وجود

... loading ...

وجود
وجود

یارب! اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا

منگل 19 جنوری 2016 یارب! اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا

urdu-nastaliq

آج بہت دنوں بعد کسی کو خط لکھنے کے لئے قلم اٹھایا، تو خیال آیا کہ ہمیں دوست کا پتہ ہی معلوم نہیں ۔ سستی، بے پروائی اور وقت کی کمی کے بہانے تو پہلے بھی تھے، پھر بھی ہم طوعاً وکرہاً خط لکھ ہی لیا کرتے تھے۔ برق گرے اس ای میل پر جب سے ہم اپنے کمپیوٹر کے ذریعے انٹرنیٹ سے متصل ہوئے ہیں، ہمیں دوستوں کا پتہ نہیں اُن کا برقی پتہ محفوظ رکھنا پڑتا ہے۔ اور موبائل کی آمد کے بعد سے تو گویا قلم و کاغذ سے رہا سہا تعلق بھی جا تا رہا۔ خط و کتابت اب ماضی بعید کا قصہ بن چکا ہے۔ کورے کاغذ کی خوشبو ناک سے ٹکرائے اک عرصہ بیت گیا، زبان گوند کا ذائقہ ہی بھول گئی ہے اور آنکھوں نے ڈاکیے کی راہ تکنا چھوڑ دی ہے۔ اس برقی نامے نے خط و کتابت سے وابستہ سارا رومان ملیامیٹ کردیا ہے۔ اب تو آپ نے اپنا کھاتہ کھولا، پیغامات پڑھے، فوراً ہی ایڈیٹر پر جواب لکھا اور دے مارا۔ نہ خیالات صحیح سے مجتمع ہو پاتے ہیں، اور نہ ہی القاب و آداب کا اہتمام ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائل کے اپنے طریق اور آداب ہیں، جن کو etiquette کے وزن پر netiquette (یعنی نیٹ کے آداب) کہا جاتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ تختہ کلید (کی بورڈ، کی پیڈ) میں وہ بات کہاں جو قلم و قرطاس کی گرفت میں ہوتی ہے۔ اور جس “رومن اردو” سے ہمارا مستقل سابقہ پڑتا ہے، اس سے متعلق ہمیں اپنے دوست رضا صاحب کی رائے سے مکمل اتفاق ہے کہ بندہ پاجامے پر ٹائی پہن لے، جان کو ’’jan‘‘ نہ لکھے۔

جی ہاں، بے چارے شاعروں کے لئے طبع آزمائی کا ایک اور باب بند ہو چلا ہے۔ اب کون نامہ برکو یوں کوسے گا:

نامہ لاتا ہے وطن سے، نامہ بر اکثر کھلا

چاند، بالا خانے، پنگھٹ اور رفو وغیرہ جیسے موضوعات، ٹیکنالوجی کی آمد کے باعث پہلے ہی متروک ہوچکے ہیں۔ اب تو نہ وہ انتظار کی تشنگی، نہ خط ملنے پر نشاط ، نہ فاصلے کا گمان اور نہ ہی نامہ گم ہونے کا اندیشہ، ور نہ تو:

ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ
یارب! اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا

اسے رجعت پسندی کہیں یا یادش بخیریا۔ مجھے کئی بار دوستوں کی طرف سے ایسا برقی رقعہ پڑھنے کو ملا جس میں انہوں نے اپنی پچھلی mail سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔ یعنی ’’میں جلدی میں تھا، نہ جانے کیا کیا لکھ گیا‘‘، یا ’’میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا‘‘ یا ’’ پچھلے پیغام کو نظر انداز کردیں‘‘، وغیرہ وغیرہ۔

انٹرنیٹ پر باہمی دلچسپی پر قائم کئی برقی گروہوں میں ممبران بحث میں الجھتے ہیں، پھر وضاحتیں کرتے ہیں، پلٹتے ہیں، پھر جھپٹتے ہیں۔ یہ مانا کہ خط و کتابت کے دنوں میں بھی دنیا امن کا گہوارہ نہیں تھی پر دشمنیاں لمحوں میں نہیں بڑھتی تھیں، نہ دوستیاں چند ساعتوں میں سمٹتی تھیں۔ پہلے دشمنیوں پر فاصلے کی روک تھی، اب فاصلے صرف محبت میں ہی نہیں رقابتوں میں بھی سمٹ گئے ہیں۔ برقی زندگی آپ سے برقیانہ تقاضے کرتی ہے، ابھی ہم سوچ ہی رہے ہوتے ہیں کہ خود کو ’’send‘‘ کا بٹن دباتے ہوئے پاتے ہیں۔ اور کمان سے نکلے تیر کی طرح یہ باتیں واپس نہیں آتیں بلکہ حافظے کے ساتھ ساتھ کسی اور جگہ بھی محفوظ ہو جاتی ہیں اور سند کے طور پر دوبارہ پیش کی جا سکتی ہیں۔ موبائل کے روز افزوں استعمال نے، موبائل ہو یا انٹرنیٹ، برقی رقعے ہوں یا سماجی ابلاغ (social media)، ہر جگہ سوچ اور ابلاغ کا فاصلہ گھٹتا جا رہا ہے بلکہ اب ہمارے جہری خیالات (loud thinking) بھی مفاد عامہ کے لئے نہ جانے کہاں تک پھیل جاتے ہیں۔

پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست نے نہ جانے کس ترنگ میں آکر اپنی منگیتر کو’’ پتہ پتہ، بوٹا بوٹا حال ہمارا۔۔۔‘‘ کا انگریزی ترجمہ برقی پیغام میں لکھ بھیجا یہ کام یعنی انہوں نے شاید پانچ منٹ میں کیا ہو۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں انہیں خیال آیا کہ اس اللہ کی بندی کو میری انگریزی اور شاعری کی کیا سمجھ آئے گی، کچھ کا کچھ مطلب نہ نکال لے۔ فوراً ہی دوسرا نامہ بھیجا کہ ’’ میری گزشتہ میل کو نظر انداز کردیں۔ یہ میرے خیالات نہیں تھے۔‘‘ ابھی یہ نامہ بھیجا ہی تھا کہ سوچنے لگے ’’یہ میرے خیالات نہیں تھے! کیا یہ میرے خیالات نہیں تھے، کیا میں واقعی یہ کہنا چاہتا تھا؟ وہ آخر کیا سوچے گی۔‘‘ اور انہوں نے دس منٹ کے اندر تیسری میل کی اس کے بعد دیر تک یہ سوچتے رہے کہ ان کے خیالات اصل میں ہیں کیا۔ خود بتاتے ہیں کہ کچھ عرصے پہلے تک وہ خط لکھتے تھے، پھاڑتے تھے، پھر لکھتے، پھاڑتے، حتیٰ کہ صبح سے شام ہوجاتی ۔ لیکن ان کے مخاطب کو ان کے خیالات کی بھنک نہیں پڑتی تھی۔

اب تک کم از کم خط و کتابت کے معاملے میں ہم بجلی کے محتاج نہ تھے، چاہے کتنے ہی دنوں کے لیے بجلی غائب ہو، ہمیں یاروں کو خط لکھنے اور انہیں وصول کرنے سے کوئی نہ روک سکتا تھا، علاوہ ڈاکیے کے ۔کچھ لوگ یوں نکتہ آرائی کرتے ہیں کہ اب پیغام رسانی کے لیے ہمیں انسانوں کی ضرورت نہیں، انسان تو انسان کسی بھی جاندار کے محتاج نہیں۔ صحیح بات ہے، اب ہمارے رقعے انسانی ہاتھوں سے نہیں بلکہ مشینوں سے گزر کر منزل تک پہنچتے ہیں اور مشینیں ان کے ساتھ کوئی سلوک نہیں کرتیں، من و عن پہنچا دیتی ہیں۔

اب یہ سہولت بھی برقی رقعے میں ہی ہے کہ اپنی تحریر کی کاربن کاپی بیسیوں لوگوں کو بیک وقت بھیجی جاسکتی ہے۔ گویا آپ کئی لوگوں سے بیک وقت کسی بھی طرح کا اظہار خیال کرسکتے ہیں اور ایسے کہ ہر کوئی یہ سمجھے کہ اس اظہار کا اکلوتا مخاطب وہ ہی ہے۔

مجھے اپنے کھاتے میں روز بے شمار پیغام وصول ہوتے ہیں، جن کا مخاطب ’’میں‘‘ نہیں بلکہ ایک مخفی گاہک ہوتا ہے، کسی کو میرا جلد رشتہ کرنے کی فکر، کوئی مجھے میرے قرض سے چھٹکارا دلانا چاہتا ہے۔ کوئی ٹھیک 90 دن کے اندر وزن دس پاؤنڈ تک گھٹانے کا نسخہ بتلاتا ہے اور کوئی میری نفسانی خواہشات کو چارہ ڈالتا ہے۔ غرض یہ کہ لگتا ہے اپنا ای میل اکاؤنٹ نہیں کھولا بلکہ بازار کا رخ کرلیا ہے۔ جہاں سب اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں بلکہ لگا رہے ہیں۔ کانٹوں بھری راہ پر تو بندہ دامن بچالے، ماؤس کیونکر بچائے۔

جیسا کہ عرض کیا برقی خط تو اب پرانا قصہ ہو گیا۔ اب تو ہم اپنا ڈاکخانہ ساتھ لیے گھومتے ہیں ۔ جی ہاں ہمارا اشارہ موبائل کی جانب ہے۔


متعلقہ خبریں


موبائل صارفین کو 100 روپے ڈلوانے پر72.80 کا بیلنس ملے گا وجود - جمعه 31 دسمبر 2021

وفاقی حکومت کے منی بجٹ میں ٹیلی کام سروسز پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کیے جانے سے 100 روپے کا بیلنس چارج کرنے والے صارفین کو اب 72.80 روپے کا بیلنس ملے گا۔ منی بجٹ کی تجویز کے مطابق اب صارفین کے 100 روپے کے بیلنس میں سے ایڈوانس ٹیکس کی مد میں 13 روپے کی کٹوت...

موبائل صارفین کو 100 روپے ڈلوانے پر72.80 کا بیلنس ملے گا

وزیراعظم نواز شریف اپنی شیروانی کہیں رکھ کر بھول گئے؟ عارف عزیز پنہور - منگل 27 ستمبر 2016

زندہ قومیں اپنی زبان کو قومی وقار اور خودداری کی علامت سمجھا کرتی ہیں اور اسی طرح قومی لباس کے معاملے میں بھی نہایت حساسیت کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ روس‘ جرمنی‘ فرانس اور چینی رہنما کسی بھی عالمی فورم پر بدیسی زبان کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ نہیں بناتے، بلکہ اپنی ہی زبان میں...

وزیراعظم نواز شریف اپنی شیروانی کہیں رکھ کر بھول گئے؟

وفاقی وزراء بھی نفاذِ اردو کے مخالف ہیں، مشیرِ وزیراعظم عرفان صدیقی وجود - پیر 25 جولائی 2016

وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر عرفان صدیقی نے قومی زبان اردو کے سرکاری زبان کے طور پر نفاذ کے حوالے یہ اعتراف کیا ہے کہ اس میں صرف بیورو کریسی ہی رکاوٹ نہیں بلکہ اس سلسلے میں عدالتی فیصلے کے نفاذ کے خلاف مختلف وزراء بھی ہیں۔ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے پاکستان قومی زبان تحریک کے زیر...

وفاقی وزراء بھی نفاذِ اردو کے مخالف ہیں، مشیرِ وزیراعظم عرفان صدیقی

’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘ اطہر علی ہاشمی - پیر 11 جولائی 2016

مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟ عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو ن...

’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘

پڑھتے کیوں نہیں؟ ارشاد محمود - جمعه 11 دسمبر 2015

ایک دوست کی فرمائش پر اردوڈائجسٹ خریدنے اسلام آبادکے ایک کتاب گھر جانا ہوا۔ غیر ارادی طور پرمالک سے گپ شپ شروع ہوگئی۔ کہنے لگا کہ ابھی بھی اردو ڈائجسٹ کے کافی قارئین ہیں لیکن سب معمر افراد ہیں۔ نوجوانوں میں خال خال ہی کوئی ڈائجسٹ خریدتا ہے حتیٰ کہ سب رنگ اور خواتین ڈائجسٹ کے ب...

پڑھتے کیوں نہیں؟

یہ وطیرہ کیا ہے؟ اطہر علی ہاشمی - پیر 16 نومبر 2015

جناب پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات ہیں اور اس لحاظ سے تمام صحافیوں کے سرخیل ہیں۔ ان کا فرمانا ہمارے لیے سند ہے۔ لاہور کا معرکہ جیتنے پر وہ فرما رہے تھے کہ فلاں کی تو ضمانت تک ضَبَطْ (بروزن قلق‘ شفق‘ نفخ وغیرہ یعنی ضَ۔بَط) ہوگئی۔ اب جو مثالیں ہم نے دی ہیں نجانے ان کا تلفظ وہ کیا ک...

یہ وطیرہ کیا ہے؟

نقص ِامن یا نقضِ امن اطہر علی ہاشمی - هفته 31 اکتوبر 2015

عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر آئین کے مطابق قومی زبان اردو کو اس کا جائز مقام دینے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ 1973ء کے آئین میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے غالباً 10 سال کی مدت طے ہوئی تھی۔ ایسے کئی دس سال گزر گئے۔ لیکن اب عدالت نے نہ صرف حکم جاری کیا ہے بلکہ نئے منصفِ اعلیٰ نے اپنا...

نقص ِامن یا نقضِ امن

روس عالمی انٹرنیٹ سے غائب وجود - منگل 20 اکتوبر 2015

روس چند ایسے تجربات کررہا ہے جن کے ذریعے وہ دیکھے گاکہ وہ ورلڈ وائیڈ ویب سے نکل سکتا ہے یا نہیں تاکہ ملک کے اندر اور بیرون ملک معلومات کی ترسیل کو گھٹایا جا سکے۔ ماہرین نے برطانیہ کے روزنامہ ٹیلی گراف کو بتایا ہے کہ یہ تجربات کسی بھی ممکنہ مقامی سیاسی بحران کی صورت میں معلوما...

روس عالمی انٹرنیٹ سے غائب

ترکی میں اردو تدریس کے 100 سال کا جشن وجود - منگل 20 اکتوبر 2015

پاکستان اور ترکی کے درمیان ثقافتی تعاون اب ایک نئے سنگ میل پر پہنچ گیا ہے کیونکہ دونوں ملک ترکی میں اردو تدریس کے 100 سال مکمل ہونے کا جشن منا رہے ہیں۔ 1915ء میں ترکی کی جامعہ استنبول کے دار الفنون، یعنی کلیہ ادبیات، میں اردو زبان و ادب کی تدریس کا باضابطہ آغاز ہوا تھا۔ اس تاریخی...

ترکی میں اردو تدریس کے 100 سال کا جشن

مستقبل کی زبان کون سی ہوگی؟ وجود - هفته 26 ستمبر 2015

لسانی اعتبار سے امریکا کو دنیا  پر ایک برتری حاصل ہے، ملک میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانیں یعنی انگریزی اور ہسپانوی، دنیا بھر میں بھی سب سے زیادہ بولی جاتی ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی طلباء کو نئی زبانیں سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے؟ ماڈرن لینگویج ایسوسی ایشن کی تحقیق...

مستقبل کی زبان کون سی ہوگی؟

بھارت کی مرکزی وزیر تعلیم، ہندو تعصب میں حد سے بڑھ گئیں وجود - جمعرات 17 ستمبر 2015

بھارت کی مرکزی وزیر تعلیم اسمرتی ایرانی اپنے تیکھے تیوروں کے باعث مسلسل تنازعات میں رہتی ہیں۔ اب اُن کا تازہ تنازع ’’اردو دشمنی‘‘ کی شکل میں سامنے آیا ہے۔تفصیلات کے مطابق یوپی کے دارالحکومت لکھنؤ میں مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی ایک اجلاس کے بعد جب ڈاکٹر منوہر میڈیکل یونیورسٹی سے نک...

بھارت کی مرکزی وزیر تعلیم، ہندو تعصب میں حد سے بڑھ گئیں

تنہائی پسند افراد کے لیے 10 بہترین کام وجود - هفته 12 ستمبر 2015

بہترین تنخواہ اور معاشرے میں اعلیٰ مقام، بس آجکل دوڑ اِسی کی ہے۔ یہ ملازمتیں آپ کو ایک کامیاب اور بہتر زندگی تو دے سکتی ہیں لیکن یہ آپ کو تنہا کردیں گی۔ اگر آپ تنہائی پسند ہیں، تو یہ 10 ملازمتیں آپ کا بہترین انتخاب ہوسکتی ہیں۔ کھلاڑی کھلاڑی اپنے دن کا بیشتر وقت جم یا کھیل ک...

تنہائی پسند افراد کے لیے 10 بہترین کام

مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر