وجود

... loading ...

وجود
وجود

سرگودھا کی کرانہ پہاڑیوں میں قدرتی حسن سے مالامال چشمے اور جھیلیں

اتوار 13 مئی 2018 سرگودھا کی کرانہ پہاڑیوں میں قدرتی حسن سے مالامال چشمے اور جھیلیں

سرگودھا جغرافیائی لحاظ سے خوبصورت پہاڑیوں سے مالا مال ہے۔ کرانہ پہاڑیوں کا یہ سلسلہ سرگودھا کے علاقے شاہین آباد سے لے کر چنیوٹ تک پھیلا ہوا ہے۔ سرگودھا سے فیصل آباد روڈ پر جائیں تو ان پہاڑیوں کی تابناکی کا آنکھوں سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ پہاڑی سلسلے دیو مالائی حسن اور قصے کہانیوں کے وارث ہیں۔ انہی پہاڑیوں کی بدولت سرگودھا کو ایشیا کی سب سے بڑی اسٹون کرشنگ انڈسٹری ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ سرگودھا کی انہی پہاڑیوں میں سے پھوٹنے والے چشمے اور جھیلیں جہاں اپنی خوبصورتی کی وجہ سے عوام کی توجہ کے مرکز ہیں، وہیں عوام ان کے اچانک معرض وجود میں آنے سے حیران ہیں۔ پہاڑیوں کے دامن میں مسکراتی یہ جھیلیں اور چشمے قدرت کی کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کرانہ پہاڑیوں میں جاری اسٹون کرشنگ کی وجہ سے بہت سی جگہوں پر پانی کی سطح بلند ہوگئی اور پہاڑوں کے بیچ سے رسنے والے پانی نے مختلف جگہوں پر چشموں اور جھیلوں کی صورت اختیار کرلی۔ایک ایسا ہی قدرتی چشمہ شاہین آ باد کی پہاڑیوں میں ہے جو ہر دیکھنے والے کو اپنی خوبصورتی کے جال میں جکڑ لیتا ہے، یہ چشمہ تفریح کے لیے مثالی جگہ ہے۔

سرگودھا شہر سے 20 کلو میٹر دور گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول چک نمبر 123 جنوبی رْخ کے بالکل سامنے واقع یہ چشمہ اپنے نرالے حسن کی وجہ سے عوام میں بہت مقبول ہے۔ اسے ’’شاہینوں کی جھیل‘‘ بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ قدرت کا انمول شاہکار گزشتہ دہائی میں گرد و نواح کی پہاڑیوں میں بے جا بارود کے استعمال اور بلاسٹنگ سے ہونے والی جغرافیائی تبدیلیوں کی وجہ سے وجود میں آیا۔ پہاڑوں کے بیچوں بیچ کھڑے چشمے کے پانی کو دیکھ کر سب حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ پانی آیا کہاں سے۔ پانی کی مقدار میں اکثر اضافہ ہو جاتا ہے۔ گہرائی بھی خاصی زیادہ ہے۔ کئی سال گزرنے کے باوجود چشمہ خشک نہیں ہوا۔ یہ چشمہ چاروں طرف سے چٹانی پہاڑیوں میں گھرا ہوا ہے۔ دیکھنے والوں کو لگتا ہے کہ جیسے یہ زمین کا انمول ترین حصہ ہو۔ بڑی بڑی چٹانوں کے بیچ کھڑا چشمے کا سبز پانی قدرت کا طلسماتی کرشمہ محسوس ہوتا ہے اور اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی افسانوی منظر ہو۔ پہاڑوں کی ساخت ایسی ہے کہ ان پر چڑھنا آسان ہے۔ اونچائی پر جا کر سبز پانی پر نظر ڈالی جائے تو انسان خود کو کسی سمندری جزیرے یا پھر جادوئی وادی میں محسوس کرتا ہے۔

لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس وادی نما چشمے کا رخ کرتی ہے۔ خاص طور پر یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات بڑی تعداد میں پکنک اور تفریح کے لیے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ ویک اینڈ پر یہاں لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ اس چشمے کی خوبصورتی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مشہور پاکستانی فلم ’’عشقِ خدا‘‘ کے ایک گانے کی شوٹنگ اسی مقام پرکی گئی، جبکہ دیگر بہت سی دستاویزی فلمیں بھی اس چشمے کے بارے میں بنائی گئی ہیں۔ نامی گرامی فوٹو گرافرز یہاں فوٹو گرافی کے لیے آتے رہتے ہیں۔ سیلفی فوبیا میں مبتلا نوجوانوںکے لیے یہ جگہ بہترین ہے، البتہ تفریح کے لیے آنے والے نوجوانوں کو احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ چند سال قبل کچھ نوجوانوں نے غیر دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے پہاڑ کے اوپر سے چشمے کے پانی میں چھلانگ لگا دی، بدقسمتی سے نوجوان کسی نوکیلے پتھر پر جا کر گرا اور زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ لہٰذا نوجوان یہاں تفریح کی غرض سے ضرورآئیں، لیکن خود کو کسی ایسے ایڈونچر میں مبتلا نہ کریں جس سے جان جانے کا خدشہ ہو۔

قدرت کی کاری گری سے وجود میں آنے والی ایک اور انتہائی خوبصورت جھیل فیصل آباد روڈ پر پْل 11 کے قریب چک نمبر 107 جنوبی میں ہے جس کو ’’Mysterious murky lake ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ وسیع و عریض جھیل اپنے نام کی طرح ہی پر اسرار ہے۔ چک 107 جنوبی کے آس پاس کچھ عرصہ قبل بلند وبالا پہاڑیاں ہوتی تھیں جنہیں کرشنگ کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔ کرشنگ کا عمل آخری مراحل میں تھا کہ پہاڑی ٹکڑیوں کے آس پاس پانی قدرتی طور پر ابھرنا شروع ہوگیا۔ بڑھتے بڑھتے اس پانی نے ایک بڑی جھیل کی صورت اختیار کرلی۔ عوام کے لیے جھیل کا وجود میں آنا معجزے سے کم نہ تھا۔ روز بروز بڑھتے پانی کی وجہ سے کرشنگ کا عمل رک گیا اور پہاڑیوں کے کچھ حصے معدوم ہونے سے بچ گئے۔ شاید قدرت ان پہاڑیوں کا نام و نشان مکمل طور پر مٹانا نہیں چاہتی تھی اسی لیے یہاں جھیل بن گئی۔

مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ بعض جگہوں پر اس جھیل کی گہرائی 50 فٹ تک بھی ہے۔ شام کے وقت جب پہاڑیوں کے درمیان سے جھانکتے سورج کی کرنیں چشمے کے پانی پر پڑتی ہیں تو ایک الگ ہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ پورا چشمہ سنہری کرنوں میں جگمگا رہا ہوتا ہے۔ انسان اس منظر میں کھو کر خود کو کسی دیومالائی داستان کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سارے جہاں کی خوبصورتی کچھ لمحوں کے لیے اس چشمے کے کنارے منجمد ہو گئی ہو۔ پہاڑیوں کے اوپر سے سورج کی زرد کرنیں جب شفاف پانی پر پڑتی ہیں تو پانی میں مزید کشش سی پیدا ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر غروب آفتاب کا منظر مبہوت کر دینے والی خوبصورتی کا حامل ہوتا ہے۔ اور جب ان جھیلوں کا پانی چاندنی راتوں میں چاند کی دودھیا روشنی میں نہاتا ہے تو مزید مسحور کن ہو جاتا ہے، ایسا کہ جو دیکھنے والوں کا دل موہ لے، دھڑکنوں میں مدوجزر پیدا کر دے اورانسان چاہنے کے باوجود کشش سے نہ نکل پائے۔ ایسے درجنوں قابل دید نظارے ہیں کہ انسان گھنٹوں جھیل کنارے کسی چٹان پر بیٹھ کر خاموشی سے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہوتا رہے۔قدرت کی صناعی دیکھیے کہ اس جھیل کے اندر بڑی تعداد میں مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ جھیل کا پانی اکٹھا ہوتا گیا اور اس کے ساتھ ہی آبی حیات بھی اس جھیل میں پیدا ہونے لگی۔

مقامی لوگوں کے مطابق یہاں کچھ لوگوں نے مچھلیاں خرید کر چھوڑی تھیں جنہوں نے افزائش نسل کے ذریعے اپنی تعداد میں اضافہ کیا۔ رنگ برنگی مچھلیاں اس جھیل میں کثرت سے پائی جاتی ہیں جو جھیل کے حسن میں اضافے کا باعث تو ہیں ہی، اسی کے ساتھ عوام کے لیے بھی دلچسپی کا سامان کر رہی ہیں۔ تفریح کی غرض سے میں کئی مرتبہ اس مسحور کن جگہ جا چکا ہوں۔یہاں مجھے دو نوجوان رضوان نیازی اور محمد افتخار ملے جنہوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔ یہ دونوں نوجوان بنیادی طور پر ڈرائیور ہیں، لیکن اس جھیل میں پائی جانے والی مچھلیوں سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں اور اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ کوئی بھی مچھلی بھوکی نہ مرے اور نہ ہی کوئی ان کا شکار کرے۔ وہ بلاناغہ مچھلیوں کو چارہ ڈالتے ہیں۔ جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو وہ جھیل کنارے بیٹھے مچھلیوں کو روٹیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ڈال رہے تھے اور روٹی کا ٹکڑا کھانے کے لیے مچھلیوں کی دلچسپ اچھل کود جاری تھی۔ یہ بڑا قابل دید منظر تھا۔ کنارے پر مچھلیاں غول کی صورت اکٹھی تھیں۔ نوجوان جدھر کھانا پھینکتے، یہ اْدھر پہنچ جاتیں۔ جب تک مچھلیوں کا پیٹ نہیں بھر گیا، نوجوانوں نے اپنی سرگرمی جاری رکھی۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا: ’’جھیل میں ان ننھی مچھلیوں کی غذائی ضرورت پوری کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں، اس لیے ہم روزانہ مچھلیوں کے لیے چارے کا بندوبست کرتے ہیں، اور کوشش کرتے ہیں کہ کسی بھی شخص کو ان کا شکار نہ کرنے دیں۔ کیونکہ یہ بے ضرر اور نازک مخلوق پہلے ہی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے؛ اگر ان کا شکار کیا گیا تو شاید اس جھیل میں یہ آبی مخلوق باقی نہ رہے۔‘

ان دو نیک دل بندوں کی وجہ سے یہ مچھلیاں انسانوں سے اس قدر مانوس ہو چکی ہیں کہ آسانی سے پانی میں ہاتھ ڈال کر ان کو پکڑا جا سکتا ہے؛ یہ دور نہیں بھاگتیں۔ میں نے خود بھی جھیل کے پانی میں ہاتھ ڈال کر اس کا تجربہ کیا، بہت سی ننھی منی مچھلیاں میرے ہاتھوں سے ٹکرائیں تو پورے جسم میں گدگدی کا احساس ہوا۔ ان مچھلیوں کو چھو کر جو مسرت ہوئی وہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر پارہا۔ اس جھیل کے پاس بھی دیگر چشموں کی طرح رنگ برنگے اور انتہائی خوبصورت پنچھی اڑانیں بھرتے اور پانی میں سے کیڑے مکوڑوں کا شکار کرتے نظر آتے ہیں۔ ان پنچھیوں کی موجودگی سے اس جھیل کی خوبصورتی کو چار چاند لگ گئے ہیں۔ نایاب نسلوں کے یہ پرندے صرف جھیلوں، چشموں اور دریاؤں کے کنارے ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پہاڑیوں کے درمیان پرندوں کی دلفریب چہچہاہٹ من کو خوب بھاتی ہے اور ان کی وجہ سے ماحول کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

ایک اور چشمہ پل 111 سے چند کلو میٹر دور واقع علاقہ نشترآباد میں ہے۔ پہاڑیوں میں گھرا یہ علاقہ ایک قدرتی وادی کی طرح ہے، یہاں بھی پہاڑیوں میں جاری اسٹون کرشنگ کے نتیجہ میں چشمہ وجود میں آیا۔ اسی طرح شاہین آباد کے چک نمبر 123 جنوبی کی قریبی پہاڑیوں، پل111 کے چک نمبر 107 جنوبی اور نشتر آباد کے چک نمبر 120 جنوبی تک درجنوں چشمے اور جھیلیں ہیں جو قدرت کی طرف سے انمول تحفہ ہیں۔ خاص طور پر چک نمبر 123 جنوبی میں لاتعداد چشمے ہیں جن کا میں خود جائزہ لے چکا ہوں۔ ان پہاڑیوں میں نجانے اور کتنے چشمے ہوں گے جن تک عام آدمی کی رسائی نہیں۔ ان پہاڑیوں کی جانب عام آدمی خال خال ہی آتے ہیں جن میں اسٹون کرشنگ کا کام جاری ہے، کیونکہ اکثر و بیشتر بلاسٹنگ کی وجہ سے حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ ٹھیکیدار اکثر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متعین وقت کے بعد بھی بلاسٹنگ کا عمل جاری رکھتے ہیں، جس سے انجان لوگ خاص طور پر حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ باردو جب پھٹتا ہے تو پتھر بڑی دور تک گرتے ہیں۔گزشتہ ساڑھے چار سال کے دوران میں بارہا ان پہاڑیوں میں وقت گزارنے کے لیے آچکا ہوں، یہاں گزرے سحر انگیز لمحات میں الگ ہی ترنگ ہے۔ نجانے کیوں! شاہین آباد سے لیکر پل 111 و نشتر آباد تک پھیلی پہاڑیاں، چشمے اور جھیلیں بار بار مجھے اپنی طرف بلاتی ہیں۔ ان کی خوبصورتی، افسانوی ماحول مجھے پکارتا ہے کہ آؤ! تم مجھے سراہنے والے ہو، قدر شناس ہو، آؤ اور کیمرے کی آنکھ و ستائشی الفاظ میں مجھے قید کرکے دنیا کو دکھاؤ اور بتاؤ کہ ہم قدرت کا انمول تحفہ ہیں، قدرت کی کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ کس طرح پہاڑوں کو چیر کر پانی اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔

میں نے سرگودھا کے پہاڑی سلسلوں کا بہت باریکی سے جائزہ لیا ہے، نت نئے اور انمول مناظر دیکھے، نئے چشمے پھوٹتے دیکھے، پہاڑوں سے پانی بہہ کر کیسے ایک چشمے میں بدلتا ہے، جھیل کی صورت اختیار کر لیتا ہے، اس بات کا مشاہدہ کیا ہے۔مجھے ہمیشہ اس بات کا جنون رہا ہے کہ مظاہر قدرت کو قریب سے دیکھوں، سرگودھا آیا تو یہاں کے پہاڑی سلسلوں اور جھیلوں و چشموں کا ایسا سحر طاری ہوا کہ میں بار بار ان پہاڑیوں میں قدرت کی کاریگری کو قریب سے دیکھنے کے لیے آیا۔ مجھ پر یہ جنون سوار رہا کہ میں ان پہاڑیوں میں پھیلے مزید چشموں کی کھوج لگاؤں کہ جن کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ میرا یہ جنون مجھے اکثر طویل اور انجان سفر پر جانے کے لیے اکساتا۔ اسی جنون کے تحت ایک مرتبہ میں شاہین آباد کے چک نمبر 123 جنوبی کے گرد و نواح میں پھیلی پہاڑیوں کا جائزہ لینے نکلا تو حیرت انگیز مناظر میرے منتظر تھے۔لند و بالا پہاڑیوں کے درمیان خاصی گہرائی میں تقریباََ چار سے پانچ ایکڑ پر مشتمل جگہ پر ایک نیا چشمہ وجود میں آ رہا تھا، میں نے پانی کا ماخذ ڈھونڈنے کی کوشش کی تو مختلف پہاڑیوں سے تھوڑا تھوڑا پانی بہہ کر نیچے آتا دکھائی دیا۔ میرے لیے یہ بات حیرانی کا باعث تھی۔ مقامی لوگوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ گرد و نواح میں بہت گہرائی تک بلاسٹنگ کرکے پتھر نکالے گئے ہیں۔ حتیٰ کہ چٹانوں کے نیچے کا زیر زمین پانی اپنی سطح سے ابھر رہا ہے اور پہاڑیوں کی درزوں سے ہوتا ہوا اس جگہ اکٹھا ہو رہا ہے۔ اس چشمہ کی وجہ سے کرشنگ کا عمل رکا ہوا تھا اور آہستہ آہستہ پہاڑیوں کی دراڑوں سے آنے والا پانی ایک جگہ اکٹھا ہوتا جا رہا تھا۔ میں نے پانی چکھ کر دیکھا تو وہ بارش کا پانی ہرگز نہیں تھا۔ اس پانی کا ذائقہ کلر کہار کے چشموں جیسا تھا۔ چمکتا ہوا صاف شفاف پانی بلند و بالا پہاڑیوں کے درمیان بہت ہی خوبصورت منظر پیش کررہا تھا۔ اس سے بھی مزے کی بات یہ دیکھی کہ رنگ برنگے پرندوں نے یہاں رونق لگا رکھی تھی، گویا انہیں اندازہ ہو کہ اب اس جگہ بڑا چشمہ وجود میں آنے والا ہے، اور ایسا ہی ہوا۔ چند ماہ بعد دوبارہ اس جگہ آنے کا اتفاق ہوا تو میری حیرت دو چند ہوگئی، کیونکہ نہ صرف اس جگہ اب بہت ہی بڑا چشمہ دیکھا بلکہ آس پاس کی پہاڑیوں میں مزید چشمے وجود میں آچکے تھے۔

اسٹون کرشنگ انڈسٹری سے وابستہ مافیا کے لوگ پہاڑیوں کو تو مٹا ہی رہے ہیں، ساتھ ہی وہ ان جھیلوں اور چشموں کے بھی دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ان جھیلوں اور چشموں کو ختم کرنے کے لیے نت نئے طریقے آزمائے جارہے ہیں، بڑے ٹیوب ویل لگا کر چشموں اور جھیلوں کا پانی ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، پانی خشک کرنے کے لیے چشموں میں خاکہ (پتھروں سے بجری تیار کرنے کے دوران بننے والا پسا ہواملبہ جو مٹیالے رنگ کا ہوتا ہے اور پانی تیزی سے جذب کرتا ہے) پھینکا جا رہا ہے۔ الغرض ان چشموں کا خاتمہ کرنے کا ہر حربہ آزمایا جا رہا ہے۔ لیکن قدرت کو بھی شاید ان چشموں اور جھیلوں کا مٹنا منظور نہیں، کچھ جگہوں پر ان چشموں کو خشک کرنے کی کوششیں کامیاب بھی ہوجاتی ہیں، تاہم چند ہی دنوں بعد کسی اور جگہ سے نیا چشمہ وجود میں آنے لگتا ہے۔انسانوں کے ہاتھوں شب و روز شکست و ریخت، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی پہاڑیاں نوحہ کناں ہیں۔ کوئی تو سنے کہانی ان پہاڑیوں کی کہ جنہوں نے اپنا وجود کھونے کے باجود سرگودھا کے عوام کو خوش نما چشموں اور جھیلوں کا تحفہ دیا۔ سچ میں یہ پہاڑ اپنے قد سے بڑھ کر قد آور ہیں۔

کہتے ہیں کہ جب پہاڑ غمزدہ ہوتے ہیں تو ان سے چشمے پھوٹتے ہیں۔ جب ضبطِ غم نہیں رہتا تو طیش میں آ کر لاوا اگلتے ہیں اور سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتے ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ بلاسٹنگ اور کرشنگ کی صورت میں جب انہیں ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ غضب ناک ہو کر لاوا نہیں اْگلتے، بلکہ ان سے خوشنما چشمے پھوٹتے ہیں؛ اور شاید یہ ان پہاڑیوں کا اظہارِ غم کا نرالا انداز ہے۔سرگودھا کے پہاڑی سلسلوں میں واقع قدرتی چشمے اور جھیلیں کہ جہاں جا کر مجھے ہمیشہ خوشی محسوس ہوئی، ان مناظر میں ایک طلسماتی حسن ہے کہ جیسے کوہ قاف میں واقع کوئی کرشماتی جگہ، جہاں حسین پریاں میٹھے پانی کے بہتے جھرنے جیسی ا?واز میں نغمے گنگاتی ہوں اور ان کی آواز پہاڑیوں سے گھری وادی میں گونجتی ہو، اور فطرت کے دیوانوں کو اپنی جانب کھینچتی ہوں۔ جھیل کے بیچوں بیچ بنی پگڈنڈی پر پیدل چلنے کا الگ ہی مزہ ہے۔ یہ جگہیں میری ہی نہیں بلکہ میرے جیسے ہزاروں لوگوںکے لیے تفریح کا ذریعہ ہیں۔ لوگ ان مقامات پر آتے ہیں اور خوشگوار یادوں کے ساتھ لوٹتے ہیں۔ضلعی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ کرانہ پہاڑیوں میں پائے جانے والے چشموں اور جھیلوں کو سیاحتی مراکز کا درجہ دے۔ ان کا پانی صاف شفاف ہے لیکن ارد گر کی پہاڑیوں پر جو تھوڑی بہت جھاڑیاں ہیں ان کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ پہاڑیوں پرچڑھنے کے لیے راستے بنائے جاسکتے ہیں۔ چشموں کے گرد باڑ لگا کر حفاظتی اقدامات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ انفارمیشن سینٹر بنا کر سیروتفریح کے لیے آنے والوں کی رہنمائی کی جاسکتی ہے۔ وہاں کھانے پینے کے اسٹال مقامی آبادی خود لگا لے گی۔اگر تھوڑی سی مخلصانہ کوششیں کی جائیں تو سرگودھا کے لوگوں کو معیاری تفریح گاہیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ قدرت کے ان انمول تحفوں کی حفاظت کا بھی بندوبست ہوجائے گا۔ سرگودھا میں ویسے بھی تفریحی مقامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حکومتی نمائندگان کو چاہیے کہ وہ ان جھیلوں اور چشموں کی موجودگی سے فائدہ اٹھائیں اور معمولی سی سرمایہ کاری کرکے ان جگہوں کو عوامی تفریحی مرکز بنا دیں۔ اگر حکومتی نمائندگان ایسا کوئی بھی اقدام کرتے ہیں تو ان کو عوامی پذیرائی ملے گی۔


متعلقہ خبریں


عمران خان نے بات چیت کا ٹاسک دیا ہے ، وزیر اعلیٰ کے پی وجود - جمعرات 02 مئی 2024

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ کوئی بات ہوگی تو سب کے سامنے ہوگی اور کوئی بات چیت کسی سے چھپ کر نہیں ہوگی،بانی پی ٹی آئی نے نہ کبھی ڈیل کی ہے اور نہ ڈیل کے حق میں ہیں، یہ نہ سوچیں کہ وہ کرسی کیلئے ڈیل کریں گے ۔میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گن...

عمران خان نے بات چیت کا ٹاسک دیا ہے ، وزیر اعلیٰ کے پی

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبہ کا احتجاج یونان اور لبنان تک پہنچ گیا وجود - جمعرات 02 مئی 2024

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف طلبہ کے احتجاج کا سلسلہ دنیا بھر کی جامعات میں پھیلنے لگا۔امریکا، کینیڈا، فرانس اور آسٹریلیا کی جامعات کے بعد یونان اور لبنان کی جامعات میں بھی طلبہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرہ کیا۔امریکی جامعات میں احتجاج کا سلسلہ تیرہویں روز بھی...

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبہ کا احتجاج یونان اور لبنان تک پہنچ گیا

کے ایف سی بائیکاٹ جاری، ملائیشیا میں 100سے زائد ریستوران بندکرنے پر مجبور وجود - جمعرات 02 مئی 2024

غزہ میں مظالم کے خلاف اسرائیل کی مبینہ حمایت کرنے والی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی مہم میں شدت آتی جا رہی ہے ۔ معروف امریکی فوڈ چین کے ایف سی نے ملائیشیا میں اپنے 100 سے زائد ریستوران عارضی طور پر بند کرنیکا اعلان کر دیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ملائیشیا میں امریکی فوڈ چین کی فرنچائز کم...

کے ایف سی بائیکاٹ جاری، ملائیشیا میں 100سے زائد ریستوران بندکرنے پر مجبور

پتا نہیں وہ ہمیں ڈانٹ رہے تھے یا اپنے سسرال والوں کو؟فضل الرحمان کا کیپٹن صفدر کے خطاب پر طنز وجود - جمعرات 02 مئی 2024

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو طنز کا نشانہ بنایا ہے ۔لاہور میں فلسطین کانفرنس سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ یہاں بلاوجہ شہباز شریف کی شکایت کی گئی اس بیچارے کی حکومت ہی...

پتا نہیں وہ ہمیں ڈانٹ رہے تھے یا اپنے سسرال والوں کو؟فضل الرحمان کا کیپٹن صفدر کے خطاب پر طنز

کرپشن کا ملک سے خاتمہ ہونے والا ہے ، شہباز شریف وجود - جمعرات 02 مئی 2024

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کرپشن کا ملک سے خاتمہ ہونے والا ہے ، ہم سب مل کر پاکستان کو انشااللہ اس کا جائز مقام دلوائیں گے اور جلد پاکستان اقوام عالم میں اپنا جائز مقام حاصل کر لے گا۔لاہور میں عالمی یوم مزدور کے موقع پر اپنی ذاتی رہائش گاہ پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ ا...

کرپشن کا ملک سے خاتمہ ہونے والا ہے ، شہباز شریف

ووٹ دیں یا1947 جیسی صورتحال کیلئے تیار رہیں،بی جے پی کی مسلمانوں کو دھمکیاں وجود - جمعرات 02 مئی 2024

غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کے رہنما راجوری اور پونچھ میں مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ یا تو سنگھ پریوار کے حمایت یافتہ امیدوار کو ووٹ دیں یا1947 جیسی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق 1947میں جموں خطے میں ہن...

ووٹ دیں یا1947 جیسی صورتحال کیلئے تیار رہیں،بی جے پی کی مسلمانوں کو دھمکیاں

تحریک انصاف کا مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ وجود - بدھ 01 مئی 2024

پی ٹی آئی نے جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ۔ذرائع کے مطابق تحریک انصاف نے مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ، جے یو آئی ف کے سربراہ کو احتجاجی تحریک میں شامل ہونے کے لیے باقاعدہ دعوت دی جائے گی۔ذرائع کے مطابق مذاکراتی ک...

تحریک انصاف کا مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ

حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا وجود - بدھ 01 مئی 2024

حکومت نے رات گئے پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان کردیا۔ وزیراعظم نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی منظوری دے دی۔ وزارت خزانہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 5 روپے 45پیسے کمی کے بعد نئی قیمت 288روپے 49پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے ۔ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 8 روپ...

حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا

رانا ثناء وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور تعینات وجود - بدھ 01 مئی 2024

مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو وزیراعظم شہباز شریف کا مشیر برائے سیاسی و عوامی امور تعینات کر دیا گیا۔ن لیگی قیادت نے الیکشن 2024ء میں اپنی نشست پر کامیاب نہ ہونے والے رانا ثناء کو شہباز شریف کی ٹیم کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ذرائع کے مطابق وزی...

رانا ثناء وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور تعینات

پبلک اکائونٹس کمیٹی کیلئے شیر افضل مروت کا نام فائنل کرلیا گیا وجود - بدھ 01 مئی 2024

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کیلئے شیر افضل مروت کا نام فائنل کر لیا گیا ہے ۔ اڈیالہ جیل کے باہر گفتگو کے دوران بیرسٹر گوہر نے کہا کہ شیر افضل مروت کا نام فائنل ہونے پر تمام تنازعات ختم ہو چکے ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ کچھ دنوں سے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے لیے شیر افضل مروت کے نام پر تحریک انصاف...

پبلک اکائونٹس کمیٹی کیلئے شیر افضل مروت کا نام فائنل کرلیا گیا

تیزاب پھینکنے کا الزام، شہزاد اکبر کی حکومت پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی تیاری وجود - بدھ 01 مئی 2024

گزشتہ سال نومبر میں تیزاب پھینکنے کے الزام کے حوالے سے سابق وفاقی حکومت کے مشیر شہزاد اکبر نے حکومت پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی تیاری کر لی۔شہزاد اکبر نے قانونی کارروائی کی کاپی لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کو بھجوا دی۔شہزاد اکبر نے دعویٰ کیا کہ تیزاب حملے کے پیچھے حکومت پا...

تیزاب پھینکنے کا الزام، شہزاد اکبر کی حکومت پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی تیاری

شہباز شریف ، بلاول حکومت پی ٹی آئی کے حوالے کردیں، مولانا فضل الرحمان وجود - منگل 30 اپریل 2024

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ملین مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں روکنے کی کوشش کرنے والا خود مصیبت کو دعوت دے گا۔تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر کے زیر صدارت شروع ہوا جس میں پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر ا...

شہباز شریف ، بلاول حکومت پی ٹی آئی کے حوالے کردیں، مولانا فضل الرحمان

مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر