وجود

... loading ...

وجود
وجود

سچائی کی طاقت

جمعرات 31 دسمبر 2015 سچائی کی طاقت

judge-hits-blogger-with-2-5-million-charge-for-not-being-a-journalist-516c742636

چند دن قبل دبئی میں ڈاکٹر عاصم سے ملاقات ہوئی۔تپاک سے ملے اور ہمدردی سے کہنے لگے کہ آپ کی تحریریں پڑھتے ہوئے زمانہ گزرگیا لیکن سمجھ نہیں آتی کہ آپ نون لیگ کے حامی ہیں یا تحریک انصاف کے۔کبھی آپ وزیراعظم نوازشریف کی مدح سرائی فرماتے ہیں اور کبھی عمران خان کے حق میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہیں ۔بسااوقات توآپ پیپلزپارٹی کو بھی سرہاتے ہیں۔بھائی دوکشتیوں کے سوار کبھی سرخرو نہیں ہوتے۔معرکہ حق وباطل میں کسی ایک پارٹی کے ساتھ کھڑے ہوجائیں۔

یادآیا کہ جدہ سے میرے ایک قاری ڈاکٹر خورشید ہرہفتے مجھے ای میل کے ذریعے بھاشن دیتے ہیں کہ بدعنوان حکمرانوں کی کھال اُتارو۔انہیں آئینہ دکھاؤ۔تم حکومت کے خلاف کھڑے کیوں نہیں ہوتے۔ ماٹھی ماٹھی تحریریں کیوں لکھتے ہو۔ان سے ملتے جلتے سوالات بہت سارے اور دوست اور ہمدرد بھی کرتے ہیں ۔میں اکثر انہیں طرح دے جاتاہوں بلکہ سینئر صحافی ہارون الرشید کے پیرائے میں جواب دیتاہوں کہ ہر شخص اپنی افتادِطبع کے مطابق زندگی کے فیصلے کرتاہے۔

اس طالب علم کا نقطہ نظر یہ رہاہے کہ صحافی یا تجزیہ کار کی کسی جماعت ،گروہ یا شخصیت سے مستقل وابستگی نہیں
ہوتی۔قرآن کریم میں اﷲ تعالے نے فرمایا ہے : نیکی اور پرہیزگاری کے (کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔گناہ اور ظلم (کاموں)میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔

گزشتہ کالم ــ’’یقین نہیں آتا‘‘کی سوشل میڈیا پرایسی دھوم مچی کہ دنگ رہ گیا۔چار ہزار کے لگ بھگ قارئین نے اسے شیئر کیا اور پسند کرنے والوں کی تعداد سولہ ہزار سے تجاویز کرگئی۔ یہ کوئی سیاسی تجزیہ نہ تھا بلکہ ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر لکھی گئی ایک تحریرتھی۔ کالم کو ذائقہ دار بنانے کے لیے اسے ڈرامائی انداز میں بھی نہیں لکھا گیااس کے باوجود اس قدر پزیرائی پر خوشگوار حیرت اور مسرت ہوئی۔ایک بار پھر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ سچائی کے اندر اپنی طاقت ہوتی ہے۔اسے جھوٹ کے پہیہ لگانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی۔

صحافت میں گروہ بندی تو روزاوّل سے ہے اور شاید تاقیامت برقرار رہے لیکن پاکستان میں ایک عجیب تماشایہ ہوا کہ اکثر صحافی سیاسی جماعتوں ،شخصیات اور حتیٰ کہ عسکری اداروں کے ترجمان بن گئے۔بڑے بڑے جغاداری لکھاریوں نے ذاتی عداوتیں پال رکھی ہیں بلکہ وہ اخبارات کے صفحات پر اور ٹی وی اسکرینوں پر معرکہ حق وباطل برپا کیے رکھتے ہیں۔ کوئی تحریک انصاف کا نام سننا نہیں چاہتااور کوئی نون لیگ کو بُرای کی جڑ قراردیتاہے۔کچھ صحافیوں کو پیپلزپارٹی اُم لخبائث نظرآتی ہے اور کچھ عسکری اداروں کو ملکی مسائل کی جڑقراردیتے تھکتے نہیں۔ٹی وی چینلز کا حال بھی کوئی زیادہ مختلف نہیں۔ناظرین کواینکرز کا نقطہ نظر پہلے سے معلوم ہوتاہے ۔ سوالات اور مہمانوں کے انتخاب میں بھی چینل مالکان اورمیزبان کے سیاسی رجحانات کی چھاپ نظر آتی ہے۔بعض کا عالم یہ ہے کہ وہ گزشتہ پانچ عشروں سے کسی نہ کسی گروہ کے دم چھلے بننے ہوئے ہیں۔ آنکھیں بند کرکے ان کی وکالت کرتے ہیں۔مفاد نکل جائے یا انا کو ٹھیس پہنچے تو قبلہ بدلنے میں دیر نہیں کرتے۔سیاسی جماعتیں برسراقتدارآتی ہیں تو میڈیا میں اپنے حامیوں کو نوازتی ہیں۔سفارت ،وزارت اور اعلیٰ مناصب عطاکیے جاتے ہیں۔آج کل نون لیگ صحافیوں کو اعلیٰ عہدے دینے میں کافی فراخ دل واقع ہوئی ہے۔

اس طالب علم کا نقطہ نظر یہ رہاہے کہ صحافی یا تجزیہ کار کی کسی جماعت ،گروہ یا شخصیت سے مستقل وابستگی نہیں ہوتی۔قرآن کریم میں اﷲ تعالے نے فرمایا ہے :نیکی اور پرہیزگاری کے (کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔گناہ اور ظلم (کاموں)میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔یہ آیت کریمہ تجزیہ کاروں کے لیے ایک واضح راہ متعین کرتی ہے کہ وہ محض اہل ثروت اور برسراقتدارطبقے کے گیت نہ گائیں بلکہ سچائی کا ساتھ دیں۔عوامی فلاح وبہبود کے کاموں میں حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں اور غلط کاموں میں تعاون نہ کریں ۔اگر اس نکتے کو اصول مان لیا جائے تو پھر تجزیہ کار کی کوئی پارٹی نہیں ہوسکتی۔ جو بھی اچھا کام کرے وہ تحسین کا مستحق ہوتاہے اور جو وعدوں کو پورا نہیں کرتا۔امانتوں کو برتنے میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔وہ کسی روورعایت کا مستحق نہیں۔

اس طالب علم نے اس نقطہ نظر کو اپنایا اور گزشتہ کئی برسوں سے تجزیہ کاری میں غیر جانبداری کو اپنانے کی کوشش کی۔ پارٹیوں، گروہوں یا شخصیات کے پیچھے لٹھ لے کر پڑنے کے بجائے ان کے اچھے کاموں کی تعریف اور غلط اقدامات پر گرفت کی۔ جذبات سے مغلوب تحریریں لکھنے سے گریز کیا کہ قوم کو مزید بخار میں مبتلا کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔اس طرزعمل کاانجام یہ ہوا کہ احباب کہتے ہیں کہ دوٹوک بات نہیں کرتے۔عرض کیا کہ سیاست میں حق وباطل کا معرکہ برپا نہیں ہوتابلکہ سیاست نام امکانات کی تلاش کاہے۔تجزیہ کاروں اور وقائع نگاروں کو یہ دیکھنا ہوتاہے کہ عوامی مفاد میں کون زیادہ مخلص اور خدمت خلق کا اہل ہے۔

افسوس! ملک میں معروضی تحریریں زیادہ مقبول نہ ہوسکیں تاہم اب سوشل میڈیا کے آنے سے صورت حال بدل رہی ہے۔ سوشل میڈیا میں لکھنے والے نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ ابھررہی ہے جوغیر جانبداری اور بہادری سے لکھتی ہے ۔ ان کی تحریروں سے عصبیت کی بو نہیں بلکہ سچائی کی خوشبو آتی ہے۔وہ مروجہ معنوں میں کسی گروہ یا شخصیت کے سحر میں گرفتار نہیں۔ان نوجوان خواتین وحضرات کی کافی پزیرائی ہورہی ہے۔ہزاروں لوگ انہیں پڑھتے اور داد دیتے ہیں۔موضوعات کا تنوع اورتازگی بھی ان کی تحریروں میں پائی جاتی ہے اور طنز ومزاح کے نشتر بھی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اخبارات کے برعکس سوشل میڈیا پر قارئین کو تحریروں پر آزادانہ تبصرے اور انہیں پسند کرنے کا بھی اختیار ہے لہٰذا جن تحریروں میں دم ہوتاہے لوگ ان پر بحث کرتے ہیں ورنہ بڑے بڑے نامور کالم کاروں کی تحریروں کو قارئین سونگھ کو پرے کردیتے ہیں۔

اچھا ہوا کہ سوشل میڈیا نے نوجوانوں کو ایک پلیٹ فار م فراہم کیا ورنہ انمول صلاحیتوں سے مالامال نوجوان ضائع ہوجاتے کیوں کہ اخبارات میں نئے لکھنے والوں کے لیے جگہ نہیں۔ معمر قلمکاروں کو احساس نہیں کہ وہ جو سازشی تھیوریاں بیچتے اور قوم کو ہیجان میں مبتلا رکھ کر اپنی دُکان چمکاتے ہیں لوگوں کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں۔

نئے لکھنے والے نوجوانوں کومیرا مشورہ ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر مسلسل لکھتے رہیں کہ اب ابلاغ کا یہی ایک بہترین ذریعہ ہے۔ وقت آئے گا کہ ان کی آواز کو نظرانداز نہ کیاجاسکے گا۔بتدریج معروضیت اور حقائق پر مبنی تحریروں کے لیے معاشرے میں جگہ بنے گی کیونکہ نئی نسل اب چٹکلوں اور واعظوں سے عاجز آچکی ہے۔


متعلقہ خبریں


اب گولی نہیں بولی چلے گی! ارشاد محمود - پیر 28 دسمبر 2015

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا لاہور تشریف لانا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہی نہیں بلکہ پا ک بھارت تعلقات میں نئے باب کا اضافہ بھی کرسکتا ہے اور لگ بھگ ستر برس تک تنازعات میں گھرا یہ خطہ امن اور علاقائی تعاون کی جانب گامزن ہوسکتا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے سفارت کاری بالخصوص پاکستان کے...

اب گولی نہیں بولی چلے گی!

یقین نہیں آتا! ارشاد محمود - اتوار 20 دسمبر 2015

رمضان کا تیسرا عشرہ تھا ۔ بھائی نزاکت محمود رات گئے گھر تشریف لائے۔سفر، تھکاوٹ اور کچھ کاہلی کے سبب گاڑی گیراج میں کھڑی کرنے کے بجائے گلی میں پارک کردی۔سحری کے وقت گاڑی موجود نہ پا کر سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ہمارا گھر ائیر پورٹ سے تین اورمقامی تھانہ سے دو کلو میٹر کی مسافت پر ہ...

یقین نہیں آتا!

سرتاج عزیز اور سشما سوراج کا مصافحہ ارشاد محمود - هفته 12 دسمبر 2015

اگرچہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج سے پرجوش مصافے نے دونوں ممالک کے درمیان تین سال سے جمی ہوئی برف کو پگھلا دیا ،لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔سشما سوراج اور ان کے پاکستانی ہم منصب سرتاج عزیز نے اتفاق کیا ہے کہ نہ صرف ماضی میں کئے جانے والے مذاکرات او...

سرتاج عزیز اور سشما سوراج کا مصافحہ

اس پروپیگنڈے کا کیاکریں؟ ارشاد محمود - هفته 28 نومبر 2015

چند دن قبل فرانس کے شمال مشرقی شہرا سٹراس برگ کے ایک وسیع وعریض ہال میں یورپی پارلیمنٹ کے چار ارکان سمیت کوئی ایک سو بیس کے لگ بھگ مندوبین جمع تھے۔ پاکستان میں ’’چین:انسانی حقوق کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خدشات‘‘ موضوع سخن تھا ۔اس مجلس میں جاوید محمد خان نامی ایک شخص نے بلوچستان کا م...

اس پروپیگنڈے کا کیاکریں؟

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ارشاد محمود - اتوار 22 نومبر 2015

پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے واشنگٹن کے پے درپے دورے بے سبب نہیں۔گزشتہ کچھ عرصہ سے صدر بارک اوباما نے پاکستان کے حوالے سے لچک دار پالیسی اختیار کی۔افغانستان میں اس کے نقطہ نظر کو ایک حد تک قبول کیا۔اس کے خلاف عالمی بیان بازی جو معمول بن چکی تھی کو روکا گیا۔پاکستان کا جوہری پ...

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

کتاب لکھنے کا نسخہ ارشاد محمود - هفته 07 نومبر 2015

چار برس پہلے باب وڈورڈنے ’’اوبامازوارز‘‘نامی تہلکہ خیز کتاب لکھی تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بھونچال سا آگیا کہ کیا کسی صحافی کو خفیہ معلومات تک اس قدر رسائی بھی حاصل ہوسکتی ہے ۔ کتا ب کو The Pulitzerانعام بھی ملا۔یہ ایوارڈ ایسے مصنفین کو ملتاہے جو کوئی غیر معمولی تحقیقی یا ادبی...

کتاب لکھنے کا نسخہ

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ارشاد محمود - هفته 17 اکتوبر 2015

اگرچہ حکمران نون لیگ کے امیدوار سردار ایاز صادق قومی اسمبلی کی نشست پر فتح یاب ہوچکے ہیں لیکن اس ضمنی الیکشن نے پارٹی کے اندر جاری انتشار اور پنجاب میں مسلسل حکمران رہنے کے باعث درآنے والی کمزوریوں کو طشت ازبام کردیا ہے۔پارٹی کے اند ر بالائی سطح پر پائی جانے والی کشمکش نے عوامی ف...

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر