وجود

... loading ...

وجود
وجود

مکتبۂ فکر اور تقرری

جمعرات 27 اگست 2015 مکتبۂ فکر اور تقرری

Urdu

صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ ’’نہ تم باز آؤ، نہ ہم باز آئیں‘‘۔ ہم عوام کو مرد بنانے پر تلے ہوئے ہیں لیکن یہ جو برقی ذرائع ابلاغ ہیں، یہ ہمارے مقابلے پر ڈٹے ہوئے اور عوام کو ’’مونث‘‘ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ ذرائع ابلاغ برق رفتار بھی ہیں اور چوبیس گھنٹے غلطی کا ابلاغ کرتے رہتے ہیں۔ سمع و بصر دونوں طرف سے حملہ آور ہیں۔ اس پر مستزاد جو سیاستدان ٹی وی چینلوں پر جلوہ فرما ہوتے ہیں وہ بھی عوام کو مونث ہی کہتے ہیں۔ حال یہ ہوگیا ہے کہ خود ہمارے بچے بھی یہی بولنے لگے ہیں کہ ’’عوام کچھ کرتی ہی نہیں‘‘۔ جو مضامین موصول ہوتے ہیں ان میں عوام کو مذکر بناتے بناتے جی ’’اوب‘‘ جاتا ہے۔ اوب کا لفظ اب متروک ہوتا جارہا ہے حالانکہ اکتاہٹ کے معنوں میں اچھا ہے، ہندی الاصل ہے۔

گزشتہ دنوں (پیر،27 جنوری) جسارت کی ایک خبر میں ’’2 ٹوک‘‘ پڑھ کر جی خوش ہوگیا۔ اب شاید دوراہا، دو طرفہ، دوبار وغیرہ بھی اسی طرح لکھا جائے۔ کچھ تو اردو کی خبرایجنسیاں اپنا کمال دکھاتی ہیں اور کچھ نیوز ڈیسک پر بیٹھے ہوئے ماہرین اور پھر پروف ریڈر صرفِ نظر کرتے ہیں۔ یہی کیا، بڑے معروف قلم کاروں اور ادیبوں کو مذبح خانہ اور مقتل گاہ لکھتے ہوئے دیکھا ہے جو چھپا بھی ہے۔ ان الفاظ میں خانہ اور گاہ غیر ضروری ہیں۔ مصالحہ اور مسالہ تو متنازع فیہ ہیں۔ اصل تو مصالحہ ہی ہے جس کا مطلب ہے ’’اصلاح‘‘ کرنے والا۔ حکیموں اور ماہرین مطبخ نے طویل تجربے کے بعد ایسے مصالحے تیارکیے جو نہ صرف کھانے کی اصلاح کریں بلکہ ایک دوسرے کے نقصانات کا ازالہ بھی کریں۔ تاہم اب لوگوں نے سہولت کے لیے اسے ’’مسالہ‘‘ کرلیا ہے۔ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ یہ بھی ٹھیک ہے کہ یہ چیزیں مسل کر ڈالی جاتی ہیں۔ مگر اب مسلنے اور پیسنے کا جھنجھٹ ہی ختم ہوتا جارہا ہے۔

ایک اور معاملہ ہے جس سے ہم مسلسل الجھتے رہتے ہیں، اور وہ ہے ’’لیے، دیے، کیے وغیرہ۔ یہ الفاظ ہمزہ کے ساتھ لئے، دئے، کئے اتنی کثرت سے لکھے جارہے ہیں کہ شاید کچھ عرصہ بعد ان ہی کو فصیح قرار دے دیا جائے۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہمزہ کے ساتھ تو تلفظ بدل جاتا ہے، مثلا ’’گئے‘‘۔ اب اسی وزن پر لئے اور کئے وغیرہ کو پڑھنا چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ لغت میں بھی یہ الفاظ لیے، دیے، کیے یعنی ہمزہ کے بجائے ی کے نکتوں کے ساتھ ہیں۔ سید مودودیؒ زبان کے لحاظ سے بھی مستند ہیں۔ انہوں نے اپنی تمام تحریروں اور تفہیم القرآن میں بھی اسی طرح استعمال کیا ہے، لیکن اُس وقت حیرت ہوتی ہے جب مولانا مرحوم کے خوشہ چین اور جماعت کے عہدہ دار اس کا لحاظ نہیں رکھتے جیسے انہوں نے مولانا کو توجہ سے پڑھا ہی نہ ہو۔ تاہم حافظ محمد ادریس صاحب اس کا خاص خیال رکھتے ہیں اور لیے، دیے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں منصورہ سے ایک ہدایت نامہ بسلسلہ انتخابات جاری ہوا جس میں ’’میعاد‘‘ کو معیاد لکھا گیا ہے۔ یقینا یہ کمپوزنگ کی غلطی ہوگی۔

’’آئے روز‘‘ کی غلطی بہت عام ہے۔ بقول طالب الہاشمی یہ زبردستی کی ترکیب ہے۔ اس کا لکھنا اور بولنا روزمرہ کے خلاف ہے۔ صحیح روزمرہ ’’آئے دن‘‘ ہے۔ اسی طرح ’’دن بہ دن‘‘ کی ترکیب بھی غلط ہے۔ ہم نے ایک جگہ ’’دن پر دن‘‘ لکھا تو کمپوزر نے ہماری ’’تصحیح‘‘ کردی۔ یا تو دن پر دن لکھا جائے یا روز بروز۔ ’’آئے روز‘‘ کی طرح ’’دن بہ دن‘‘ بھی روزمرہ کے خلاف ہے۔ ایک ترکیب ’’مکتبہ فکر‘‘ بہت عام ہے۔ یہ غلط ہے۔ صحیح ترکیب ’’مکتب فکر‘‘ ہے۔ جمع کی صورت میں مکاتیب فکر کے بجائے ’’مکاتب فکر‘‘ لکھنا چاہیے کیونکہ مکتب کی جمع مکاتب ہے، مکاتیب نہیں۔ مولانا مرحوم نے ہمیشہ مکتب فکر لکھا ہے اور ہم نے بھی اپنی اصلاح کرلی ہے، ورنہ ہم بھی مکتبۂ فکر لکھتے اور بولتے رہے ہیں۔

’’تقرر‘‘ کی جگہ ’’تقرری‘‘ بہت عام ہوگیا ہے۔ اخبارات میں یہی لکھا جارہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ انکساری، تنزلی، قراری وغیرہ بھی ماہرین لسانیات کی رائے میں بالکل غلط ہیں ورنہ فصاحت کے خلاف تو ہیں ہی۔ جو، کاش اور گو کے ساتھ ’’کہ‘‘ کا اضافہ بھی فصاحت کے خلاف ہے لیکن ’’جو کہ‘‘، ’’کاش کہ‘‘، ’’گو کہ‘‘ بہت عام ہے۔ کہیں پڑھا تھا کہ ’’تابع دار‘‘ بھی غلط ہے۔ اس کا مطلب تابع رکھنے والا ہے نہ کہ اطاعت گزار۔ چنانچہ بہتر ہے کہ صرف تابع لکھا جائے۔

اب آتے ہیں کراچی سے موصول ہونے والے ایک خط کی طرف۔ خط جناب سلیم الدین کی طرف سے ہے۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ انہوں نے اس سے پہلے ٹی وی چینلز پر تلفظ کی عام غلطیوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ امید ہے کہ وہ آئندہ بھی توجہ دلاتے رہیں گے۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ یہ کالم ’’صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے‘‘۔ جناب سلیم الدین لکھتے ہیں:

’’میں نے کل ہی فرائیڈے اسپیشل، 13 سے 19 نومبر اور 22 سے 28 نومبر کو پڑھا۔ زباں بگڑی میں دو باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں۔

وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

اس شعر کو محترم استاد شان الحق حقی نے میر ہی کا ثابت کیا تھا لیکن یہ شعر فکر رامپوری کا بھی نہیں ہے۔ یہ شعر عزم رامپوری کا ہے، ان کے دیوان میں موجود ہے، اور یوں ہے:

وہ آئے بزم میں اتنا تو عزمؔ نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

بزم اور عزم ہم قافیہ ہیں اور اس سے شعر کا حسن بھی بڑھ گیا ہے۔

2۔ دو چشمی ھ اردو کا کوئی حرف نہیں ہے، لہٰذا کوئی لفظ اس سے شروع نہیں ہوتا ہے۔ یہ دوسرے حرف کے ساتھ مل کر آواز دیتا ہے۔

جیسے ب کے ساتھ ’بھ، پھ، تھ، ٹھ، چھ، وغیرہم۔ یہ ملا کر پڑھے جاتے ہیں، جب کہ ’’ہ‘‘ حرف کی علیحدہ آواز دیتا ہے۔

بہاری (بے ہاری)، بھاری (بھ ا ر ی)، دہلوی (دے ہل و ی)، دھلوی (دھ لوی) وغیرہ۔ اردو کا مزاج عربی کا نہیں ہے۔ امید ہے تصحیح فرما لیں گے۔‘‘

ہمارا خیال ہے کہ میرؔ سے منسوب شعر کے پہلے مصرع پر کئی شعرا نے حق جمایا ہے۔ کچھ شعر ہم نے جمع بھی کیے تھے۔ ان میں سے ایک میں نہ تو فکر تھا نہ عزم، بلکہ یہ کوئی ’’برق صاحب‘‘ تھے۔ انہوں نے بھی بزم میں جاکر چراغ گل کردیے تھے۔ بہرحال، سلیم الدین صاحب کا شکریہ۔ دوچشمی ھ پر ہماری رائے محفوظ ہے۔


متعلقہ خبریں


وزیراعظم نواز شریف اپنی شیروانی کہیں رکھ کر بھول گئے؟ عارف عزیز پنہور - منگل 27 ستمبر 2016

زندہ قومیں اپنی زبان کو قومی وقار اور خودداری کی علامت سمجھا کرتی ہیں اور اسی طرح قومی لباس کے معاملے میں بھی نہایت حساسیت کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ روس‘ جرمنی‘ فرانس اور چینی رہنما کسی بھی عالمی فورم پر بدیسی زبان کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ نہیں بناتے، بلکہ اپنی ہی زبان میں...

وزیراعظم نواز شریف اپنی شیروانی کہیں رکھ کر بھول گئے؟

وفاقی وزراء بھی نفاذِ اردو کے مخالف ہیں، مشیرِ وزیراعظم عرفان صدیقی وجود - پیر 25 جولائی 2016

وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر عرفان صدیقی نے قومی زبان اردو کے سرکاری زبان کے طور پر نفاذ کے حوالے یہ اعتراف کیا ہے کہ اس میں صرف بیورو کریسی ہی رکاوٹ نہیں بلکہ اس سلسلے میں عدالتی فیصلے کے نفاذ کے خلاف مختلف وزراء بھی ہیں۔ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے پاکستان قومی زبان تحریک کے زیر...

وفاقی وزراء بھی نفاذِ اردو کے مخالف ہیں، مشیرِ وزیراعظم عرفان صدیقی

’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘ اطہر علی ہاشمی - پیر 11 جولائی 2016

مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟ عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو ن...

’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘

فصل کی برداشت اور تابع دار اطہر علی ہاشمی - بدھ 22 جون 2016

پنجاب میں زراعت کے تعلق سے ایک اصطلاح نظر سے گزری جو ہمارے لیے نئی ہے اور ممکن ہے بہت سے لوگوں کے لیے بھی نئی ہو۔ یہ ہے ’’برداشت‘‘ کا استعمال۔ ویسے تو عوام ہی بہت کچھ برداشت کررہے ہیں اور صورتِ حال پر برداشتہ خاطر (بیزار، اداس، آزردہ) بھی ہیں۔ لیکن ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے، فیصل ...

فصل کی برداشت اور تابع دار

خودرا فضیحت اطہر علی ہاشمی - اتوار 12 جون 2016

فارسی کی ایک مثل ہے ’’خودرا فضیحت دیگراں را نصیحت‘‘۔ یعنی خود تو غلط کام کرنا، دوسروں کو نصیحت کرنا۔ فضیحت کا مطلب رسوائی، ذلت، بدنامی بھی ہے۔ یہ محاورہ یوں یاد آیا کہ کچھ قارئین غلطیوں کی نشاندہی کرکے یہی مثل سنا دیتے ہیں۔ اب ہم کیا کریں کہ اپنے جن صحافی ساتھیوں کی زبان درست کرن...

خودرا فضیحت

’’غیر معمولی ترقیاں و مراعاتیں‘‘ اطہر علی ہاشمی - بدھ 20 اپریل 2016

ایک ہفت روزہ کے سرورق پر سرخی ہے ’’پیپلزپارٹی تتّر بتّر ہوسکتی ہے‘‘۔ یعنی دونوں جگہ ’ت‘ پر تشدید ہے۔ پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، کیونکہ عموماً لوگ بغیر تشدید کے تتربتر کردیتے ہیں جب کہ تشدید کے ساتھ ہی صحیح ہے۔ فرہنگ آصفیہ، فیروزاللغات وغیرہ میں بھی اسی طرح ہے، اور اردو کی کلاسیکی ...

’’غیر معمولی ترقیاں و مراعاتیں‘‘

دار۔و۔گیر پر پکڑ اطہر علی ہاشمی - بدھ 03 فروری 2016

گزشتہ تحریر میں ہم نے ’دارو‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’یاد رہے دارو گیر میں بھی دارو موجود ہے لیکن یہ ایک الگ لفظ ہے۔ دارو گیر کا دارو سے کیا تعلق ہے، یہ ماہرین ہی بتاسکتے ہیں‘‘۔ یہ معاملہ ازراہِ تفنن ہم نے ماہرین پر چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے تو جسارت کے پروف ریڈر گزجن...

دار۔و۔گیر پر پکڑ

’’مولک‘‘ اور ’’ایلم‘‘ اطہر علی ہاشمی - جمعه 29 جنوری 2016

علامہ طاہر اشرفی علماء کے سرخیل ہیں۔ انہوں نے غالباً عربی بھی پڑھی ہوگی، ورنہ اردو تو ضرور پڑھی ہوگی۔ اب اگر اتنے کلّے‘ ٹھلے کے اور جسیم عالم بھی ملک کو ’’مولک‘‘ کہیں تو تھوڑی سی حیرت تو ہوگی۔ اگر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اﷲ علم کو ’’ایلم‘‘کہیں تو یہ اُن کو زیب دیتا ہے بلکہ ا...

’’مولک‘‘ اور ’’ایلم‘‘

یارب! اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا علی منظر - منگل 19 جنوری 2016

آج بہت دنوں بعد کسی کو خط لکھنے کے لئے قلم اٹھایا، تو خیال آیا کہ ہمیں دوست کا پتہ ہی معلوم نہیں ۔ سستی، بے پروائی اور وقت کی کمی کے بہانے تو پہلے بھی تھے، پھر بھی ہم طوعاً وکرہاً خط لکھ ہی لیا کرتے تھے۔ برق گرے اس ای میل پر جب سے ہم اپنے کمپیوٹر کے ذریعے انٹرنیٹ سے متصل ہوئے ہیں...

یارب! اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا

پڑھتے کیوں نہیں؟ ارشاد محمود - جمعه 11 دسمبر 2015

ایک دوست کی فرمائش پر اردوڈائجسٹ خریدنے اسلام آبادکے ایک کتاب گھر جانا ہوا۔ غیر ارادی طور پرمالک سے گپ شپ شروع ہوگئی۔ کہنے لگا کہ ابھی بھی اردو ڈائجسٹ کے کافی قارئین ہیں لیکن سب معمر افراد ہیں۔ نوجوانوں میں خال خال ہی کوئی ڈائجسٹ خریدتا ہے حتیٰ کہ سب رنگ اور خواتین ڈائجسٹ کے ب...

پڑھتے کیوں نہیں؟

یہ وطیرہ کیا ہے؟ اطہر علی ہاشمی - پیر 16 نومبر 2015

جناب پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات ہیں اور اس لحاظ سے تمام صحافیوں کے سرخیل ہیں۔ ان کا فرمانا ہمارے لیے سند ہے۔ لاہور کا معرکہ جیتنے پر وہ فرما رہے تھے کہ فلاں کی تو ضمانت تک ضَبَطْ (بروزن قلق‘ شفق‘ نفخ وغیرہ یعنی ضَ۔بَط) ہوگئی۔ اب جو مثالیں ہم نے دی ہیں نجانے ان کا تلفظ وہ کیا ک...

یہ وطیرہ کیا ہے؟

پرشکوہ بروزن جوابِ شکوہ اطہر علی ہاشمی - هفته 07 نومبر 2015

ہمارے وفاقی وزیر چودھری نثار تو ذمہ داری کو ذمہ واری کہتے رہیں گے، انہیں ان کی ذمہ واری پر چھوڑتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہبازشریف شمسی توانائی کی کارکردگی پر وضاحت پیش کرتے ہوئے ’’اوسط‘‘ کو بروزن دوست‘ گوشت وغیرہ کہتے رہے اور بار بار کہتے رہے۔ لیکن یہ تو حکمران طبقہ ہے۔ اسے ز...

پرشکوہ بروزن جوابِ شکوہ

مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر