وجود

... loading ...

وجود

زحمت سے نعمت تک

هفته 06 ستمبر 2025 زحمت سے نعمت تک

حمیداللہ بھٹی

ہر قدرتی آفت کے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں۔ سنجیدہ اور ذہین اقوام اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر قدرتی آفات کے نقصانات کم کرتے ہوئے فوائد حاصل کرتی ہیں تاکہ نہ صرف معاشی ترقی ہو بلکہ شہری بھی مشکلات کاشکار نہ ہوں مگر پاکستان میں قدرتی آفات کے نقصانات کم کرنے کے لیے طویل یا قلیل منصوبہ بندی کا ہمیشہ سے فقدان رہاہے۔ اسی لیے زلزلے اور سیلابوں سے ملکی معاشی مشکلات بڑھتی اور شہری مشکلات کے بھنور میں پھنستے رہتے ہیں۔ پاکستان میں سیلاب کی قیامت خیزی جاری ہے جہاں جہاں سے سیلابی ریلے گزرے ہیں۔ وہاں پر انسانی آبادی کے انخلا کے باوجود زراعت اور پالتو جانوروں کا اِتنا نقصان ہوچکا ہے جس کے اثرات شاید کئی برسوں تک رہیں ابھی تک چناب،راوی ،ستلج اور دریائے توی بپھرہوئے ہیں جس سے مزید نقصان کا خدشہ ہے۔ پہلے کے پی کے ،گلگت بلتستان،کشمیر میں بارشوں نے تباہی مچا ئی اب پنجاب کے میدانی علاقوں میں سیلاب سے زندگی اجیرن ہے۔ 1988کے بعد سے چناب ، راوی ،ستلج ،بیاس اور دریائے توی میں ایسے ریلے نہیں دیکھے گئے، اِس میں ظاہرہے موسمیاتی تبدیلیوں کا بڑا عمل دخل ہے۔ اب سیلابی ریلے جنوبی پنجاب اور سندھ کی طرف رواں ہیں اور تباہی کاسوچ کرہی ہول آتے ہیں۔ سندھ اور جہلم دریائوں پر بنے تربیلا اور منگلا ڈیموں نے سیلابی تباہ کاریاں کسی حد تک کم کیں ،سوچیں اگر یہ دوبڑے ڈیم بھی نہ ہوتے تو تباہی میں شایدکئی گنا اضافہ ہوجاتا۔ سچ یہ ہے کہ قدرتی آفات کے نقصانات کم کرنے کے لیے ہمارے پاس وسائل ہیں مگر منصوبہ بندی نہیں۔ اگر ملک میں مزید ڈیم بنانے کاکام ہنگامی بنیادوں پر شروع کر دیا جائے تو سیلابی تباہ کاریاں کم کرنے کے ساتھ معاشی و زرعی ترقی ممکن ہوسکتی ہے ۔
عام خیال یہ ہے کہ حالیہ سیلاب دراصل بھارت کی آبی جارحیت ہے جس نے سیلاب جیسی صورتحال سے دوچارکرکے اہم سے مئی کی عبرتناک فوجی شکست کا بدلہ لیا ہے تسلیم کہ بھارت پہلے پانی ڈیموں میں روکتا اور پھر اچانک چھوڑ دیتا ہے جس سے دریائوں اور ندی نالوں میں باربار طغیانی آرہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ جب ہمارے پاس وسائل موجود ہیں تو آبی جارحیت روکنے کادیرپا بندوبست کیوں نہیں کرتے؟ بھارت توہے ہی ہمارا دشمن ،لہٰذا وہ توہمیںزیادہ سے زیادہ نقصان پہنچنانے کی کوشش کرے گا لیکن ہمارے دفاعی ماہرین کی طرح آبی ماہرین کیوں نہیں سوچتے؟وہ کیوں اصل فرائض سے غافل ہیں۔کالاباغ ڈیم جیسامنصوبہ مکمل کرکے اربوں ڈالر کامیٹھا پانی سمندرمیں ضائع کرنے کے بجائے پینے اور زراعت کے لیے محفوظ کیا جاسکتاہے ۔وزیراعلیٰ کے پی کے نے اِس حوالے سے اپنی رضامندی دے دی اب اگر حکومت تھوڑی سی ہمت کرے اپنی اتحادی پیپلز پارٹی کے متعصب رہنمائوں کو قائل کرلے تو یہ منصوبہ مکمل کیاجا سکتا ہے ۔قبل ازیں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یارولی بھی کہہ چکے کہ ہمارے تحفظات دور اور منصوبے کی افادیت پر قائل کر لیا جائے تو حمایت کر سکتے ہیں ۔لہٰذا حکومت اور آبی ماہرین کی ذمہ داری ہے کہ مزید غفلت چھوڑ کر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے سیاسی ورائے عامہ ہموار کریں تاکہ سیلاب کوزحمت سے نعمت بنایا جا سکے۔
پاکستان میں جنگلات کی بے دردی سے کٹائی ہورہی ہے اور ماہرین کے بار بارانتباہ کے باوجود حکومت اِس حوالے سے کوئی نتیجہ خیز فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کاشکارہے۔ اسی بناپر درختوں کی بے دریغ کٹائی کے عمل میں تعطل نہیں آسکا جس کی وجہ سے کے پی کے،گلگت بلتستان اور کشمیر کے وہ علاقے یا پہاڑجو کبھی ہر بھرے اور سرسبز ہوا کرتے تھے ،اب قدرتی حسن سے محروم ہوتے جارہے ہیں حالانکہ یہ جنگلات قدرتی آفات میں ڈھال کا کام کرتے ہیں۔ یہ ڈھال ہٹنے سے کلائوڈبرسٹ ہوئے لینڈ سلائیڈنگ بڑھی اور سیلابی تباہ کاریوں میں خوفناک اضافہ ہوا۔ستم ظریفی تو یہ کہ سینکڑوں انسانی جانی اور اربوں مالیت کے نقصان کے باوجود کشمیر،کے پی کے اور گلگت بلتستان ابھی تک بھی کوئی پالیسی نہیں بناسکے، صرف وزیرِ اعلیٰ مریم نوازنے درخت فروخت کرنے اورکاٹنے پر پابندی لگائی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مریم نواز کی طرح دیگر وزرائے اعلیٰ ایسافیصلہ کرنے سے کیوں قاصر ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ اُن کا مفاد درختوں کے کٹائو میں ہے؟
وطنِ عزیز میں ضرورت کے مطابق ایسا بندوبست نہیں جس سے سیلاب کی صورت میں دستیاب میٹھے پانی کو ذخیرہ کر سکیں اسی لیے ہر سال قیمتی پانی سمندر میں پھینکنا پڑتا ہے حالانکہ ملک کا زیرِ زمین پانی جس قدر خوفناک حد تک نیچے جا چکا ہے کاتقاضاہے کہ پانی کی گزر گاہوں کے قرب وجوار میں بڑے پیمانے پر ایسے پانی چوس کنویں بنا ئے جائیں جن سے زیرِ زمین پانی کی سطح بلند اور سیلاب کی تباہ کاریوں کم کر نے میں مددملے ملک میں پانی کے نئے ذخائر ڈیم کی صورت میں بنانااشدضروری ہے مگر بات یہ ہے کہ سنجیدہ اور زہین اقوام قدرتی آفات کے نقصانات کم کرتے ہوئے فوائد کشید کرتی ہیں اب پتہ نہیں ہمارے حکمرانوں کی کیا مجبوریاں ہیں؟ کہ وہ اِس حوالے سے مسلسل فرائض سے غفلت کے مرتکب ہیں۔
پاکستان میں زمینوں کی خرید وفروخت کا کاروبار کافی نفع بخش ہے لوگ جلد سے جلد امیر ہونے کے لیے اِس شعبے میں آتے ہیں کیونکہ بڑھتی آبادی کے حساب سے رہائشی سہولتیں ناکافی ہوچکیں مگر اِس چکر میں آبی گزرگاہوں میں بھی رہائشی منصوبے بنا دیے گئے جونہ صرف پانی روکنے کا موجب ہیں بلکہ بڑے پیمانے پراملاک کے نقصان کی اہم وجہ ہیں ایسی تعمیرات کو فی الفور روکناضروری ہے سیلابی پانی سے منہدم گھربے ترتیب تعمیرات کی تصدیق ہیں اب تو ملیریا،ہیضہ ،ٹائیفائیڈ،اور موسمی بخارجیسی بیماریوں کا خطرہ بھی سرپرہے اگر آبی گزرگاہیں بحال رکھی جاتیں تو ایسی نوبت ہر گز نہ آتی۔
ابھی لوگوں کو سیلابی کیفیت کا سامنا ہے اسی لیے آنے والے سخت حالات کاندازہ نہیں چاول ،مکئی،سبزیوں اور چارے کی فصلوں کی تباہی سے خوراک کا بحران آناہے اِس مہنگائی اور بھوک و افلاس کے طوفان کو کیسے روکناہے؟یہ سوچنا حکومت کافرض ہے کہ بے کار مصروفیات چھوڑ کر ایسی منصوبہ بندی کرے جس سے متوقع بحران کی شدت کم ہو، اِسکے لیے بہتر ہے کہ ایران اور افغانستان سے غذائی اجناس اور سبزیاں درآمد کرنے پر غیر ضروری محصولات میں نرمی کی جائے تاکہ عام شہری زیادہ متاثر نہ ہو، یادرہے کہ امسال پاکستان کو توقع کے مطابق سیلاب کے متاثرین کے لیے عالمی امدادبھی نہیں ملی اِس پر سوچنے اور خودانحصاری پر کام کی ضرورت ہے یہ تبھی ممکن ہے جب سیلابی پانی کو زحمت بننے سے روکنے کے ساتھ نعمت بنایا جائے سیلاب سے زمینوں کی زرخیزی بڑھتی ہے، اِس سے فائدہ کیسے اُٹھاناہے؟ اِس پہلو سے بھی زرعی ماہرین منصوبہ بندی کریں تاکہ جلد ازجلد خوراک کابحران ختم کرنے میں مددملے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
حضرت محمدۖ ، محسن انسانیت وجود هفته 06 ستمبر 2025
حضرت محمدۖ ، محسن انسانیت

زحمت سے نعمت تک وجود هفته 06 ستمبر 2025
زحمت سے نعمت تک

مودی کے لیے چین بھائی اور امریکہ قصائی وجود هفته 06 ستمبر 2025
مودی کے لیے چین بھائی اور امریکہ قصائی

نئی عالمی بساط کی گونج! وجود جمعه 05 ستمبر 2025
نئی عالمی بساط کی گونج!

سیلابی ریلے : آبادی کی ضروریات اور ماحولیات میں توازن وجود جمعه 05 ستمبر 2025
سیلابی ریلے : آبادی کی ضروریات اور ماحولیات میں توازن

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر