... loading ...
سردی خوب پڑ رہی ہے، تھرتھری چھوٹ رہی ہے، برسوں کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔ کوئٹہ اور شمالی علاقوں کا حال جانے کیا ہو، ایسے میں گرما گرم کافی کا تصور ہی خوش آئند ہے۔ ایک مہمان سے پوچھا: چائے چلے گی یا کافی؟ جواب ملا: چائے کافی ہے۔ کافی پینے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن بولنے اور لکھنے میں اس کا استعمال عموماً غلط ہوتا ہے۔ مثلاً آج کافی سردی پڑ رہی ہے، مضمون میں کافی غلطیاں ہیں یا وہ کافی شورہ پشت ہے۔ یہاں ’کافی‘ کا استعمال صحیح نہیں ہے۔ ’کافی‘ عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے: کام نکل جانے کے قابل۔ اسی سے کفایت ہے، یعنی حسب ضرورت فائدہ حاصل ہونا۔ اردو میں بچت اور کمی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔’’ کافی ہونا ‘‘کا مطلب ہے: ضرورت کے مطابق ہونا۔ مکتفی ہونا۔ یعنی اس کے بعد مزید کی ضرورت نہ پڑے۔ رب کریم کے بارے میں کہا گیا ہے ’’وکفا باللّٰہِ وکیلا‘‘ یعنی اللہ ہی ہمارے لیے بطور وکیل کافی ہے، اس کے بعد کسی اور کی ضرورت ہی نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ کافی سردی ہورہی ہے یا غلطیاں کافی ہیں وغیرہ، تو یہ بالکل بے معنی بات ہوگی۔ البتہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ’’چائے کافی ہے‘‘۔ لیکن اس کافی کا غلط استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ پینے والی کافی مہنگی بہت ہے۔
اسی طرح خونی اور خونیں میں فرق ملحوظ نہیں رکھا جا رہا۔ ایک مضمون میں پڑھا ’’فلاں سے خونی رشتہ ہے‘‘۔ خونی فارسی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے قاتل، خونریز، ظالم، سفاک۔ جب کہ خونیں کا مطلب ہے ’’خون سے نسبت رکھنے والا‘‘۔ یہ ضرور ہے کہ بعض رشتے خونی ہوگئے ہیں اور ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ اپنوں ہی نے خون کردیا۔ بیٹے نے باپ کا قتل کردیا۔ لیکن رشتوں کے لیے خونی کی جگہ خونیں استعمال کرنا چاہیے۔ مثلاً فلاں شخص سے میرا خونیں تعلق ہے۔ یعنی دونوں میں ایک ہی خون دوڑ رہا ہے خواہ وہ سفید ہی کیوں نہ ہوگیا ہو۔ غالباً ریڈ بلڈ سیلز کی کمی سے خون سفید ہوجاتا ہوگا۔ کنایتہً عاشق کو بھی خونیں جگر کہتے ہیں، کیوں کہتے ہیں یہ بتانا مشکل ہے۔
ہمارے سامنے اگر کوئی ایسی تحریر آتی تھی جس میں ’’پزیر‘‘ لکھا ہو تو ہم اسے ’’ز‘‘ کے بجائے ’’ذ‘‘ سے کردیتے تھے یعنی پذیر۔ ایک ادبی رسالے میں پزیر دیکھا تو لغت سے رجوع کیا۔ معلوم ہوا کہ ہم غلطی پر تھے اور یہ پزیر ہی ہے۔ یہ لاحقہ فاعلی ہے۔ فارسی مصدر پزیرفتن سے صیغہ امر، قبول کرنے والا، پکڑنے والا کے معانی دیتا ہے جیسے ترقی پزیر۔ اسی سے پزیرائی ہے یعنی قبولیت۔ کچھ لوگوں نے پوچھا ہے کہ یہ سابقہ اور لاحقہ کیا ہوتا ہے؟ بھئی ’’لاحق ہوجانا‘‘ تو سنا ہوگا، بولا بھی ہوگا ’’مرض لاحق ہوگیا‘‘، ’’عارضہ لاحق ہوگیا‘‘ یا ملحقہ وغیرہ، یعنی جو پیچھے پڑجائے۔ لاحقہ وہ ہے جو کسی لفظ کے بعد میں آئے اور سابقہ وہ جو پہلے آئے۔ اس سے سابقہ تو پڑا ہوگا۔ یہ دراصل سبق سے ہے۔ اردو میں عام طور پر سبق پڑھا جاتا ہے یا سبق لیا جاتا ہے۔ لیکن عربی میں سبق گھڑدوڑ کی شرط یا کسی لفظ کے پہلے حصہ کو کہتے ہیں۔ اسی سے ’’سبقت لے جانا‘‘ ہے۔ ہمارے خیال میں سبق پڑھنا ان ہی معنوں میں آیا ہے کہ پہلے جو پڑھایا گیا تھا اسے دوہراؤ۔ مزید تفصیل پھر کبھی سہی۔ اِس وقت تو ہاتھ ٹھٹھر رہے ہیں۔
لاہور سے ایک اسکول کے استاد نے فون پر کہا ہے کہ ’’املا‘‘ مونث ہی ہے اور آپ نے اسے مذکر قرار دیا ہے۔ ہم نے تو اسے مذکر اور مونث دونوں ہی تسلیم کرلیا تھا۔ اس حوالے سے طالب الہاشمی کی کتاب ’’اصلاح تلفظ و املا‘‘ شائع کردہ القمر انٹرپرائزز، اردو بازار لاہور میں ایک دلچسپ تحریر نظر سے گزری۔ ملاحظہ کیجیے:
’’لفظ املا کی تذکیر و تانیث مختلف فیہ ہے۔ فصحائے اردو میں سے بعض نے اسے مذکر استعمال کیا ہے اور بعض نے مونث۔ مشہور شاعر حضرت تسلیم نے اس شعر میں املا کو مذکر باندھا ہے:
عالمِ وحشت میں جب لکھا کوئی خط فراق
ربط بگڑا میری انشا کا غلط املا ہوا
اس کے برعکس جناب رشک نے اس شعر میں املا کو مونث باندھا ہے:
نامہ جاناں ہے یا لکھا مری تقدیر کا
خط کی انشا اور ہے لکھنے کی املا اور ہے
بعض ماہر لسانیات کے نزدیک املا کی تذکیر کو ترجیح حاصل ہے مگر پنجاب کے بیشتر اہلِ قلم اسے مونث ہی بولتے اور لکھتے ہیں۔‘‘
مونث سے دلچسپی فطری ہے اور ہم نہ ماہر لسانیات ہیں نہ ہی فصحائے اردو میں شمار کے لائق۔
اسی کتاب سے ایک اور حوالہ، اور یہ غلطی بہت عام ہے۔ (غلطی بھی غل طی ہو گئی ہے جب کہ غ اور ل دونوں پر زبر ہے) طالب الہاشمی لکھتے ہیں: ’’میں نے کراچی جانا ہے۔ اس نے آپ سے کچھ کہنا ہے۔ یہ غلط ہے۔ اردو میں ’نے‘ کے ساتھ فعل مصدری (کرنا، آنا، جانا، اٹھنا، بیٹھنا، کہنا وغیرہ) کا استعمال درست نہیں۔ ایسے جملوں میں ’نے‘ کی جگہ ’کو‘ استعمال کرنا چاہیے۔ ہاں فاعل کی صورت تبدیلی کردی جائے تو ’’نے‘‘ اور ’’کو‘‘ دونوں کے استعمال کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مذکورہ جملوں کی صحیح صورت یہ ہو گی ’’مجھ کو کراچی جانا ہے‘‘ یا ’’مجھے کراچی جانا ہے‘‘۔’’ اس کو آپ سے کچھ کہنا ہے‘‘ یا ’’اسے آپ سے کچھ کہنا ہے‘‘۔ میں نے آنا، میں نے جانا عموماً پنجاب میں مستعمل تھا، اب ہر جگہ ہے۔
زندہ قومیں اپنی زبان کو قومی وقار اور خودداری کی علامت سمجھا کرتی ہیں اور اسی طرح قومی لباس کے معاملے میں بھی نہایت حساسیت کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ روس‘ جرمنی‘ فرانس اور چینی رہنما کسی بھی عالمی فورم پر بدیسی زبان کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ نہیں بناتے، بلکہ اپنی ہی زبان میں...
وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر عرفان صدیقی نے قومی زبان اردو کے سرکاری زبان کے طور پر نفاذ کے حوالے یہ اعتراف کیا ہے کہ اس میں صرف بیورو کریسی ہی رکاوٹ نہیں بلکہ اس سلسلے میں عدالتی فیصلے کے نفاذ کے خلاف مختلف وزراء بھی ہیں۔ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے پاکستان قومی زبان تحریک کے زیر...
مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟ عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو ن...
پنجاب میں زراعت کے تعلق سے ایک اصطلاح نظر سے گزری جو ہمارے لیے نئی ہے اور ممکن ہے بہت سے لوگوں کے لیے بھی نئی ہو۔ یہ ہے ’’برداشت‘‘ کا استعمال۔ ویسے تو عوام ہی بہت کچھ برداشت کررہے ہیں اور صورتِ حال پر برداشتہ خاطر (بیزار، اداس، آزردہ) بھی ہیں۔ لیکن ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے، فیصل ...
فارسی کی ایک مثل ہے ’’خودرا فضیحت دیگراں را نصیحت‘‘۔ یعنی خود تو غلط کام کرنا، دوسروں کو نصیحت کرنا۔ فضیحت کا مطلب رسوائی، ذلت، بدنامی بھی ہے۔ یہ محاورہ یوں یاد آیا کہ کچھ قارئین غلطیوں کی نشاندہی کرکے یہی مثل سنا دیتے ہیں۔ اب ہم کیا کریں کہ اپنے جن صحافی ساتھیوں کی زبان درست کرن...
ایک ہفت روزہ کے سرورق پر سرخی ہے ’’پیپلزپارٹی تتّر بتّر ہوسکتی ہے‘‘۔ یعنی دونوں جگہ ’ت‘ پر تشدید ہے۔ پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، کیونکہ عموماً لوگ بغیر تشدید کے تتربتر کردیتے ہیں جب کہ تشدید کے ساتھ ہی صحیح ہے۔ فرہنگ آصفیہ، فیروزاللغات وغیرہ میں بھی اسی طرح ہے، اور اردو کی کلاسیکی ...
گزشتہ تحریر میں ہم نے ’دارو‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’یاد رہے دارو گیر میں بھی دارو موجود ہے لیکن یہ ایک الگ لفظ ہے۔ دارو گیر کا دارو سے کیا تعلق ہے، یہ ماہرین ہی بتاسکتے ہیں‘‘۔ یہ معاملہ ازراہِ تفنن ہم نے ماہرین پر چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے تو جسارت کے پروف ریڈر گزجن...
علامہ طاہر اشرفی علماء کے سرخیل ہیں۔ انہوں نے غالباً عربی بھی پڑھی ہوگی، ورنہ اردو تو ضرور پڑھی ہوگی۔ اب اگر اتنے کلّے‘ ٹھلے کے اور جسیم عالم بھی ملک کو ’’مولک‘‘ کہیں تو تھوڑی سی حیرت تو ہوگی۔ اگر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اﷲ علم کو ’’ایلم‘‘کہیں تو یہ اُن کو زیب دیتا ہے بلکہ ا...
آج بہت دنوں بعد کسی کو خط لکھنے کے لئے قلم اٹھایا، تو خیال آیا کہ ہمیں دوست کا پتہ ہی معلوم نہیں ۔ سستی، بے پروائی اور وقت کی کمی کے بہانے تو پہلے بھی تھے، پھر بھی ہم طوعاً وکرہاً خط لکھ ہی لیا کرتے تھے۔ برق گرے اس ای میل پر جب سے ہم اپنے کمپیوٹر کے ذریعے انٹرنیٹ سے متصل ہوئے ہیں...
ایک دوست کی فرمائش پر اردوڈائجسٹ خریدنے اسلام آبادکے ایک کتاب گھر جانا ہوا۔ غیر ارادی طور پرمالک سے گپ شپ شروع ہوگئی۔ کہنے لگا کہ ابھی بھی اردو ڈائجسٹ کے کافی قارئین ہیں لیکن سب معمر افراد ہیں۔ نوجوانوں میں خال خال ہی کوئی ڈائجسٹ خریدتا ہے حتیٰ کہ سب رنگ اور خواتین ڈائجسٹ کے ب...
جناب پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات ہیں اور اس لحاظ سے تمام صحافیوں کے سرخیل ہیں۔ ان کا فرمانا ہمارے لیے سند ہے۔ لاہور کا معرکہ جیتنے پر وہ فرما رہے تھے کہ فلاں کی تو ضمانت تک ضَبَطْ (بروزن قلق‘ شفق‘ نفخ وغیرہ یعنی ضَ۔بَط) ہوگئی۔ اب جو مثالیں ہم نے دی ہیں نجانے ان کا تلفظ وہ کیا ک...
ہمارے وفاقی وزیر چودھری نثار تو ذمہ داری کو ذمہ واری کہتے رہیں گے، انہیں ان کی ذمہ واری پر چھوڑتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہبازشریف شمسی توانائی کی کارکردگی پر وضاحت پیش کرتے ہوئے ’’اوسط‘‘ کو بروزن دوست‘ گوشت وغیرہ کہتے رہے اور بار بار کہتے رہے۔ لیکن یہ تو حکمران طبقہ ہے۔ اسے ز...