وجود

... loading ...

وجود

استاد کے بغیر معاشرہ ۔۔؟

منگل 07 اکتوبر 2025 استاد کے بغیر معاشرہ ۔۔؟

محمد آصف

انسانی معاشرت میں استاد کو ایک نہایت بلند اور قابلِ احترام مقام حاصل ہے ۔ استاد دراصل وہ شخصیت ہے جو انسان کے باطن میں علم، شعور، اخلاق اور کردار کی روشنی بھرتا ہے ۔ وہ محض علم کا مبلغ نہیں بلکہ کردار کا معمار اور معاشرے کی فکری بنیاد کا ستون ہے ۔ استاد کے بغیر معاشرہ تاریکی میں بھٹکتا ہے ، کیونکہ وہی وہ رہنما ہے جو انسان کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم و ہدایت کی روشنی کی طرف لے جاتا ہے ۔ اگر والدین انسان کو زندگی دیتے ہیں تو استاد اسے جینے کا سلیقہ عطا کرتا ہے ۔استاد کے بغیر معاشرہ ایک ایسی بستی کی مانند ہوتا ہے جس میں روشنی کے تمام چراغ بجھ چکے ہوں۔ استاد علم، شعور، اور تربیت کا وہ سرچشمہ ہے جو انسان کو جہالت، گمراہی اور اخلاقی زوال سے بچاتا ہے ۔ جب معاشرہ استاد سے خالی ہو جاتا ہے تو وہاں انصاف کے بجائے ظلم، علم کے بجائے جہالت، اور تہذیب کے بجائے بربریت پروان چڑھتی ہے ۔ استاد ہی وہ قوت ہے جو انسان کے اندر سوچنے ، سمجھنے اور درست فیصلے کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے ۔ اگر استاد نہ ہو تو قومیں اندھی تقلید، مادیت، اور اخلاقی پستی میں ڈوب جاتی ہیں۔ دراصل استاد کے بغیر معاشرہ جسم کے بغیر روح، دریا کے بغیر پانی، اور چراغ کے بغیر روشنی کے مترادف ہے یعنی ایک زندہ لاش، جو حرکت تو کرتی ہے مگر سمت اور شعور سے محروم ہوتی ہے ۔
اسلام میں استاد کے مقام و مرتبے کو نہایت بلند حیثیت حاصل ہے ۔ قرآنِ حکیم میں علم حاصل کرنے کی بارہا ترغیب دی گئی ہے اور اہلِ علم کی فضیلت کو واضح کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ;سورة الزمر: 9
ترجمہ:”کیا علم رکھنے والے اور بے علم برابر ہوسکتے ہیں”؟
یہ آیت واضح طور پر اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ علم کی دولت انسان کو مقام و عزت عطا کرتی ہے ، اور استاد وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے انسان اس دولت تک پہنچتا ہے ۔ نبی کریم ۖ نے بھی استاد کے مقام کو نہایت بلند فرمایا۔ آپ ۖ نے ارشاد فرمایا:”میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں”۔ابنِ ماجہ
یہ ارشاد مبارک اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ تعلیم و تربیت کا عمل نبوت کا تسلسل ہے ۔ نبی ۖنے اپنی امت کو نہ صرف علم سکھایا بلکہ اس کے ذریعے ایک صالح معاشرہ قائم کیا۔ اسی لیے ہر وہ شخص جو تعلیم و تربیت کے میدان میں کام کرتا ہے ، دراصل نبوت کے ورثاء میں شامل ہے ۔ تاریخِ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی علم و تربیت کو عزت دی گئی، معاشرہ ترقی یافتہ اور بااخلاق بنا، اور جب استاد کی قدر کم ہوئی تو قومیں زوال کا شکار ہو گئیں۔ مسلمانوں کی عروج کی بنیاد مدارس، اساتذہ اور علمی مراکز تھے ۔ بغداد، قرطبہ، دمشق، اور نیشاپور کے تعلیمی ادارے دنیا کے لیے مشعلِ راہ تھے ۔ وہاں کے اساتذہ نہ صرف علم دیتے تھے بلکہ طلبہ کے دلوں میں کردار و اخلاق کے چراغ جلاتے تھے ۔ استاد محض نصاب نہیں پڑھاتا بلکہ انسان کے اندر چھپی صلاحیتوں کو پہچانتا اور انہیں نکھارتا ہے ۔ ایک اچھا استاد اپنے شاگرد کی سوچ، طرزِ عمل، حتیٰ کہ اس کی زندگی کے فیصلوں تک کو متاثر کرتا ہے ۔ استاد کی تربیت یافتہ نسل ہی آگے چل کر معاشرے کی رہنمائی کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سقراط، افلاطون، امام ابو حنیفہ، امام غزالی، مولانا روم، اور علامہ اقبال جیسے نام تاریخ میں زندہ ہیں، کیونکہ ان کے شاگردوں نے ان کے علم اور کردار کی خوشبو کو زمانوں تک پھیلایا۔علامہ اقبال نے استاد کی عظمت کو یوں خراجِ عقیدت پیش کیا کہ ”علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب” اور علم استاد کے بغیر گمراہی ہے صراط مستقیم نہیں ملتاشمع ہو یا پروانہ، سب کچھ استاد کی بدولت ہے ۔ اقبال کے نزدیک استاد وہ ہستی ہے جو شاگردوں کے دل میں عشقِ حق، خودی اور عمل کی روح پھونکتا ہے۔ وہ صرف کتابی علم نہیں دیتا بلکہ شخصیت سازی کرتا ہے ۔آج کے دور میں جب مادیت نے زندگی کے ہر پہلو کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے ، استاد کا کردار مزید اہم ہو گیا ہے ۔ جدید معاشرت میں استاد سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف تعلیم دے بلکہ تربیت بھی کرے ۔ مگر افسوس کہ موجودہ تعلیمی نظام نے استاد کو محض ”نوکری” تک محدود کر دیا ہے ۔تدریس کو عبادت سمجھنے کی بجائے ایک معاشی ضرورت بنا دیا گیا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ استاد اور شاگرد کے درمیان روحانی تعلق کمزور ہوتا جا رہا ہے ۔ اساتذہ کا وقار اسی وقت بحال ہو سکتا ہے۔جب معاشرہ دوبارہ یہ سمجھ لے کہ استاد صرف ملازم نہیں، بلکہ ایک رہبر اور روحانی قائد ہے ۔
پاکستان کے آئین اور معاشرتی اقدار میں بھی استاد کے احترام کی تاکید کی گئی ہے ۔ قومی شاعر اقبال، قائداعظم محمد علی جناح، اور علامہ شبلی نعمانی جیسے رہنماؤں نے تعلیم کو قوم کی ترقی کی بنیاد قرار دیا۔ قائداعظم نے فرمایا تھا:”قوموں کی تعمیر تعلیم کے بغیر ممکن نہیں”، اور تعلیم استاد کے بغیر نامکمل ہے ۔یہ الفاظ اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ استاد دراصل قوم کے مستقبل کا معمار ہے ۔ استاد کی تربیت یافتہ قوم ہمیشہ ترقی کرتی ہے ۔ جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے ، جہاں دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب ملک تباہ ہو گیا تو وزیرِاعظم نے کہا:”ہماری عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں مگر ہمارے اساتذہ زندہ ہیں، اس لیے ہم دوبارہ اٹھ کھڑے ہوں گے” ۔یہ جملہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قوموں کا اصل سرمایہ ان کے وسائل یا ہتھیار نہیں بلکہ ان کے اساتذہ ہوتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں استاد کا احترام محض رسمی نہیں بلکہ عملی پہلو رکھتا ہے ۔ شاگرد پر لازم ہے کہ وہ اپنے استاد کے سامنے ادب و انکسار سے پیش آئے ۔ حضرت علی نے فرمایا:”جس نے مجھے ایک حرف سکھایا، میں اس کا غلام بن گیا”۔
یہ قول بتاتا ہے کہ استاد کے لیے محبت، وفاداری اور احترام کی انتہا کیا ہونی چاہیے ۔ دوسری طرف استاد پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے علم کے ذریعے شاگردوں کی فکری، اخلاقی، اور روحانی تربیت کرے ۔ استاد کا رویہ، گفتار، اور کردار خود ایک درسی کتاب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ شاگرد استاد کی باتوں سے زیادہ اس کے عمل سے سیکھتا ہے ۔ اگر استاد خود دیانت، سچائی، اور خلوص کا مظہر ہو تو اس کے شاگرد بھی انہی اوصاف کے حامل بن جاتے ہیں۔ ہمیں آج اس امر کی ضرورت ہے کہ استاد کو اس کا اصل مقام واپس دیا جائے ۔ اسے عزت، سہولیات، اور سماجی مقام دیا جائے تاکہ وہ بلا خوف و جھجھک اپنی ذمہ داری ادا کر سکے ۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تربیت، تحقیق کی حوصلہ افزائی، اور شاگرد و استاد کے درمیان روحانی رشتہ دوبارہ قائم کرنا ناگزیر ہے ۔ آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ استاد وہ درخت ہے جو خود دھوپ میں جل کر دوسروں کو سایہ دیتا ہے ۔ وہ وہ چراغ ہے جو خود کو پگھلا کر دوسروں کے لیے روشنی پیدا کرتا ہے ۔ اگر ہم ایک مہذب، باشعور، اور ترقی یافتہ قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اساتذہ کو وہی مقام دینا ہوگا جو انہیں دینِ اسلام، تاریخِ انسانی، اور فطرت نے عطا کیا ہے ۔ استاد کی عزت دراصل علم کی عزت ہے ، اور علم کی عزت انسانیت کی بقا کی ضمانت ہے ۔ استاد کا مقام کسی لفظ یا تعریف میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ وہ معاشرے کی روح، تہذیب کا محافظ، اور نسلوں کا معمار ہے ۔ اگر ہم استاد کو اس کا صحیح مقام دے دیں، تو یقیناً ہمارا معاشرہ جہالت، اخلاقی زوال اور بداعتمادی کے اندھیروں سے نکل کر ترقی، علم، اور روشنی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا

پاکستان میں انسانی حقوق اور خواجہ سرا کمیونٹی کی صورتحال وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
پاکستان میں انسانی حقوق اور خواجہ سرا کمیونٹی کی صورتحال

بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی

لداخی عوام کی حمایت کیلئے بھارت بھر سے آوازیں وجود جمعرات 09 اکتوبر 2025
لداخی عوام کی حمایت کیلئے بھارت بھر سے آوازیں

وجود جمعرات 09 اکتوبر 2025

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر