وجود

... loading ...

وجود
وجود

مسلم کش فسادات کے ذمے دارہندوئوں پربی جے پی مہربان ‘انعامات کی برسات کردی

پیر 25 ستمبر 2017 مسلم کش فسادات کے ذمے دارہندوئوں پربی جے پی مہربان ‘انعامات کی برسات کردی

رابعہ عظمت
’’ہمارے لیے اپنے خاندان کو چلانا بہت مشکل کام ہے۔ میرے بچے زیادہ تر بھوکے ہی رہتے ہیں اور مجھے کام حاصل کرنے اور کچھ کمانے کے لیے گھر سے باہر ہی رہنا پڑتا ہے۔ حکومت نے ہم سے پانچ لاکھ فی گھرانہ امداد دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن آج اتنے سال گزرنے کے بعد بھی امداد کے نام پر ایک پھوٹی کوڑی تک نہیں دی گئی ہے‘‘۔یہ جملے بھارتی ریاست اتر پردیش کے مسلم اکثریتی علاقے مظفر نگر فساد کی متاثرہ عمرانہ کے ہیں۔ 2013ء میں ہوئے مسلم کش فسادات نے ان کی اور ان کے بچوں کی زندگیوں کو اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ انہیں دھمکیاں دی گئیں، ان پر حملہ کیا گیا اور اپنا گھر، گاؤں چھوڑنے پر مجبور کیا گیا جن کے وہ کبھی مالک تھے۔ 2013ء میں اتر پردیش کی ریاستی حکومت نے معاوضے کے نام پر انہیں 5 لاکھ بطور معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی تک انہیں وہ رقم نہیں مل پائی ہے۔
7 ستمبر 2013ء کو مظفر نگر شہر کے باہر ایک گاؤں کے ایک بڑے اجتماع میں وہاں کی بااثر جاٹ کمیونٹی کے ہندو سیاسی رہنماؤں نے لوگوں کے ایک مجمع سے خطاب کیا۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ ایک تنازع میں ہونے والے دو ہندوؤں کے قتل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ بھارتی جنتا پارٹی کے رہنما اور اس کے ذریعے اشتعال انگیر تقریریں کی گئیں، بس اس قتل کا بدلہ لینے کے لیے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا گیا۔
اس اجتماع کے بعد مسلم رہائشی علاقوں میں آگ بھڑک اٹھی اور آناََ فاناََ مسلمانوں کے گھر نذرآتش، املاک کی لوٹ مار اور خواتین کی عصمت دری کا وحشیانہ کھیل کھیلا گیا۔ آج چار سال گزرنے کے بعد بھی یہاں خوف کا ماحول قائم ہے۔ مسلم کش فساد میں ملوث ہندو جاٹ بی جے پی رہنما سنجیو بالیان کو انعام کے طور پر رکن اسمبلی بنادیا گیا اور مسلمان خواتین کے خلاف جرائم میں ملوث دیگر مجرم بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔
ان میں سے بیشتر بھگوا حکومت کا سیاسی حصہ بن چکے ہیں۔مظفر نگر فساد میں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو اپنا گھر بار چھورنا پڑا اور آج بھی وہ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ فساد سے متاثر مسلمان خاندان پناہ گزینوں کی طرح اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ان میں شامل بچے اپنے خاندان گھر اور بچپن سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ ان پناہ گزینوں کی بستی میں رہائش پذیر اب واپس اپنے علاقوں میں نہیں جانا چاہتے۔
46 سالہ مناظرہ کا کہنا ہے کہ چار سال پہلے وہاں ایک علاقے کو ٹبا میں رہتی تھی لیکن اب فساد متاثرین کی ایک بستی میں ہے۔ موجودہ ایم پی اور وزیر سنجوبالیان کا تعلق اسی گاؤں کوٹبا سے ہے۔ آج سے چار سال پہلے ہندو بلوائیوں نے پہلا حملہ اسی گاؤں پر کیا تھا اور 8 مسلمانوں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔اس گاؤں کی آبادی 8 ہزار سے زائد ہے اس گاؤں میں رہنے والے مسلمانوں پر باقاعدہ منصوبہ بندی سے حملہ کیا گیا تھا۔
فساد متاثرین مومن کا کہنا ہے کہ یہاں رہنے والے تمام مسلمان جاٹوں کو ووٹ دیتے تھے۔ اور کہا کہ گاؤں لا پردھان ہمارے گھر آیا اور کہا تھا کہ کوئی مسلمان بالکل نہ ڈرے آپ لوگوں کو کچھ نہیں ہوگا۔ مومن نے مزید بتایا کہ جگہ جگہ سے فساد کی خبریں آرہی تھیں۔ صبح کو پردھان نہیں آیا تو ہم ان کے گھر گئے۔ ہم وہاں ہی تھے کہ ’’باہر شور مچا اور بھیڑ ہمارے محلے کی طرف بڑھ گئی۔
‘‘65 سالہ قدیم الدین نے اس فساد میں اپنی بیوی کو کھویا وہ بتا رہے تھے جیسے ہی ہجوم آیا اس نے اندھا دھند فائرنگ کی جس میں میری بیوی کی گردن میں گولی لگی۔ وہ وہیں مرگئی، ہم سب ایک چھت پر چڑھ گئے ، پولیس کو گاؤں میں آنے کی جرات نہیں ہوئی، فوج آئی تب ہمیں اپنے ساتھ لے گئی۔ مہدی حسن کہتے ہیں پہلے ہمیں تھانے میں لے جایا گیا،پھر ہمیں گاؤں کے پردھان مدرسے میں لے گئے جہاں ہم کئی دنوں تک ڈرے سہمے رہے۔
محمد یعقوب کہتے ہیں وہ بہت برادن تھا، گاؤ ں میں دو مسجدیں ہیں وہ بھی بند کردی گئی ہیں۔ گاؤں میں لڑکے پستول لے کر گھوم رہے تھے اور کسی نے انہیں نہیں روکا،ہمیں پہلے ہی آجانا چاہیے تھا۔ واضح رہے کہ اس گاؤں میں مسلمانوں کے قتل میں ملوث ملزموں کی ضمانتیں ہوچکی ہیں اور وہ آزاد ہیں۔ تاہم بے گھر خاندانوں کے لیے حکومتی معاوضہ اور انصاف ایک مذاق بن چکا ہے اور وہ آج بھی پناہ گزین کیمپوں میں خستہ حالی اور غلاظت کے ڈھیر پر رہ رہے ہیں کیونکہ انہیں ریاستی حکومت کی جانب سے معاوضہ نہیں دیا گیا کہ وہ ایک خاندان کی تصدیق پر پورا نہیں اترتے ہیں۔
65 سالہ یامین حمید کو اس لیے معاوضہ دینے سے انکار کردیا گیا کہ اس کے والد کو پہلے ہی امداددی جا چکی ہے ۔حالانکہ یامین کے والد کا 1985ء میں انتقال ہوچکا ہے۔ خاندان نے معاوضہ کے حصول کے لیے موت کے سرٹیفیکیٹ کو بھی استعمال کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام رہے۔ محمد شفیع کو بھی حکومتی معاوضہ نہیں ملا کہ اس کے والد پہلے ہی وصول کرچکے ہیں، اس کے والد کی وفات 30 سال قبل ہوچکی ہے۔
انسانی حقوق کا رکن اکرم اختر چودھری کا کہنا ہے کہ ریاست کے بہت سے ایسے خاندانوں کو نظر انداز کرنا ہے کہ جو معاوض کے اہل ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ بتائیں چار بھائی جنہوں نے اپنی زمین اپنا گھر سمیت ہر وہ چیز جس کے مالک تھے چھوڑ دیا ہے اور جو شادی شدہ ہیں اور ان کے پاس بچے ہیں؟ یہاں تک کہ بہت سے خاندانوں کو ریاست کی طرف سے اس بات کا جواب بھی نہیں ملا ہے انہیں معاوضہ دینے سے کیوں منع کردیا گیا ہے۔
فساد متاثرین کے مطابق حکومت کی جانب سے کئے گئے سروے تعصب پر مبنی تھے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے ہندو پڑوسیوں کی گواہیوں پر اعتما د کیا جن کے بارے میں امکان ہے کہ وہ خود ان فسادار میں ملوث رہے ہیں۔ پناہ گزین بستیوں میں قیام پذیر مسلمانوں کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ بستیاں بنیادی سہولیات سے ہنوز محروم ہیں صاف پانی پینے کی دقت ہے۔
بیت الخلاء کی سہولت میسر نہیں ، بجلی تو بالکل نہیںآ تی ، پانی کے پمپ سے آنے والا پانی پیلا ہوتا ہے۔ بستی میں رہائش پذید وسیلہ کا کہنا ہے کہ ’’براہ مہربانی ہمیں بتائیں کہ ہم اس پانی کو کھانا پکانے اور پینے کے لیے کیسے استعمال کرسکتے ہیں۔‘‘ فساد متاثرہ خاندانوں کی مناسب رہائش ، پانی اور صفائی کے آئینی حقوق صرف کاغذوں پر موجود ہیں۔
اتر پردیش کی ریاستی حکومت اور موجودہ بی جے پی حکومت بھی ان بے گھر مسلمانوں کی دوبارہ بحالی میں ناکام ہوچکی ہیں۔ ان چار برسوں میں مسلم متاثرین کو بھی ووٹر آئی کارڈ بھی فراہم نہیں کیا گیا تھا اسی وجہ سے 2014ء کے عام انتخابات میں یہ سب حق رائے دہی سے محروم رہے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق مظفر نگر فساد میں جن خواتین کو بے آبرو کیا گیا تھا ملوث ملزموں میں ایک کو بھی سزا نہیں مل سکی۔
کئی خواتین نے دھمکیوں کی وجہ سے اپنے مقدمات بھی واپس لے لیے ہیں۔ اجتماعی عصمت دری کا شکار ہونے والی خواتین میں کچھ نے اعتراف کیا کہ انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا، ڈرایا دھمکایا گیا کیونکہ ان کی اور ان کے خاندانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑگئی تھیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایک متاثرہ خاتون کا کہنا ہے کہ ’’ ہم ابھی بھی گھر سے باہر نکلتے وقت خوف محسوس کرتے ہیں۔
قابل ذکر تو یہ ہے کہ ریاستی پولیس نے عصمت دری کے معاملات درج ہی نہیں کئے۔ ایف آئی آر درج کروانے طبی معائنہ کروانے اور ضلعی مجسٹریٹ کے سامنے بیان درج کروانے میں بھی تاخیر سے کام لیا گیا تھا۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق متاثرہ خاتون آرزو کی جانب سے چارج شیٹ ہی فائل نہ ہوسکی۔ دوسری متاثرہ خاتون بانو کا بھی یہی معاملہ ہے ان کا مقدمہ 2014ء میں بند کردیا گیا تھا۔
پھر سپریم کورٹ سے انہیں اجازت ملی کہ وہ ملزم کے خلاف اپنا بیان ریکارڈ کروائے۔ اس کیس میں عدالے نے بھی کوئی چارج فریم نہیں کیا اور عدالت میں ابھی ٹرائل شروع ہونے ہیں۔ تیسری متاثرہ خاتون چمن ہے جنہوں نے جان کے خطرے کے پیش نظر اپنا بیان بدل لیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ ملزم نہیں ہیں جنہوں نے ان پر تشدد کیا۔ چوتھی متاثرہ خاتون دلنا ز ہے انہوں نے بھی بیان دیا تھا اور ان کے خلاف جرم میں ملوث ملزم رہا ہوچکے ہیں۔
پانچویں متاثرہ ایشا ہے جن کا اگست 2016ء میں بچے کی پیدائش کے دوران انتقال ہوچکا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے کہ فسادات میں خواتین سے زیادتی اجتماعی تذلیل اور اہانت کا ایک ہتھیار بن گیاب ہے اور مجرموں کو سزا نہ ملنے کے باعث پوری برادری خوف کے سائے میں زندگی گزاررہی ہے۔ ایمنسٹی کے مطابق خواتین زیادتی کیسوں میں جان بوجھ کر تاخیر کی گئی اور بیشتر مقدمات کی ابھی تک سماعت ہی نہیں مکمل ہوسکی ہے۔
زیادتی کے ملزموں کو ضمانت پر رہا کیا جا چکا ہے اور بعض مقدمات میں تو چار برس گزرنے کے بعد بھی فرد جرم عائد تک نہیں کی گئی۔ متاثرین کے وکیل کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف سنگین جرائم کے چار برس بعد بھی ہم پر بھی حملے ہوچکے ہیں۔ ایک بار تو عدالت میں ہی ہوا تھا کیونکہ میں مقدمے کی پیروی کررہا ہوں۔ میں نہیں رہوں گا تو مقدمے کی پیروی کون کرے گا؟۔
بہت سی خواتین نے سماج کے خلاف اور ڈرسے اپنا مقدمہ ہی درج نہیں کروایا۔ انسانی حقوق کے ایک گروپ آل انڈیا ڈیمو کریٹک ویمنز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ زیادتی کا نشانہ بننے والی بعض خواتین نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس تک پہنچیں لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اجتماع عصمت دری میں ملوث درندوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی تو اس دیگر خواتین کے بھی حوصلے ٹوٹ گئے اور انہوں نے ایسے واقعات کی پولیس تھانوں میں رپورٹ کروانا ہی چھوڑ دی۔
جب 2012میں چلتی بس میں تشدد کا شکار ہونے والی نربھیا کے مجرموں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو پھر مسلمان عورتوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنانے والے ان وحشی درندوں کو سزا کیوں نہیں مل سکتی؟ اس لیے کہ یہ مسلمان عورتیں ہیں اور نربھیا ایک ہندو تھی۔ تاحال ان پناہ گزینوں کی بستیوں میں رہ رہے مفلسی وبدحالی کی تصویر بنے مہاجر مسلمان اپنی بے بسی ولاچاری پر آنسو بہارہے ہیں۔
آج چار سال گزرنے کے بعد بھی وہ اپنے گھروں کو لوٹ نہ سکے۔ نہ ہی معاوضہ ملا اور نہ ہی انہیں انصاف ، ان میں فسادات سے متاثرہ ہر شخص اپنے سینے میں ظلم کی ایک الگ داستان چھپائے بیٹھا ہوا ہے۔ کوئی اپنے بیٹے کو کھو چکا ہے کسی کی بیوی چھن گئی کوئی عورت اپنے شوہر کے قتل پر غمزدہ ہے اور اس کے ملزموں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنا چاہتی ہیں۔ ہزاروں مسلمانوں کے اثاثے لوٹ لیے گئے۔ درجنوں شیر خوار بچوں کو اپنے والدین سے چھین کر جان سے ماردیا گیا۔ کئی خواتین کی عصمتیں تارتار کردی گئیں وہ ہنوز انصاف کے منتظر ہیں۔


متعلقہ خبریں


حکومت کاگندم بحران کی جامع تحقیقات سے گریز وجود - پیر 06 مئی 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے ’ہر قیمت پر کسانوں کے مفادات کا تحفظ‘کرنے کا عہد کیا ہے ، جبکہ وفاقی حکومت میگا اسکینڈل کی جامع تحقیقات کرنے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے ۔تفصیلات کے مطابق گزشتہ ہفتے درآمدات میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے...

حکومت کاگندم بحران کی جامع تحقیقات سے گریز

سعودی وفد کادورہ پاکستان، 10ارب ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدے متوقع وجود - پیر 06 مئی 2024

سعودی تجارتی وفد سرمایہ کاری کے باہمی تعاون کیلئے پاکستان پہنچ گیا۔ سعودی عرب کے نائب وزیر سرمایہ کاری ایچ ای ابراہیم المبارک کی قیادت میں 50ارکان پر مشتمل اعلیٰ سطحی تجارتی وفد پاکستان پہنچا۔ سرمایہ کاروں کے وفد کے دورہ پاکستان کے دور ان 10 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کے معاہدوں ...

سعودی وفد کادورہ پاکستان، 10ارب ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدے متوقع

اسرائیلی فوج کی طولکرم ،رفح میں وحشیانہ کارروائیاں ،8 فلسطینی شہید وجود - پیر 06 مئی 2024

اسرائیلی فوج کی وحشیانہ کارروائیاں جاری ہیں ، طولکرم میں مزید5 فلسطینی شہید کردئیے ، رفح میں ماں دو بچوں سمیت شہید جبکہ3 فلسطینی زخمی ہو گئے ۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فورسز نے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر طولکرم کے قریب ایک قصبے میں رات کو کارروائی کے دوران 5 فلسطینیوں ک...

اسرائیلی فوج کی طولکرم ،رفح میں وحشیانہ کارروائیاں ،8 فلسطینی شہید

فیصلہ کن گھڑی آچکی، ریونیوکلیکشن بڑا چیلنج ہے ، شہبا ز شریف وجود - اتوار 05 مئی 2024

وزیر اعظم محمد شہبا ز شریف نے کہا ہے کہ فیصلہ کن گھڑی آچکی ہے سب کو مل کر ملک کی بہتری کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا، پاکستان کو آج مختلف چیلنجز کا سامنا ہے ریونیوکلیکشن سب بڑا چیلنج ہے ،جزا ء اور سزا کے عمل سے ہی قومیں عظیم بنتی ہیں،بہتری کارکردگی دکھانے والے افسران کو سراہا جائے گا...

فیصلہ کن گھڑی آچکی، ریونیوکلیکشن بڑا چیلنج ہے ، شہبا ز شریف

احتجاجی تحریک میں شمولیت کی دعوت، حافظ نعیم الرحمان رضامند وجود - اتوار 05 مئی 2024

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں، ادارے آئین کی تابعداری کے لیے تیار ہیں تو گریٹر ڈائیلاگ کا آغاز ہوسکتا ہے ، ڈائیلاگ کی بنیاد فارم 45ہے ، فارم 47کی جعلی حکومت قبول نہیں کرسکتے ، الیکشن دھاندلی پر جوڈیشل کمیشن بنے جس کے پاس مینڈیٹ ہے اسے حکومت بنانے د...

احتجاجی تحریک میں شمولیت کی دعوت، حافظ نعیم الرحمان رضامند

شہباز سرکار میں بھی 98ارب51 کروڑ کی گندم درآمد ہوئی، نیا انکشاف وجود - اتوار 05 مئی 2024

ملک میں 8؍فروری کے الیکشن کے بعد نئی حکومت آنے کے بعد بھی 98 ارب51 کروڑ روپے کی گندم درآمد کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے ۔تفصیلات کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھی 6 لاکھ ٹن سے زیادہ گندم درآمد کی گئی، ایک لاکھ13ہزار ٹن سے زیادہ کا کیری فارورڈ اسٹاک ہونے کے باوجو...

شہباز سرکار میں بھی 98ارب51 کروڑ کی گندم درآمد ہوئی، نیا انکشاف

ٹیکس نادہندگان کی سم بلاک کرنے سے پی ٹی اے کی معذرت وجود - اتوار 05 مئی 2024

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے ) نے نان ٹیکس فائلر کے حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے اٹھائے گئے اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے 5لاکھ سے زائد سمز بند کرنے کی معذرت کر لی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے 2023 میں ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے والے 5...

ٹیکس نادہندگان کی سم بلاک کرنے سے پی ٹی اے کی معذرت

پیپلز بس کے کرائے کی ادائیگی کے لیے اسمارٹ کارڈ متعارف وجود - اتوار 05 مئی 2024

کراچی میں پیپلزبس سروس کے کرائے کی ادائیگی کے لیے اسمارٹ کارڈ متعارف کروا دیا گیا ۔ کراچی میں پیپلز بس سروس کے مسافروں کیلئے سفر مزید آسان ہوگیا۔ شہری اب کرائے کی ادائیگی اسمارٹ کارڈ کے ذریعے کریں گے ۔ سندھ حکومت نے آٹومیٹڈ فیئر کلیکشن سسٹم متعارف کرادیا۔ وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی ش...

پیپلز بس کے کرائے کی ادائیگی کے لیے اسمارٹ کارڈ متعارف

گندم ا سکینڈل، تحقیقاتی کمیٹی نے انوار الحق کاکڑ کو طلب کرلیا وجود - اتوار 05 مئی 2024

گندم درآمد اسکینڈل کی تحقیقاتی کمیٹی نے سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو طلب کرلیا۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ذرائع کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی نے اجلاس میں نگراں دور کے سیکریٹری فوڈ محمد محمود کو بھی طلب کیا تھا، جوکمیٹ...

گندم ا سکینڈل، تحقیقاتی کمیٹی نے انوار الحق کاکڑ کو طلب کرلیا

تاریخی سنگ میل عبور، پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان نے خلائی تحقیق کے میدان میں اہم سنگ میل عبور کرلیا، تاریخی خلائی مشن ’آئی کیوب قمر‘چین کے وینچینگ خلائی سینٹر سے روانہ ہو گیا جس کے بعد پاکستان چاند کے مدار میں سیٹلائٹ بھیجنے والا چھٹا ملک بن گیا ہے ۔سیٹلائٹ آئی کیوب قمر جمعہ کو2 بجکر 27 منٹ پر روانہ ہوا، جسے چینی میڈیا ...

تاریخی سنگ میل عبور، پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں،عمران خان وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے عدالتوں سے ان کے مقدمات کے فیصلے فوری طور پر سنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں۔بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل سے اہم پیغام میں کہا ہے کہ میں اپنے تمام مقدمات س...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں،عمران خان

بس مجھے قتل کرناباقی رہ گیا ہے ،غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا، عمران خان وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے کہا ہے کہ بس مجھے قتل کرنا رہ گیا ہے لیکن میں مرنے سے نہیں ڈرتا، غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا۔برطانوی جریدے دی ٹیلی گراف کے لیے جیل سے خصوصی طور پر لکھی گئی اپنی تحریر میں سابق وزیر اعظم نے کہا کہ آج پاکستانی ریاست اور اس کے عوام ایک دوسرے...

بس مجھے قتل کرناباقی رہ گیا ہے ،غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا، عمران خان

مضامین
کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

چور چور کے شور میں۔۔۔ وجود پیر 06 مئی 2024
چور چور کے شور میں۔۔۔

غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا وجود پیر 06 مئی 2024
غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا

بھارت دہشت گردوں کا سرپرست وجود پیر 06 مئی 2024
بھارت دہشت گردوں کا سرپرست

اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر