وجود

... loading ...

وجود
وجود

روس ترکی تنازع!

بدھ 02 دسمبر 2015 روس ترکی تنازع!

Russia-Turkey

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر خصوصی طور پر اور پاکستانی میڈیا میں عمومی طور پران دنوں ایک مخصوص طرزِ فکر حاوی ہے جو یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ روس اور ترکی کے درمیان شام کے تنازع پر باقاعدہ ایک جنگ کا آغاز ہونے والاہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ دونوں ملکوں کی فوجیں دوبدو ہو جائیں گی ۔ شائد ایسا ہو بھی جائے اگر دنیا بھرمیں جنگیں اپنے اپنے اقتصادی مفادات کو آگے بڑھانے کا ذریعہ خیال نہ کی جاتی ہوں۔ لیکن اگر دنیا بھر میں جنگیں زیادہ سے زیادہ قدرتی وسائل پر قبضے کے لئے ہی ہوتی ہیں تو اقتصادی اور مالیاتی معاملات کے حوالے سے ترکی اور روس باہم اس قدر جڑے ہوئے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے جنگ کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اب تک کی تمام تر تلخیوں کے باوجود روس نے ترکی پر براہِ راست حملے کی نہ تو دھمکی دی ہے اور نہ ہی عندیہ۔ تاہم اردگا ن کی کردارکشی کی ایک مہم ضرور چلائی جارہی ہے جس کو پاکستان میں موجود ایران نواز عناصر کی مکمل مدد اور پشتیبانی حاصل ہے اس لئے ہمیں پاکستان میں بیٹھے اس کی تپش کچھ زیادہ ہی محسوس ہو رہی ہے ۔ لگتا ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ بس چھڑنے ہی والی ہے، حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔

ترکی نے خود کو اقتصادی طور پر خود مختار اور خطے میں اہم بنانے کے لئے اپنے ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پائپ لائنوں کا جال بچھا رکھا ہے، جی ہاں پائپ لائنوں کا جال۔ آپ نے اگر تیل یا گیس ترکی کی جغرافیائی حدود کے اندر سے گذار کر لے جانا ہے اور آپ ترکی کے ہمسائے ہیں تو آپ کو اپنی پائپ لائن صرف ترکی کی سرحد تک لے کر جانا ہو گی، اس کے آگے ترکی کی بچھی بچھائی محفوظ پائپ لائن آپ کو دستیاب ہو جائے گی، وہاں اس میں اپنا تیل یا گیس ڈالیے اور یورپ میں جا کر اُسی ملک میں نکال کر سپلائی کر دیجئے جو آپ کا گاہک ہے۔ ترکی کے اندر بچھی ان پائپ لائنوں سے محصول اور کرائے کی مد میں ہونے والی آمدن کا اندازہ اس امر سے لگا لیجئے کہ ایران سے پائپ لائن پاکستان کے اندر سے گزار کر بھارت پہنچانے کے لئے پاکستان نے بھارت سے ایک ارب ڈالر سالانہ کرایہ وصول کرنا تھا۔ اس وقت تک علاقے کے دیگر ملکوں کے علاوہ ایران اور روس کی یورپ کو تیل اور گیس کی برآمدات ترکی کے اندر بچھی پائپ لائنوں سے ہو کر گزرتی ہیں تو ایک اطلاع کے مطابق آٹھ سے زائد پائپ لائنیں روس اور ایران کا پیدا کردہ ایندھن یورپ کی آبادی کو فراہم کرتی ہیں اور گیس کے حوالے سے یورپ کا تمام تر انحصار انہی پائپ لائنوں کے ذریعے کی گئی فراہمیوں پر ہے۔

ایک اطلاع کے مطابق آٹھ سے زائد پائپ لائنیں روس اور ایران کا پیدا کردہ ایندھن یورپ کی آبادی کو فراہم کرتی ہیں اور گیس کے حوالے سے یورپ کا تمام تر انحصار ترکی میں بچھی پائپ لائنوں کے ذریعے کی گئی فراہمیوں پر ہے

بات یہاں تک ہوتی تو شائد ٹھیک ہوتی لیکن ترکی بذاتِ خود اپنی ملکی گیس کی ضروریات کا ساٹھ فی صد روس کی طرف سے فراہم کی گئی گیس سے پورا کررہا ہے۔ یعنی روس کے ساتھ کسی بھی مہم جوئی کے نتیجے میں اس کو اپنی ساٹھ فی صد گیس کی ضروریات کیلئے متبادل ذرائع سے انتظام کرنا پڑے گا، جو قدرتی طور پر اس کو فوری طور پر اپنے ہمسایہ ایران سے دستیاب ہو جائے گی جو پہلے ہی قطر کے سامنے واقع پارس یا فارس گیس فیلڈ سے پائپ لائن بچھا کر ترکی کی سرحد تک پہنچا چکا ہے اور اس انتظار میں ہے کہ کب ترکی اس کو اشارہ کرے اور وہ اپنا لیور کھینچ کر گیس کی فراہمی شروع کرے۔ (یادش بخیر ایران نے پاکستان کو گیس کی فراہمی بھی اسی گیس فیلڈ سے کرنا ہے)اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایندھن کے معاملے میں ترکی روس کا محتاج نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا روس ترکی کا محتاج ہے؟ تو جواب ہے کہ جی بالکل !اور روس محتاجی ایسی ہے کہ اس کو شاید کوئی متبادل بھی دستیاب نہیں۔ جی ہاں روس کی یورپ کو گیس اور تیل کی تمام تر فراہمی ترکی کے رستے ہی سے ممکن ہے جو کسی بھی مہم جوئی کی صورت میں متاثر ہو سکتی ہے ، یعنی روس کی اس تمام آمدنی کا خاتمہ جس پر وہ اینٹھتا پھرتا ہے اور ایک دفعہ پھر یورپ اور امریکاکولال لال آنکھیں دکھاتا پھرتاہے۔ اسی ایندھن کی فروخت کے باعث روس کے پاس چین کی طرح اتنے ڈالرز اور یورو اکٹھے ہو گئے ہیں کہ اس کو رکھنے کی جگہ نہیں ۔ لہٰذا اس نے پاکستان اور یونان جیسے ملکوں میں تزویراتی سرمایہ کاری کرنا شروع کر دی ہے جیسے حال ہی میں اس نے پاکستان میں موبی لنک کے بعد اب وارد خرید کر پاکستان کے ٹیلی کام شعبے میں اپنی اجارہ داری منوا لی ہے۔ جب کہ یورپ کی ٹیلی نار اور چین کی زونگ اس سے کوسوں پیچھے ہیں۔ امریکا نے جب روس کو یونان کے بینکاری کے شعبے میں پھانسنے کی کوشش کی تا کہ یونان کے بینکوں میں پڑا روس کا کھرب ہا ڈالر کا سرمایہ یونان کے بنکوں کے دیوالیہ ہونے کے نتیجے میں ضبط ہو جائے تو سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔لیکن وہ تو یونان اور یورپ کی قیادت کی عقل مندی آڑے آئی ورنہ امریکا تو آئی ایم ایف کے ذریعے کارروائی ڈال گیا تھا۔

بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ نے 1944 ء کے معاہدے کے تحت ایک منصوبے کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک کو اقتصادی طور پر ایک دوسرے سے منسلک کیا تھا تا کہ جنگوں کے امکانات کو کم سے کم کیا جا سکے اور اسی حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کو ایران، پاکستان اور انڈیا (آئی پی آئی) اور ترکمانستان ، افغانستان، پاکستان اور بھارت (تاپی) گیس پائپ لائن میں پرویا جا رہا ہے جس سے بھارت ہر دفعہ عین وقت پر انکاری ہوجاتا ہے تا کہ کہیں اُسے پاکستان کا محتاج نہ ہونا پڑ جائے اور مباداپاکستان کے اُس پر کسی بھی حوالے سے تزویراتی بڑھوتری (اسٹریٹجک ایڈوانٹیج) حاصل نہ ہو جائے۔ اس طرح کے تمام منصوبوں کی ضامن بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ بنتی ہے، سرمایہ ورلڈ بنک فراہم کرتا ہے اور مذاکرات امریکاکرواتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ جب دو ملکوں کے باہمی مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوں گے تو دونوں ملک باہمی مہم جوئی سے احتراز کریں گے۔

علاقائی سیاست میں ہم نے اب تک امریکا بہادر کو ایران کے راستے کے کانٹے چنتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ کسی کو برا لگے یا اچھا لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ شیطانِ بزرگ ، امریکانے مہربانِ بزرگ ہونے سے پہلے ہی اس خطے میں ایران کے نظریاتی اور جغرافیائی مخالفوں کو چن چن کر ختم کیا ہے اور ان کی ریاستوں کو تباہ و برباد کرنے کے علاوہ ان کے لوگوں کے قتلِ عام سے بھی گریز نہیں کیا،امریکیوں کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق امریکی مہم جوئیوں کے نتیجے میں چالیس لاکھ کے قریب عام لوگ عراق میں جب کہ بیس لاکھ کے قریب افغانستان میں قتل کئے گیے اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکانے ایران کو اس خطے میں اپنے سیاسی ، اقتصادی اور جغرافیائی مفادات کی توسیع کے لئے انتہائی سازگار ماحول فراہم کیا ہے۔ اس وقت خطے میں پاکستان سمیت جتنے ملکوں میں ایران نے پنگے لے رکھے ہیں، اتنے شاید امریکانے بذاتِ خود بھی نہیں لئے ہوئے۔ایسی صورت میں ایران کے اقتصادی مفادات کی بڑھوتری کے لئے اس سے بڑھ کر اور کون سی چال ہو سکتی ہے کہ روس کی یورپ کو ترکی کے راستے گیس کی فراہمی بند ہو اور ایران کو ترکی اور یورپ کو وہاں پر اپنا سودا بیچنے کا موقع ملے۔ ایک طرف روس کی اقتصادی ناکہ بندی کا ادھورا خواب بغیر کچھ کئے مکمل ہو جائے گا۔جب کہ دوسری طرف اس کے سابقہ خفیہ اور موجودہ اعلانیہ حلیف کے اقتصادی مفادات کا تحفظ بھی ہو جائے گا۔ اس زنجیر کی ٹوٹی کڑی اس وقت مکمل ہو جاتی ہے جب یورپی اخبارات نے ان خبروں کو بھی نمایاں طور پر شائع کردیا کہ ترکی کو روسی طیارے کے بارے میں معلومات کی فراہمی امریکا نے کی تھی۔ کسی کو عراق کے کویت پر حملے والا منظر نامہ یاد ہوتو اس کو اس کے ساتھ رکھ کر دیکھیں ، تاریخ خود کو دہراتی ملے گی۔

ہم نے ایک پنتھ دو کاج کا محاوہ سنا تو تھا لیکن دیکھ پہلی مرتبہ رہے ہیں۔اب پتہ چلا کہ روس اور ترکی کے درمیان ہونے والی کشیدگی پر پاکستان میں بغلیں کون کون اور کیوں بجا رہا ہے؟اس لئے یہ طے ہے کہ روس بھلے ترکی کو جتنی مرضی لعن طعن کر لے لیکن وہ معاملات کو اس نہج تک نہیں لے جائے گا جو باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کر لے۔ اس پورے واقعے کا ایک اور پہلو بھی ہے جو ہم آئندہ عرض کریں گے۔


متعلقہ خبریں


انٹربینک میں ڈالر مزید سستا وجود - منگل 02 نومبر 2021

انٹر بینک میں ڈالر 1.29روپے سستا ہو گیا۔فاریکس ڈیلرزایسوسی ایشن کے مطابق 1.29روپے قیمت کم ہونے کے بعد انٹربینک میں ڈالر170 روپے29 پیسے کا ہو گیا ۔26 اکتوبرکوڈالرکی قیمت نے تاریخی بلندی 175 روپے27 پیسوں کوچھولیا تھا۔26 اکتوبرسے تک ڈالرکی قیمت میں 4 روپے98 پیسوں کی کمی ریکارڈ کی گئ...

انٹربینک میں ڈالر مزید سستا

انٹربینک میں ڈالر مزید مہنگا وجود - پیر 18 اکتوبر 2021

انٹربینک میں ڈالر 173.24 روپے کا ہو گیا۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ، خام تیل کی عالمی قیمت میں اضافے سے درآمدی بل اور مہنگائی میں مزید اضافے جیسے عوامل کے باعث انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری ہفتے کے پہلے روز ڈالر کی اونچی اڑان کے نتیجے میں انٹربینک نرخ 173 روپے سے بھی تجاوز کرگئے او...

انٹربینک میں ڈالر مزید مہنگا

شوکت ترین وزیراعظم کے مشیر خزانہ و ریونیو مقرر، نوٹیفکیشن جاری وجود - پیر 18 اکتوبر 2021

شوکت ترین کو ایک مرتبہ پھر مشیر خزانہ وریونیو تعینات کردیا گیا۔ شوکت ترین کی تقرری کے حوالے سے باقاعدہ نوٹیفکیشن کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری کردیا گیا ۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم عمران خان کی ایڈوائس پر شوکت ترین کی تقرری کی منظوری دی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق شوکت ترین...

شوکت ترین وزیراعظم کے مشیر خزانہ و ریونیو مقرر، نوٹیفکیشن جاری

حکومت کی نئی پریشانی، تیل کے درآمدی بل میں مسلسل اضافے سے تجارتی خسارے کا سامنا وجود - پیر 18 اکتوبر 2021

ملک کے تیل کی درآمد کا بل رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 97 فیصد سے بڑھ کر 4.59 ارب ڈالر ہو گیا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 2.32 ارب ڈالر تھا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی اضافے کی وجہ بنی ہے۔تیل کے درآمدی بل میں مسلسل ...

حکومت کی نئی پریشانی، تیل کے درآمدی بل میں مسلسل اضافے سے تجارتی خسارے کا سامنا

آئی ایم ایف کی قرض فراہمی کے لیے مستثنیٰ اشیا پر17فیصد سیلز ٹیکس کی شرط وجود - جمعه 15 اکتوبر 2021

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے قرض پروگرام بحال کرنے کیلئے پاکستان کے سامنے نئی شرط رکھ دی ہے۔ آئی ایم ایف نے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے سخت شرط رکھی ہے جس کے تحت حکومت نے جن اشیا پر ٹیکس چھوٹ دے رکھی ہے ، ان پر بھی 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانا ہوگا۔آئی ایم ایف کی نئی شرط کے تحت ...

آئی ایم ایف کی قرض فراہمی کے لیے مستثنیٰ اشیا پر17فیصد سیلز ٹیکس کی شرط

لبنان قحط کے دہانے پر، لوگ فیس بک پراعضا فروخت کرنے لگے وجود - منگل 12 اکتوبر 2021

عرب دنیا کے پیرس کہلانے والے لبنان میں گزشتہ کچھ عرصے سے معاشی حالات اس تیزی کے ساتھ ابتر ہوئے ہیں کہ ملک قحط کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ عوام کی زندگی مشکلات سے دوچار ہوگئی ہے اور سنہ 2019 کے اختتام کے بعد سے معاشی حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کوروز مرہ ایندھن ، ادویات ...

لبنان قحط کے دہانے پر، لوگ فیس بک پراعضا فروخت کرنے لگے

مرکزی بینک آف انڈیاا سٹیٹ بینک آف پاکستان کا 45 کروڑ 60 لاکھ کا مقروض نکلا وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

مرکزی بینک آف انڈیا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا 45 کروڑ 60 لاکھ کا مقروض نکلا۔ تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک آف انڈیا کا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مقروض ہونے کا انکشاف ہوا ہے، ممبر قومی اسمبلی رانا تنویر حسین کی زیر صدارت پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا، قیام پاکستان کے وقت پاکستان چھو...

مرکزی بینک آف انڈیاا سٹیٹ بینک آف پاکستان کا 45 کروڑ 60 لاکھ کا مقروض نکلا

ڈالر مافیا کے 54 افراد میں سے 37 کا تعلق خیبر پختون خوا سے نکلا وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

ڈائریکٹر ایف آئی اے ناصر محمود ستی نے انکشاف کیا ہے کہ ڈالر مافیا کے 54 افراد میں سے 37 کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے۔ تفصیلات کے مطابق ہنڈی اور کرنسی کاروبار میں گرفتار ملزمان کے کیس کی پشاور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی ے نے عدالت کو بتایا کہ ملک بھر میں 54 افراد ا...

ڈالر مافیا کے 54 افراد میں سے 37 کا تعلق خیبر پختون خوا سے نکلا

پینڈورا لیکس میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرنے کا مطالبہ،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کاوزیراعظم کو خط وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...

پینڈورا لیکس میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرنے کا مطالبہ،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کاوزیراعظم کو خط

شوکت ترین سے وزارتِ خزانہ واپس لینے کا فیصلہ،مشیر خزانہ کے طور پر کام کریں گے وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

حکومت نے شوکت ترین سے وزارت خزانہ واپس لے کر انہیں مشیرخزانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کے مطابق 16 اکتوبرکوشوکت ترین سے وفاقی وزیرکا عہدہ واپس وزیراعظم کے پاس چلا جائیگا۔ آئین کے تحت وزیراعظم کسی غیرمنتخب شخص کو 6 ماہ کے لیے وفاقی وزیر بنا سکتے ہیں۔ذرائع کے مطابق شوکت ترین بطور...

شوکت ترین سے وزارتِ خزانہ واپس لینے کا فیصلہ،مشیر خزانہ کے طور پر کام کریں گے

بینک صارفین کی بینکوں کی خدمات سے متعلق شکایات بڑھ گئیں وجود - جمعرات 07 اکتوبر 2021

ڈیجیٹل ادائیگیوں، ای کامرس اور آن لائن بینکاری کی سہولت کے استعمال کے ساتھ بینک صارفین کی بینکوں کی خدمات سے متعلق شکایات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔بینکنگ محتسب کو گزشتہ سال جنوری تا دسمبر 2020کے دوران بینکوں سے متعلق صارفین کی 24750شکایات موصول ہوئی تھیں تاہم رواں سال پہلے ...

بینک صارفین کی بینکوں کی خدمات سے متعلق شکایات بڑھ گئیں

کوئلہ مہنگا،سیمنٹ کی پیداواری لاگت میں اضافہ کھپت 12 فیصد کم وجود - منگل 05 اکتوبر 2021

کوئلہ مہنگا، اضافی کرایہ اور روپے کی گرتی قدر نے سیمنٹ کی پیداواری لاگت بڑھا اور کھپت 12 فیصد گھٹا دی۔آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کے مطابق رواں سال ستمبر میں سیمنٹ کی کھپت 45 لاکھ 89 ہزار ٹن رہی، جو ستمبر 2020 کے مقابلے میں 12 فیصد کم ہے۔رواں سال ستمبر میں سیمنٹ کی مق...

کوئلہ مہنگا،سیمنٹ کی پیداواری لاگت میں اضافہ کھپت 12 فیصد کم

مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر