... loading ...
حمیداللہ بھٹی
ہر قدرتی آفت کے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں۔ سنجیدہ اور ذہین اقوام اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر قدرتی آفات کے نقصانات کم کرتے ہوئے فوائد حاصل کرتی ہیں تاکہ نہ صرف معاشی ترقی ہو بلکہ شہری بھی مشکلات کاشکار نہ ہوں مگر پاکستان میں قدرتی آفات کے نقصانات کم کرنے کے لیے طویل یا قلیل منصوبہ بندی کا ہمیشہ سے فقدان رہاہے۔ اسی لیے زلزلے اور سیلابوں سے ملکی معاشی مشکلات بڑھتی اور شہری مشکلات کے بھنور میں پھنستے رہتے ہیں۔ پاکستان میں سیلاب کی قیامت خیزی جاری ہے جہاں جہاں سے سیلابی ریلے گزرے ہیں۔ وہاں پر انسانی آبادی کے انخلا کے باوجود زراعت اور پالتو جانوروں کا اِتنا نقصان ہوچکا ہے جس کے اثرات شاید کئی برسوں تک رہیں ابھی تک چناب،راوی ،ستلج اور دریائے توی بپھرہوئے ہیں جس سے مزید نقصان کا خدشہ ہے۔ پہلے کے پی کے ،گلگت بلتستان،کشمیر میں بارشوں نے تباہی مچا ئی اب پنجاب کے میدانی علاقوں میں سیلاب سے زندگی اجیرن ہے۔ 1988کے بعد سے چناب ، راوی ،ستلج ،بیاس اور دریائے توی میں ایسے ریلے نہیں دیکھے گئے، اِس میں ظاہرہے موسمیاتی تبدیلیوں کا بڑا عمل دخل ہے۔ اب سیلابی ریلے جنوبی پنجاب اور سندھ کی طرف رواں ہیں اور تباہی کاسوچ کرہی ہول آتے ہیں۔ سندھ اور جہلم دریائوں پر بنے تربیلا اور منگلا ڈیموں نے سیلابی تباہ کاریاں کسی حد تک کم کیں ،سوچیں اگر یہ دوبڑے ڈیم بھی نہ ہوتے تو تباہی میں شایدکئی گنا اضافہ ہوجاتا۔ سچ یہ ہے کہ قدرتی آفات کے نقصانات کم کرنے کے لیے ہمارے پاس وسائل ہیں مگر منصوبہ بندی نہیں۔ اگر ملک میں مزید ڈیم بنانے کاکام ہنگامی بنیادوں پر شروع کر دیا جائے تو سیلابی تباہ کاریاں کم کرنے کے ساتھ معاشی و زرعی ترقی ممکن ہوسکتی ہے ۔
عام خیال یہ ہے کہ حالیہ سیلاب دراصل بھارت کی آبی جارحیت ہے جس نے سیلاب جیسی صورتحال سے دوچارکرکے اہم سے مئی کی عبرتناک فوجی شکست کا بدلہ لیا ہے تسلیم کہ بھارت پہلے پانی ڈیموں میں روکتا اور پھر اچانک چھوڑ دیتا ہے جس سے دریائوں اور ندی نالوں میں باربار طغیانی آرہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ جب ہمارے پاس وسائل موجود ہیں تو آبی جارحیت روکنے کادیرپا بندوبست کیوں نہیں کرتے؟ بھارت توہے ہی ہمارا دشمن ،لہٰذا وہ توہمیںزیادہ سے زیادہ نقصان پہنچنانے کی کوشش کرے گا لیکن ہمارے دفاعی ماہرین کی طرح آبی ماہرین کیوں نہیں سوچتے؟وہ کیوں اصل فرائض سے غافل ہیں۔کالاباغ ڈیم جیسامنصوبہ مکمل کرکے اربوں ڈالر کامیٹھا پانی سمندرمیں ضائع کرنے کے بجائے پینے اور زراعت کے لیے محفوظ کیا جاسکتاہے ۔وزیراعلیٰ کے پی کے نے اِس حوالے سے اپنی رضامندی دے دی اب اگر حکومت تھوڑی سی ہمت کرے اپنی اتحادی پیپلز پارٹی کے متعصب رہنمائوں کو قائل کرلے تو یہ منصوبہ مکمل کیاجا سکتا ہے ۔قبل ازیں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یارولی بھی کہہ چکے کہ ہمارے تحفظات دور اور منصوبے کی افادیت پر قائل کر لیا جائے تو حمایت کر سکتے ہیں ۔لہٰذا حکومت اور آبی ماہرین کی ذمہ داری ہے کہ مزید غفلت چھوڑ کر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے سیاسی ورائے عامہ ہموار کریں تاکہ سیلاب کوزحمت سے نعمت بنایا جا سکے۔
پاکستان میں جنگلات کی بے دردی سے کٹائی ہورہی ہے اور ماہرین کے بار بارانتباہ کے باوجود حکومت اِس حوالے سے کوئی نتیجہ خیز فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کاشکارہے۔ اسی بناپر درختوں کی بے دریغ کٹائی کے عمل میں تعطل نہیں آسکا جس کی وجہ سے کے پی کے،گلگت بلتستان اور کشمیر کے وہ علاقے یا پہاڑجو کبھی ہر بھرے اور سرسبز ہوا کرتے تھے ،اب قدرتی حسن سے محروم ہوتے جارہے ہیں حالانکہ یہ جنگلات قدرتی آفات میں ڈھال کا کام کرتے ہیں۔ یہ ڈھال ہٹنے سے کلائوڈبرسٹ ہوئے لینڈ سلائیڈنگ بڑھی اور سیلابی تباہ کاریوں میں خوفناک اضافہ ہوا۔ستم ظریفی تو یہ کہ سینکڑوں انسانی جانی اور اربوں مالیت کے نقصان کے باوجود کشمیر،کے پی کے اور گلگت بلتستان ابھی تک بھی کوئی پالیسی نہیں بناسکے، صرف وزیرِ اعلیٰ مریم نوازنے درخت فروخت کرنے اورکاٹنے پر پابندی لگائی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مریم نواز کی طرح دیگر وزرائے اعلیٰ ایسافیصلہ کرنے سے کیوں قاصر ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ اُن کا مفاد درختوں کے کٹائو میں ہے؟
وطنِ عزیز میں ضرورت کے مطابق ایسا بندوبست نہیں جس سے سیلاب کی صورت میں دستیاب میٹھے پانی کو ذخیرہ کر سکیں اسی لیے ہر سال قیمتی پانی سمندر میں پھینکنا پڑتا ہے حالانکہ ملک کا زیرِ زمین پانی جس قدر خوفناک حد تک نیچے جا چکا ہے کاتقاضاہے کہ پانی کی گزر گاہوں کے قرب وجوار میں بڑے پیمانے پر ایسے پانی چوس کنویں بنا ئے جائیں جن سے زیرِ زمین پانی کی سطح بلند اور سیلاب کی تباہ کاریوں کم کر نے میں مددملے ملک میں پانی کے نئے ذخائر ڈیم کی صورت میں بنانااشدضروری ہے مگر بات یہ ہے کہ سنجیدہ اور زہین اقوام قدرتی آفات کے نقصانات کم کرتے ہوئے فوائد کشید کرتی ہیں اب پتہ نہیں ہمارے حکمرانوں کی کیا مجبوریاں ہیں؟ کہ وہ اِس حوالے سے مسلسل فرائض سے غفلت کے مرتکب ہیں۔
پاکستان میں زمینوں کی خرید وفروخت کا کاروبار کافی نفع بخش ہے لوگ جلد سے جلد امیر ہونے کے لیے اِس شعبے میں آتے ہیں کیونکہ بڑھتی آبادی کے حساب سے رہائشی سہولتیں ناکافی ہوچکیں مگر اِس چکر میں آبی گزرگاہوں میں بھی رہائشی منصوبے بنا دیے گئے جونہ صرف پانی روکنے کا موجب ہیں بلکہ بڑے پیمانے پراملاک کے نقصان کی اہم وجہ ہیں ایسی تعمیرات کو فی الفور روکناضروری ہے سیلابی پانی سے منہدم گھربے ترتیب تعمیرات کی تصدیق ہیں اب تو ملیریا،ہیضہ ،ٹائیفائیڈ،اور موسمی بخارجیسی بیماریوں کا خطرہ بھی سرپرہے اگر آبی گزرگاہیں بحال رکھی جاتیں تو ایسی نوبت ہر گز نہ آتی۔
ابھی لوگوں کو سیلابی کیفیت کا سامنا ہے اسی لیے آنے والے سخت حالات کاندازہ نہیں چاول ،مکئی،سبزیوں اور چارے کی فصلوں کی تباہی سے خوراک کا بحران آناہے اِس مہنگائی اور بھوک و افلاس کے طوفان کو کیسے روکناہے؟یہ سوچنا حکومت کافرض ہے کہ بے کار مصروفیات چھوڑ کر ایسی منصوبہ بندی کرے جس سے متوقع بحران کی شدت کم ہو، اِسکے لیے بہتر ہے کہ ایران اور افغانستان سے غذائی اجناس اور سبزیاں درآمد کرنے پر غیر ضروری محصولات میں نرمی کی جائے تاکہ عام شہری زیادہ متاثر نہ ہو، یادرہے کہ امسال پاکستان کو توقع کے مطابق سیلاب کے متاثرین کے لیے عالمی امدادبھی نہیں ملی اِس پر سوچنے اور خودانحصاری پر کام کی ضرورت ہے یہ تبھی ممکن ہے جب سیلابی پانی کو زحمت بننے سے روکنے کے ساتھ نعمت بنایا جائے سیلاب سے زمینوں کی زرخیزی بڑھتی ہے، اِس سے فائدہ کیسے اُٹھاناہے؟ اِس پہلو سے بھی زرعی ماہرین منصوبہ بندی کریں تاکہ جلد ازجلد خوراک کابحران ختم کرنے میں مددملے۔
٭٭٭