وجود

... loading ...

وجود
وجود

تیل کی قیمتوں کا بحران اور نیا عالمی منظرنامہ

اتوار 17 جنوری 2016 تیل کی قیمتوں کا بحران اور نیا عالمی منظرنامہ

تیل کی دنیا سے وابستہ ممالک اور ادارے نئے سال میں ان دعاؤں کے ساتھ داخل ہوئے ہیں کہ تیل کی قیمتیں بدترین دور سے نکل آئیں گی، حالات دوبارہ “معمول” پر آ جائیں گے اور یوں گزشتہ نصف صدی سے قائم تیل-مرکزی دنیا بحال ہو جائے گی۔ لیکن تمام تر شوہد یہی بتا رہے ہیں کہ 2016ء میں بھی تیل کی قیمتیں گری رہیں گی، بلکہ 2020ء تک ان میں اضافے کا بظاہر کوئی امکان نہیں ہے۔ طاقت کی عالمی دوڑ میں تیل اور اس سے حاصل کردہ آمدنی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کی وجہ سے یہ بحران سیاسی منظرنامے پر بھی چند ریاستوں کے لیے بڑی طاقتوں کے لیے دھچکا ہے اور سعودی عرب سے لے کر روس تک اپنی عالمی اہمیت و سیاسی حیثیت کھو رہے ہیں۔

ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزری، بس جون 2014ء میں ہی – تیل 115 ڈالرز فی بیرل پر فروخت ہو رہا تھا۔ ماہرین کا عام اندازہ یہی تھا کہ یہ قیمتیں مستقبل بعید تک 100 ڈالرز کے قریب قریب رہیں گی۔ انہی پیشن گوئیوں کی وجہ سے تیل کے بڑے عالمی اداروں نے سینکڑوں ارب ڈالرز کی نئی سرمایہ کاری کی، وہ بھی ان “غیر روایتی” ذخائر میں جو بحر منجمد شمالی، کینیڈا، امریکا اور گہرے سمندروں میں ہیں۔ یہ بات سب پر ظاہر تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، تیل کے نئے ذخائر کی دریافت اور پیداوار، جلد یا بدیر، بڑے منافع کا سبب بنے گی۔ یہ تو کسی کے ذہن میں ہی نہیں تھا کہ ان وسائل کا بڑے پیمانے پر استحصال انہیں 50 یا اس سے بھی کم ڈالر فی بیرل کی قیمت تک لے آئے گا۔

یہ تیل کی دنیا میں آنے والا ایک زلزلہ ہے، جو بڑے بڑے منصوبوں کو ملیامیٹ کر رہا ہے، اور ان حکومتوں کی بھی چولیں ہلا رہا ہے، جو ان ذخائر کی مالک ہیں

اس وقت تیل 33 ڈالرز فی بیرل پر فروخت ہو رہا ہے، یعنی ڈیڑھ سال قبل کے مقابلے میں صرف ایک تہائی نرخ پر اور یوں بڑے بڑے منصوبے چوپٹ ہو گئے ہیں۔ اس معاملے کا بدترین پہلو یہ ہے کہ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے اندازوں کے مطابق 2020ء تک یہ قیمت زیادہ سے زیادہ 50 سے 60 ڈالرز کے درمیان تک پہنچے گی بلکہ 2040ء تک بھی اس کے امکانات 85 ڈالرز تک ہی ہیں۔ یہ تیل کی دنیا میں آنے والا ایک زلزلہ ہے، جو بڑے بڑے منصوبوں کو ملیامیٹ کر رہا ہے، اور ان حکومتوں کی بھی چولیں ہلا رہا ہے، جو ان ذخائر کی مالک ہیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کی وجہ سے برسر اقتدار ہیں۔

تیل کی موجودگی قیمتوں کی یہ حالت بڑے اداروں پر تو گہرے اثرات ڈالے گی ہی، لیکن اس سے منسلک دیگر کاروباری ادارے بھی برے حالات سے گزر رہے ہیں، جیسا کہ آلات فراہم کرنے والے، کھدائی کرنے والے، بحری جہاز اور ایسے ہی دیگر ادارے جو اپنے وجود کے لیے تیل کی صنعت پر انحصار کرتے ہیں۔ پھر تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک کے سیاسی حالات بھی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں جیسا کہ نائیجیریا، سعودی عرب، روس اور وینیزویلا جو پہلے ہی اقتصادی و سیاسی بحران سے دوچار تھے اور اب تیل کی قیمت جتنے عرصے کم ترنی سطح پر رہے گی، اس کے نتائج اتنے ہی زیادہ بھیانک ہوں گے۔

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ تیل کی قیمت اس وقت بڑھتی ہے جب عالمی معیشت بخوبی آگے بڑھ رہی ہو، تیل کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے اور فراہم کرنے والے بھی زیادہ سے زیادہ تیل پیدا کر رہے ہوں۔ اس صورت حال میں ذخیرہ کرنے کی اضافی مصیبت سے بھی چھٹکارہ ملتا ہے اور فوراً سے پیشتر کھرا مال مل جاتا ہے۔ قیمتیں گرتی اس وقت ہیں جب عالمی معیشت جمود کا شکار ہو، یا زوال پذیر ہو، توانائی کی طلب کم ہو اور اس کی وجہ سے طلب پورا کرنے میں عالمی ادارے دلچسپی نہ لے رہے ہوں۔ اس صورت میں تیل کے ذخائر بڑھتے جاتے ہیں اور یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ مستقبل میں کتنے عرصے کے لیے تیل کی رسد موجود ہے۔

رواں صدی کے اوائل میں عالمی معیشت روز افزوں ترقی کر رہی تھی، تیل کی طلب آسمان تک پہنچ چکی تھی اور ماہرین عالمی پیداوار کے فوری طور پر عروج تک پہنچنے کی پیشن گوئیاں کر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جولائی 2008ء میں تیل کی قیمت 143 ڈالرز فی بیرل کی سطح تک پہنچ گئیں۔ اسی سال عالمی اقتصادی بحران کی وجہ سے تیل کی طلب کم ہوتی گئی اور دسمبر 2015ء تک یہ 34 ڈالرز تک پہنچ گئیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ رحجان کافی عرصے تک برقرار رہے گا۔

بس اب تصور کیجیے کہ تیل کے کاروبار سے وابستہ ان افراد کے لیے یہ بات کتنی حیران کن ہوگی جو اکتوبر 2009ء میں 77 ڈالرز فی بیرل پر تیل فروخت کر رہے تھے اور صرف دو سال میں، فروری 2011ء تک، اس کی قیمتیں 100 ڈالرز کا ہندسہ بھی عبور کرگئیں تھیں جہاں تک کہ جون 2014ء آ گیا اور اب کوئی جائے قرار نہیں مل رہی۔

تیل کی قیمت کے اس عروج تک پہنچنے کے پس پردہ چند عوامل تھے۔ سب سے اہم چین تھا کہ جس نے بنیادی ڈھانچے بالخصوص سڑکوں، پلوں اور شاہراہوں کی تعمیر کے ذریعے معیشت کو مستحکم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مڈل کلاس میں گاڑیاں خریدنے کے رحجان میں اس کے نتیجے میں توانائی کی طلب میں بھی فوری طور پر زبردست اضافہ دیکھنے کو ملا۔ تیل کی دنیا کے بڑے ادارے برٹش پٹرولیم کے مطابق 2008ء سے 2013ء کے دوران چین میں تیل کی طلب میں 35 فیصد اضافہ ہوا جو 8 ملین سے 10.8 ملین بیرل روزانہ تک پہنچ گیا۔ اس دوڑ میں چین تو سب سے آگے تھا ہی لیکن تیزی سے ترقی پاتے ممالک جیسا کہ برازیل اور بھارت بھی پیش پیش دکھائی دیے۔ یہ وہ دور تھا جب تیل کے روایتی ذخائر سے پیداوار میں کمی آنے لگی اور یوں نظریں فوری طور پر غیر روایتی ذخائر کی طرف گئیں۔

اس وقت تیل کی عالمی مارکیٹ میں قیمت 33 ڈالرز فی بیرل پر ہے، 2020ء تک یہ زیادہ سے زیادہ 50 سے 60 ڈالرز تک پہنچے گی بلکہ 2040ء تک بھی اس کے امکانات 85 ڈالرز تک ہی ہیں

2014ء کے اوائل میں قیمتوں نے یکدم الٹی جانب سفر کرنا شروع کردیا کیونکہ امریکا اور کینیڈا میں غیر روایتی ذخائر سے تیل کی پیداوار نے مارکیٹ پر اپنا اثر دکھانا شروع کردیا تھا۔ امریکا میں تیل کی پیداوار جو جنوری 1990ء میں ساڑھے 7 ملین بیرل یومیہ تھی، جنوری 2010ء میں گھٹ کر ساڑھے 5 ملین تک پہنچ گئی تھیں۔ لیکن جولائی 2015ء میں یہ 9.6 ملین بیرل یومیہ تک پہنچ گئی۔ دوسری جانب کینیڈا بھی 2008ء میں 3.2 ملین پیداوار سے بڑھ کر 2014ء میں 4.3 ملین بیرل تک پہنچا۔ برازیل اور مغربی افریقہ کے ممالک کے بحر اوقیانوس میں موجود تیل کے ذخائر اور جنگ زدہ عراق میں تیل کی پیداوار 10 لاکھ بیرل یومیہ تک پہنچنے کے بعد تو تیل وافر مقدار میں عالمی مارکیٹ میں پہنچنے لگا۔ رسد جب حد سے زیادہ بڑھنے گی، جبکہ طلب اتنی تھی ہی نہیں تو قیمتوں پر بہت برا اثر پڑا۔ چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طلب بھی دھیمی پڑنے لگی، اور امریکا، یورپ اور جاپان بلکہ چین میں بھی اقتصادی نمو کی شرح میں کمی آئی۔ گو کہ چین کی تیل کی طلب بڑھتی رہی لیکن وہ حالیہ چند سالوں کی رفتار کے مطابق نہیں تھی۔

اس دوران تیل کے سب سے بڑے عالمی صارف امریکا میں ایندھن موثریت یعنی Fuel Efficiency کا رحجان پروان چڑھنے لگا، جس نے توانائی کے عالمی منظرنامے پر اپنے اثرات ڈالنا شروع کردیے۔ سب سے پہلے تو مالیاتی بحران کے عروج کے زمانے میں حکومت نے جنرل موٹرز اور کریسلر کو بیل آؤٹ پیکیج دیے لیکن ساتھ ہی ایندھن موثر گاڑیاں بنانے کے لیے سخت ترین معیارات بھی لاگو کیے، جس سے امریکا میں تیل کی طلب کافی کم ہوئی۔ 2012ء میں اعلان کردہ منصوبے کے تحت امریکی ساختہ گاڑیوں کی اوسط ایندھن موثریت 2025ء تک ساڑھے 54 میل فی گیلن ہوگی، جو امریکا کی تیل کی کھپت کو آج کے مقابلے میں 12 بلین بیرل کم کرے گی۔

2014ء کے وسط تک یہ اور چند دیگر عوامل مل کر تیل کی قیمتوں میں کمی کا اہم سبب بنے۔ اس وقت یہ سمجھا جا رہا تھا کہ سعودی عرب اور تیل برآمد کرنے والے دیگر ممالک قیمتوں کو بڑھانے کے لیے ماضی کی طرح پیداوار کم کرنے کا اعلان کریں گے، لیکن 27 نومبر 2014ء کو اوپیک نے توقعات کے عین برعکس رکن ممالک کا پیداواری کوٹا برقرار رکھنے کا اعلان کیا، جس کے ساتھ اگلے ہی دن قیمت میں 4 ڈالرز کی کمی آئی اور پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

چین میں معاشی نمو میں کمی اور شمالی امریکا میں تیل کی پیداوار میں اضافے کے بعد ایک اور اہم عنصر سعودی عرب کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کمی لانے کی تمام تجاویز مسترد کرنا تھا۔ دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے ملک سعودی عرب کی جانب سے یہ قدم اٹھانے کی کئی سیاسی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ علاقائی حریف ایران اور روس کو شام میں اپنے مخالف بشار الاسد کی حمایت کرنے پر سزا دینا چاہتا ہے کیونکہ صنعتی ماہرین، اور خود سعودی عرب بھی، یہ سمجھتےہیں کہ تیل کے عالمی بحران کی موجودگی میں سعودی عرب برے حالات زیادہ عرصے تک جما رہ سکتا ہے اور اسے اپنے حریفوں کے مقابلے میں کم نقصان پہنچے گا۔ سعودی عرب ان ایام میں اپنے زر مبادلہ کے وسیع ذخائر کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پھر سعودی اقدام کی وجہ سے تیل کی قیمتیں بھی اتنی کم ہوگئی ہیں کہ شمالی امریکا کے ادارے زیادہ دیر مارکیٹ میں نہیں کھڑے رہ سکیں گے۔ گو کہ اب تک سعودی اقدامات سے امریکی ادارے بہت حد تک نہیں جھکے، لیکن چھوٹے ادارے ضرور دیوالیہ ہو گئے ہیں۔

اب صرف تین صورتیں ہیں، جو عالمی تیل کے موجودہ منظرنامے کو تبدیل کر سکتی ہیں: ایک، مشرق وسطیٰ میں ایسی جنگ، جس میں تیل پیدا کرنے والے ایک یا دو بڑے ممالک شامل ہوں، دوسرا، سعودی عرب کی جانب سے تیل کی پیداوار میں فوری کمی کا اعلان، یاتیسرا عالمی طلب میں اچانک اضافہ

بہرحال، 33 ڈالرز فی بیرل کے اس معمولی نرخ پر بھی عالمی پیداوار اتنی ہے کہ طلب بڑھ نہیں سکی اور یوں قیمتیں بڑھنے کا کوئی سبب نظر نہیں آتا۔ اس پر عراق و ایران کی پیداوار بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ آنے والی دہائی میں آج تین ملین بیرل کے مقابلے میں پیداوار تین گنا اضافے کے بعد 9 ملین بیرل تک پہنچ جائے گی۔ اس میں ایران کا 6 لاکھ بیرل یومیہ تیل بھی شامل ہوگا، جو عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کے نتیجے میں اٹھنے والی ممکنہ پابندیوں کی بدولت فوری طور پر مارکیٹ میں آئے گا۔

اب صرف تین صورتیں ہیں، جو کم قیمت کے موجودہ منظرنامے کو تبدیل کر سکتی ہیں: ایک، مشرق وسطیٰ میں ایسی جنگ، جس میں تیل پیدا کرنے والے ایک یا دو بڑے ممالک شامل ہوں، دوسرا، سعودی عرب کی جانب سے تیل کی پیداوار میں فوری کمی کا اعلان، یاتیسرا عالمی طلب میں اچانک اضافہ۔

پہلی صورت میں دیکھیں تو مشرق وسطیٰ میں جس نئی جنگ کا خطرہ ہو سکتا ہے وہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہوگی، لیکن پھر بھی یہ بہت خطرناک قدم ہے۔ اس کے بجائے سعودی عرب کی جانب سے پیداوار میں کمی کا، جلد یا بدیر، فیصلہ زیادہ متوقع دکھائی دیتا ہے۔ تیسری صورت کا امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ چین اور دنیا کے بیشتر بڑے ممالک میں اس وقت شرح نمو کم ہے۔ گو کہ چین و بھارت جیسے بڑے ملک میں ابھی بھی تیل سے چلنے والی گاڑیاں خریدنے کا رحجان زیادہ ہے لیکن مغربی ممالک میں مکمل طور پر بجلی سے چلنے والی گاڑیاں یا نقل و حمل کے متبادل ذرائع کو ترجیح دینے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پھر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے عالمی شعور میں اضافہ اور شمسی، ہوائی اور پن بجلی جیسے ذرائع کا استعمال بڑھنے کے ساتھ اس صدی میں ‘ماحول دوست’ توانائی پر انحصار کافی بڑھ جائے گی۔ یہ تمام رحجانات یہی بتا رہے ہیں کہ موجودہ حالات میں تیل کی عالمی طلب میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آنے والی۔

یہی وجہ ہے کہ تیل و گیس کی برآمدات پر انحصار کرنے والے ممالک میں سیاسی منظرنامے تبدیل ہونا شروع ہو رہے ہیں۔ نائیجیریا اپنی 75 فیصد، روس 50 فیصد اور وینیزویلا 40 فیصد آمدنی تیل سے حاصل کرتے ہیں اور صرف ڈیڑھ سال میں تیل کی قیمتی ایک تہائی رہ جانے کے بعد تینوں ریاستوں کی آمدنی میں زبردست کمی آئی ہے۔ یوں ان کے مقامی و بین الاقوامی منصوبوں کو سخت دھچکے پہنچے ہیں۔ نائیجیریا اور وینیزویلا سیاسی بحران سے گزرے ہیں، البتہ روس میں حالات کچھ مختلف ہیں۔ یوکرین سے لے کر شام تک ولادیمر پیوتن کو ہر محاذ پر روس کے عوام کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن شام میں مداخلت کے ذریعے جو خطرناک قدم روس نے اٹھایا ہے اس کے نتائج کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا اور یہ روس کے لیے منفی بھی ہو سکتے ہیں۔

یوں تیل کی قیمتوں میں آنے والا بحران بلاشبہ ابھی اپنے عروج تک پہنچے گا، لیکن بالآخر ایک روز قیمت میں دوبارہ اضافہ ضرور ہوگا، تب تک تند و تیز ہواؤں کے مقابلے میں کس کا چراغ جلتا رہے گا، اور کس کا بجھے گا، اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔


متعلقہ خبریں


تاریخی سنگ میل عبور، پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان نے خلائی تحقیق کے میدان میں اہم سنگ میل عبور کرلیا، تاریخی خلائی مشن ’آئی کیوب قمر‘چین کے وینچینگ خلائی سینٹر سے روانہ ہو گیا جس کے بعد پاکستان چاند کے مدار میں سیٹلائٹ بھیجنے والا چھٹا ملک بن گیا ہے ۔سیٹلائٹ آئی کیوب قمر جمعہ کو2 بجکر 27 منٹ پر روانہ ہوا، جسے چینی میڈیا ...

تاریخی سنگ میل عبور، پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں،عمران خان وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے عدالتوں سے ان کے مقدمات کے فیصلے فوری طور پر سنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں۔بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل سے اہم پیغام میں کہا ہے کہ میں اپنے تمام مقدمات س...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں،عمران خان

بس مجھے قتل کرناباقی رہ گیا ہے ،غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا، عمران خان وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے کہا ہے کہ بس مجھے قتل کرنا رہ گیا ہے لیکن میں مرنے سے نہیں ڈرتا، غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا۔برطانوی جریدے دی ٹیلی گراف کے لیے جیل سے خصوصی طور پر لکھی گئی اپنی تحریر میں سابق وزیر اعظم نے کہا کہ آج پاکستانی ریاست اور اس کے عوام ایک دوسرے...

بس مجھے قتل کرناباقی رہ گیا ہے ،غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا، عمران خان

سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں، عطا تارڑ وجود - هفته 04 مئی 2024

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پاکستان میں کیوں دفتر نہیں کھولتے ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پاکستان میں دفاتر کھولنے چاہئی...

سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں، عطا تارڑ

یوم صحافت پرخضدار دھماکا،صحافی صدیق مینگل سمیت 3افراد جاں بحق وجود - هفته 04 مئی 2024

یوم صحافت پر خضدار میں دھماکا، صحافی صدیق مینگل سمیت 3 افراد جاں بحق ہوگئے ۔پولیس کے مطابق خضدار میں قومی شاہراہ پر سلطان ابراہیم خان روڈ پر ریموٹ کنٹرول دھماکے سے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ایس ایچ او خضدار سٹی کے مطابق ریموٹ کنٹرول دھماکے میں ایک شخص جاں بحق اور 10 افراد زخمی ...

یوم صحافت پرخضدار دھماکا،صحافی صدیق مینگل سمیت 3افراد جاں بحق

انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ وجود - جمعه 03 مئی 2024

ایرانی تیل کی پاکستان میں اسمگلنگ پر سیکیورٹی ادارے کی رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آگئے ۔پاکستان میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے بارے میں رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ایرانی تیل اسمگل کیا جاتا ہے اور اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالان...

انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ

رینجرز تعیناتی کی مدت میں 180 دن کا اضافہ، سندھ کابینہ کی منظوری وجود - جمعه 03 مئی 2024

سندھ کابینہ نے رینجرز کی کراچی میں تعیناتی کی مدت میں 180 دن کے اضافے کی منظوری دے دی۔ترجمان حکومت سندھ نے بتایا کہ رینجرز کی کراچی میں تعیناتی 13 جون 2024 سے 9 دسمبر 2024 تک ہے ، جس دوران رینجرز کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت اختیارات حاصل رہیں گے ۔کابینہ نے گزشتہ کابینہ ا...

رینجرز تعیناتی کی مدت میں 180 دن کا اضافہ، سندھ کابینہ کی منظوری

انتخابی حربے، مودی کی بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی وجود - جمعه 03 مئی 2024

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی انتخابات میں کامیابی کے لیے بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی دے رہے ہیں ۔ دی وائر کے مطابق بی جے پی نے آفیشل انسٹاگرام ہینڈل کے ذریعے مودی کی ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں مودی کہتے ہیں کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ ہندؤں کی جائیداد اور دولت م...

انتخابی حربے، مودی کی بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی

نیتن یاہو کا جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار وجود - جمعه 03 مئی 2024

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کسی بھی صورت غزہ میں جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا معاہدہ تسلیم نہیں جس میں جنگ کا خاتمہ شامل ہو۔اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حماس نے جنگ ...

نیتن یاہو کا جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار

جمعیت علماء اسلام کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی وجود - جمعه 03 مئی 2024

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر شرقی نے بتایا کہ جے یو آئی کو ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ پر جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہر میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر بڑے عوامی اجت...

جمعیت علماء اسلام کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی

عمران خان نے بات چیت کا ٹاسک دیا ہے ، وزیر اعلیٰ کے پی وجود - جمعرات 02 مئی 2024

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ کوئی بات ہوگی تو سب کے سامنے ہوگی اور کوئی بات چیت کسی سے چھپ کر نہیں ہوگی،بانی پی ٹی آئی نے نہ کبھی ڈیل کی ہے اور نہ ڈیل کے حق میں ہیں، یہ نہ سوچیں کہ وہ کرسی کیلئے ڈیل کریں گے ۔میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گن...

عمران خان نے بات چیت کا ٹاسک دیا ہے ، وزیر اعلیٰ کے پی

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبہ کا احتجاج یونان اور لبنان تک پہنچ گیا وجود - جمعرات 02 مئی 2024

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف طلبہ کے احتجاج کا سلسلہ دنیا بھر کی جامعات میں پھیلنے لگا۔امریکا، کینیڈا، فرانس اور آسٹریلیا کی جامعات کے بعد یونان اور لبنان کی جامعات میں بھی طلبہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرہ کیا۔امریکی جامعات میں احتجاج کا سلسلہ تیرہویں روز بھی...

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبہ کا احتجاج یونان اور لبنان تک پہنچ گیا

مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر