... loading ...
کامران خان بلاشبہ پاکستان کے چند بہترین ٹی وی میزبانوں میں شمار کیے جانے کے قابل ہیں۔ وہ طبعی صحافت سے ایک طویل وابستگی میں اُس بنیادی تربیت سے گزرے ہیں جو خبر کی تہہ داریوں میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ پاکستان کی نجی ٹیلی ویژن دنیا کا یہ المیہ ہے کہ یہاں اکثر ٹی وی میزبان سیاست و صحافت کے بنیادی پسِ منظر سے ہی ناآگاہ ہیں۔ یہ چمکتی اشیاء کو سونا باور کرانے کی ایک جھوٹی دنیا ہے۔ اُن میں کامران خان اُن معدودے چند افراد میں شامل ہیں جن کا پسِ منظر ٹی وی کی چمکتی دنیا سے بھی پہلے صحافت کا رہا ہے۔ مگر آج 26 اکتوبر کو کامران خان جب اپنے پہلے ہفتہ وار پروگرام کے ساتھ ٹی وی کے چمکتے دمکتے پردے پر جلوہ گر ہوئے تو اُن کی پہلی خبر زلزلہ نہیں تھی بلکہ چیئرمین پیمرا کے طور پر ابصار عالم کی تعیناتی اور صحافت سے حکومت تک سفر کرنے والے افراد تھے۔کامران خان جب اس موضوع کو زیر بحث لا رہے تھے تو اُس وقت تک زلزلے سے168 افراد کے جاں بحق ہونے کی خبر سامنے آ چکی تھی۔ وہ خبر جو لحظہ لحظہ منکشف ہو رہی تھی ، اُسے مکمل نظر انداز کرتے ہوئے کامران خان نے آخر کیوں ابصار عالم کو موضوع بنایا؟ ظاہر ہے کہ یہ بلاوجہ نہ تھا ۔ بلکہ اس کا بھی ایک پس منظر ہے۔
پہلا پسِ منظر تو خود کامران خان اور ابصار عالم کے تعلقات کا ہے۔ کامران خان جب جیو ٹی وی پر اپنا یہ مشہور پروگرام کرتے تھے ، تب ایک طویل عرصے تک ابصار عالم جیو کے اسلام آباد میں بیورو چیف کے طور پر اُن کے پروگرام کی زینت بنتے رہے۔ پھرڈائریکٹر نیوز کے طور پر ابصار عالم دنیا ٹی وی سے وابستہ ہو گیے۔ جہاں منیجنگ ڈائریکٹر کے منصب پر یوسف بیگ مرزا تعینات تھے۔ یوسف بیگ مرزا جو صحافتی دنیا میں “وائی بی ایم “کے مخفف سے پہچانے جاتے ہیں ، ٹی وی کی صنعت کا سب سے اہم موضوع ہے جس نے پاکستان کی صحافت کو گھٹیا لوگوں کی ایک کھلی منڈی اور آوارہ ذہنوں کی ایک ناکارہ بستی بنانے میں شعوری حصہ لیا ہے ۔ مگر یہ ایک الگ موضوع ہے جس کے ساتھ تاریخ وار اور واقعات کے ساتھ انصاف کیا جائے گا ۔ اس لیے اسے کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔
آمدم بر سرِ مطلب! ابصار عالم جب دنیا ٹی وی سے وابستہ ہوئے تو منیجنگ ڈائر یکٹر کے طور پر یوسف بیگ مرزا دنیا ٹی وی میں خبری مواد پر مکمل گرفت کی جنگ جیت چکے تھے۔ جہاں کے مالک میاں عامر محمود کے لیے یہ دنیا بالکل نئی تھی۔ جس میں وہ اپنی جانکاری کی بدولت نہیں بلکہ دولت ہی کی بدولت اپنے پاؤں جما رہے تھے۔ اُن کا رویہ صحافت میں بالکل وہی تھا جو سیاست میں آصف علی زرداری کاتھا۔ آصف علی زرداری اپنی بے اندازا دولت کے سبب یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ پورے انتخابات کوہی خرید سکتے ہیں اور میاں عامر کا خیال یہ تھا کہ وہ جیو کو دولت کے بل پر گراسکتے ہیں۔ آج تک دونوں ہی اس میں ناکام ہیں۔
کامران خان نے اپنے پروگرام کے پہلے حصے میں یہ تو بتایا کہ ابصار عالم “ہمارے “(دیکھیے کامران خان کا دنیا کے لیے یہ “ہمارے” کا لفظ کب تک رہتا ہے) چینل دنیا سے بھی وابستہ رہے، مگر یہ نہیں بتایا کہ وہ وہاں کس سلوک کے ساتھ رہے؟ اور اُنہوں نے یہاں سے نکلنے کے بعد اس چینل کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ چیئر مین پیمرا ابصار عالم دنیا سے “فراغت ” ملنے کے بعد اپنا مقدمہ یوسف بیگ مرزا اور میاں عامر محمود کے خلاف عدالت ِ عظمیٰ لے گیے تھے۔ جو خود یوسف بیگ مرزا کے دنیا ٹی وی چھوڑنے کے بعد بھی کا فی عرصے تک دونوں کو پریشان کرتا رہا۔ یہ مقدمہ دراصل ٹیلی ویژن کی اندرونی دنیا کی بدمعاملگیوں کی تفصیلات بتاتا ہے۔ جسے کسی اور وقت الگ سے موضوع بنایا جائے گا۔ یہاں تو صرف یہ نشاندہی کرنا مقصود ہے کہ صحافت کی تابناک دنیا میں حقیقی صحافیوں کے نزدیک اقتدار کی راہداریوں میں تانک جھانک کبھی بھی کوئی پسندیدہ عمل نہیں رہا اور اس کے لیے ماضی کی دی گئی مثالیں دراصل کوئی رہنما مثالیں نہیں بلکہ شرمناک مثالیں ہیں۔مگر کامران خان کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
چنانچہ کامران خان نے جب اس مسئلے کے حوالے سے ایک اور متنازع قلمکار ایاز امیر کو ہی گفتگو کے لیے مدعو کیا تو اُنہوں نے کم ازکم یہ بات تو پوری ایمانداری سے بیان کرنا چاہی کہ اُنہیں ڈان کے نہایت اصول پسند مدیر احمد علی خان نے ڈان میں چھپنے والے اُن کے مستقل کالم کو تب جگہ دینے سے انکار کر دیا تھا جب وہ صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑ کر ایک جماعت سے وابستہ ہوئے۔ کامران خان نے اس کی تفصیلات میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ کیونکہ یہ صحافت کی اُن اُجلی روایتوں کی عکاسی کرتی ہے جس میں صحافی کا کردار سیاسی مفادات سے آلودہ ہونے کی صورت میں ناقابل قبول ہو جاتا ہے۔ مگر کامران خان کو صحافت کے اُن ناموں سے ضرور دلچسپی تھی جو مختلف اوقات میں اقتدار کی راہداریوں میں اپنے مردے لے گیے تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے ماضی قریب کے کرداروں کا ذکر کیا جن میں نجم سیٹھی ، ملیحہ لودھی، عرفان صدیقی اور کامران شفیع وغیرہ شامل ہیں۔ کامران خان نے اپنے ابتدایئے میں یہ تک کہہ دیا کہ حکومتیں صحافیوں کواس لیے شریک اقتدار کرنا چاہتی ہیں کہ اُن کی حالات پر نظر ہوتی ہے۔ یہ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے جو حضرت کامران خان نے اپنے ابتدایئے میں کہا ہے۔اول تو دنیا بھر کی تحقیقاتی رپورٹیں انکشاف کرتی ہیں کہ صحافی وہ بے خبر مخلوق ہوتے ہیں جنہیں سرمایہ دار معاشرے میں چند ایک معاملات میں خبروں کی حد تک ملوث رکھ کر اصل حقائق اور مسائل سے عوام کو بے خبر رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مرکزی ذرائع ابلاغ کے اس کردار پر نوم چومسکی کی ایک پوری کتاب موجود ہے۔ اسی طرح ایڈورڈ سعید نے اس ضمن میں جتنا کام کیا ہے وہ تین کتابوں پر پھیلا ہوا ہے۔ پھر تیسری دنیا میں یہ امر بالکل واضح ہے کہ یہاں بدعنوان حکومتیں صحافیوں کوشریک اقتدار رکھ کر اپنے نظام میں اُن کے مفادات کو بڑھاتی ہیں تاکہ وہ اُن کے لیے کہیں پر بھی نقصان دہ نہ بن سکیں۔ شاید یہی وجہ رہی ہو گی کہ آج زلزلے میں ہلاک ہونے والے 168 افراد “آج کامران خان کے ساتھ” کی پہلی خبر نہ بن سکے مگر ابصار عالم کی چیئرمین پیمرا تعیناتی کی پچھلے ہفتے کی خبر اولین بننے کی مستحق سمجھی گئی۔ کہیں دنیا ٹی وی کی انتظامیہ کو کوئی خوف تو دامن گیر نہیں کہ اس طرح ابصار عالم کو تمام ٹیلی ویژن پر نگرانی کا حق جو مل گیا ہے؟
’’آب اور لہو ایک ساتھ نہیں بہ سکتے ‘‘ یہ نئی بڑھک جنگی جنون میں مبتلا بھارت کے انتہا پسند ہندو وزیر اعظم نریندر مودی نے لگائی ہے ۔ کشمیری حریت پسندوں کے جذبہ حُریت سے خوفزدہ بھارتی قیادت نے بین الاقوامی سفارتی سطح پر پاکستان کے خلاف ناکامی کے بعد سندھ طاس کمیشن کے مذکرات معطل کرن...
تحریر :۔ ایوان کورون امریکہ کے صدارتی انتخابات کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے، انتخابی بخار بھی بڑھتاجارہاہے، انتخابات میں ہلیری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ آمنے سامنے ہیں، اگرچہ امریکی عوام کے موڈ کی موجودہ کیفیت کو دیکھ کر یہی اندازہ ہوتاہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کو ہزیمت کاسامنا کرنا پڑے گا...
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کے خلاف جاری تحریک احتساب کے دوران میں ’’رائے ونڈمارچ ‘‘ کی اصطلاح نے بھر پور شہرت حاصل کی ہے۔ رائے ونڈ لاہور کے نواح میں آباد وہ علاقہ ہے جو پہلے صرف تبلیغی جماعت کے مرکز کے حوالے سے معروف تھا۔ بعد میں شریف فیملی نے لاہور کے ماڈل ٹاؤن سے اپ...
ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے ہفتے کی شام پریس کانفرنس میں لندن سے مکمل لاتعلقی اور پہلی مرتبہ الطاف بھائی کے بجائے الطاف صاحب کہنے کے باوجودا بھی تک سوال اٹھ رہے ہیں۔۔ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کا باب واقعی بند ہوچکاہے؟یا حسب سابق وہ دستبرداری کے ل...
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جماعت الاحرار گروپ نے کوئٹہ میں حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کے نام پر ذمہ داری قبول کرنے کا یہ عمل درست بھی ہے یانہیں۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ سول اسپتال کی ایمرجنسی میں کیے ج...
تحریک انصاف نے 7 اگست کو زبردست جوش وخروش سے تحریک احتساب کا آغاز کردیا ہے۔ پاناما لیکس کے تناظر میں وزیراعظم نوازشریف کے احتساب کے بنیادی مطالبے سے شروع ہونے والی اس تحریک کو عوام اور فعال طبقات میں دراصل نوازشریف کی رخصتی کی تحریک سمجھا جارہا ہے۔ جس کے مستقبل اور نتیجہ خیزی کو ...
وزیر داخلہ چودھری نثار نے سندھ کے معاملے میں مکمل غیر دانش مندانہ رویہ اختیار کررکھا ہے۔ تازہ ترین واقعہ یہ ہوا ہے کہ اُن کی وزارت سندھ حکومت کی جانب سے ارسال کردہ رینجرز کے اختیارات میں توسیع کی سمری کو مکمل مسترد کردیا ہے۔ جس نے سندھ میں بعض خطرناک مباحث کو جنم دینا شروع کردیا ...
لندن میں دوسری انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس حسب پروگرام 22 سے 24 جولائی دوشہروں میں منعقد ہوئی۔ اور حسب عادت اس کانفرنس کے حوالے سے پاکستان اور برطانیہ کے پاکستانی حلقوں میں خاصا مخالفانہ شور بھی اُٹھا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مختلف اداروں میں پائے جانے والی شکررنجی اور مسابقت کا جذبہ...
وزیر اعظم نوازشریف نے بآلاخر ایک طویل وقفے کے بعد دارالحکومت اسلام آباد جانے کا قصد کر لیا ہے۔ وہ آج کسی بھی وقت اسلام آباد کا رخ کر سکتے ہیں۔ جس کے بعد وہ جمعہ کو قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کریں گے۔ جس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور تینوں مسلح افواج کے سربرا...
پاکستان کے تمام سیاسی، اقتصادی اور صحافتی حلقوں میں ان دنوں واحد موضوع سیاسی حکومت اور عسکری حلقوں کے درمیان تال میل سے متعلق ہے۔ جس پر مختلف حلقوں کے اندر مختلف اندازے قائم کیے جارہے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے جتنی افواہیں گردش کررہی ہیں، اُس تنا سب سے اطلاعات کی کمی بھی ہیں۔ البتہ ا...
پاکستانی ذرائع ابلاغ کی بھوک کو اپنی بے ہودگیوں سے غذا فراہم کرنے والی ماڈل گرل قندیل بلوچ کو اُس کے اپنے ہی بھائی نے مبینہ طور پر قتل کر دیا۔ فیس بک اور یوٹیوب پر پر ناگفتہ بہ ویڈیوز کے ذریعے اچانک شہرت پانے والی قندیل بلوچ نے پاکستانی ذرائع ابلاغ کو یرغمال اور پاکستانی سماج کو ...
وزیراعظم نوازشریف نے لندن سے واپسی کے بعد بھی طبی جواز بناکر خود کو دارالحکومت اسلام آباد سے دور رکھنے اور لاہور میں قیام کا فیصلہ برقرار رکھا ہے اور ناگزیر حالات میں وفاقی کابینہ کا اجلاس گورنر ہاؤس لاہور میں طلب کیا۔ اگرچہ اس اجلاس میں کم وبیش 113 نکاتی ایجنڈا تھا، مگر بنیادی ط...