وجود

... loading ...

وجود

مسلم کش فسادات کے ذمے دارہندوئوں پربی جے پی مہربان ‘انعامات کی برسات کردی

پیر 25 ستمبر 2017 مسلم کش فسادات کے ذمے دارہندوئوں پربی جے پی مہربان ‘انعامات کی برسات کردی

رابعہ عظمت
’’ہمارے لیے اپنے خاندان کو چلانا بہت مشکل کام ہے۔ میرے بچے زیادہ تر بھوکے ہی رہتے ہیں اور مجھے کام حاصل کرنے اور کچھ کمانے کے لیے گھر سے باہر ہی رہنا پڑتا ہے۔ حکومت نے ہم سے پانچ لاکھ فی گھرانہ امداد دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن آج اتنے سال گزرنے کے بعد بھی امداد کے نام پر ایک پھوٹی کوڑی تک نہیں دی گئی ہے‘‘۔یہ جملے بھارتی ریاست اتر پردیش کے مسلم اکثریتی علاقے مظفر نگر فساد کی متاثرہ عمرانہ کے ہیں۔ 2013ء میں ہوئے مسلم کش فسادات نے ان کی اور ان کے بچوں کی زندگیوں کو اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ انہیں دھمکیاں دی گئیں، ان پر حملہ کیا گیا اور اپنا گھر، گاؤں چھوڑنے پر مجبور کیا گیا جن کے وہ کبھی مالک تھے۔ 2013ء میں اتر پردیش کی ریاستی حکومت نے معاوضے کے نام پر انہیں 5 لاکھ بطور معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی تک انہیں وہ رقم نہیں مل پائی ہے۔
7 ستمبر 2013ء کو مظفر نگر شہر کے باہر ایک گاؤں کے ایک بڑے اجتماع میں وہاں کی بااثر جاٹ کمیونٹی کے ہندو سیاسی رہنماؤں نے لوگوں کے ایک مجمع سے خطاب کیا۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ ایک تنازع میں ہونے والے دو ہندوؤں کے قتل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ بھارتی جنتا پارٹی کے رہنما اور اس کے ذریعے اشتعال انگیر تقریریں کی گئیں، بس اس قتل کا بدلہ لینے کے لیے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا گیا۔
اس اجتماع کے بعد مسلم رہائشی علاقوں میں آگ بھڑک اٹھی اور آناََ فاناََ مسلمانوں کے گھر نذرآتش، املاک کی لوٹ مار اور خواتین کی عصمت دری کا وحشیانہ کھیل کھیلا گیا۔ آج چار سال گزرنے کے بعد بھی یہاں خوف کا ماحول قائم ہے۔ مسلم کش فساد میں ملوث ہندو جاٹ بی جے پی رہنما سنجیو بالیان کو انعام کے طور پر رکن اسمبلی بنادیا گیا اور مسلمان خواتین کے خلاف جرائم میں ملوث دیگر مجرم بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔
ان میں سے بیشتر بھگوا حکومت کا سیاسی حصہ بن چکے ہیں۔مظفر نگر فساد میں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو اپنا گھر بار چھورنا پڑا اور آج بھی وہ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ فساد سے متاثر مسلمان خاندان پناہ گزینوں کی طرح اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ان میں شامل بچے اپنے خاندان گھر اور بچپن سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ ان پناہ گزینوں کی بستی میں رہائش پذیر اب واپس اپنے علاقوں میں نہیں جانا چاہتے۔
46 سالہ مناظرہ کا کہنا ہے کہ چار سال پہلے وہاں ایک علاقے کو ٹبا میں رہتی تھی لیکن اب فساد متاثرین کی ایک بستی میں ہے۔ موجودہ ایم پی اور وزیر سنجوبالیان کا تعلق اسی گاؤں کوٹبا سے ہے۔ آج سے چار سال پہلے ہندو بلوائیوں نے پہلا حملہ اسی گاؤں پر کیا تھا اور 8 مسلمانوں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔اس گاؤں کی آبادی 8 ہزار سے زائد ہے اس گاؤں میں رہنے والے مسلمانوں پر باقاعدہ منصوبہ بندی سے حملہ کیا گیا تھا۔
فساد متاثرین مومن کا کہنا ہے کہ یہاں رہنے والے تمام مسلمان جاٹوں کو ووٹ دیتے تھے۔ اور کہا کہ گاؤں لا پردھان ہمارے گھر آیا اور کہا تھا کہ کوئی مسلمان بالکل نہ ڈرے آپ لوگوں کو کچھ نہیں ہوگا۔ مومن نے مزید بتایا کہ جگہ جگہ سے فساد کی خبریں آرہی تھیں۔ صبح کو پردھان نہیں آیا تو ہم ان کے گھر گئے۔ ہم وہاں ہی تھے کہ ’’باہر شور مچا اور بھیڑ ہمارے محلے کی طرف بڑھ گئی۔
‘‘65 سالہ قدیم الدین نے اس فساد میں اپنی بیوی کو کھویا وہ بتا رہے تھے جیسے ہی ہجوم آیا اس نے اندھا دھند فائرنگ کی جس میں میری بیوی کی گردن میں گولی لگی۔ وہ وہیں مرگئی، ہم سب ایک چھت پر چڑھ گئے ، پولیس کو گاؤں میں آنے کی جرات نہیں ہوئی، فوج آئی تب ہمیں اپنے ساتھ لے گئی۔ مہدی حسن کہتے ہیں پہلے ہمیں تھانے میں لے جایا گیا،پھر ہمیں گاؤں کے پردھان مدرسے میں لے گئے جہاں ہم کئی دنوں تک ڈرے سہمے رہے۔
محمد یعقوب کہتے ہیں وہ بہت برادن تھا، گاؤ ں میں دو مسجدیں ہیں وہ بھی بند کردی گئی ہیں۔ گاؤں میں لڑکے پستول لے کر گھوم رہے تھے اور کسی نے انہیں نہیں روکا،ہمیں پہلے ہی آجانا چاہیے تھا۔ واضح رہے کہ اس گاؤں میں مسلمانوں کے قتل میں ملوث ملزموں کی ضمانتیں ہوچکی ہیں اور وہ آزاد ہیں۔ تاہم بے گھر خاندانوں کے لیے حکومتی معاوضہ اور انصاف ایک مذاق بن چکا ہے اور وہ آج بھی پناہ گزین کیمپوں میں خستہ حالی اور غلاظت کے ڈھیر پر رہ رہے ہیں کیونکہ انہیں ریاستی حکومت کی جانب سے معاوضہ نہیں دیا گیا کہ وہ ایک خاندان کی تصدیق پر پورا نہیں اترتے ہیں۔
65 سالہ یامین حمید کو اس لیے معاوضہ دینے سے انکار کردیا گیا کہ اس کے والد کو پہلے ہی امداددی جا چکی ہے ۔حالانکہ یامین کے والد کا 1985ء میں انتقال ہوچکا ہے۔ خاندان نے معاوضہ کے حصول کے لیے موت کے سرٹیفیکیٹ کو بھی استعمال کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام رہے۔ محمد شفیع کو بھی حکومتی معاوضہ نہیں ملا کہ اس کے والد پہلے ہی وصول کرچکے ہیں، اس کے والد کی وفات 30 سال قبل ہوچکی ہے۔
انسانی حقوق کا رکن اکرم اختر چودھری کا کہنا ہے کہ ریاست کے بہت سے ایسے خاندانوں کو نظر انداز کرنا ہے کہ جو معاوض کے اہل ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ بتائیں چار بھائی جنہوں نے اپنی زمین اپنا گھر سمیت ہر وہ چیز جس کے مالک تھے چھوڑ دیا ہے اور جو شادی شدہ ہیں اور ان کے پاس بچے ہیں؟ یہاں تک کہ بہت سے خاندانوں کو ریاست کی طرف سے اس بات کا جواب بھی نہیں ملا ہے انہیں معاوضہ دینے سے کیوں منع کردیا گیا ہے۔
فساد متاثرین کے مطابق حکومت کی جانب سے کئے گئے سروے تعصب پر مبنی تھے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے ہندو پڑوسیوں کی گواہیوں پر اعتما د کیا جن کے بارے میں امکان ہے کہ وہ خود ان فسادار میں ملوث رہے ہیں۔ پناہ گزین بستیوں میں قیام پذیر مسلمانوں کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ بستیاں بنیادی سہولیات سے ہنوز محروم ہیں صاف پانی پینے کی دقت ہے۔
بیت الخلاء کی سہولت میسر نہیں ، بجلی تو بالکل نہیںآ تی ، پانی کے پمپ سے آنے والا پانی پیلا ہوتا ہے۔ بستی میں رہائش پذید وسیلہ کا کہنا ہے کہ ’’براہ مہربانی ہمیں بتائیں کہ ہم اس پانی کو کھانا پکانے اور پینے کے لیے کیسے استعمال کرسکتے ہیں۔‘‘ فساد متاثرہ خاندانوں کی مناسب رہائش ، پانی اور صفائی کے آئینی حقوق صرف کاغذوں پر موجود ہیں۔
اتر پردیش کی ریاستی حکومت اور موجودہ بی جے پی حکومت بھی ان بے گھر مسلمانوں کی دوبارہ بحالی میں ناکام ہوچکی ہیں۔ ان چار برسوں میں مسلم متاثرین کو بھی ووٹر آئی کارڈ بھی فراہم نہیں کیا گیا تھا اسی وجہ سے 2014ء کے عام انتخابات میں یہ سب حق رائے دہی سے محروم رہے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق مظفر نگر فساد میں جن خواتین کو بے آبرو کیا گیا تھا ملوث ملزموں میں ایک کو بھی سزا نہیں مل سکی۔
کئی خواتین نے دھمکیوں کی وجہ سے اپنے مقدمات بھی واپس لے لیے ہیں۔ اجتماعی عصمت دری کا شکار ہونے والی خواتین میں کچھ نے اعتراف کیا کہ انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا، ڈرایا دھمکایا گیا کیونکہ ان کی اور ان کے خاندانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑگئی تھیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایک متاثرہ خاتون کا کہنا ہے کہ ’’ ہم ابھی بھی گھر سے باہر نکلتے وقت خوف محسوس کرتے ہیں۔
قابل ذکر تو یہ ہے کہ ریاستی پولیس نے عصمت دری کے معاملات درج ہی نہیں کئے۔ ایف آئی آر درج کروانے طبی معائنہ کروانے اور ضلعی مجسٹریٹ کے سامنے بیان درج کروانے میں بھی تاخیر سے کام لیا گیا تھا۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق متاثرہ خاتون آرزو کی جانب سے چارج شیٹ ہی فائل نہ ہوسکی۔ دوسری متاثرہ خاتون بانو کا بھی یہی معاملہ ہے ان کا مقدمہ 2014ء میں بند کردیا گیا تھا۔
پھر سپریم کورٹ سے انہیں اجازت ملی کہ وہ ملزم کے خلاف اپنا بیان ریکارڈ کروائے۔ اس کیس میں عدالے نے بھی کوئی چارج فریم نہیں کیا اور عدالت میں ابھی ٹرائل شروع ہونے ہیں۔ تیسری متاثرہ خاتون چمن ہے جنہوں نے جان کے خطرے کے پیش نظر اپنا بیان بدل لیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ ملزم نہیں ہیں جنہوں نے ان پر تشدد کیا۔ چوتھی متاثرہ خاتون دلنا ز ہے انہوں نے بھی بیان دیا تھا اور ان کے خلاف جرم میں ملوث ملزم رہا ہوچکے ہیں۔
پانچویں متاثرہ ایشا ہے جن کا اگست 2016ء میں بچے کی پیدائش کے دوران انتقال ہوچکا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے کہ فسادات میں خواتین سے زیادتی اجتماعی تذلیل اور اہانت کا ایک ہتھیار بن گیاب ہے اور مجرموں کو سزا نہ ملنے کے باعث پوری برادری خوف کے سائے میں زندگی گزاررہی ہے۔ ایمنسٹی کے مطابق خواتین زیادتی کیسوں میں جان بوجھ کر تاخیر کی گئی اور بیشتر مقدمات کی ابھی تک سماعت ہی نہیں مکمل ہوسکی ہے۔
زیادتی کے ملزموں کو ضمانت پر رہا کیا جا چکا ہے اور بعض مقدمات میں تو چار برس گزرنے کے بعد بھی فرد جرم عائد تک نہیں کی گئی۔ متاثرین کے وکیل کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف سنگین جرائم کے چار برس بعد بھی ہم پر بھی حملے ہوچکے ہیں۔ ایک بار تو عدالت میں ہی ہوا تھا کیونکہ میں مقدمے کی پیروی کررہا ہوں۔ میں نہیں رہوں گا تو مقدمے کی پیروی کون کرے گا؟۔
بہت سی خواتین نے سماج کے خلاف اور ڈرسے اپنا مقدمہ ہی درج نہیں کروایا۔ انسانی حقوق کے ایک گروپ آل انڈیا ڈیمو کریٹک ویمنز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ زیادتی کا نشانہ بننے والی بعض خواتین نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس تک پہنچیں لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اجتماع عصمت دری میں ملوث درندوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی تو اس دیگر خواتین کے بھی حوصلے ٹوٹ گئے اور انہوں نے ایسے واقعات کی پولیس تھانوں میں رپورٹ کروانا ہی چھوڑ دی۔
جب 2012میں چلتی بس میں تشدد کا شکار ہونے والی نربھیا کے مجرموں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو پھر مسلمان عورتوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنانے والے ان وحشی درندوں کو سزا کیوں نہیں مل سکتی؟ اس لیے کہ یہ مسلمان عورتیں ہیں اور نربھیا ایک ہندو تھی۔ تاحال ان پناہ گزینوں کی بستیوں میں رہ رہے مفلسی وبدحالی کی تصویر بنے مہاجر مسلمان اپنی بے بسی ولاچاری پر آنسو بہارہے ہیں۔
آج چار سال گزرنے کے بعد بھی وہ اپنے گھروں کو لوٹ نہ سکے۔ نہ ہی معاوضہ ملا اور نہ ہی انہیں انصاف ، ان میں فسادات سے متاثرہ ہر شخص اپنے سینے میں ظلم کی ایک الگ داستان چھپائے بیٹھا ہوا ہے۔ کوئی اپنے بیٹے کو کھو چکا ہے کسی کی بیوی چھن گئی کوئی عورت اپنے شوہر کے قتل پر غمزدہ ہے اور اس کے ملزموں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنا چاہتی ہیں۔ ہزاروں مسلمانوں کے اثاثے لوٹ لیے گئے۔ درجنوں شیر خوار بچوں کو اپنے والدین سے چھین کر جان سے ماردیا گیا۔ کئی خواتین کی عصمتیں تارتار کردی گئیں وہ ہنوز انصاف کے منتظر ہیں۔


متعلقہ خبریں


تقسیم پسند قوتوںسے نمٹنے کیلئے تیارہیں ،فیلڈمارشل وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

ہائبرڈ جنگ، انتہاء پسند نظریات اور انتشار پھیلانے والے عناصر سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں، سید عاصم منیرکا گوجرانوالہ اور سیالکوٹ گیریژنز کا دورہ ،فارمیشن کی آپریشنل تیاری پر بریفنگ جدید جنگ میں ٹیکنالوجی سے ہم آہنگی، چابک دستی اور فوری فیصلہ سازی ناگزیر ہے، پاک فوج اندرونی اور بیر...

تقسیم پسند قوتوںسے نمٹنے کیلئے تیارہیں ،فیلڈمارشل

پاکستان سیاستدانوں ، جرنیلوں ، طاقتوروں کا نہیں عوام کاہے ، حافظ نعیم وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، نوجوان مایوس نہ ہوں ،حکمران طبقہ نے قرضے معاف کرائے تعلیم ، صحت، تھانہ کچہری کا نظام تباہ کردیا ، الخدمت فاؤنڈیشن کی چیک تقسیم تقریب سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، نوجوان مایوس...

پاکستان سیاستدانوں ، جرنیلوں ، طاقتوروں کا نہیں عوام کاہے ، حافظ نعیم

ایف سی حملے میں ملوث دہشتگرد نیٹ ورک کا سراغ مل گیا وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

حملہ آوروں کا تعلق کالعدم دہشت گرد تنظیم سے ہے پشاور میں چند دن تک قیام کیا تھا خودکش جیکٹس اور رہائش کی فراہمی میں بمباروں کیسہولت کاری کی گئی،تفتیشی حکام ایف سی ہیڈکوارٹرز پر حملہ کرنے والے دہشتگرد نیٹ ورک کی نشاندہی ہو گئی۔ تفتیشی حکام نے کہا کہ خودکش حملہ آوروں کا تعلق ...

ایف سی حملے میں ملوث دہشتگرد نیٹ ورک کا سراغ مل گیا

سہیل آفریدی منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کیخلاف متحرک وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

غذائی اجناس کی خود کفالت کیلئے جامع پلان تیار ،محکمہ خوراک کو کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایت اشیائے خوردونوش کی سرکاری نرخوں پر ہر صورت دستیابی یقینی بنائی جائے،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی نے محکمہ خوراک کو ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی ...

سہیل آفریدی منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کیخلاف متحرک

معاشی بحران سے نکل چکے ،ترقی کی جانب رواں دواں،وزیراعظم وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

ادارہ جاتی اصلاحات سے اچھی حکمرانی میں اضافہ ہو گا،نوجوان قیمتی اثاثہ ہیں،شہبا زشریف فنی ٹریننگ دے کر برسر روزگار کریں گے،نیشنل ریگولیٹری ریفارمز کی افتتاحی تقریب سے خطاب وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک معاشی بحران سے نکل چکاہے،ترقی کی جانب رواں دواں ہیں، ادارہ جات...

معاشی بحران سے نکل چکے ،ترقی کی جانب رواں دواں،وزیراعظم

افغان سرزمین دہشت گردیکی لئے نیا خطرہ ہے ،وزیراعظم وجود - هفته 13 دسمبر 2025

عالمی برادری افغان حکومت پر ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے زور ڈالے،سماجی و اقتصادی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود پاکستان کی اولین ترجیح،موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے تنازعات کا پرامن حل پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ،فلسطینی عوام اور کشمیریوں کے بنیادی حق...

افغان سرزمین دہشت گردیکی لئے نیا خطرہ ہے ،وزیراعظم

پاکستان ، آئی ایم ایف کے آگے ڈھیر،ا گلی قسط کیلئے بجلی اور گیس مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرادی وجود - هفته 13 دسمبر 2025

حکومت نے 23شرائط مان لیں، توانائی، مالیاتی، سماجی شعبے، اسٹرکچرل، مانیٹری اور کرنسی وغیرہ شامل ہیں، سرکاری ملکیتی اداروں کے قانون میں تبدیلی کیلئے اگست 2026 کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کیلئے کھاد اور زرعی ادویات پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگائی جائیگی، ہا...

پاکستان ، آئی ایم ایف کے آگے ڈھیر،ا گلی قسط کیلئے بجلی اور گیس مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرادی

گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر کو این ایف سی میں حصہ ملنا چاہیے، نواز شریف وجود - هفته 13 دسمبر 2025

پارٹی کے اندر لڑائی برداشت نہیں کی جائے گی، اگر کوئی ملوث ہے تو اس کو باہر رکھا جائے آزادکشمیر و گلگت بلتستان میں میرٹ پر ٹکت دیں گے میرٹ پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا،صدر ن لیگ مسلم لیگ(ن)کے صدر نواز شریف نے کہا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ بھیک نہیں ہے یہ تو حق ہے، وزیراعظم سے کہوں گا...

گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر کو این ایف سی میں حصہ ملنا چاہیے، نواز شریف

ملکی سالمیت کیخلاف چلنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا،بلاول بھٹو وجود - هفته 13 دسمبر 2025

تمام سیاسی جماعتیں اپنے دائرہ کار میں رہ کر سیاست کریں، خود پنجاب کی گلی گلی محلے محلے جائوں گا، چیئرمین پیپلز پارٹی کارکن اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھیں، گورنر سلیم حیدر کی ملاقات ،سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ،دیگر کی بھی ملاقاتیں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیٔرمین بلاول...

ملکی سالمیت کیخلاف چلنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا،بلاول بھٹو

پیٹرول 36 پیسے، ڈیزل 11 روپے لیٹر سستا کرنے کی تجویز وجود - هفته 13 دسمبر 2025

منظوری کے بعد ایک لیٹر پیٹرول 263.9 ،ڈیزل 267.80 روپے کا ہو جائیگا، ذرائع مٹی کا تیل، لائٹ ڈیزلسستا کرنے کی تجویز، نئی قیمتوں پر 16 دسمبر سے عملدرآمد ہوگا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل، پیٹرول کی قیمت میں معمولی جبکہ ڈیزل کی قیمت میں بڑی کمی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ ذ...

پیٹرول 36 پیسے، ڈیزل 11 روپے لیٹر سستا کرنے کی تجویز

ہم دشمن کو چھپ کر نہیں للکار کر مارتے ہیں ،فیلڈ مارشل وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

عزت اور طاقت تقسیم سے نہیں، محنت اور علم سے حاصل ہوتی ہے، ریاست طیبہ اور ریاست پاکستان کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے اور دفاعی معاہدہ تاریخی ہے، علما قوم کو متحد رکھیں،سید عاصم منیر اللہ تعالیٰ نے تمام مسلم ممالک میں سے محافظین حرمین کا شرف پاکستان کو عطا کیا ہے، جس قوم نے علم او...

ہم دشمن کو چھپ کر نہیں للکار کر مارتے ہیں ،فیلڈ مارشل

ایک مائنس ہوا تو کوئی بھی باقی نہیں رہے گا،تحریک انصاف وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

حالات کنٹرول میں نہیں آئیں گے، یہ کاروباری دنیا نہیں ہے کہ دو میں سے ایک مائنس کرو تو ایک رہ جائے گا، خان صاحب کی بہنوں پر واٹر کینن کا استعمال کیا گیا،چیئرمین بیرسٹر گوہر کیا بشریٰ بی بی کی فیملی پریس کانفرنسز کر رہی ہے ان کی ملاقاتیں کیوں نہیں کروا رہے؟ آپ اس مرتبہ فیڈریشن ک...

ایک مائنس ہوا تو کوئی بھی باقی نہیں رہے گا،تحریک انصاف

مضامین
بیانیہ وجود اتوار 14 دسمبر 2025
بیانیہ

انڈونیشین صدرکادورہ اور توقعات وجود اتوار 14 دسمبر 2025
انڈونیشین صدرکادورہ اور توقعات

افغان طالبان اورٹی ٹی پی کی حمایت وجود اتوار 14 دسمبر 2025
افغان طالبان اورٹی ٹی پی کی حمایت

کراچی کا بچہ اور گٹر کا دھکن وجود هفته 13 دسمبر 2025
کراچی کا بچہ اور گٹر کا دھکن

بھارتی الزام تراشی پروپیگنڈا کی سیاست وجود هفته 13 دسمبر 2025
بھارتی الزام تراشی پروپیگنڈا کی سیاست

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر