... loading ...
صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ ’’نہ تم باز آؤ، نہ ہم باز آئیں‘‘۔ ہم عوام کو مرد بنانے پر تلے ہوئے ہیں لیکن یہ جو برقی ذرائع ابلاغ ہیں، یہ ہمارے مقابلے پر ڈٹے ہوئے اور عوام کو ’’مونث‘‘ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ ذرائع ابلاغ برق رفتار بھی ہیں اور چوبیس گھنٹے غلطی کا ابلاغ کرتے رہتے ہیں۔ سمع و بصر دونوں طرف سے حملہ آور ہیں۔ اس پر مستزاد جو سیاستدان ٹی وی چینلوں پر جلوہ فرما ہوتے ہیں وہ بھی عوام کو مونث ہی کہتے ہیں۔ حال یہ ہوگیا ہے کہ خود ہمارے بچے بھی یہی بولنے لگے ہیں کہ ’’عوام کچھ کرتی ہی نہیں‘‘۔ جو مضامین موصول ہوتے ہیں ان میں عوام کو مذکر بناتے بناتے جی ’’اوب‘‘ جاتا ہے۔ اوب کا لفظ اب متروک ہوتا جارہا ہے حالانکہ اکتاہٹ کے معنوں میں اچھا ہے، ہندی الاصل ہے۔
گزشتہ دنوں (پیر،27 جنوری) جسارت کی ایک خبر میں ’’2 ٹوک‘‘ پڑھ کر جی خوش ہوگیا۔ اب شاید دوراہا، دو طرفہ، دوبار وغیرہ بھی اسی طرح لکھا جائے۔ کچھ تو اردو کی خبرایجنسیاں اپنا کمال دکھاتی ہیں اور کچھ نیوز ڈیسک پر بیٹھے ہوئے ماہرین اور پھر پروف ریڈر صرفِ نظر کرتے ہیں۔ یہی کیا، بڑے معروف قلم کاروں اور ادیبوں کو مذبح خانہ اور مقتل گاہ لکھتے ہوئے دیکھا ہے جو چھپا بھی ہے۔ ان الفاظ میں خانہ اور گاہ غیر ضروری ہیں۔ مصالحہ اور مسالہ تو متنازع فیہ ہیں۔ اصل تو مصالحہ ہی ہے جس کا مطلب ہے ’’اصلاح‘‘ کرنے والا۔ حکیموں اور ماہرین مطبخ نے طویل تجربے کے بعد ایسے مصالحے تیارکیے جو نہ صرف کھانے کی اصلاح کریں بلکہ ایک دوسرے کے نقصانات کا ازالہ بھی کریں۔ تاہم اب لوگوں نے سہولت کے لیے اسے ’’مسالہ‘‘ کرلیا ہے۔ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ یہ بھی ٹھیک ہے کہ یہ چیزیں مسل کر ڈالی جاتی ہیں۔ مگر اب مسلنے اور پیسنے کا جھنجھٹ ہی ختم ہوتا جارہا ہے۔
ایک اور معاملہ ہے جس سے ہم مسلسل الجھتے رہتے ہیں، اور وہ ہے ’’لیے، دیے، کیے وغیرہ۔ یہ الفاظ ہمزہ کے ساتھ لئے، دئے، کئے اتنی کثرت سے لکھے جارہے ہیں کہ شاید کچھ عرصہ بعد ان ہی کو فصیح قرار دے دیا جائے۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہمزہ کے ساتھ تو تلفظ بدل جاتا ہے، مثلا ’’گئے‘‘۔ اب اسی وزن پر لئے اور کئے وغیرہ کو پڑھنا چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ لغت میں بھی یہ الفاظ لیے، دیے، کیے یعنی ہمزہ کے بجائے ی کے نکتوں کے ساتھ ہیں۔ سید مودودیؒ زبان کے لحاظ سے بھی مستند ہیں۔ انہوں نے اپنی تمام تحریروں اور تفہیم القرآن میں بھی اسی طرح استعمال کیا ہے، لیکن اُس وقت حیرت ہوتی ہے جب مولانا مرحوم کے خوشہ چین اور جماعت کے عہدہ دار اس کا لحاظ نہیں رکھتے جیسے انہوں نے مولانا کو توجہ سے پڑھا ہی نہ ہو۔ تاہم حافظ محمد ادریس صاحب اس کا خاص خیال رکھتے ہیں اور لیے، دیے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں منصورہ سے ایک ہدایت نامہ بسلسلہ انتخابات جاری ہوا جس میں ’’میعاد‘‘ کو معیاد لکھا گیا ہے۔ یقینا یہ کمپوزنگ کی غلطی ہوگی۔
’’آئے روز‘‘ کی غلطی بہت عام ہے۔ بقول طالب الہاشمی یہ زبردستی کی ترکیب ہے۔ اس کا لکھنا اور بولنا روزمرہ کے خلاف ہے۔ صحیح روزمرہ ’’آئے دن‘‘ ہے۔ اسی طرح ’’دن بہ دن‘‘ کی ترکیب بھی غلط ہے۔ ہم نے ایک جگہ ’’دن پر دن‘‘ لکھا تو کمپوزر نے ہماری ’’تصحیح‘‘ کردی۔ یا تو دن پر دن لکھا جائے یا روز بروز۔ ’’آئے روز‘‘ کی طرح ’’دن بہ دن‘‘ بھی روزمرہ کے خلاف ہے۔ ایک ترکیب ’’مکتبہ فکر‘‘ بہت عام ہے۔ یہ غلط ہے۔ صحیح ترکیب ’’مکتب فکر‘‘ ہے۔ جمع کی صورت میں مکاتیب فکر کے بجائے ’’مکاتب فکر‘‘ لکھنا چاہیے کیونکہ مکتب کی جمع مکاتب ہے، مکاتیب نہیں۔ مولانا مرحوم نے ہمیشہ مکتب فکر لکھا ہے اور ہم نے بھی اپنی اصلاح کرلی ہے، ورنہ ہم بھی مکتبۂ فکر لکھتے اور بولتے رہے ہیں۔
’’تقرر‘‘ کی جگہ ’’تقرری‘‘ بہت عام ہوگیا ہے۔ اخبارات میں یہی لکھا جارہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ انکساری، تنزلی، قراری وغیرہ بھی ماہرین لسانیات کی رائے میں بالکل غلط ہیں ورنہ فصاحت کے خلاف تو ہیں ہی۔ جو، کاش اور گو کے ساتھ ’’کہ‘‘ کا اضافہ بھی فصاحت کے خلاف ہے لیکن ’’جو کہ‘‘، ’’کاش کہ‘‘، ’’گو کہ‘‘ بہت عام ہے۔ کہیں پڑھا تھا کہ ’’تابع دار‘‘ بھی غلط ہے۔ اس کا مطلب تابع رکھنے والا ہے نہ کہ اطاعت گزار۔ چنانچہ بہتر ہے کہ صرف تابع لکھا جائے۔
اب آتے ہیں کراچی سے موصول ہونے والے ایک خط کی طرف۔ خط جناب سلیم الدین کی طرف سے ہے۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ انہوں نے اس سے پہلے ٹی وی چینلز پر تلفظ کی عام غلطیوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ امید ہے کہ وہ آئندہ بھی توجہ دلاتے رہیں گے۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ یہ کالم ’’صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے‘‘۔ جناب سلیم الدین لکھتے ہیں:
’’میں نے کل ہی فرائیڈے اسپیشل، 13 سے 19 نومبر اور 22 سے 28 نومبر کو پڑھا۔ زباں بگڑی میں دو باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں۔
1۔
اس شعر کو محترم استاد شان الحق حقی نے میر ہی کا ثابت کیا تھا لیکن یہ شعر فکر رامپوری کا بھی نہیں ہے۔ یہ شعر عزم رامپوری کا ہے، ان کے دیوان میں موجود ہے، اور یوں ہے:
بزم اور عزم ہم قافیہ ہیں اور اس سے شعر کا حسن بھی بڑھ گیا ہے۔
2۔ دو چشمی ھ اردو کا کوئی حرف نہیں ہے، لہٰذا کوئی لفظ اس سے شروع نہیں ہوتا ہے۔ یہ دوسرے حرف کے ساتھ مل کر آواز دیتا ہے۔
جیسے ب کے ساتھ ’بھ، پھ، تھ، ٹھ، چھ، وغیرہم۔ یہ ملا کر پڑھے جاتے ہیں، جب کہ ’’ہ‘‘ حرف کی علیحدہ آواز دیتا ہے۔
بہاری (بے ہاری)، بھاری (بھ ا ر ی)، دہلوی (دے ہل و ی)، دھلوی (دھ لوی) وغیرہ۔ اردو کا مزاج عربی کا نہیں ہے۔ امید ہے تصحیح فرما لیں گے۔‘‘
ہمارا خیال ہے کہ میرؔ سے منسوب شعر کے پہلے مصرع پر کئی شعرا نے حق جمایا ہے۔ کچھ شعر ہم نے جمع بھی کیے تھے۔ ان میں سے ایک میں نہ تو فکر تھا نہ عزم، بلکہ یہ کوئی ’’برق صاحب‘‘ تھے۔ انہوں نے بھی بزم میں جاکر چراغ گل کردیے تھے۔ بہرحال، سلیم الدین صاحب کا شکریہ۔ دوچشمی ھ پر ہماری رائے محفوظ ہے۔
زندہ قومیں اپنی زبان کو قومی وقار اور خودداری کی علامت سمجھا کرتی ہیں اور اسی طرح قومی لباس کے معاملے میں بھی نہایت حساسیت کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ روس‘ جرمنی‘ فرانس اور چینی رہنما کسی بھی عالمی فورم پر بدیسی زبان کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ نہیں بناتے، بلکہ اپنی ہی زبان میں...
وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر عرفان صدیقی نے قومی زبان اردو کے سرکاری زبان کے طور پر نفاذ کے حوالے یہ اعتراف کیا ہے کہ اس میں صرف بیورو کریسی ہی رکاوٹ نہیں بلکہ اس سلسلے میں عدالتی فیصلے کے نفاذ کے خلاف مختلف وزراء بھی ہیں۔ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے پاکستان قومی زبان تحریک کے زیر...
مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟ عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو ن...
پنجاب میں زراعت کے تعلق سے ایک اصطلاح نظر سے گزری جو ہمارے لیے نئی ہے اور ممکن ہے بہت سے لوگوں کے لیے بھی نئی ہو۔ یہ ہے ’’برداشت‘‘ کا استعمال۔ ویسے تو عوام ہی بہت کچھ برداشت کررہے ہیں اور صورتِ حال پر برداشتہ خاطر (بیزار، اداس، آزردہ) بھی ہیں۔ لیکن ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے، فیصل ...
فارسی کی ایک مثل ہے ’’خودرا فضیحت دیگراں را نصیحت‘‘۔ یعنی خود تو غلط کام کرنا، دوسروں کو نصیحت کرنا۔ فضیحت کا مطلب رسوائی، ذلت، بدنامی بھی ہے۔ یہ محاورہ یوں یاد آیا کہ کچھ قارئین غلطیوں کی نشاندہی کرکے یہی مثل سنا دیتے ہیں۔ اب ہم کیا کریں کہ اپنے جن صحافی ساتھیوں کی زبان درست کرن...
ایک ہفت روزہ کے سرورق پر سرخی ہے ’’پیپلزپارٹی تتّر بتّر ہوسکتی ہے‘‘۔ یعنی دونوں جگہ ’ت‘ پر تشدید ہے۔ پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، کیونکہ عموماً لوگ بغیر تشدید کے تتربتر کردیتے ہیں جب کہ تشدید کے ساتھ ہی صحیح ہے۔ فرہنگ آصفیہ، فیروزاللغات وغیرہ میں بھی اسی طرح ہے، اور اردو کی کلاسیکی ...
گزشتہ تحریر میں ہم نے ’دارو‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’یاد رہے دارو گیر میں بھی دارو موجود ہے لیکن یہ ایک الگ لفظ ہے۔ دارو گیر کا دارو سے کیا تعلق ہے، یہ ماہرین ہی بتاسکتے ہیں‘‘۔ یہ معاملہ ازراہِ تفنن ہم نے ماہرین پر چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے تو جسارت کے پروف ریڈر گزجن...
علامہ طاہر اشرفی علماء کے سرخیل ہیں۔ انہوں نے غالباً عربی بھی پڑھی ہوگی، ورنہ اردو تو ضرور پڑھی ہوگی۔ اب اگر اتنے کلّے‘ ٹھلے کے اور جسیم عالم بھی ملک کو ’’مولک‘‘ کہیں تو تھوڑی سی حیرت تو ہوگی۔ اگر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اﷲ علم کو ’’ایلم‘‘کہیں تو یہ اُن کو زیب دیتا ہے بلکہ ا...
آج بہت دنوں بعد کسی کو خط لکھنے کے لئے قلم اٹھایا، تو خیال آیا کہ ہمیں دوست کا پتہ ہی معلوم نہیں ۔ سستی، بے پروائی اور وقت کی کمی کے بہانے تو پہلے بھی تھے، پھر بھی ہم طوعاً وکرہاً خط لکھ ہی لیا کرتے تھے۔ برق گرے اس ای میل پر جب سے ہم اپنے کمپیوٹر کے ذریعے انٹرنیٹ سے متصل ہوئے ہیں...
ایک دوست کی فرمائش پر اردوڈائجسٹ خریدنے اسلام آبادکے ایک کتاب گھر جانا ہوا۔ غیر ارادی طور پرمالک سے گپ شپ شروع ہوگئی۔ کہنے لگا کہ ابھی بھی اردو ڈائجسٹ کے کافی قارئین ہیں لیکن سب معمر افراد ہیں۔ نوجوانوں میں خال خال ہی کوئی ڈائجسٹ خریدتا ہے حتیٰ کہ سب رنگ اور خواتین ڈائجسٹ کے ب...
جناب پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات ہیں اور اس لحاظ سے تمام صحافیوں کے سرخیل ہیں۔ ان کا فرمانا ہمارے لیے سند ہے۔ لاہور کا معرکہ جیتنے پر وہ فرما رہے تھے کہ فلاں کی تو ضمانت تک ضَبَطْ (بروزن قلق‘ شفق‘ نفخ وغیرہ یعنی ضَ۔بَط) ہوگئی۔ اب جو مثالیں ہم نے دی ہیں نجانے ان کا تلفظ وہ کیا ک...
ہمارے وفاقی وزیر چودھری نثار تو ذمہ داری کو ذمہ واری کہتے رہیں گے، انہیں ان کی ذمہ واری پر چھوڑتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہبازشریف شمسی توانائی کی کارکردگی پر وضاحت پیش کرتے ہوئے ’’اوسط‘‘ کو بروزن دوست‘ گوشت وغیرہ کہتے رہے اور بار بار کہتے رہے۔ لیکن یہ تو حکمران طبقہ ہے۔ اسے ز...