وجود

... loading ...

وجود
وجود

صحافت زلزلے کی زد میں

پیر 26 اکتوبر 2015 صحافت زلزلے کی زد میں

Kamran-Khan

کامران خان بلاشبہ پاکستان کے چند بہترین ٹی وی میزبانوں میں شمار کیے جانے کے قابل ہیں۔ وہ طبعی صحافت سے ایک طویل وابستگی میں اُس بنیادی تربیت سے گزرے ہیں جو خبر کی تہہ داریوں میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ پاکستان کی نجی ٹیلی ویژن دنیا کا یہ المیہ ہے کہ یہاں اکثر ٹی وی میزبان سیاست و صحافت کے بنیادی پسِ منظر سے ہی ناآگاہ ہیں۔ یہ چمکتی اشیاء کو سونا باور کرانے کی ایک جھوٹی دنیا ہے۔ اُن میں کامران خان اُن معدودے چند افراد میں شامل ہیں جن کا پسِ منظر ٹی وی کی چمکتی دنیا سے بھی پہلے صحافت کا رہا ہے۔ مگر آج 26 اکتوبر کو کامران خان جب اپنے پہلے ہفتہ وار پروگرام کے ساتھ ٹی وی کے چمکتے دمکتے پردے پر جلوہ گر ہوئے تو اُن کی پہلی خبر زلزلہ نہیں تھی بلکہ چیئرمین پیمرا کے طور پر ابصار عالم کی تعیناتی اور صحافت سے حکومت تک سفر کرنے والے افراد تھے۔کامران خان جب اس موضوع کو زیر بحث لا رہے تھے تو اُس وقت تک زلزلے سے168 افراد کے جاں بحق ہونے کی خبر سامنے آ چکی تھی۔ وہ خبر جو لحظہ لحظہ منکشف ہو رہی تھی ، اُسے مکمل نظر انداز کرتے ہوئے کامران خان نے آخر کیوں ابصار عالم کو موضوع بنایا؟ ظاہر ہے کہ یہ بلاوجہ نہ تھا ۔ بلکہ اس کا بھی ایک پس منظر ہے۔

پہلا پسِ منظر تو خود کامران خان اور ابصار عالم کے تعلقات کا ہے۔ کامران خان جب جیو ٹی وی پر اپنا یہ مشہور پروگرام کرتے تھے ، تب ایک طویل عرصے تک ابصار عالم جیو کے اسلام آباد میں بیورو چیف کے طور پر اُن کے پروگرام کی زینت بنتے رہے۔ پھرڈائریکٹر نیوز کے طور پر ابصار عالم دنیا ٹی وی سے وابستہ ہو گیے۔ جہاں منیجنگ ڈائریکٹر کے منصب پر یوسف بیگ مرزا تعینات تھے۔ یوسف بیگ مرزا جو صحافتی دنیا میں “وائی بی ایم “کے مخفف سے پہچانے جاتے ہیں ، ٹی وی کی صنعت کا سب سے اہم موضوع ہے جس نے پاکستان کی صحافت کو گھٹیا لوگوں کی ایک کھلی منڈی اور آوارہ ذہنوں کی ایک ناکارہ بستی بنانے میں شعوری حصہ لیا ہے ۔ مگر یہ ایک الگ موضوع ہے جس کے ساتھ تاریخ وار اور واقعات کے ساتھ انصاف کیا جائے گا ۔ اس لیے اسے کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔

آمدم بر سرِ مطلب! ابصار عالم جب دنیا ٹی وی سے وابستہ ہوئے تو منیجنگ ڈائر یکٹر کے طور پر یوسف بیگ مرزا دنیا ٹی وی میں خبری مواد پر مکمل گرفت کی جنگ جیت چکے تھے۔ جہاں کے مالک میاں عامر محمود کے لیے یہ دنیا بالکل نئی تھی۔ جس میں وہ اپنی جانکاری کی بدولت نہیں بلکہ دولت ہی کی بدولت اپنے پاؤں جما رہے تھے۔ اُن کا رویہ صحافت میں بالکل وہی تھا جو سیاست میں آصف علی زرداری کاتھا۔ آصف علی زرداری اپنی بے اندازا دولت کے سبب یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ پورے انتخابات کوہی خرید سکتے ہیں اور میاں عامر کا خیال یہ تھا کہ وہ جیو کو دولت کے بل پر گراسکتے ہیں۔ آج تک دونوں ہی اس میں ناکام ہیں۔

کامران خان کو صحافت کے اُن ناموں سے ضرور دلچسپی تھی جو مختلف اوقات میں اقتدار کی راہداریوں میں اپنے مردے لے گیے تھے۔

کامران خان نے اپنے پروگرام کے پہلے حصے میں یہ تو بتایا کہ ابصار عالم “ہمارے “(دیکھیے کامران خان کا دنیا کے لیے یہ “ہمارے” کا لفظ کب تک رہتا ہے) چینل دنیا سے بھی وابستہ رہے، مگر یہ نہیں بتایا کہ وہ وہاں کس سلوک کے ساتھ رہے؟ اور اُنہوں نے یہاں سے نکلنے کے بعد اس چینل کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ چیئر مین پیمرا ابصار عالم دنیا سے “فراغت ” ملنے کے بعد اپنا مقدمہ یوسف بیگ مرزا اور میاں عامر محمود کے خلاف عدالت ِ عظمیٰ لے گیے تھے۔ جو خود یوسف بیگ مرزا کے دنیا ٹی وی چھوڑنے کے بعد بھی کا فی عرصے تک دونوں کو پریشان کرتا رہا۔ یہ مقدمہ دراصل ٹیلی ویژن کی اندرونی دنیا کی بدمعاملگیوں کی تفصیلات بتاتا ہے۔ جسے کسی اور وقت الگ سے موضوع بنایا جائے گا۔ یہاں تو صرف یہ نشاندہی کرنا مقصود ہے کہ صحافت کی تابناک دنیا میں حقیقی صحافیوں کے نزدیک اقتدار کی راہداریوں میں تانک جھانک کبھی بھی کوئی پسندیدہ عمل نہیں رہا اور اس کے لیے ماضی کی دی گئی مثالیں دراصل کوئی رہنما مثالیں نہیں بلکہ شرمناک مثالیں ہیں۔مگر کامران خان کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

یوسف بیگ مرزا نے پاکستان کی صحافت کو گھٹیا لوگوں کی ایک کھلی منڈی اور آوارہ ذہنوں کی ایک ناکارہ بستی بنانے میں شعوری حصہ لیا ہے۔

چنانچہ کامران خان نے جب اس مسئلے کے حوالے سے ایک اور متنازع قلمکار ایاز امیر کو ہی گفتگو کے لیے مدعو کیا تو اُنہوں نے کم ازکم یہ بات تو پوری ایمانداری سے بیان کرنا چاہی کہ اُنہیں ڈان کے نہایت اصول پسند مدیر احمد علی خان نے ڈان میں چھپنے والے اُن کے مستقل کالم کو تب جگہ دینے سے انکار کر دیا تھا جب وہ صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑ کر ایک جماعت سے وابستہ ہوئے۔ کامران خان نے اس کی تفصیلات میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ کیونکہ یہ صحافت کی اُن اُجلی روایتوں کی عکاسی کرتی ہے جس میں صحافی کا کردار سیاسی مفادات سے آلودہ ہونے کی صورت میں ناقابل قبول ہو جاتا ہے۔ مگر کامران خان کو صحافت کے اُن ناموں سے ضرور دلچسپی تھی جو مختلف اوقات میں اقتدار کی راہداریوں میں اپنے مردے لے گیے تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے ماضی قریب کے کرداروں کا ذکر کیا جن میں نجم سیٹھی ، ملیحہ لودھی، عرفان صدیقی اور کامران شفیع وغیرہ شامل ہیں۔ کامران خان نے اپنے ابتدایئے میں یہ تک کہہ دیا کہ حکومتیں صحافیوں کواس لیے شریک اقتدار کرنا چاہتی ہیں کہ اُن کی حالات پر نظر ہوتی ہے۔ یہ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے جو حضرت کامران خان نے اپنے ابتدایئے میں کہا ہے۔اول تو دنیا بھر کی تحقیقاتی رپورٹیں انکشاف کرتی ہیں کہ صحافی وہ بے خبر مخلوق ہوتے ہیں جنہیں سرمایہ دار معاشرے میں چند ایک معاملات میں خبروں کی حد تک ملوث رکھ کر اصل حقائق اور مسائل سے عوام کو بے خبر رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مرکزی ذرائع ابلاغ کے اس کردار پر نوم چومسکی کی ایک پوری کتاب موجود ہے۔ اسی طرح ایڈورڈ سعید نے اس ضمن میں جتنا کام کیا ہے وہ تین کتابوں پر پھیلا ہوا ہے۔ پھر تیسری دنیا میں یہ امر بالکل واضح ہے کہ یہاں بدعنوان حکومتیں صحافیوں کوشریک اقتدار رکھ کر اپنے نظام میں اُن کے مفادات کو بڑھاتی ہیں تاکہ وہ اُن کے لیے کہیں پر بھی نقصان دہ نہ بن سکیں۔ شاید یہی وجہ رہی ہو گی کہ آج زلزلے میں ہلاک ہونے والے 168 افراد “آج کامران خان کے ساتھ” کی پہلی خبر نہ بن سکے مگر ابصار عالم کی چیئرمین پیمرا تعیناتی کی پچھلے ہفتے کی خبر اولین بننے کی مستحق سمجھی گئی۔ کہیں دنیا ٹی وی کی انتظامیہ کو کوئی خوف تو دامن گیر نہیں کہ اس طرح ابصار عالم کو تمام ٹیلی ویژن پر نگرانی کا حق جو مل گیا ہے؟


متعلقہ خبریں


آبی جارحیت کی دھمکی، بھارتی اقدام پر سندھ بنجر ہو جائیگا انوار حسین حقی - بدھ 28 ستمبر 2016

’’آب اور لہو ایک ساتھ نہیں بہ سکتے ‘‘ یہ نئی بڑھک جنگی جنون میں مبتلا بھارت کے انتہا پسند ہندو وزیر اعظم نریندر مودی نے لگائی ہے ۔ کشمیری حریت پسندوں کے جذبہ حُریت سے خوفزدہ بھارتی قیادت نے بین الاقوامی سفارتی سطح پر پاکستان کے خلاف ناکامی کے بعد سندھ طاس کمیشن کے مذکرات معطل کرن...

آبی جارحیت کی دھمکی، بھارتی اقدام پر سندھ بنجر ہو جائیگا

امریکہ کے صدارتی انتخابات: ہلیری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ آمنے سامنے وجود - منگل 27 ستمبر 2016

تحریر :۔ ایوان کورون امریکہ کے صدارتی انتخابات کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے، انتخابی بخار بھی بڑھتاجارہاہے، انتخابات میں ہلیری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ آمنے سامنے ہیں، اگرچہ امریکی عوام کے موڈ کی موجودہ کیفیت کو دیکھ کر یہی اندازہ ہوتاہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کو ہزیمت کاسامنا کرنا پڑے گا...

امریکہ کے صدارتی انتخابات: ہلیری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ آمنے سامنے

ڈنڈا بردار فورس بمقابلہ بلا بردار فورس، مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف آمنے سامنے انوار حسین حقی - پیر 19 ستمبر 2016

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کے خلاف جاری تحریک احتساب کے دوران میں ’’رائے ونڈمارچ ‘‘ کی اصطلاح نے بھر پور شہرت حاصل کی ہے۔ رائے ونڈ لاہور کے نواح میں آباد وہ علاقہ ہے جو پہلے صرف تبلیغی جماعت کے مرکز کے حوالے سے معروف تھا۔ بعد میں شریف فیملی نے لاہور کے ماڈل ٹاؤن سے اپ...

ڈنڈا بردار فورس بمقابلہ بلا بردار فورس، مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف آمنے سامنے

کیا بانی ایم کیو ایم کا باب واقعی بند ہوچکا؟ ابو محمد نعیم - اتوار 28 اگست 2016

ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے ہفتے کی شام پریس کانفرنس میں لندن سے مکمل لاتعلقی اور پہلی مرتبہ الطاف بھائی کے بجائے الطاف صاحب کہنے کے باوجودا بھی تک سوال اٹھ رہے ہیں۔۔ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کا باب واقعی بند ہوچکاہے؟یا حسب سابق وہ دستبرداری کے ل...

کیا بانی ایم کیو ایم کا باب واقعی بند ہوچکا؟

کوئٹہ دھماکے کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کرلی! اصل حقائق کیا ہیں؟ باسط علی - منگل 09 اگست 2016

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جماعت الاحرار گروپ نے کوئٹہ میں حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کے نام پر ذمہ داری قبول کرنے کا یہ عمل درست بھی ہے یانہیں۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ سول اسپتال کی ایمرجنسی میں کیے ج...

کوئٹہ دھماکے کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کرلی! اصل حقائق کیا ہیں؟

تحریک انصاف کی تحریک احتساب: خدشات، امکانات باسط علی - پیر 08 اگست 2016

تحریک انصاف نے 7 اگست کو زبردست جوش وخروش سے تحریک احتساب کا آغاز کردیا ہے۔ پاناما لیکس کے تناظر میں وزیراعظم نوازشریف کے احتساب کے بنیادی مطالبے سے شروع ہونے والی اس تحریک کو عوام اور فعال طبقات میں دراصل نوازشریف کی رخصتی کی تحریک سمجھا جارہا ہے۔ جس کے مستقبل اور نتیجہ خیزی کو ...

تحریک انصاف کی تحریک احتساب: خدشات، امکانات

وزیر داخلہ چودھری نثار کی غیر دانشمندانہ ضد، رینجرز اختیارات کامسئلہ قانونی کے بجائے سیاسی بناد یا! وجود - بدھ 03 اگست 2016

وزیر داخلہ چودھری نثار نے سندھ کے معاملے میں مکمل غیر دانش مندانہ رویہ اختیار کررکھا ہے۔ تازہ ترین واقعہ یہ ہوا ہے کہ اُن کی وزارت سندھ حکومت کی جانب سے ارسال کردہ رینجرز کے اختیارات میں توسیع کی سمری کو مکمل مسترد کردیا ہے۔ جس نے سندھ میں بعض خطرناک مباحث کو جنم دینا شروع کردیا ...

وزیر داخلہ چودھری نثار کی غیر دانشمندانہ ضد، رینجرز اختیارات کامسئلہ قانونی کے بجائے سیاسی بناد یا!

لندن میں دوسری انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس: آخر جھگڑا کیا ہے؟ باسط علی - جمعه 29 جولائی 2016

لندن میں دوسری انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس حسب پروگرام 22 سے 24 جولائی دوشہروں میں منعقد ہوئی۔ اور حسب عادت اس کانفرنس کے حوالے سے پاکستان اور برطانیہ کے پاکستانی حلقوں میں خاصا مخالفانہ شور بھی اُٹھا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مختلف اداروں میں پائے جانے والی شکررنجی اور مسابقت کا جذبہ...

لندن میں دوسری انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس: آخر جھگڑا کیا ہے؟

وزیراعظم نوازشریف نے اسلام آباد کا قصد کرلیا وجود - جمعرات 21 جولائی 2016

وزیر اعظم نوازشریف نے بآلاخر ایک طویل وقفے کے بعد دارالحکومت اسلام آباد جانے کا قصد کر لیا ہے۔ وہ آج کسی بھی وقت اسلام آباد کا رخ کر سکتے ہیں۔ جس کے بعد وہ جمعہ کو قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کریں گے۔ جس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور تینوں مسلح افواج کے سربرا...

وزیراعظم نوازشریف نے اسلام آباد کا قصد کرلیا

وزیراعظم نوازشریف تاحال دارالحکومت اسلام آباد جانے سے گریزاں، افواہیں گردش میں محمد احمد - منگل 19 جولائی 2016

پاکستان کے تمام سیاسی، اقتصادی اور صحافتی حلقوں میں ان دنوں واحد موضوع سیاسی حکومت اور عسکری حلقوں کے درمیان تال میل سے متعلق ہے۔ جس پر مختلف حلقوں کے اندر مختلف اندازے قائم کیے جارہے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے جتنی افواہیں گردش کررہی ہیں، اُس تنا سب سے اطلاعات کی کمی بھی ہیں۔ البتہ ا...

وزیراعظم نوازشریف تاحال دارالحکومت اسلام آباد جانے سے گریزاں، افواہیں گردش میں

تنازعات کوجنم دینے والی ماڈل گرل قندیل بلوچ کی زندگی موت کے تنازع پر ختم، بھائی نے قتل کردیا! محمد احمد - هفته 16 جولائی 2016

پاکستانی ذرائع ابلاغ کی بھوک کو اپنی بے ہودگیوں سے غذا فراہم کرنے والی ماڈل گرل قندیل بلوچ کو اُس کے اپنے ہی بھائی نے مبینہ طور پر قتل کر دیا۔ فیس بک اور یوٹیوب پر پر ناگفتہ بہ ویڈیوز کے ذریعے اچانک شہرت پانے والی قندیل بلوچ نے پاکستانی ذرائع ابلاغ کو یرغمال اور پاکستانی سماج کو ...

تنازعات کوجنم دینے والی ماڈل گرل قندیل بلوچ کی زندگی موت کے تنازع پر ختم،  بھائی نے قتل کردیا!

وفاقی کابینہ نے یوم الحاق پاکستان کے دن یوم سیاہ منانے کا سیاہ فیصلہ کرلیا! باسط علی - هفته 16 جولائی 2016

وزیراعظم نوازشریف نے لندن سے واپسی کے بعد بھی طبی جواز بناکر خود کو دارالحکومت اسلام آباد سے دور رکھنے اور لاہور میں قیام کا فیصلہ برقرار رکھا ہے اور ناگزیر حالات میں وفاقی کابینہ کا اجلاس گورنر ہاؤس لاہور میں طلب کیا۔ اگرچہ اس اجلاس میں کم وبیش 113 نکاتی ایجنڈا تھا، مگر بنیادی ط...

وفاقی کابینہ نے یوم الحاق پاکستان کے دن یوم سیاہ منانے کا سیاہ فیصلہ کرلیا!

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر