... loading ...
ریاض احمدچودھری
انسانوں کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کو بھیجتا رہا ہے۔سب سے آخر میں حضرت محمدۖ کو مبعوث فرمایا اور آپۖ کی زندگی کو دنیا والوں کے لیے نمونہ قراردیا۔ اب انسانیت کی فلاح و نجات اس بات پر منحصر ہے کہ آپۖ کی زندگی کو اپنائے۔
د ین اسلام نے خواہشات نفسانی کو پورا کرنے کے ایسے طریقے بتائے جس سے زندگی میں خوشی اور امن قائم ہوتا ہے۔ دین اسلام بہترین ضابطہ حیات ہے اورآپۖ کی دنیا میں تشریف آوری کا مقصد اس دین کوسر بلند کرنا تھا۔ اظہار دین’ اقامت دین اور اعلائے کلمة اللہ کیلئے جدوجہد کرنا ہر مسلمان کیلئے لازمی ہے۔ نبی کریمۖ نے ساری زندگی دین اسلام کی سربلندی کیلئے جدوجہد کی، لوگوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلایا۔ آپ ۖنے اس راہ میں پیش آنے والے مصائب پر صبرکیا۔ جن لوگوں نے آپۖ کی دعوت قبول کی آپ ۖنے ان کی بہترین تربیت فرمائی۔ آپۖ کی حیات طیبہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے دین کو سربلندی عطا فرمائی۔ نبی پاک کی زندگی ہم سب کیلئے بہترین نمونہ ہے۔ حب رسولۖ ایمان کی شرط ہے اس کے بغیر کوئی مومن نہیں ہوسکتا۔ آپۖ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اپنے والدین، اولاد اور دنیا کے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ آپۖ نے محبت رسول کا تقاضا بھی بتایا اور فرمایا کہ کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنی خواہشات نفسانی کو میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے۔
ہمیں صحابہ کرام رسول اللہ اجمعین کی زندگی سے پتہ چلتا ہے کہ دراصل اتباع رسول کیا ہے، وہ ہر اس کام پر عمل کرنے کی کوشش کرتے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہوتا چاہے اس کو کرنے کا باقاعدہ حکم آپ ۖ نے نہ دیا ہوتا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایمان کو اخلاق سے اور اخلاق کو عملی زندگی سے جوڑ دیا۔ یہ اللہ تعالی کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے کا شرف بخشا۔آپۖ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ہمیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع اپنی زندگی کے ہر گوشے میں کرنا ہے اسی میں ہماری دنیاوی اور اخروی نجات پوشیدہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی سوچ، فکر اور مشن کو آگے بڑھایا جائے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود پر فائز کیا اور اپنے نام کے ساتھ نبی کریم صلی وسلم کے نام کو کلمہ کا حصہ بنا کر قیامت تک کے لئے اس ذکر کو اکٹھا کر دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مساوات، بھائی چارہ اور عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ تشکیل دیا اور رنگ و نسل، خاندان، زبان اور وطن سے بالاتر ہو کر ایک امت و ملت کا قیام عمل میں لائے۔ موجودہ دور میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل بالخصوص معاشرے میں پایا جانے والا انتشار، نفاق،ظلم اور نا انصافی کا حل سیرت طیبہ میں موجود ہے۔
آپۖ کے وضع کردہ معاشی و معاشرتی اصول، عالمی امن اور عدل و انصاف کے لئے رہنما ہیں امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اسلام کے عالمگیر آفاقی نظام کو دنیا کو درپیش چیلنجز کے سامنے بطور حل پیش کریں کیونکہ آپ ہر مذہب، فرقہ اور قوم کے لئے رحمت اللعالمین ہیں۔ ہماری نجات کا واحد حل تعلیمات نبوی صہ کی طرف واپس پلٹ جانے اور اس پر عمل کرنے میں ہے۔ہماری زندگیوں میں بگاڑ کی صورت تب پیدا ہوئی جب ہم نے اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی بجائے چھوڑ دیا اور غیر اخلاقی عادات و اطوار اپنا کر اپنی مرضی سے اسلام کے اصولوں کی توڑنا مروڑنا شروع کر دیا۔ہمارے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ با برکت کو تو حضرت سلیمان ندوی نے ”بارش برسانے والے بادل کی مانند قرار دیا”جس سے کائنات کا ہر وجود ہر میدانی صحرائی،جنگلاتی اور بحری اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق سیراب و شاداب ہوتے ہیں۔کہیں کوئی زرخیز ہو جاتا ہے کہیں کوئی بنجر ہی رہ جاتا ہے۔ ہر چیز اپنی فطرت جبلت اور ضرورت کے مطابق اْس سے فیض یاب ہوتی ہے۔ اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یکساں تعلیمات کے با وجود اپنی فطری صلاحیت و لیاقت کے مطابق کچھ لوگ آپ کی برکات سے مستفید ہو کر غلام سے سید نا بلال کے رتبے تک پہنچ گئے اور کچھ ابو جہل جیسے سردار غلاموں سے بھی بد تر حیثیت میں اس دنیا سے چلے گئے۔
صدیوں پہ صدیاں گزرتی چلی گئیں مگر آج بھی حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی اسوہ حسنہ کی صورت اپنا کر ہم ترقی کے وہ منازل طے کر سکتے ہیں جو کہ آج کے وقت کی ضرورت ہے۔اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی مشعل راہ ہے تو ہم نے کیوں اپنی اپنی زندگیوں میں اندھیرے بسا رکھے ہیں۔ہم اگر فقط اپنے نبی پاک کے اسوہ حسنہ کی پیروی زندگی کے ہر شعبے میں کر لیں تو شاید مٹی کے نیچے مٹی ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ ہمارے مردہ جسموںکو چمکتے ہوئے ہیرے کی مانند اٹھائے۔
٭٭٭