... loading ...
اینٹی بایوٹک ادویات لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد کے معمول کا حصہ ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی یافتہ ملک میں تومعمولی مر ض میں بھی جھٹ سے اینٹی بایوٹک استعمال کرلی جاتی ہے لیکن یہ کتنی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے؟ اس کے بارے میں ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ لاکھوں افراد اینٹی بایوٹکس کی اتنی خوراک استعمال کر لیتے ہیں جو فوری موت کے خطرے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
چین میں 21 ملین بالغ افراد پر ہونے والی ایک بڑی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ نمونیا اور جلدی امراض کے لیے عام طور پر استعمال ہونے والی ادویات دل کی رفتار کو بہت تیز کردیتی ہیں۔ ان میں پاکستان میں ارتھرومائی سن عام طور پر دستیاب ہے اور بڑے پیمانے پر استعمال کی جاتی ہے۔ اس قبیل کی ادویات کو میکرولائیڈز کہا جاتا ہے جو نمونیا، گیسٹرو، بڑی کھانسی اور جلدی انفیکشن میں استعمال ہوتی ہیں لیکن سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ یہ ادویات دل کی حرکت کو بگاڑتی ہیں جو ایک منٹ میں 100 سے زیادہ مرتبہ دھڑکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس حالت کو ٹیکی کارڈیا کہتے ہیں جو دل کے دورے، فالج یا دھڑکن بند ہونے سے فوری موت کا سبب تک بن سکتی ہے۔
سائنس دانوں نے 1966ء سے اب تک 50 سالوں کے دوران دنیا بھر میں ہونے والی 33 تحقیقات کا معائنہ کیا اور پایا کہ دل کی دھڑکن تیز ہونے یا بند ہونے کے لیے جتنی خوراک کافی ہوگی، لاکھوں مریض اس سے ڈھائی گنا زیادہ میکرولائیڈز لے رہے ہیں۔ ان افراد میں دل کے مرض کی وجہ سے انتقال کی شرح بھی 30 فیصد زیادہ ہے۔
ان خطرناک اعداد و شمار کے باوجود تحقیق میں شامل افراد نے ڈاکٹروں کو اینٹی بایوٹک تجویز کرنے سے نہیں روکا اور ان کا کہنا ہے کہ مجموعی خطرہ اب بھی کم ہے۔ اینٹی بایوٹک استعمال کرنے والے 30 ہزار افراد میں سے صرف ایک کو مہلک دل کے دورے کا امکان ہوگا۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اینٹی بایوٹکس سے درپیش حقیقی خطرے کو جانچنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر کو اب بھی یہی تجویز کیا جاتا ہے کہ وہ ممکنہ حد تک اینٹی بایوٹکس تجویز کرنے سے اجتناب کریں۔