... loading ...
معصوم مرادآبادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوتے ہی سیاسی سرگرمیاں تیزہوگئی ہیں۔کرناٹک کا چناؤ اس اعتبار سے بڑی ا ہمیت کا حامل ہے کہ ا س کے ذریعے آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات کا رخ طے ہوگا۔ریاست میں برسراقتدار بی جے پی اور اس کی حریف کانگریس کے درمیان جنگ کا بگل بج چکا ہے ۔کرناٹک کا الیکشن جیتنے کے لیے بی جے پی پہلے ہی فرقہ وارانہ کا رڈ کھیل چکی ہے ۔ اس نے ریاست کے او بی سی مسلمانوں کو پچھلے 27 برسوں سے حاصل ریزرویشن ختم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔بی جے پی جب بھی انتخابات کی بھنور میں پھنستی ہے تو وہ مسلمانوں کے خلاف کوئی نہ کوئی اقدام کرکے اپنے فرقہ پرست ووٹ بینک کو مضبوط کرتی ہے ۔
کسی نے درست ہی کہا ہے کہ اگر اس ملک میں مسلمان نہ ہوتے تو شایدبی جے پی کا وجود ہی نہ ہوتا۔بی جے پی کی سیاست پوری طرح مسلمانوں کی مخالفت کے گرد گھومتی ہے ۔حالانکہ بی جے پی نے الیکشن کمیشن میں خود کو ایک سیکولر پارٹی کے طورپر رجسٹرڈکرارکھا ہے ، لیکن سبھی جانتے ہیں کہ اس کا یہ سیکولرازم فریب مسلسل کے سوا کچھ نہیں ہے ۔بی جے پی اعلانیہ ایک فرقہ پرست اور مسلم مخالف پارٹی ہے اور اس کا ہرقدم مسلمانوں کے خلاف ہی اٹھتا ہے ۔اس کے وزرائے اعلیٰ سب کے ساتھ بلاتفریق مذہب وملت انصاف کرنے کا حلف اٹھاتے ہیں، لیکن عملی طورپر ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے ان کا فرقہ پرست ہندو ووٹ بینک مضبوط ہو۔خاص طورپر جب بھی کسی ریاست میں چناؤ ہوتا ہے تو وہاں بی جے پی اپنے ہندوووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ایسی چال ضرور چلتی ہے جس کی ضرب مسلمانوں پر پڑے ۔
اب یہی دیکھئے نا کہ کرناٹک اسمبلی کاالیکشن قریب آتے ہی وہاں بی جے پی کی صوبائی حکومت نے پسماندہ مسلمانوں کو حاصل چار فیصد ریزرویشن ختم کردیا ہے ۔ 2Bزمرے کا یہ چار فیصد ریزرویشن مسلمانوں سے چھین کر وکالیگاؤں اور لنگایتوں میں دودو فیصد کے حساب سے تقسیم کردیا گیاہے ۔ واضح رہے کہ یہ دونوں طبقات معاشی اور تعلیمی اعتبار سے طاقتور ہیں اور پہلے سے ہی ریزرویشن سے فیضیاب ہورہے ہیں۔اس فیصلے سے یقینا معاشی اور تعلیمی طورپر کمزوران مسلمانوں کو زبردست دھچکا لگا ہے ، جو برسوں سے اس ریزرویشن کا فیض اٹھا رہے تھے ۔بی جے پی نے مسلم ریزرویشن کو ختم کرنے کی دلیل یہ دی ہے کہ یہ آئین کے خلاف تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بی جے پی کرناٹک میں پہلے بھی کئی بار برسراقتدار رہی ہے ، لیکن اسے کبھی یہ ریزرویشن غیر آئینی نظرنہیں آیا، لیکن اب جبکہ کرناٹک میں اس کا اقتدار داؤ پر لگا ہوا ہے تو وہ پوری طرح جارحانہ ہندتوا پر اترآئی ہے ۔
سبھی جانتے ہیں کہ کرناٹک میں بی جے پی نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے تاکہ وہ اوبی سی مسلمانوں کے سماجی و معاشی حالات کی قیمت پر آئندہ اسمبلی انتخابات میں ہندتو کی بالا دستی کے ایجنڈے میں سیاسی فائدہ اٹھاسکے ۔کرناٹک جنوبی ہند کی واحد ریاست ہے جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے ۔ اس نے یہ اقتدار فرقہ وارانہ موضوعات کو ہوا دے کر ہی حاصل کیا ہے اور وہ مسلسل ایسے موضوعات کو اچھالتی رہتی ہے جن کا تعلق مسلمانوں کونقصان پہنچانے سے ہوتا ہے ۔ معاملہ خواہ حجاب پر پابندی کا ہو،ٹیپو سلطان کی مسلسل کردار کشی کا، نام نہاد ’لوجہاد‘کا ہو یا پھر مسلم ریزرویشن کو ختم کرنے کا۔ ان سب کے پیچھے ایک ہی منشا ہے کہ کسی بھی طرح مسلمانوں کی قیمت پر اقتدار حاصل کیا جائے اور ملک میں نفرت کی فضا برقرار رکھی جائے ۔
وزیرداخلہ امت شاہ نے کرناٹک میں مسلم ریزرویشن ختم کرنے کے فیصلے کاخیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر دیا گیا ریزرویشن آئین کے خلاف تھا، اس لیے اسے ختم کردیا گیا ہے ۔ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ ریزرویشن سابق وزیراعلیٰ ویرپا موئلی نے شروع کیا تھا۔یہ قصہ 27برس پرانا ہے ۔ مگر ہمارے وزیرداخلہ امت شاہ کو اب معلوم ہوا کہ یہ ریزرویشن غیرآئینی تھا اور اس کا ختم ہونا بے حد ضروری ہے ۔ سابق وزیرقانون اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کپل سبل نے ایک ٹوئٹ کر کے وزیرداخلہ سے تلخ سوال پوچھا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ کیا مذہب کی بنیاد پر سیاست اور پروپیگنڈہ آئین کے خلاف نہیں ہے ۔کپل سبل نے سوال کیا کہ امت شاہ مذہب پر مبنی سیاست آئین کی خلاف ورزی ہے تو مذہب کی بنیاد پر سیاست، پروپیگنڈہ، تقریریں، ایجنڈا اور پروگرام کے بارے میں کیا خیال ہے ۔کیا یہ آئین کے منافی نہیں ہیں؟ہمیں معلوم ہے کہ وزیرداخلہ امت شاہ کپل سبل کے اس تیکھے سوال کا جواب ہرگز نہیں دیں گے ۔کیونکہ ان کی پوری سیاست ہی دستور مخالف فرقہ پرستی اور مسلم مخالفت پر ٹکی ہوئی ہے ۔ اگر انھوں نے اسے چھوڑ دیا تو پھر ان کے پاس کیا باقی رہے گا؟
قابل ذکربات یہ ہے کہ کرناٹک میں مسلم اوبی سی کوریزرویشن ان کے مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی سماجی، معاشی اور تعلیمی پسماندگی کی بنیاد پر دیا گیا تھا۔ ریزرویشن کے اس زمرے میں ان کی شمولیت چنپا ریڈی کمیشن کی سفارشات پر عمل میں آئی تھی۔بعد میں سچر کمیٹی کی رپورٹ نے بھی اس کی تصدیق کی تھی۔ رنگاناتھ مشرا کمیشن نے تو اقلیتوں کو دس فیصد ریزرویشن دینے کی سفارش کی تھی جس میں آٹھ فیصد ریزرویشن مسلمانوں کے لیے مختص کرنے کا ذکر تھا۔ لیکن ابھی تک ان سفارشات پر عمل نہیں کیا گیاہے ۔ الٹے جن پسماندہ مسلمانوں کو اوبی سی زمرے میں ریزرویشن حاصل ہے ، اسے ختم کرنے اور مسلمانوں کو بالکل حاشیہ پر پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ کرناٹک اس کی تازہ ترین مثال ہے ۔کرناٹک میں مسلم ریزرویشن کو ختم کرنے کا فیصلہ اندراساہنی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بھی خلاف جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ریزرویشن کے حقوق رکھنے والے زمروں کی فہرست میں کسی کمیونٹی کا اضافہ یا حذف کرنا کمیشن کے تجزیاتی ڈاٹا پر مبنی مطالعہ پر مرکوز ہونا چاہئے ، لیکن سپریم کورٹ کی اس واضح ہدایت کو نظرانداز کرکے اورکرناٹک اسٹیٹ کمیشن برائے پسماندہ طبقات کی کسی حتمی سفارش کے بغیر بی جے پی سرکار فیصلہ لے رہی ہے ۔یہ دراصل بی جے پی حکومت کی طرف سے پسماندہ برادریوں کو ساختی طور پر کمزور کرنے اور انھیں مزید پسماندہ بنانے کی منظم سازش ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ریزرویشن کی سیاست بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن رہی ہے اور اس کا داؤ الٹا پڑرہا ہے ۔
بی جے پی کی دوغلی پالیسیوں کے سبب ہی حال ہی میں بنجارہ برادری نے سابق وزیراعلیٰ یدی یوروپا کے گھر پر جمع ہوکر زبردست احتجاج کیا ہے ۔دراصل ریزرویشن کے تعلق سے بی جے پی کی منافقانہ پالیسی کی وجہ سے کئی محاذ ایک ساتھ کھل گئے ہیں۔ ایک طرف جہاں مسلم ریزرویشن کو ختم کرنے کے خلاف احتجاج ہورہا ہے تو وہیں دوسری طرف دلتوں کے ریزرویشن کو چار زمروں میں تقسیم کرنے کی سفارش بی جے پی کے گلے کا پھندہ بنتی جارہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دلتوں میں شامل بنجارہ برادری سڑکوں پر اترآئی ہے ۔ اس نے یدی یروپا کے گھر کے سامنے نہ صرف بی جے پی کے جھنڈے نذرآتش کیے بلکہ وہاں پتھراؤ بھی کیا۔اسمبلی انتخابات سے قبل بنجارہ برادری کی یہ ناراضگی بی جے پی کوخاصی مہنگی پڑسکتی ہے ، کیونکہ کرناٹک میں دلتوں کی آبادی بیس فیصد ہے جو کسی بھی پارٹی کا کھیل بگاڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ دلتوں کو اب تک 15فیصد ریزرویشن مل رہا تھا۔گزشتہ سال بی جے پی سرکار نے اسے بڑھاکر 17فیصد کردیا۔اس فیصلے سے دلت اب تک خوش تھے ، لیکن گزشتہ 24مارچ کو دلتوں کے لیے ریزرویشن کو داخلی سطح پر چار حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔پہلے کے ریزرویشن نظام میں بنجارہ برادری کو10فیصد تک فوائد مل رہے تھے ، لیکن ریزرویشن کی اندرونی تقسیم کے بعد ان کے لیے ساڑھے چار فیصد مقررکیا گیا ہے جسے وہ اپنی حق تلفی تصور کرتے ہیں۔ کرناٹک میں بی جے پی ریزرویشن کے بھنور میں بری طرح پھنس چکی ہے ۔
٭٭٭