وجود

... loading ...

وجود

رفاعی یا رفاہی

اتوار 06 ستمبر 2015 رفاعی یا رفاہی

Urdu

صوبہ خیبرپختون خوا کے شہر کرک سے ایک اخبار ’’دستک‘‘ کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ زبان کے حوالے سے یہ سلسلہ وہاں بھی شائع ہورہا ہے، جس کا فائدہ یہ ہے کہ پشتو بولنے والے اُن بھائیوں سے بھی رابطہ ہورہا ہے جو اردو میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اردو کو قومی سطح پر تو اب تک رائج نہیں کیا گیا لیکن اس زبان کی خوبی یہ ہے کہ آپ ملک کے کسی بھی حصہ میں چلے جائیں، یہ زبان بولنے اور سمجھنے والے مل جائیں گے۔ خیبر پختون خوا کے ایک شہر سے ایک استاد کا ٹیلی فون آیا۔ انہوں نے مزے کی بات بتائی کہ ہم جب اردو بولتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں تم تو پنجابی بول رہے ہو۔ بات یہ ہے کہ پنجابی اردو کے بہت قریب ہے، صرف بعض الفاظ میں تلفظ کا فرق ہے۔ یہی نہیں بہت سے پنجابی دوستوں سے اردو محاورے اس دعوے کے ساتھ سنے ہیں کہ یہ پنجابی ہیں۔ اس میں حرج کوئی نہیں ہے۔ دراصل کئی ہندی محاورے اردو اور پنجابی میں در آئے ہیں۔ یہی نہیں، ان کا ترجمہ پشتو میں ہوا تو یہ پشتو ہوگئے۔ ہمارے ایک ساتھی پشتو محاورے کا ترجمہ سناتے ہیں تو ہم ان سے کہتے ہیں کہ یہ تو اردو کا محاورہ ہے۔ محاوروں پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ ہمیں اسکول میں انگریزی محاوروں کا سلیس اردو ترجمہ پڑھایا جاتا تھا۔ مثلاً انگریزی کا محاورہ ہے کہ ’’بھونکنے والے کتے کاٹتے نہیں‘‘۔ اس کا ترجمہ ہمیں یہ پڑھایا گیا ’’جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں‘‘۔ دیکھا جائے تو دونوں ہی باتیں غلط ہیں یا سو فیصد صحیح نہیں ہیں۔ بھونکنے والا کتا کاٹ بھی لیتا ہے، اس محاورے پر اعتماد کرکے خطرہ مول نہ لیں۔ اسی طرح ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ بادل برسنے سے پہلے خوب گرجتے ہیں۔ ہمارے والد ڈانٹ ڈپٹ کے بعد ہاتھ بھی چھوڑ دیتے تھے اور محاورے کا لحاظ نہیں کرتے تھے۔ یہی محاورے بنگالی اور سندھی میں بھی مل جائیں گے۔ برعظیم کی زبانوں کی ماں ’’سنسکرت‘‘ ہے، چنانچہ اس کے الفاظ مقامی زبانوں میں در آئے ہیں۔ پشتو پر فارسی کا اثر زیادہ ہے۔ جہاں تک اردو کا تعلق ہے تو اس کا بڑا حصہ عربی اور فارسی پر مشتمل ہے۔ انگریز کی آمد سے پہلے فارسی نہ صرف سرکاری زبان تھی بلکہ دفتری زبان ہونے کی وجہ سے ہر پڑھے لکھے شخص کی زبان بن گئی تھی۔ تعلیم کا آغاز شیخ سعدی کی گلستان، بوستان سے ہوتا تھا۔ بیشتر شعراء نے فارسی میں شاعری کی۔ مرزا غالب کا تو دعویٰ ہی یہ ہے کہ ان کی اصل شاعری فارسی میں ہے لیکن شہرت اردو شاعری سے ملی۔ علامہ اقبال کے کلام کا بڑا حصہ فارسی میں ہے۔ اب فارسی تو رہی نہیں اور اردو کو اس کا مقام ملا نہیں، انگریزی اس قوم کی مجبوری بن گئی ہے۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ زبان اپنے ساتھ اپنا کلچر، اپنی تہذیب بلکہ اپنا مذہب بھی لے کر آتی ہے۔ عربی چونکہ دینِ اسلام کی زبان ہے، اس لیے یہ بڑی حد تک نہ صرف اردو بلکہ مقامی زبانوں میں شامل ہے۔ شاید ہی اردو کا کوئی ایسا جملہ ملے جس میں عربی، فارسی کے الفاظ نہ ہوں۔ مثلاً ایک اخبار کی سرخی ہے ’’مشتبہ افراد کی گرفتاری معما بن گئی‘‘۔ اس میں مشتبہ، معما، افراد عربی الاصل ہیں اور گرفتاری فارسی۔ یہ ایک مثال ہے، آپ خود اخبار پڑھتے ہوئے یا گفتگو کرتے ہوئے غور کرسکتے ہیں۔

ہم نے سطور بالا میں لفظ ’’حرج‘‘ استعمال کیا ہے۔ یہ عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے: رکاوٹ، تنگی، سختی، نقصان، کمی، ضرر وغیرہ۔ اسی سے حارج ہے، مزاحمت کرنے والا۔ لیکن ایک اور لفظ ہائے ہوّز یعنی ہاتھی والی ہ سے ’’ہرج‘‘ ہے۔ یہ بھی عربی کا لفظ ہے اور اس میں ’ر‘ ساکن ہے یعنی ہَرْج۔ یہ مذکر ہے اور اس کا مطلب ہے: شورش، ہنگامہ، دنگا، گڑبڑ، فتنہ، نقصان، خسارہ، خلل، ڈھیل، دیر وغیرہ۔ اردو میں ہرجانہ ، ہرجہ وغیرہ مستعمل ہیں۔ عدالتی زبان میں ہرجہ، خرچہ کہا جاتا ہے۔ دونوں کے معانی قریب قریب ہیں چنانچہ ایک کی جگہ دوسرے کے استعمال میں کوئی ہرج نہیں۔

بدھ 29 جنوری کے جسارت میں یونس بارائی پر حملے کی خبر میں تین جگہ ’’رفاعی پلاٹ‘‘ چھپا ہے۔ حتی الامکان سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ رفاعی غلط ہے، یہ رفاہی ہے۔ رفاہ کا مطلب ہے: بہبود، آرام، چین، سکھ، بھلائی وغیرہ۔ عربی کا لفظ ہے اور ’’رفہ‘‘ کی جمع ہے۔ مگر اردو میں واحد ہی مستعمل ہے۔ رفاہ عام کے نام سے کراچی میں ایک بستی بھی ہے یعنی عوام یا خلقت کی بہبود کی سوسائٹی۔ لیکن اس بستی میں بھی ’’رفاع عام سوسائٹی‘‘ کے بورڈ لگے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لغت میں ’’رفاع‘‘ کا لفظ نہیں ملا البتہ رفع ہے جو عام ہے۔ بلند کرنا، دور کرنا، معاملہ کو رفع، دفع کرنا تو آپ نے بھی سنا ہوگا۔ ’’ناجائز تجاوزات‘‘ بھی اخبارات میں عام ہیں، جب کہ تجاوزات بجائے خود ناجائز ہوتی ہیں۔

اخباروں میں ایک لفظ استعمال ہورہا ہے، وہ ہے ’’مواقعوں‘‘۔ جانے یہ مواقع کی جمع الجمع کس اصول کے تحت بنا لی گئی، صرف مواقع سے تسلی نہیں ہوتی۔ موقع کی جگہ موقعہ بھی صحیح نہیں ہے۔ ایک مضمون نگار نے ’’بلند و بانگ پہاڑی سلسلہ‘‘ لکھا ہے۔ ان دو الفاظ کے درمیان ’’واؤ‘‘ کا استعمال ویسے بھی غلط ہے، لیکن پہاڑ کا بانگ سے کیا تعلق ہے؟ بانگ تو آواز یا صدا کو کہتے ہیں، اذان کو بانگ کہا جاتا ہے۔ مرغ کی بانگ بھی سنی جاتی ہے۔ ایک بڑھیا نے گاڑی والوں سے ناراض ہوکر دھمکی دی تھی کہ میں اپنا مرغا لے کر چلی جاؤں گی، نہ اس کی بانگ سنو گے نہ نیند سے جاگو گے، پڑے سوتے رہ جاؤ گے۔ لیکن بلند و بانگ پہاڑ کا کیا مطلب ہوا؟ علامہ اقبال کا شعری مجموعہ ’’بانگ درا‘‘ اور لاہور کے استاد دامن کا مجموعہ کلام ’’بانگ دُہل‘‘ ہے۔ ممکن ہے جس پہاڑ پر یہ کتابیں رکھی ہوں یا بڑھیا کا مرغ چڑھ کر بانگ دے رہا ہو اُس کو بلند و بانگ کہا جا سکے۔

گزشتہ ماہ بھارت نے یوم جمہوریہ منایا۔ ایک مضمون میں پڑھا ’’بھارتی یوم جمہوریہ کا دن۔‘‘ ماہِ رمضان کا مہینہ، شب برأت کی رات بھی تو سنتے رہتے ہیں۔

صوبہ خیبر پختون خوا کے دوست نے ’’لالچ‘‘ کے مونث ہونے کی بڑی دلچسپ دلیل دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بچپن سے پڑھتے آرہے ہیں ’’لالچ بری بلا ہے‘‘۔ دراصل ’’بری‘‘ کا تعلق ’’بلا‘‘ سے ہے، لالچ سے نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ’’لالچ برا فعل ہے‘‘، تب؟ یہ گڑبڑ جسارت میں بڑی پابندی سے ہورہی ہے اور بار بار ٹھیک کروانے کے باوجود ’’کی اظہار تعزیت‘‘ چھپ جاتا ہے۔ فاضل سب ایڈیٹر کے ذہن میں شاید یہی ہوتا ہے کہ تعزیت تو مونث ہے لہٰذا ’’کی اظہارِ تعزیت‘‘ ہونا چاہیے۔ ہم سمجھاتے ہیں کہ اگر ’’کی‘‘ ایسی ہی ناگزیر ہے تو ’’اظہار‘‘ نکال دو۔ بری، برا، اچھی، اچھا وغیرہ کا تعلق بعد میں آنے والے لفظ سے ہے۔ اسی طرح کی، کو، کا وغیرہ کا بھی۔ لالچ بہرحال مذکر ہے خواہ بری بلا ہو یا بری حرکت۔ ہم نے کئی مضامین میں لالچ کو مونث بنتے دیکھا ہے۔

زبان کوئی بھی ہو، اگر غلطیوں سے پاک ہو تو اچھا اثر ڈالتی ہے۔ لیکن اچھی زبان کے لیے اغلاط سے گریز کے علاوہ بھی کچھ درکار ہے۔ ایک صاحب عامر لیاقت، جو نجانے کس طرح اپنے نام میں بڑے اہتمام سے ڈاکٹر کا سابقہ لگاتے ہیں، انہوں نے مضمون نگاری بھی شروع کی ہوئی ہے۔ وہ دینی اسکالر بھی کہلاتے ہیں اور ہمیں اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں۔ وہ صحافی بھی رہ چکے ہیں۔ 3 فروری کے اپنے مضمون ’’چہار درویش‘‘ میں مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ’’اسے ثالثی کی کوشش قرار دے کر مسئلہ پر مٹی ہی پا دوں۔‘‘ ان کے اس جملے میں خود ان کے لیے ذم کا پہلو ہے اور یہ کام مشکل بھی ہے۔ ادارتی صفحہ کے انچارج کو چاہیے تھا کہ ’’مٹی پاؤں یا مٹی ڈال دوں‘‘ کردیتے۔ لیکن بعض لکھنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ انچارج بھی اصلاح کی ہمت نہیں کرتا۔


متعلقہ خبریں


وزیراعظم نواز شریف اپنی شیروانی کہیں رکھ کر بھول گئے؟ عارف عزیز پنہور - منگل 27 ستمبر 2016

زندہ قومیں اپنی زبان کو قومی وقار اور خودداری کی علامت سمجھا کرتی ہیں اور اسی طرح قومی لباس کے معاملے میں بھی نہایت حساسیت کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ روس‘ جرمنی‘ فرانس اور چینی رہنما کسی بھی عالمی فورم پر بدیسی زبان کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ نہیں بناتے، بلکہ اپنی ہی زبان میں...

وزیراعظم نواز شریف اپنی شیروانی کہیں رکھ کر بھول گئے؟

وفاقی وزراء بھی نفاذِ اردو کے مخالف ہیں، مشیرِ وزیراعظم عرفان صدیقی وجود - پیر 25 جولائی 2016

وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر عرفان صدیقی نے قومی زبان اردو کے سرکاری زبان کے طور پر نفاذ کے حوالے یہ اعتراف کیا ہے کہ اس میں صرف بیورو کریسی ہی رکاوٹ نہیں بلکہ اس سلسلے میں عدالتی فیصلے کے نفاذ کے خلاف مختلف وزراء بھی ہیں۔ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے پاکستان قومی زبان تحریک کے زیر...

وفاقی وزراء بھی نفاذِ اردو کے مخالف ہیں، مشیرِ وزیراعظم عرفان صدیقی

’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘ اطہر علی ہاشمی - پیر 11 جولائی 2016

مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟ عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو ن...

’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘

فصل کی برداشت اور تابع دار اطہر علی ہاشمی - بدھ 22 جون 2016

پنجاب میں زراعت کے تعلق سے ایک اصطلاح نظر سے گزری جو ہمارے لیے نئی ہے اور ممکن ہے بہت سے لوگوں کے لیے بھی نئی ہو۔ یہ ہے ’’برداشت‘‘ کا استعمال۔ ویسے تو عوام ہی بہت کچھ برداشت کررہے ہیں اور صورتِ حال پر برداشتہ خاطر (بیزار، اداس، آزردہ) بھی ہیں۔ لیکن ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے، فیصل ...

فصل کی برداشت اور تابع دار

خودرا فضیحت اطہر علی ہاشمی - اتوار 12 جون 2016

فارسی کی ایک مثل ہے ’’خودرا فضیحت دیگراں را نصیحت‘‘۔ یعنی خود تو غلط کام کرنا، دوسروں کو نصیحت کرنا۔ فضیحت کا مطلب رسوائی، ذلت، بدنامی بھی ہے۔ یہ محاورہ یوں یاد آیا کہ کچھ قارئین غلطیوں کی نشاندہی کرکے یہی مثل سنا دیتے ہیں۔ اب ہم کیا کریں کہ اپنے جن صحافی ساتھیوں کی زبان درست کرن...

خودرا فضیحت

’’غیر معمولی ترقیاں و مراعاتیں‘‘ اطہر علی ہاشمی - بدھ 20 اپریل 2016

ایک ہفت روزہ کے سرورق پر سرخی ہے ’’پیپلزپارٹی تتّر بتّر ہوسکتی ہے‘‘۔ یعنی دونوں جگہ ’ت‘ پر تشدید ہے۔ پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، کیونکہ عموماً لوگ بغیر تشدید کے تتربتر کردیتے ہیں جب کہ تشدید کے ساتھ ہی صحیح ہے۔ فرہنگ آصفیہ، فیروزاللغات وغیرہ میں بھی اسی طرح ہے، اور اردو کی کلاسیکی ...

’’غیر معمولی ترقیاں و مراعاتیں‘‘

دار۔و۔گیر پر پکڑ اطہر علی ہاشمی - بدھ 03 فروری 2016

گزشتہ تحریر میں ہم نے ’دارو‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’یاد رہے دارو گیر میں بھی دارو موجود ہے لیکن یہ ایک الگ لفظ ہے۔ دارو گیر کا دارو سے کیا تعلق ہے، یہ ماہرین ہی بتاسکتے ہیں‘‘۔ یہ معاملہ ازراہِ تفنن ہم نے ماہرین پر چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے تو جسارت کے پروف ریڈر گزجن...

دار۔و۔گیر پر پکڑ

’’مولک‘‘ اور ’’ایلم‘‘ اطہر علی ہاشمی - جمعه 29 جنوری 2016

علامہ طاہر اشرفی علماء کے سرخیل ہیں۔ انہوں نے غالباً عربی بھی پڑھی ہوگی، ورنہ اردو تو ضرور پڑھی ہوگی۔ اب اگر اتنے کلّے‘ ٹھلے کے اور جسیم عالم بھی ملک کو ’’مولک‘‘ کہیں تو تھوڑی سی حیرت تو ہوگی۔ اگر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اﷲ علم کو ’’ایلم‘‘کہیں تو یہ اُن کو زیب دیتا ہے بلکہ ا...

’’مولک‘‘ اور ’’ایلم‘‘

یارب! اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا علی منظر - منگل 19 جنوری 2016

آج بہت دنوں بعد کسی کو خط لکھنے کے لئے قلم اٹھایا، تو خیال آیا کہ ہمیں دوست کا پتہ ہی معلوم نہیں ۔ سستی، بے پروائی اور وقت کی کمی کے بہانے تو پہلے بھی تھے، پھر بھی ہم طوعاً وکرہاً خط لکھ ہی لیا کرتے تھے۔ برق گرے اس ای میل پر جب سے ہم اپنے کمپیوٹر کے ذریعے انٹرنیٹ سے متصل ہوئے ہیں...

یارب! اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا

پڑھتے کیوں نہیں؟ ارشاد محمود - جمعه 11 دسمبر 2015

ایک دوست کی فرمائش پر اردوڈائجسٹ خریدنے اسلام آبادکے ایک کتاب گھر جانا ہوا۔ غیر ارادی طور پرمالک سے گپ شپ شروع ہوگئی۔ کہنے لگا کہ ابھی بھی اردو ڈائجسٹ کے کافی قارئین ہیں لیکن سب معمر افراد ہیں۔ نوجوانوں میں خال خال ہی کوئی ڈائجسٹ خریدتا ہے حتیٰ کہ سب رنگ اور خواتین ڈائجسٹ کے ب...

پڑھتے کیوں نہیں؟

یہ وطیرہ کیا ہے؟ اطہر علی ہاشمی - پیر 16 نومبر 2015

جناب پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات ہیں اور اس لحاظ سے تمام صحافیوں کے سرخیل ہیں۔ ان کا فرمانا ہمارے لیے سند ہے۔ لاہور کا معرکہ جیتنے پر وہ فرما رہے تھے کہ فلاں کی تو ضمانت تک ضَبَطْ (بروزن قلق‘ شفق‘ نفخ وغیرہ یعنی ضَ۔بَط) ہوگئی۔ اب جو مثالیں ہم نے دی ہیں نجانے ان کا تلفظ وہ کیا ک...

یہ وطیرہ کیا ہے؟

پرشکوہ بروزن جوابِ شکوہ اطہر علی ہاشمی - هفته 07 نومبر 2015

ہمارے وفاقی وزیر چودھری نثار تو ذمہ داری کو ذمہ واری کہتے رہیں گے، انہیں ان کی ذمہ واری پر چھوڑتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہبازشریف شمسی توانائی کی کارکردگی پر وضاحت پیش کرتے ہوئے ’’اوسط‘‘ کو بروزن دوست‘ گوشت وغیرہ کہتے رہے اور بار بار کہتے رہے۔ لیکن یہ تو حکمران طبقہ ہے۔ اسے ز...

پرشکوہ بروزن جوابِ شکوہ

مضامین
محمود غزنوی اور سلطنت غزنویہ وجود جمعه 22 ستمبر 2023
محمود غزنوی اور سلطنت غزنویہ

بوڑھوں کا ملک وجود جمعه 22 ستمبر 2023
بوڑھوں کا ملک

چیف جسٹس کے 404 دن اور عوام کے 56 ہزار مقدمے وجود جمعه 22 ستمبر 2023
چیف جسٹس کے 404 دن اور عوام کے 56 ہزار مقدمے

احتساب کی چھلنی وجود جمعه 22 ستمبر 2023
احتساب کی چھلنی

نئے چیف جسٹس سے توقعات وجود جمعرات 21 ستمبر 2023
نئے چیف جسٹس سے توقعات

اشتہار

تجزیے
نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟ وجود بدھ 20 ستمبر 2023
نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟

نیپرا کا عوام کش کردار وجود جمعه 15 ستمبر 2023
نیپرا کا عوام کش کردار

مہنگائی میں مزید اضافے کا خطرہ وجود جمعرات 14 ستمبر 2023
مہنگائی میں مزید اضافے کا خطرہ

اشتہار

دین و تاریخ
جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے وجود جمعه 15 ستمبر 2023
جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے

مادیت کا فتنہ اور اس کاعلاج وجود جمعه 08 ستمبر 2023
مادیت کا فتنہ اور اس کاعلاج

سُسرِ رسول سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ وجود جمعه 01 ستمبر 2023
سُسرِ رسول سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ
تہذیبی جنگ
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے

مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی وجود جمعرات 03 اگست 2023
مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی

کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے
بھارت
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم وجود منگل 19 ستمبر 2023
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم

آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا

بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا وجود بدھ 06 ستمبر 2023
بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا

چندریان تھری کی کامیابی پر بھارتی نجومی کا پاگل پن، چاند کو ہندو سلطنت قرار دینے کا مطالبہ وجود پیر 28 اگست 2023
چندریان تھری کی کامیابی پر بھارتی نجومی کا پاگل پن، چاند کو ہندو سلطنت قرار دینے کا مطالبہ
افغانستان
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا

افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی وجود پیر 14 اگست 2023
افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی

بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام وجود منگل 08 اگست 2023
بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام
شخصیات
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے وجود جمعه 22 ستمبر 2023
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے

معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال
ادبیات
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے وجود پیر 11 ستمبر 2023
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال

محتسب (عالمی ادب سے منتخب افسانہ) وجود پیر 10 جولائی 2023
محتسب  (عالمی ادب سے منتخب افسانہ)