وجود

... loading ...

وجود
وجود

پڑھتے کیوں نہیں؟

جمعه 11 دسمبر 2015 پڑھتے کیوں نہیں؟

urdu-books

ایک دوست کی فرمائش پر اردوڈائجسٹ خریدنے اسلام آبادکے ایک کتاب گھر جانا ہوا۔ غیر ارادی طور پرمالک سے گپ شپ شروع ہوگئی۔ کہنے لگا کہ ابھی بھی اردو ڈائجسٹ کے کافی قارئین ہیں لیکن سب معمر افراد ہیں۔ نوجوانوں میں خال خال ہی کوئی ڈائجسٹ خریدتا ہے حتیٰ کہ سب رنگ اور خواتین ڈائجسٹ کے بھی نئے خریدار بن نہیں رہے ۔ بتانے لگا کہ کسی زمانے میں انگریزی کی ریڈرز ڈائجسٹ دُکان پر دو سوکے لگ بھگ آتی اور ہاتھوں ہاتھ نکل جاتیں۔ طلبہ اورکم آمدنی والے نوجوان پرانے شمار ے سستے داموں فراہم کرنے کی درخواست کرتے۔ اب محض پچا س کاپیاں آتی ہیں اورہفتوں پڑی رہتی ہیں۔ ان کے خریدار وں میں نوجوانوں کی تعداد اکادکا ہے۔ استفسار کیا کہ نوجوان کیا خریدتے ہیں؟کہنے لگا کہ کھیلوں ، فیشن اور میک اپ والے رسائل اور جرائد نوجوان مردوں اور عورتوں میں مقبول ہیں۔ بچوں کے انگریزی ناول مثال کے طور پر Dairy of a Wimpy kid کچھ نہ کچھ نکل جاتے ہیں۔ شہرہ آفاق ادیب نسیم حجازی کے ناول، جن کے سحر میں کئی نسلیں گرفتار رہیں، کا اب کوئی خریدار نہیں۔

یا د آیا کہ کوئی گیارہ برس پہلے انٹرنیشنل ویزیٹر پروگرام میں امریکا کی چھ سات ریاستوں کی یاترا کا موقع ملا۔ پروگرام کے اختتام پر ایک ہفتہ پھوپھی زاد بھائی ڈاکٹر عاشق حسین کے ہاں قیام کیا۔ ان کے دونوں بچے چھٹی کے دن مسلسل کتابیں پڑھتے ۔ اسفند نے بتایا کہ وہ ہر ہفتے ایک کتاب ختم کرتے ہیں۔ پتہ چلا کہ یہاں یہ معمول کی بات ہے۔ ہفتے کے دن والدین بچوں کو خود کتب خانوں میں لے کرجاتے ہیں۔ حکومت اور معاشرے کتب بینی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

اس مشاہدے سے متاثر ہوکر اس طالب علم نے بھی اپنے بچوں کو مطالعے کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی جو کہ کافی محنت طلب کام نکلا۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر کہانیاں پڑھیں ‘کتابیں خریدیں ۔ بچوں کے ساتھ کتب بینی کے تجربے سے یہ خیال مزید پختہ ہوا کہ انہیں انگریزی نہیں اردو پڑھانے کی زیادہ ضرورت ہے۔ انگریزی تو وہ اسکول سے بھی سیکھ لیتے ہیں لیکن شستہ اردو سکھانے کا کوئی اہتمام نہیں۔

اچھے لکھنے والے اپنی کتابیں بھارتی ناشروں سے چھپواتے ہیں۔ رائلٹی بھی معقول ملتی ہے اور وہ کتاب کی تشہیر بھی کمال کی کرتے ہیں۔ چند ماہ قبل خورشید محمود قصوری نے بھارت سے اپنی کتاب چھپوائی

یاد آیا کہ برطانیا میں آباد میرپوریوں نے بچوں کو میرپوری اور انگریزی تو سکھادی لیکن اردو نہ سکھا پائے۔ پاکستان آتے ہیں تو گونگے بن جاتے ہیں کہ یہاں انگریزی کا چلن عام نہیں اور منگلا ڈیم سے پرے میرپوری بولی اجنبی ہے۔ انہوں نے اردو سیکھی ہوتی تو پاکستان ہی نہیں بھارت کے شہریوں سے بھی تبادلہ خیال کرسکتے ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مادری زبان نہ سکھائی جائے۔ دھرتی ماں سے محبت تو ہماری گھٹی میں پڑی ہے لیکن کبھی کبھی مستقبل میں بھی تانک جھانک کرنی چاہیے۔

کتاب گھر والے عبدالشکور بتارہے تھے کہ کتابوں کی مانگ بھی مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔ عالم یہ ہے کہ اچھے لکھنے والے اپنی کتابیں بھارتی ناشروں سے چھپواتے ہیں۔ رائلٹی بھی معقول ملتی ہے اور وہ کتاب کی تشہیر بھی کمال کی کرتے ہیں۔ چند ماہ قبل خورشید محمود قصوری نے بھارت سے اپنی کتاب چھپوائی۔ بے شمار دوسرے مصنفین بھی بھارتی ناشرین کی جانب راغب ہورہے ہیں۔

کیوں نہ ہوں!چند دن قبل 100لفظوں کی ایک کہانی کے مصنف مبشر علی زیدی نے مصنفین کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کا نوحہ رقم کیا۔ لکھتے ہیں: کتب فروش ہر کتاب آدھی قیمت پر خریدتے ہیں۔ 250 روپے کی کتاب 125 روپے میں لیتے ہیں۔ خریدار کو رعایت نہ دیں تو 125 روپے کماتے ہیں۔ چنانچہ بک ڈسٹری بیوٹر 40 فیصد پر پبلشر سے کتاب لیتا ہے۔ 50 فیصد پر بک سیلر کو دیتا ہے۔ 250 روپے کی کتاب ڈسٹری بیوٹر نے 100 روپے میں لی اور کتب فروش کو 125 روپے میں بیچ دی۔ پبلشر کی خفیہ رسیدیں دیکھ کر بتارہا ہوں کہ ’’100 لفظوں کی کہانی‘‘ نام کے پروجیکٹ میں کمپوزنگ، پیج سیٹنگ، پروف ریڈنگ، ٹائٹل بنوائی، 70 گرام کے انڈونیشیائی کاغذ اور پریس میں کتاب چھپائی پر ایک لاکھ دس ہزار روپے خرچ ہوئے ۔ یعنی ایک کاپی کتاب چھاپنے والے کو ایک سو دس روپے کی پڑی۔ اس نے ایک سو روپے میں ڈسٹری بیوٹر کے سپرد کی۔ کتنے پیسے کمائے؟یہ ہے حال اس قوم کا جو اکثر اپنی صبح کا آغاز ان آیات کریمہ کی تلاوت سے کرتی ہے: پڑھ اپنے پرودگار کے نام سے جس نے عالم کو پیداکیا۔

چند برس ہوئے‘ سپر مارکیٹ میں پرانے مسٹر بکس کے عقب میں کتابوں کی ایک شاندار دُکان کا افتتاح ہوا لیکن ایک سال کے اندر ہی درسی کتب اور سی ڈیز فروخت کرنا شروع ہوگئے۔ ایک دن ادھر سے گزر ہوا تو پوچھا کہ کتابوں سے دامن جھاڑ کرسی ڈیز اور کمپیوٹر کی اشیا (accessories) فروخت کرنے کاماجرا کیا ہے؟ افسردہ سی شکل بنا کر کہنے لگا کہ بھائی کتاب وہ جنس ہے جس کا اس بازار میں خریدار ہی نہیں۔

اسی کی دہائی کے آخری چند سال اس خاکسار کے کراچی میں بیتے۔ ہر پیر وجوان کو کتابوں کا رسیا پایا۔ نوجوان کے پاس ایک نہیں دو دو لائبریریوں کے کارڈ ہوتے۔ ملاقات کرنے اور گپ بازی کے لیے بھی نوجوان لائبریری کا ہی انتخاب کرتے۔ اکثر لیاقت میموریل لائیبریر ی جانا ہوتا۔ ایک دن حکیم محمد سعید کو یہاں مطالعہ میں غرق پایا۔ حیرت سے دیرتک انہیں تکتا رہا۔

کراچی یونیورسٹی کی بحری جہاز نما لائبریری میں اکثر طلبہ وطالبات کی بھیڑ کا یہ عالم ہوتاکہ جلسہ عام کا گمان ہوتا۔ یادآیا کہ کتابیں تلاش کرکے دینے والے ایک بابا جی بلاکی یاداشت کے مالک تھے۔ آپ کتاب کا نام لیں وہ جھٹ سے حاضر کردیتے ۔

راولاکوٹ جیسے دورافتادہ علاقے میں بھی کتب بینی کا رجحان عام تھا۔ عزیز کیانی نے پوسٹ آفس کے سامنے ایک چھوٹی سے دُکان میں ڈھیر ساری کتابیں جمع کررکھی تھیں۔ پچاس پیسے روزانہ کے حساب سے کتاب مستعار دیتے۔ مذہب، سیاست اور ادب پر بڑی نایاب کتابیں ان کے پاس جمع تھیں۔ اس طالب علم نے دسویں کا امتحان دیا تو سیاسیات پر کئی کتابیں ان سے لیں۔

اب زمانہ بدل گیا ہے۔ بچے اور نوجوان کہتے ہیں کہ ہم ان قصے کہانیوں پر اپناوقت کیوں برباد کریں؟انٹرنیٹ اور خاص کر سوشل میڈیا نے کتب بینی کا لگ بھگ خاتمہ ہی کردیا ہے۔ قارئین ہی نہیں ہوں گے تو اچھے لکھاری یا ادیب کہاں سے پیدا ہوں گے؟ چندروزقبل کسی نے ایک چٹکلاسنایا کہ کل تک بچوں کو سلانے کے لیے مائیں بتی بند کرتی تھیں آج کل وائی فائی بند کرنا پڑتا ہے۔


متعلقہ خبریں


وزیراعظم نواز شریف اپنی شیروانی کہیں رکھ کر بھول گئے؟ عارف عزیز پنہور - منگل 27 ستمبر 2016

زندہ قومیں اپنی زبان کو قومی وقار اور خودداری کی علامت سمجھا کرتی ہیں اور اسی طرح قومی لباس کے معاملے میں بھی نہایت حساسیت کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ روس‘ جرمنی‘ فرانس اور چینی رہنما کسی بھی عالمی فورم پر بدیسی زبان کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ نہیں بناتے، بلکہ اپنی ہی زبان میں...

وزیراعظم نواز شریف اپنی شیروانی کہیں رکھ کر بھول گئے؟

وفاقی وزراء بھی نفاذِ اردو کے مخالف ہیں، مشیرِ وزیراعظم عرفان صدیقی وجود - پیر 25 جولائی 2016

وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر عرفان صدیقی نے قومی زبان اردو کے سرکاری زبان کے طور پر نفاذ کے حوالے یہ اعتراف کیا ہے کہ اس میں صرف بیورو کریسی ہی رکاوٹ نہیں بلکہ اس سلسلے میں عدالتی فیصلے کے نفاذ کے خلاف مختلف وزراء بھی ہیں۔ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے پاکستان قومی زبان تحریک کے زیر...

وفاقی وزراء بھی نفاذِ اردو کے مخالف ہیں، مشیرِ وزیراعظم عرفان صدیقی

’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘ اطہر علی ہاشمی - پیر 11 جولائی 2016

مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟ عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو ن...

’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘

کوئٹہ اور کاسئی، ایک پہلو جلال نورزئی - منگل 08 مارچ 2016

دْر محمد کاسی کی شخصیت اور نام سے گویا بچپن سے آشنا ہوں۔ پاکستان ٹیلی ویڑن کوئٹہ مرکز سے وقتاً فوقتاً ان کی ڈاکیومینٹریز نشر ہوتیں اور ہم بڑے اشتیاق سے دیکھتے۔ پی ٹی وی سینٹر میں تو بہت ساری رپورٹس یا ڈاکیومینٹریز کئی لوگوں کی نشر ہوتیں اور میں کیوں ان میں محض دْر محمد کاسی کو ہی...

کوئٹہ اور کاسئی، ایک پہلو

یارب! اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا علی منظر - منگل 19 جنوری 2016

آج بہت دنوں بعد کسی کو خط لکھنے کے لئے قلم اٹھایا، تو خیال آیا کہ ہمیں دوست کا پتہ ہی معلوم نہیں ۔ سستی، بے پروائی اور وقت کی کمی کے بہانے تو پہلے بھی تھے، پھر بھی ہم طوعاً وکرہاً خط لکھ ہی لیا کرتے تھے۔ برق گرے اس ای میل پر جب سے ہم اپنے کمپیوٹر کے ذریعے انٹرنیٹ سے متصل ہوئے ہیں...

یارب! اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا

یہ وطیرہ کیا ہے؟ اطہر علی ہاشمی - پیر 16 نومبر 2015

جناب پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات ہیں اور اس لحاظ سے تمام صحافیوں کے سرخیل ہیں۔ ان کا فرمانا ہمارے لیے سند ہے۔ لاہور کا معرکہ جیتنے پر وہ فرما رہے تھے کہ فلاں کی تو ضمانت تک ضَبَطْ (بروزن قلق‘ شفق‘ نفخ وغیرہ یعنی ضَ۔بَط) ہوگئی۔ اب جو مثالیں ہم نے دی ہیں نجانے ان کا تلفظ وہ کیا ک...

یہ وطیرہ کیا ہے؟

نقص ِامن یا نقضِ امن اطہر علی ہاشمی - هفته 31 اکتوبر 2015

عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر آئین کے مطابق قومی زبان اردو کو اس کا جائز مقام دینے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ 1973ء کے آئین میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے غالباً 10 سال کی مدت طے ہوئی تھی۔ ایسے کئی دس سال گزر گئے۔ لیکن اب عدالت نے نہ صرف حکم جاری کیا ہے بلکہ نئے منصفِ اعلیٰ نے اپنا...

نقص ِامن یا نقضِ امن

ترکی میں اردو تدریس کے 100 سال کا جشن وجود - منگل 20 اکتوبر 2015

پاکستان اور ترکی کے درمیان ثقافتی تعاون اب ایک نئے سنگ میل پر پہنچ گیا ہے کیونکہ دونوں ملک ترکی میں اردو تدریس کے 100 سال مکمل ہونے کا جشن منا رہے ہیں۔ 1915ء میں ترکی کی جامعہ استنبول کے دار الفنون، یعنی کلیہ ادبیات، میں اردو زبان و ادب کی تدریس کا باضابطہ آغاز ہوا تھا۔ اس تاریخی...

ترکی میں اردو تدریس کے 100 سال کا جشن

مستقبل کی زبان کون سی ہوگی؟ وجود - هفته 26 ستمبر 2015

لسانی اعتبار سے امریکا کو دنیا  پر ایک برتری حاصل ہے، ملک میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانیں یعنی انگریزی اور ہسپانوی، دنیا بھر میں بھی سب سے زیادہ بولی جاتی ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی طلباء کو نئی زبانیں سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے؟ ماڈرن لینگویج ایسوسی ایشن کی تحقیق...

مستقبل کی زبان کون سی ہوگی؟

بھارت کی مرکزی وزیر تعلیم، ہندو تعصب میں حد سے بڑھ گئیں وجود - جمعرات 17 ستمبر 2015

بھارت کی مرکزی وزیر تعلیم اسمرتی ایرانی اپنے تیکھے تیوروں کے باعث مسلسل تنازعات میں رہتی ہیں۔ اب اُن کا تازہ تنازع ’’اردو دشمنی‘‘ کی شکل میں سامنے آیا ہے۔تفصیلات کے مطابق یوپی کے دارالحکومت لکھنؤ میں مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی ایک اجلاس کے بعد جب ڈاکٹر منوہر میڈیکل یونیورسٹی سے نک...

بھارت کی مرکزی وزیر تعلیم، ہندو تعصب میں حد سے بڑھ گئیں

اُردومتمدن ہے گلبانگِ ثقافت ہے انوار حسین حقی - جمعرات 10 ستمبر 2015

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس جوادایس خواجہ بطور چیف جسٹس اپنی بائیس روزہ تعیناتی مکمل کرکے ریٹائر ہو گئے ہیں ۔ 18 ؍ اگست 2015 ء کو اپنا منصب سنبھالتے ہوئے اُنہوں نے قوم کے ماضی کے حسین البم سے نغمہ عشق و محبت کی کہانی کے طور پر اردو زبان کو نطق و تکلم کے جواں عالم ...

اُردومتمدن ہے گلبانگِ ثقافت ہے

اردو ہے میرا نام اقبال اشعر - بدھ 09 ستمبر 2015

اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی میں میر کی ہم راز ہوں غالب کی سہیلی دکن کے ولی نے مجھے گودی میں کھلایا سودا کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا ہے میر کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا میں داغ کے آنگن میں کِھلی بن کے چنبیلی اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی میں میر کی ہم راز ہوں غ...

اردو ہے میرا نام

مضامین
عوامی خدمت کا انداز ؟ وجود منگل 16 اپریل 2024
عوامی خدمت کا انداز ؟

اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے! وجود منگل 16 اپریل 2024
اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے!

آبِ حیات کاٹھکانہ وجود منگل 16 اپریل 2024
آبِ حیات کاٹھکانہ

5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین وجود منگل 16 اپریل 2024
5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین

کچہری نامہ (٢) وجود پیر 15 اپریل 2024
کچہری نامہ (٢)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر