وجود

... loading ...

وجود
وجود

امریکا، بھارت اور اسرائیل کے درمیان نیو ساؤتھ ایشین آرڈر پر عملدرآمد شروع۔۔۔؟

منگل 20 اکتوبر 2015 امریکا، بھارت اور اسرائیل کے درمیان نیو ساؤتھ ایشین آرڈر پر عملدرآمد شروع۔۔۔؟

India-USA-Israel

لاہور کے حالیہ ضمنی انتخاب میں حکمرانوں اور سیاستدانوں نے جو بچگانہ کردار ادا کیا ہے اسے دیکھ کر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ سیاسی یا انتخابی تماش بینی جو درحقیقت اربوں روپے کا کارپوریٹ کھیل بن چکا اس وقت ہوا جب بھارت کھل کھلا کر بلوچستان میں مداخلت کے لئے للکار رہا ہے، افغانستان میں صورتحال کو جان بوجھ کر غیر یقینی بنایا جارہا ہے تاکہ پاکستان اور افغان عوام کو سکھ کا سانس نہ لینے دیا جائے، شام میں دیگر عالمی قوتوں کی طرح روس بھی کود پڑا ہے اورمشرق وسطی کی آگ کسی وقت بھی بڑھ کر عالمی امن کے خرمن کو خاکستر کرسکتی ہے۔ ان حالات میں پاکستان جیسے اہم ترین ملک میں یہ کھیل تماشے چہ معنی دارد؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب پاکستان میں ریاست کی جانب سے عسکری اور معاشی دہشت گردی کے خلاف آپریشن اہم مرحلے میں داخل ہونے جارہا ہے اسی ماہ میں وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بعد ایک اور اہم ترین ’’غیر سیاسی شخصیت‘‘ کا دورہ امریکا کیا رنگ لاتا ہے ؟ان حالات میں دنیا میں کیا ہونے جارہا ہے اور پاکستان کے داخلی معاملات کس طرف جاتے ہیں اس کے لئے نائن الیون کے ڈرامے کے بعد موجودہ عالمی معاملات کے حوالے سے صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تو صاف محسوس ہوگا کہ دنیا ایک مرتبہ پھر ایک بڑی تبدیلی یا منتقلی (Transition) کے عمل سے دوچار ہونے جارہی ہے۔اس سلسلے میں ہم پہلے بھی اشارے دیتے رہے ہیں کہ واشنگٹن سے عالمی ریاست کے اسٹیٹس کو مقبوضہ یروشلم منتقل کیا جانا مقصود ہے۔ یعنی امریکا کے بعد اب عالمی ریاست اسرائیل ہوگی۔ اس منصوبے پر عملدآمد کے لئے امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کو ایک بڑی جنگ میں جھونکنا مقصود تھا ۔سو یہ کام نائن الیون کے بعد کردیا گیا۔ اسرائیل کے عالمی ریاست بننے کے راستے میں چار بڑی رکاوٹیں ہیں جن میں پاکستان ہے اس کے بعد روس اور چین اس میں شامل ہیں۔عالمی صہیونیت نے ان رکاوٹوں کو عبور کرنے کا منصوبہ کیسے بنا رکھا ہے ،اس کی جانب آنے سے پہلے ہمیں ان عوامل کا بھی جائزہ لینا ہوگا جس کے تحت امریکا اور اس کے اتحادیوں کو بڑی جنگ میں پھنسا کر مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ امریکا اس وقت کارپوریٹ نظام کا سب سے بڑا سرخیل ملک تصور ہوتاہے۔ اس نظام میں نجی سرمایہ دار ادارے اصل میں حکمران ہوتے ہیں جن کے تحت کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں دولت اور وسائل کے حصول کا ایسا سحر قائم کیا جاتا ہے جس کے ذریعے امریکا جیسے ممالک طاقت کے زور پر افغانستان جیسے غریب اور کمزور ملکوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ پہلے افغانستان کے طالبان کو عالمی امن کے لئے ایک بڑا خطرہ بناکر پیش کیا گیا۔ دنیا کو انتہا پسندی اور جہادی تحریکوں سے ڈرایا گیا۔ دوسری جانب مشرق وسطی میں عراق کے حوالے سے من گھڑت کہانی پھیلا کر اسے ایک ہوا بنایا گیا۔اس کے بعد کویت پر قبضہ کروا کر امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کو مشرق وسطی میں پیر جمانے کے لئے بھیج دیا گیا۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ عراق اور افغانستان میں مہم جوئی سے زیادہ ان دونوں ملکوں کے پڑوسی ممالک کو مستقبل میں نشانے پر لینے کا منصوبہ بنایا گیا تھا یعنی شام اور پاکستان۔نائن الیون کے بعد سے اب تک ہمارے پاس پندرہ برس کا وقت تھا۔ ان برسوں میں پاکستان میں اگر کوئی محب وطن اور اسلام پسند انتظامیہ ہوتی تو آنے والے وقت کی سنگینی کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کی تیاری کرتی لیکن بدقسمتی سے تیاری کے بجائے اس ملک کی جڑیں کھودی گئیں، اس کی سرزمین کو اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں کی خفیہ ایجنسیوں نے اپنا ٹھکانا بنالیا۔پاکستان کے لئے یہ خبر خاصی تشویش ناک ہونی چاہیے کہ امریکا کے بعد اسرائیل کا سب سے بڑا اسٹریٹیجک اتحادی بھارت ہے۔ جس نے پہلے ہی پاکستان کے دریاؤں پر قبضہ جماکر اس کے حصے کا پانی مار لیا ہے۔ رہی سہی کسر عاقبت نااندیش انتظامیہ کی وجہ سے وطن عزیز کی زرخیز زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے قیام نے پوری کردی ہے۔ آنے والے سخت وقت میں غلہ کہاں اور کتنا پیدا ہوگا اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ڈالروں کے لالچ نے ملکی خارجہ پالیسی کو متوازن بنانے کے لئے چین کے علاوہ روس کے ساتھ تعلقات کو اس انداز میں استوار نہیں ہونے دیا جس طرح ان حالات میں ہونے چاہئے تھے۔ برسوں سے افغانستان میں موجود نیٹو کے سانپ کو ہم اپنی سرزمین سے دودھ پلاتے رہے جبکہ یہی سانپ حقیقت میں ہمیں ہی ڈسنے افغانستان آیا تھا۔ اس حوالے سے ایک پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور وہ یہ ہے کہ اسرائیل کی بڑی کامیابی کے لئے مسلم دنیا میں فرقہ بازی خصوصا سنی اور شیعہ کے درمیان اختلافات کا تیز ہونا انتہائی ضروری تھا کیونکہ مسلم دنیا میں فرقہ بازی کی فضا سے سب سے زیادہ صیہونی قوتوں نے ہی استفادہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ نہ صرف جنوبی اور وسطی ایشیا بلکہ مشرق وسطی میں اس خلیج کو مزید وسیع کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔اس وقت عراق سے شام اور یمن تک یہ آگ پھیل چکی ہے خلیجی عرب ممالک اپنے ہاں اس فتنے پر قابو پانے کے لئے کوشاں ہیں۔امریکا اپنی لڑکھڑاتی معیشت کے سہارے کس حد تک اس جنگ میں عالمی قوت ہونے کا مظاہرہ کرے گا وہ اب صاف نظر آرہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ روس کو شام میں پھنسا کر عالمی سطح پر اسرائیل کے ایک بڑے حریف کو ان حالات سے دوچار کیا جائے گا جس سے افغانستان میں پہلے سوویت یونین اور اس کے بعد امریکا ہوچکے ہیں۔صرف ایک دو ماہ کے اندر اندرشام میں روس کی جنگی حکمت عملی کا مشاہدہ کیا جائے گا ۔اس کے بعد جلد ہی عالم عرب سے بڑی تعداد میں مزیدعرب جنگجو شام کا رخ کرنے والے ہیں جبکہ اطلاعات کے مطابق پندرہ ہزار کے قریب داغستانی اور چیچن جنگجووؤں کی نئی کھیپ شام میں داخل ہونے کو تیار ہے ۔یوں ایک طرف شام کی بچی کھچی سرکاری فوج، ایرانی فوج اور حزب اﷲ کے جنگجو ہوں گے تو دوسری جانب داعش، فری سیرین آرمی، جبھۃ النصرۃ، جنود الشام کے جنگجو ہوں گے جنہیں عرب اور خلیجی ممالک کی بھرپور مدد حاصل ہوگی۔ عرب صحافتی ذرایع کے مطابق سعودی عرب کی ایک سرکاری شخصیت نے انکشاف کیا ہے کہ جلد سعودی عرب شامی جنگجووؤں کو طیارہ شکن اور ٹینک شکن میزائل مہیا کرے گا۔ یقینی بات ہے جب بشار مخالف جنگجووؤں کے پاس طیارہ شکن میزائل آگیے تو شام میں روسی جنگی طیاروں کو اسی صورتحال کا سامنا ہوسکتا ہے جو افغانستان میں اسٹینگر میزائلوں کے آنے کے بعد سوویت فضائیہ کو کرنا پڑا تھا۔

یوں شاید امریکا کی کچھ عزت سلامت رہ جائے لیکن امریکا ایک واضح شکست سے تو بچ جائے گا لیکن اس کا عالمی ریاست (Super Power)کا اسٹیٹس واشنگٹن سے یروشلم منتقل ہوچکا ہوگا۔یہی وہ وقت ہوگا جب ڈالر کو زوال آجائے گاکیونکہ دنیا بھر کے بینکوں کا سارا نظام صیہونیوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس لئے وہ دوسری جانب عالمی معیشت کوبڑے جھٹکے سے دوچار کردیں گے۔اسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے چین نے آٹھ برس قبل سے اور روس نے پانچ برس قبل سے اپنے محفوظ سرمائے کو ڈالر سے سونے میں منتقل کرنا شروع کردیا تھا۔ جس کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمت تاریخ کی بلندی ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔

شام کا بحران مشرق وسطی میں ایک ’’علاقائی جنگ عظیم‘‘ کا آغاز ہے جس میں اسرائیل بنیادی فریق ہے۔ یہ درحقیقت روس اور اسرائیل کے درمیان حتمی ٹکراؤ کا باعث بنے گی۔

اس سارے منظرنامے میں جہاں تک پاکستان کے حوالے سے صیہونی منصوبوں کی بات ہے تو یہ نائن الیون سے پہلے ہی ترتیب پا گئے تھے جس کی اشارے ہمیں 25جولائی سے 4اگست1999ء کو ہونے والے امریکا کے ایک سیمینار میں ملتے ہیں جس کی تفصیلی رپورٹ اب نیٹ پر بھی دیکھی جاسکتی ہیں یہ رپورٹ جسے ایشیا 2015ء کا نام دیا گیا تھا امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کے نائب سیکرٹری دفاع کی زیر نگرانی مرتب ہوئی تھی اس میں امریکہ کے مشہور زمانہ صہیونی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کے افراد کے ساتھ ساتھ دو بھارتی دانشور راجن مینن اور ایشلے ٹیلیزبھی شریک ہوئے تھے۔ راجن مینن کا تعلق امریکا کی لی ہائی یونیورسٹی سے تھا۔اس میں ایشیا سے متعلق عالمی صیہونی دنیا کے تسلط کا نقشہ کھینچا گیا ہے جبکہ اس میں پاکستان کے حوالے سے سوائے تباہی کے اور کچھ درج نہیں ۔1999ء کی اس رپورٹ کے مطابق(خاکم بدہن) آنے والی دہائی میں پاکستانی ریاست کا نظام زوال پزیر ہوجائے گا۔پنجاب کے سوا پاکستان کے باقی تین صوبوں میں بے چینی بڑھ جائے گی اور عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ عوام کی جان اور مال کا تحفظ ممکن نہیں رہے گا۔ مذہبی جنونی اس ریاست کو مزید غیر مستحکم کردیں گے اور طالبان تخریبی کارروائیاں تیز کردیں گے( کتنی عجیب بات ہے کہ1999ء تک تحریک طالبان پاکستان کا نام ونشان تک نہ تھا)اور 2012ء تک حکومت مسلم شدت پسندوں کے سامنے عاجز آجائے گی (کسی حد تک ایسا ہوا)اور مذہبی جنگجو تنظیمیں کشمیر میں اپنی کارروائیاں تیز کردیں گی جس کی وجہ سے بھارت ان کارروائیوں کو روکنے کے لئے پاکستان کو خبردار کرے گالیکن جب ان حربوں سے کام نہیں نکلے گا تو بھارت اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کردے گاجس کی وجہ سے پاکستان بھارت کی اس پیش قدمی کو روکنے کے لئے بھارت کو جوہری حملے کی دھمکی دے گا۔ بھارت اس حملے کو روکنے کے لئے روایتی ہتھیار استعمال کرکے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو تباہ کرنے کی ناکام کوشش کرے گا۔ امریکا کو جب یہ یقین ہوجائے گا کہ اب پاکستان کے جوہری ہتھیار شدت پسندوں کے ہاتھ لگنے والے ہیں تو وہ پاکستان کی جوہری تنصیبات اور اثاثوں کو روایتی ہتھیاروں کی مدد سے تباہ کردے گاجس کی وجہ سے پاکستان میں بدامنی پھیل جائے گی اور بھارتی فوج امن وامان کے قیام کے لئے پاکستان میں داخل ہوجائے گی۔ لیکن پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان بھی کئی حصوں میں تقسیم ہوجائے گا اور افغانستان کا پشتون اکثر یتی علاقہ بھی بھارت میں شامل ہوجائے گا۔‘‘پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے رپورٹ کے اس حصے کا نام نیو ساؤتھ ایشین آرڈر New South Asian Orderرکھا گیا تھا ۔جس میں (خاکم بدہن)پاکستان اور افغانستان اپنا جغرافیائی وجود کھو دیں گے۔ ایران مذہبی ریاست کی بجائے ماڈرن ریاست بن جائے گا یعنی وہاں پر کسی ’’حامد کرزئی‘‘ کو مسلط کردیا جائے گااور بھارت چین کے مقابلے میں ایک بڑی اور ابھرتی ہوئی قوت کی شکل اختیار کرلے گا۔یہ رپورٹ ہنود اور یہود کے اس خواب کی عکاسی لگتی ہے جو وہ برسوں سے وطن عزیز اور اسلامی دنیا کے خلاف دیکھ رہے ہیں۔ یاد رہے یہ رپورٹ 1999ء میں مرتب ہوئی تھی اور کئی برس تک اسے خفیہ رکھا گیا تھا ۔یہ وہ وقت تھا جب ابھی نائن الیون ہونے میں دو برس باقی تھے اور نائن الیون کے بعد ہی امریکا افغانستان میں وارد ہوا تھا۔ نائن الیون ہونا اور اس کے بعد امریکا کا صیہونی اتحادیوں کے ساتھ افغانستان آنا یہ منصوبے کا حصہ تو ہوسکتا ہے لیکن اس صیہونی اتحاد کا افغانستان میں کیا حشر ہوگا یہ غیب کی بات تھی اور غیب کا علم صرف اﷲ رب العزت کے پاس ہے۔لیکن حالات اور واقعات کی بنیاد پر قیاس کی کوئی حد نہیں ہے۔ اسی لئے کہا جاسکتا ہے کہ امریکا پاکستان کو سبق سکھائے بغیر افغانستان سے نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔اسرائیل اور اس کا عالمی صہیونی نیٹ ورک اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ افغانستان کے معاملے میں وائٹ ہاؤس اور پینٹاگان میں فاصلے بڑھے ہیں۔ امریکا کی پوری کوشش تھی کہ نومبر 2012ء سے پہلے اپنی فوج کا بڑا حصہ افغانستان سے واپس بلا لے لیکن اسرائیل اسے ابھی یہاں سے نکلنے نہیں دینا چاہتا تھا۔کیونکہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو ٹھکانے لگائے بغیر اس کا مشرق وسطی کی بنیاد پر عالمی دجالی منصوبہ پورا نہیں ہوسکتا تھا۔

صہیونی منصوبے کے مطابق جیسے ہی روس کے خلاف شام میں عسکری مزاحمت زور پکڑے گی تو اس سے ایران کی پوزیشن بھی کمزور ہونے لگی گی جس کی وجہ سے ردعمل کے طور پر ایران بحر ہرمز کا راستہ بند کردے گا اور دنیا کے تیل کی سپلائی کا ساٹھ فیصد رک جائے گا۔ جیسے ہی ہرمز کی گزرگاہ بند ہوئی تو تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی۔ ان حالات میں دنیا بھر کی تمام اشیا خصوصا خوراک کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ جائیں گی۔

روس کو شام میں پھنسا کر عالمی سطح پر اسرائیل کے ایک بڑے حریف کو ان حالات سے دوچار کیا جائے گا جس سے افغانستان میں پہلے سوویت یونین اور اس کے بعد امریکا ہوچکے ہیں۔

اس حوالے سے صرف پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو اندازا لگانا مشکل نہیں کہ دنیا کی تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر پاکستانی قوم کس قسم کے عذاب سے دوچار ہو جائے گی۔ جس ملک میں پہلے ہی توانائی کے تمام شعبے انتہائی منصوبہ بندی کے تحت تباہ کردیئے گئے ہوں، جہاں پر گیس کی کمیابی کا رونا رو کر پہلے ہی اس کی قلت پیدا کردی گئی ہے ، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کرکے پہلے ہی اسے عام آدمی کی پہنچ سے دور کردیا گیا ہے جبکہ ان قیمتوں کی وجہ سے پہلے ہی بے پناہ مہنگائی کا طوفان آچکا ہے ۔جب دنیا اس قسم کے حالات سے دوچار ہوگی تو وطن عزیز کا کیا بنے گا؟ جہاں نصف سے زیادہ تباہی پہلے ہی مغرب کے غلام حکمرانوں نے پھیر دی ہے۔ یقینی بات ہے کہ پاکستان کے ’’کرپٹ حکمران، سیاستدان اور اہم اداروں کے کرتا دھرتا‘‘ امریکا اور یورپ کی جانب بھاگنے کی کوشش کریں گے اور ملکی دفاع کی ذمہ داری اس قوم کے محب وطن سپوتوں کے شانوں پر آن پڑے گی ۔اگر خدانخواستہ امریکا، بھارت اور اسرائیل پاکستان کے خلاف اپنے منصوبے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو نہ صرف پاکستانی اور افغان مسلمانوں کے لئے بڑا دھچکا ہوں گے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کا حال ان سے بھی زیادہ بُراہوجائے گا کیونکہ اس طرح وہ خطے میں ہندو کی بدترین غلامی میں آجائیں گے۔

اسرائیل اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ چین اور روس کو زیر نگیں کیے بغیر اس کی عالمی حکمرانی کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ ساتھ اس کا رخ ان دو بڑی قوتوں کی جانب ہوگا۔ اس حوالے سے شام کی صورتحال کو پہلے ہی اتنا خراب کردیا گیا ہے ۔داعش کو بہانہ بناکر ایران کے بعد روس نے بھی اپنی عسکرے دستے شام میں اتار دیے ہیں درحقیقت یہ مشرق وسطی میں ایک ’’علاقائی جنگ عظیم‘‘ کا آغاز ہے جس میں اسرائیل بنیادی فریق ہے جو درحقیقت روس اور اسرائیل کے درمیان حتمی ٹکراؤ کا باعث بنے گی۔ روس عملی طور اس کا جواب دینے کے لئے تیار ہوکر شام میں آیا ہے۔ یہ جواب اس قدر خوفناک ہوسکتا ہے کہ دنیا جوہری حملوں کی زد میں آسکتی ہے اور عالمی سطح پر جدید ٹیکنالوجی زوال پزیر ہوسکتی ہے جس میں انٹرنیٹ کی بندش کے ساتھ ساتھ جدید میزائلوں کا کمپیوٹرائز کنٹرول سسٹم بھی شامل ہوگا۔جب جدید عسکری ٹیکنالوجی اسرائیل اور اس کے مغربی صیہونی اتحادیوں کے خلاف روس کے جوابی حملے کی وجہ سے فنا ہوگی تو روایتی جنگی طریقے اور ہتھیار میدان میں باقی رہ جائیں گے اور یہ وہ وقت ہوگا جب اسرائیل کی دجالی ریاست اور عالمی دجالی نظام مجاہدین کے رحم وکرم پر آجائے گا۔۔۔۔ کیونکہ عالمی مغربی صیہونی استعمار کا سب سے بڑا ہتھیار ٹیکنالوجی ہے۔ لیکن یہ ٹیکنالوجی روس کے ساتھ عسکری ٹکراؤ میں تباہ ہوجائے گی۔


متعلقہ خبریں


عمران خان نااہلی پاکستان کا اندرونی معاملہ، دخل اندازی نہیں کرسکتے، امریکا وجود - منگل 25 اکتوبر 2022

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی سے متعلق سوال پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان نااہلی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، پاکستان کی اندرونی سیاست میں دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک ب...

عمران خان نااہلی پاکستان کا اندرونی معاملہ، دخل اندازی نہیں کرسکتے، امریکا

مارکیٹ پر غلبے کیلئے ناجائز ہتھکنڈوں کا استعمال، بھارت میں گوگل پر 16 ملین ڈالر جرمانہ وجود - هفته 22 اکتوبر 2022

بھارت میں مارکیٹ پر غلبے کیلئے ناجائز ہتھکنڈوں کے استعمال کے الزام میں گوگل پر 161 ملین ڈالر (13 ارب بھارتی روپے) کا جرمانہ عائد کردیا گیا۔ کمپیٹیشن کمیشن آف انڈیا نے بیان میں الزام عائد کیا کہ گوگل اپنے اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کے متعدد اسمارٹ فونز، ویب سرچز، برازنگ اور ویڈیو ہوسٹ...

مارکیٹ پر غلبے کیلئے ناجائز ہتھکنڈوں کا استعمال، بھارت میں گوگل پر 16 ملین ڈالر جرمانہ

عمان کا اپنی فضاء اسرائیلی طیاروں کے لیے کھولنے سے انکار وجود - هفته 22 اکتوبر 2022

سلطنت عمان نے اسرائیلی سویلین طیاروں کو دنیا کے مشرقی حصے تک پہنچنے کے لیے اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔عبرانی اخبار نے اسرائیلی سول ایوی ایشن کمپنی کے اگلے دو ماہ میں ہندوستان کے لیے اپنی پروازیں منسوخ کرنے کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے۔ اس کی وجہ سلطنت ع...

عمان کا اپنی فضاء اسرائیلی طیاروں کے لیے کھولنے سے انکار

چار بہنوں کا 389 سال کی مجموعی عمر کا عالمی ریکارڈ وجود - منگل 27 ستمبر 2022

امریکا میں چار بہنوں نے 389 سال کی مجموعی عمر کا گینیز عالمی ریکارڈ اپنے نام کر لیا ہے۔ امریکی ریاست جنوبی ڈکوٹا شہر سیو فالز سے تعلق رکھنے والی چاروں بہنوں کی مجموعی عمر 22 اگست کے مطابق 389 سال اور 197 دن ہے۔ ان بہنوں میں 101 سالہ آرلووین جانسن، 99 سالہ مارسین جانسن، 96 سالہ ڈو...

چار بہنوں کا 389 سال کی مجموعی عمر کا عالمی ریکارڈ

روس کے مقابلے میں چین زیادہ بڑا، طویل المدتی خطرہ ہے،امریکا وجود - هفته 28 مئی 2022

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے عالمی برادری سے چین کو روکنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ روس فوری خطرہ ہے لیکن چین سے عالمی نظام کو زیادہ سنگین خطرات لاحق ہیں۔ میڈیارپورٹس کے مطابق جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلن...

روس کے مقابلے میں چین زیادہ بڑا، طویل المدتی خطرہ ہے،امریکا

اچکنیں سلوانے والے کہہ رہے تھے ہمیں امریکا کو ناراض نہیں کرنا چاہیے، وزیراعظم وجود - جمعه 01 اپریل 2022

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نے کہا کہ ملک میں سیکیورٹی تب آتی ہے جب ہر شہری ذمہ داری لیتا ہے، سیکیورٹی فوج نہیں عوام دیتی ہے، امریکا کے وزیر خارجہ کا بیان ہے کہ بھارت کو کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ ایک آزاد ملک ہے، توپھر ہم کیا ہیں؟ طاقتور ملک ہم پر غصہ ہو گیا جس نے کہا کہ آپ...

اچکنیں سلوانے والے کہہ رہے تھے ہمیں امریکا کو ناراض نہیں کرنا چاہیے، وزیراعظم

وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں مراسلے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے امریکا کا نام لے لیا وجود - جمعه 01 اپریل 2022

وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں مراسلے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے امریکا کا نام لے لیا۔وزیراعظم عمران خان نے قوم سے براہ راست خطاب کیا اور اس دوران انہوں نے خارجہ پالیسی پر بات کی۔وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں مراسلے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے امریکا کا نام لیا اور پھر غلطی کا ...

وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں مراسلے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے امریکا کا نام لے لیا

یوکرینی حکومت کی شہریوں سے گوریلا جنگ کا آغاز کرنے کی اپیل وجود - جمعه 04 مارچ 2022

یوکرینی حکومت نے شہریوں سے گوریلا جنگ کا آغاز کرنے کی اپیل کردی۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یوکرینی حکومت نے شہریوں سے گوریلا جنگ کا آغاز کرنے کی اپیل کر دی ۔یوکرینی صدر کے مشیر نے لوگوں کو کہا ہے کہ روس کے پچھلے دستے کمزور ہیں، اگر ہم ان کو بلاک کر دیں تو یہ جنگ جیت سکتے ہیں...

یوکرینی حکومت کی شہریوں سے گوریلا جنگ کا آغاز کرنے کی اپیل

مذاکرات کے ساتھ یوکرین کی فوجی طاقت کو ہر حال میں تباہ کریں گے،روس وجود - جمعه 04 مارچ 2022

روس نے کہا ہے کہ ماسکو یوکرین میں لڑائی کے خاتمے کے لیے بات چیت کررہا ہے تاہم یوکرین کے فوجی ڈھانچے کو مکمل تباہ کرنے کی کوشش جاری رہے گی۔ عالمی میڈیا کے مطابق روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ روسی وفد نے اس ہفتے کے شروع میں یوکرینی مذاکرات کاروں کو اپنے مطالبات پیش کیے ہیں...

مذاکرات کے ساتھ یوکرین کی فوجی طاقت کو ہر حال میں تباہ کریں گے،روس

سلامتی کونسل میں روس کی مستقل رکنیت خطرے میں پڑگئی وجود - جمعرات 03 مارچ 2022

یوکرین پر حملے کے بعد امریکا نے سلامتی کونسل میں روس کی مستقل رکنیت ختم کرنے کے طریقوں پرغور شروع کردیا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مستقل اراکین کی رکنیت ختم کرنے کے لیے یو این چارٹرمیں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے امریکا کی نائب وزیرخارجہ وینڈی شرمین نے اراکین کانگریس ...

سلامتی کونسل میں روس کی مستقل رکنیت خطرے میں پڑگئی

تخفیف اسلحہ معاہدوں سے الگ ہوسکتے ہیں، روس وجود - اتوار 27 فروری 2022

روس نے کہا ہے کہ یورپ کی جانب سے پابندیوں کے جواب میں وہ تخفیف اسلحہ معاہدوں سے علیحدہ ہوسکتے ہیں۔اپنے بیان میں ڈپٹی ہیڈ روسی سکیورٹی کونسل نے کہا ہے کہ مغرب سے تعلقات مکمل ختم کرسکتے ہیں، ممکن ہے کہ پھر روس اور مغرب ایک دوسرے کو دوربین سے دیکھیں۔واضح رہے کہ یوکرین پر حملے کے بعد...

تخفیف اسلحہ معاہدوں سے الگ ہوسکتے ہیں، روس

روس کا یوکرین پر حملہ، جوابی کارروائی میں پانچ روسی طیارے،ایک ہیلی کاپٹر تباہ وجود - جمعرات 24 فروری 2022

روس نے یوکرین پرحملہ کردیا جس کی جوابی کارروائی میں 5 روسی طیارے اورایک ہیلی کاپٹرتباہ کردیا گیا۔جبکہ یوکرائن کے صدرنے ملک بھر میں مارشل لا نافذ کر دیا ہے۔ غیر ملکی خبررساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق انہوں نے ٹیلی ویژن پر ایک حیران کن بیان میں کہا کہ میں نے فوجی آپریشن کا فیصلہ کر...

روس کا یوکرین پر حملہ، جوابی کارروائی میں پانچ روسی طیارے،ایک ہیلی کاپٹر تباہ

مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر