادہندہ فہرست میں تو نہیں آتا۔ایمٹیکس کی لسٹنگ کے وقت اسٹیٹ بینک کی نادہندہ فہرست وجود ہی نہیں رکھتی تھی۔ اس کا متبادل طریقہ اسٹیٹ بینک کی ہی کریڈٹ انفارمیشن بیورو کی رپورٹ تھی ۔ چنانچہ وہ منگوائی گئی۔ مذکورہ سی آئی بی کی رپورٹ میں ایمٹیکس صاف تھی۔ البتہ کمپنی کی سی آئی بی میں ایک نوے ملین کی رقم کا اوور ڈیو کے طور پر اندراج تھا۔ ہارون عسکری کے مطابق اس اوورڈیو رقم کو لسٹنگ کے وقت اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ اس کی بنا پر کمپنی کو نادہندہ فہرست میں قیاس کیا جاتا۔ یعنی یہ فرض کیا جاتا کہ کمپنی کا یہ ساری رقم رائٹ آف کی جائے گی۔ مزید براں خود کمپنی نے دستخط شدہ جو کاغذپیش کیا اُس میں کمپنی پر کوئی واجب الاد ا رقم نہیں تھی۔ایف آئی اے اسی رقم کو ایمٹیکس کی نادہندگی کے طور پر میڈیا ٹرائل کے لئے استعمال کررہی ہے۔ مگر یہ دراصل اوورڈیو رقم تھی جسے ایف آئی اے نے نادہندگی کے زمرے میں رکھ کر گمراہ کن کارروائی کا ماحول بنائے رکھا۔
مذکورہ تمام حقائق سے یہ واضح ہے کہ اے کے ڈی سیکورٹیز کا سارا کردار ایک ڈاکخانے سے زیادہ نہیں تھا۔ ایمٹیکس کی لسٹنگ کی منظوری ایس ای سی پی نے دی۔ اُسے اِن لسٹ اسٹاک مارکیٹ نے تمام قواعد وضوابط کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کیا۔ پھر اُسے ایک ریٹنگ ایجنسی نے اے ون کی ریٹنگ بھی دی۔ ظاہر ہے کہ یہ پورا نظام اے کے ڈی سیکورٹیز کے فیصلوں کے تابع نہیں تھا۔اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ ایمٹیکس کو ریٹنگ کس ایجنسی نے دی؟
ایف آئی اے جو بال کی بھی کھال نکالنے کی ماہر ہے اب تک معلوم نہیں یہ کیوں کھوج نہیں لگا سکی کہ آخر ایمٹیکس کو اے ون ریٹنگ دینے والی ایجنسی کون سی ہے؟ ایف آئی اے کو یہ معلوم کرنا چاہئے تھا کہ اگر یہ واقعی ڈیفالٹ کمپنی تھی تو پھر جے سی آر نامی ریٹنگ ایجنسی نے اِسے اے ون کمپنی کی ریٹنگ کیوں دی؟کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کی تحقیقات کرتے ہوئے ایف آئی اے کے مذکورہ اہلکاروں کو اُن ہی گھروں کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا جن کے کہنے پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ شاہد حیات نے اے کے ڈی سیکورٹیز کے تین ذمہ داران کو دھر لیا ہے۔ جے سی آر نامی کمپنی کے حصص یافتگان کے بارے میں ایف آئی اے کی تحقیقات دلچسپی کا خاصا سامان پیدا کرے گی۔ مگر وہ ایف آئی اے کے لئے ایک آئینہ بھی بن سکتی ہے جس میں وہ اپنے چہرے دیکھ سکیں گے کہ کس طرح اُنہیں استعمال کرنے والے ہی اس اسکینڈل کے ذمہ داروں میں بھی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔پیر کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے لیے دائر اپیل پر سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔وفاق...
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ کے غیر مستند ہونے پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر مایوسی ہی ہوئی ہے ،فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل کرتے تو 9 مئی کا واقعہ بھی شاید نہ ہوتا،کہتے ہیں بس آگے بڑھو، ...
وفاقی وزیر پٹرولیم و فوکل پرسن پاک سعودی شراکت داری ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ 30 سے 35 سعودی کمپنیوں کے نمائندے پاکستان میں توانائی ،ریفائنری ، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے لئے بات چیت کررہے ہیں،پہلے حکومت سے حکومت کی سطح پر معاہدے ہوئے ،اب بزنس ...
قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی (پی اے سی)کے چیئرمین کا تنازع شدت اختیار کرگیا ہے اور اس نے پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کی جانب سے شیر افضل خان مروت کی جگہ شیخ وقاص اکرم کو کمیٹی کا چیئرمین بنانے کیلئے ووٹ دینے پر جماعت کے اعلیٰ عہدیداران کے درمیان اختلافات کو اجاگر کرد...
وزیر اعظم شہباز شریف نے ’ہر قیمت پر کسانوں کے مفادات کا تحفظ‘کرنے کا عہد کیا ہے ، جبکہ وفاقی حکومت میگا اسکینڈل کی جامع تحقیقات کرنے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے ۔تفصیلات کے مطابق گزشتہ ہفتے درآمدات میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے...
سعودی تجارتی وفد سرمایہ کاری کے باہمی تعاون کیلئے پاکستان پہنچ گیا۔ سعودی عرب کے نائب وزیر سرمایہ کاری ایچ ای ابراہیم المبارک کی قیادت میں 50ارکان پر مشتمل اعلیٰ سطحی تجارتی وفد پاکستان پہنچا۔ سرمایہ کاروں کے وفد کے دورہ پاکستان کے دور ان 10 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کے معاہدوں ...
اسرائیلی فوج کی وحشیانہ کارروائیاں جاری ہیں ، طولکرم میں مزید5 فلسطینی شہید کردئیے ، رفح میں ماں دو بچوں سمیت شہید جبکہ3 فلسطینی زخمی ہو گئے ۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فورسز نے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر طولکرم کے قریب ایک قصبے میں رات کو کارروائی کے دوران 5 فلسطینیوں ک...
وزیر اعظم محمد شہبا ز شریف نے کہا ہے کہ فیصلہ کن گھڑی آچکی ہے سب کو مل کر ملک کی بہتری کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا، پاکستان کو آج مختلف چیلنجز کا سامنا ہے ریونیوکلیکشن سب بڑا چیلنج ہے ،جزا ء اور سزا کے عمل سے ہی قومیں عظیم بنتی ہیں،بہتری کارکردگی دکھانے والے افسران کو سراہا جائے گا...
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں، ادارے آئین کی تابعداری کے لیے تیار ہیں تو گریٹر ڈائیلاگ کا آغاز ہوسکتا ہے ، ڈائیلاگ کی بنیاد فارم 45ہے ، فارم 47کی جعلی حکومت قبول نہیں کرسکتے ، الیکشن دھاندلی پر جوڈیشل کمیشن بنے جس کے پاس مینڈیٹ ہے اسے حکومت بنانے د...
ملک میں 8؍فروری کے الیکشن کے بعد نئی حکومت آنے کے بعد بھی 98 ارب51 کروڑ روپے کی گندم درآمد کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے ۔تفصیلات کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھی 6 لاکھ ٹن سے زیادہ گندم درآمد کی گئی، ایک لاکھ13ہزار ٹن سے زیادہ کا کیری فارورڈ اسٹاک ہونے کے باوجو...
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے ) نے نان ٹیکس فائلر کے حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے اٹھائے گئے اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے 5لاکھ سے زائد سمز بند کرنے کی معذرت کر لی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے 2023 میں ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے والے 5...
کراچی میں پیپلزبس سروس کے کرائے کی ادائیگی کے لیے اسمارٹ کارڈ متعارف کروا دیا گیا ۔ کراچی میں پیپلز بس سروس کے مسافروں کیلئے سفر مزید آسان ہوگیا۔ شہری اب کرائے کی ادائیگی اسمارٹ کارڈ کے ذریعے کریں گے ۔ سندھ حکومت نے آٹومیٹڈ فیئر کلیکشن سسٹم متعارف کرادیا۔ وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی ش...