وجود

... loading ...

وجود
وجود

تجھے اے عمر مبارک! یہ حیاتِ جاودانہ

بدھ 12 اگست 2015 تجھے اے عمر مبارک! یہ حیاتِ جاودانہ

mullah-omar

کچھ لوگ کبھی نہیں مرتے۔ تاریخ کے رومان میں زندہ رہتے ہیں۔اُن کانام ایک تحریک ہوتا ہے۔وہ اُس دنیا کو بناتے بگاڑتے رہتے ہیں جس میں وہ زندہ تک نہیں ہوتے۔ ترقی کا جوافسانہ کچھ جدّت پسند سناتے رہتے ہیں، اُن کی ترقی کا مطلب ایسے’’ دقیانوسی‘‘لوگوں پر فتح پانے کے لئے ہر روز نئے طریقوں کی ایجاد ہوتاہے۔ مگر وہ پھر بھی کامیاب نہیں ہوتے۔ پھر اس کے لئے وہ نئے فلسفے تراشتے ہیں۔ دنیا کے اصل ’’عیاش‘‘ دراصل یہی بیمار ذہن لوگ ہیں۔جن کے ذہن ِرسا میں اپنی شکست کے نئے نئے فتح مند خیالات پھوٹتے ہیں۔ فی الواقع وہ دنیا کی من چاہی تشکیل میں ناکام لوگوں کا ایک ٹولہ ہے۔ دنیا بش ایسے لوگ نہیں ملاعمر جیسے لوگ بنا تے ہیں۔ اور یہ ملاعمر ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی موت سے مر نہیں پاتے۔ابھی ہم مصنوعی حالات میں غیر حقیقی نتائج کے عارضی دور میں جیتے ہیں۔ ابھی کچھ دیر ہے ۔ابھی یہ بات سمجھنے میں کچھ دیر ہے۔

ملاعمر نے زندگی نہیں اپنی موت سے بھی امریکا کو شکست دی ہے۔ دنیا کا سب سے طاقت ور ملک ملاعمر کو چھو تک نہیں سکا۔ اُس نے اپنی زندگی اورموت دونوں سے امریکی اندازوں اور خطے کی دیگر قوتوں کو دھول چاٹنے پر مجبور کر دیا۔ طالبان محاذوں پر ہی نہیں حکمت ِعملی کے میدانوں میں بھی اُن سے بڑھ کر ثابت ہوئے جو دنیا کی جامعات میں بیٹھ کر تزویراتی حکمت ِ عملی کے روشن دماغ تشکیل دیتے ہیں۔ یہ دنیا کی منہجِ علم، مزاجِ علم اور تشکیلِ علم کی کامیابی کے دعوے کو بھی شکست ہے۔تاریخ کا جبر، اِن شخصیات کے ہی مرہونِ منت ہوتا ہے۔ فطرت کے برخلاف انسان کی آوارہ قوتوں کو ایسے ہی ’’جبر‘‘ سے تھاما جاتا ہے۔ اُنہیں عاجز کردیا جاتا ہے۔ اُنہیں اُن کی ترقی اور تدابیر میں تھکا دیا جاتا ہے۔ آسمانی تعلیم یہ ہے کہ ’’اللہ کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘

یاد کیجئے!امریکا نے ابتدائی چند دنوں میں ہی مشرف کے پاکستان سے ستاون ہزار اڑانیں بھری تھیں۔ پھر امریکا کی روند دینے والی افواج کا ایک خصوصی دستہ قندھار میں ملاعمر کے گھر تک جاپہنچا تھا۔ ملاعمر کو متعدد حملوں میں نشانا بنانے کا دعویٰ کیا گیا۔ پھر تھک ہار کر اُن کے پوسٹر چسپاں کر دیئے گئے۔ جس کاعنوان تھا ’’انصاف کا انعام‘‘۔اور انعام تھا، صرف ایک کروڑ ڈالر۔ امریکا نے 8؍اکتوبر کو جب افغانستان پر حملہ کیا تو اُس کی پشت پر ایساف اور نیٹو کا اتحاد تھا۔ اکیاون ممالک پر مشتمل یہ اب تک کی تاریخ کاسب سے بڑا اکٹھ تھا۔افغانستان پہلے ہی جنگ سے تباہ حال ملک تھا۔ جس کی ایک بہت بڑی آبادی ملک سے باہر مہاجر کیمپوں میں تھیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک کی جنگوں نے تیرہ لاکھ افغانوں کو نگل لیا تھا، اس سے بڑھ کر لوگ زخمی بھی تھے۔ گھائل اور اعضاء بریدہ۔ یوں پورا افغان معاشرہ اُتھل پتھل تھا۔ایک ایسے ملک میں جس کا آہنگ پہلے سے ہی برقرار نہ تھا۔ امریکا اکیاون ممالک کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ اس بچے کھچے،تتر بتر، تباہ حال اور نڈھال ملک کا’’ امیر المومنین‘‘ایک سادہ آدمی تھا۔ جسے’’ عصری ‘‘ علوم نے چُھوا تک نہ تھا۔(برسبیلِ تذکرہ یہ عصری علوم کس چڑیا کا نام ہے۔اور علم کی تعریف کیا ہے؟ اِسے متعین کس نے کیا ہے؟ اور عصری علوم سے بہرہ ور لوگوں نے دنیا کو کیسا بنا دیا ہے؟ یہ ایک مستقل موضوع ہے۔ جس پر خود مغرب کے اندر فلسفیانہ انداز سے غوروفکر کیا جارہا ہے۔مغرب کا مزاج و نظامِ علم (epistem) اپنے متعلق جو دعوے رکھتا ہے، عملی تجزیئے میں اس پر اعتبار کی بنیادیں اب کم سے کم ہوتی جارہی ہیں۔ پاکستان کے اندر پائے جانے والے پڑھے لکھے مگر ذہنی غلاموں کو ابھی اس کی بِھنک پڑی نہیں) ملا عمر کی مذہبی تعلیم تک مکمل نہیں ہوئی تھی۔ پاکستان کے جو مذہبی ادارے یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ اُنہوں نے کچھ اسباق اُن کے مدرسے سے پڑھے تھے۔ وہ دروغ گوئی کے مرتکب ہیں۔ قصہ کوتاہ! آج کی دنیا میں کامیابی کے دعوے پیدا کرنے والے تمام امتیازات سے محروم ملاعمر دنیا کے سب سے طاقت ور ملک کے لئے نارسا کیسے ثابت ہوئے؟ یہاں تک کہ وہ دیومالائی حیثیت اختیار کر گئے۔ اور اپنی موت کے بعد تک دنیا پر اپنا سکہ جماتے رہے۔کیا یہ بات کسی کو حیران نہیں کرتی کہ امریکا جب افغانستان سے نکل رہا تھا تو ملاعمر اپنی موت کے باوجود افغان مزاحمت کے قائد تھے۔ہر وہ حکم جو اُن کے نام پر طالبان کے قابلِ اعتماد ذرائع سے آتا وہ قابلِ قدر طور پر روبعمل ہو جاتا۔ کیا کسی آدمی کا سکہ ایسے بھی کبھی چلتا ہے؟ کیا اُباما کے احکامات کبھی ایسے بھی پورے ہو سکے ہیں؟افغانستان میں امریکا کی ناکامی کا اصل مطلب کیا ہے؟

امریکا جب لٹے پٹے افغانستان پر حملہ آور ہوا تب ماضی کسی کا رہنما نہیں تھا۔ افغان تاریخ کا مزاق امریکا کی دفاعی مشینری سے اڑایا گیا۔ اعدادو شمار کی گوٹاکناری سے برتری کا سکہ جمانے کا جنون بے قابو ہوتا گیا۔مغربی دانشوروں کو اُن کے حال پر چھوڑتے ہیں، اچانک پاکستان میں کچھ ادارے جنگل کی جھاڑیوں کی طرح اُگ آئے۔ جنہوں نے پراسرار حالات میں اُبھرتے نجی ٹیلی ویژن کے زرق برق پردے پر نئی نویلی دلہن کی طرح نخرے دکھانے والے تیوروں میں کہا کہ افغان تاریخ بھی اب تاریخ میں کھیت رہے گی۔ تاریخ کا دھارا تبدیل ہو چکا۔ اُنہوں نے سوویٹ یونین میں مجاہدین کی کامیابیوں کا مزاق اڑایا اور کہا کہ یہ تنہا مجاہدین کے بل بوتے پر جیتی گئی جنگ نہ تھی۔ اس میں اسلحہ امریکا کا تھا۔ پیسہ سعودی عرب کا تھا۔ اور تربیتی حصہ پاکستان کا تھا۔ گویا یہ جنگ دراصل امریکا، سعودی عرب اور پاکستان نے مل کر جیتی تھی۔ اب فتح گر تاریخ کی یہ ساری قوتیں طالبان مخالف دھارے کے ساتھ ہیں۔دنیا کی سب سے بڑی معاشی دفاعی طاقت سعودی عرب اور پاکستان کی حمایت بھی رکھتی ہے۔پھر طالبان اب ایک منتشر اور غیر مرکزی گروہ میں ڈھل چکے۔ اگر کسی کو یاد نہ ہو تو وہ ٹیلی ویژن کے پُرانے مباحث کو پھر سے تازہ کریں ۔ امریکا اپنی فتح کا اعلان بھی ایک رعونت سے باربار کرتا رہا۔ اور اس سے زیادہ نخوت کے ساتھ یہ چھچھوڑے اور دُم چھلے افغانوں کی شکست اور امریکا کی کامیابیوں کی داستانیں سناتے رہے۔ مگر کیا ہوا؟ طالبان نے پاکستان کی تربیت، امریکی اسلحے اور سعودی پیسے کے بغیر یہ جنگ جیت کر کیسے دکھائی؟ افغان تاریخ پھر سے ظفریاب ہوئی۔ تاریخ کے چشمے اپنے پرانے سرچشموں سے ہی پھوٹتے رہے۔ امریکا نے ایک ہمہ گیر ناکامی کو گلے لگایا۔ مغربی جامعات اور فکری مراکز(تھنک ٹینکس) کے پاس تب نئے نظریئے بھی تیار تھے۔ یعنی فی زمانہ جنگ میں ہار جیت کوئی معنی نہیں رکھتی اور اب پہلے کی طرح فتح وشکست کے اعلانات نہیں کئے جاتے۔ کسی کو اس بات پر افسوس نہیں ہونا چاہئے کہ اس نئے نظریئے کی جگالی کرنے کے لئے بھی پاکستان میں دانشوروں کی ایک پوری کھیپ تیارتھی۔ اب وہی بے شرم دانشور نئے نئے حقائق سے نئے نئے نتائج کا طوفان اُٹھا تے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شاید مغربی علوم کی بنیادی تربیت بے شرمی کی دُھن پر دی جاتی ہے۔ دل پر شکم کی فوقیت کی سب سے بڑی اور بُری مثالیں مغرب نے خود ہمارے اپنے ملک میں پیدا کرکے دکھائی ہیں۔جس نے ہمارے مذہبی ذہن کو بھی پراگندہ کردیا ہے۔ دور کیوں جائیں! اُس ادارے کو دھیان میں رکھیں جس نے خود ملاعمر کے نام پر ٹرسٹ بنائے، دنیا بھر سے چندے سمیٹے ۔ خود ملاعمر کو ایک ایسی شخصیت بنانے کے لئے افسانے گھڑے جس کی وہ خود کبھی خواہش نہ رکھتے تھے۔ مگر ملاعمر کی موت کی خبر پر پراسرار اور منفعت بخش خاموشی اختیار کرکے بیٹھے ہیں۔ وہ اب تردد کے شکار ہیں جب صومالیہ تک میں ملا عمر کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی جارہی ہے۔ شکم سے سوچنے والے ان اصحاب ِجبہ ودستار اور حاملینِ منبر ومحراب نے پاکستان بھر کے مذہبی جذبات کو تب ملاعمر کے نام پر یرغمال بنا لیا تھا۔

آمدم برسرِ مطلب!یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ افغان ٹینکوں کے مقابل تو کھڑے رہ سکتے ہیں مگر ڈالر کے مقابل نہیں۔ مگر افغانستان میں جاری جنگ میں طالبان نے ٹینکوں اور ڈالر دونوں کے مقابل کھڑے ہو کر دکھایا۔ امریکا کی سب سے خرچیلی اس جنگ میں سی آئی اے نے ڈالر کے بستے کھول دیئے تھے مگر وہ طالبان کے امیر تک نہ پہنچ سکے۔ اس سے قبل وہ اِسی دولت کے بل بوتے پر ملاعمر کو اپنی ڈھب پر نہ لاسکے۔ اور اپنی سب سے مہنگی جنگ میں کامیابی تو کیا کامیابی کا دھوکا تک نہ خرید سکے۔ پھر بھی پامال فقروں میں ناکام نتائج کی وہی کہنہ مشق جاری ہے۔ اگر افغان اُسی طرح بک سکتے جس طرح یہ دانشور بتاتے ہیں، تو یہ جنگ شروع ہی نہ ہوتی اور اگر شروع ہوتی تو تیرہ برسوں پر نہ پھیلتی۔ اور اگر پھیل جاتی تو شکست پر منتج نہ ہوتی۔یوں لگتا ہے کہ امریکا نے پہلی مرتبہ ڈالر اس لئے خرچ کئے کہ اُنہیں طالبان سے شکست ہو جائے۔دانشوروں کے کیا کہنے!ملاعمر نے زندگی سے ہی نہیں اپنی موت سے بھی امریکا کو شکست دی ہے۔ امریکا کے لئے ملا عمر ایک سربستہ راز کی طرح رہے۔ وہ اُنہیں اُن کی زندگی میں بھی شکست نہ دے سکے اور اُن کی موت کو بھی اپنی مرضی میں نہ ڈھال سکے۔ مگر ملاعمر نے اپنی زندگی میں بھی امریکا کو شکست دی اور اپنی موت کے بعد بھی اُنہیں ناکام بنا کر چھوڑا۔ملاعمر ایسے لوگ یوں ہی دیومالائی روپ نہیں دھار لیتے۔ وہ وفات کے سرکاری اعلانات سے نہیں مرتے۔ دراصل ان کی موت کا اعلان ہی اس لئے کیا جاتا ہے کہ ان کی زندگی خود اُن کے وجود سے باہر نکل کر بے کنار ہوجاتی ہے۔ ملاعمر ایسی ہی موت کے ساتھ زندگی جیتے رہیں گے۔

تجھے اے عمر مبارک یہ حیاتِ جاودانہ


متعلقہ خبریں


ملاعمر مجاہد کی وفات کے بعد طالبان قیادت میں پھوٹ وجود - هفته 29 اگست 2015

افغان طالبان کے امیر ملامحمد عمر مجاہد کی وفات کی خبر سامنے آنے کے بعد تحریک کی قیادت ، جانشینی ، شوریٰ کی تشکیل اور دیگر تنظیمی امور پر شدید اختلافات رونما ہو گئے ہیں۔ جس سے اندیشہ ہے کہ تنظیم واضح طور پر دو دھڑوں میں بٹ سکتی ہے۔اگرچہ طالبان رہنماؤں کی سطح پر معمولی اختلافات ش...

ملاعمر مجاہد کی وفات کے بعد طالبان قیادت میں پھوٹ

یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے وجود - بدھ 12 اگست 2015

دور، کہیں سے آواز آتی ہے، پھر ، پھر ایک ہوک سی اُٹھتی ہے۔کیا یہ دشتِ امکاں پھر نخلِ گماں میں بدل جائے گا؟ اے صبح کے خالق ،یقیں کے رب کیا پھر تیری امت شہرِ گماں کی اندھیر نگری کے حوالے ہو گی؟وہ شخص کہاں گیاجو کندھے پر رومال ڈالے قندھار سے ایسے نکلا تھاکہ اُسے دنیا کی کوئی پروا ن...

یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے

مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر