وجود

... loading ...

وجود

مودی کے لیے چین بھائی اور امریکہ قصائی

هفته 06 ستمبر 2025 مودی کے لیے چین بھائی اور امریکہ قصائی

ڈاکٹر سلیم خان

ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں دیکھتے دیکھتے بھائی قصائی اور قصائی بھائی بن جاتا ہے ۔ اس کی تازہ ترین مثال وزیر اعظم نریندر مودی کا حالیہ چینی دور ہ ہے ۔ موصوف شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے چین جانے سے قبل ہی مودی جی نے چینی شہریوں پرہندوستان کے ویزے کی پابندی ختم کردی ۔ہندوستان اور چین کے درمیان ڈائریکٹ فلائٹس بھی شروع کروادی حتیٰ کہ سودیشی کا راگ الاپنے والے وزیر اعظم نے سرحدی علاقوں میں بارڈر ٹریڈ شروع کرنے کی بھی چھوٹ دے دی لیکن اس کے بدلے کیا ملا؟ کیونکہ سفارتکاری میں بیک وقت متحارب ملکوں کو خوش کرنے کوشش نہیں کی جاتی ۔ چین پر اتنی ساری مہربانیاں کرنے کے بعد شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے متصل چین کے اندر جنگ عظیم دوئم میں اپنی کامیابی کے حوالے سے منعقدہ فوجی پریڈ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے شرکت نہیں کی۔ حکومتِ چین نے اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی خاطر اس شاندار پریڈ کا اہتمام کیا جس میں روسی صدر پوٹن اور پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف سمیت 26ممالک کے سربراہوں نے شرکت کی لیکن مودی اس سے قبل جھولا اٹھا کر چل دئیے ۔
سوال یہ ہے کہ ایسی بھی کیا جلدی تھی؟ یہاں موصوف کون سا پہاڑ توڑتے ہیں؟ فی الحال تو ایوانِ پارلیمان کا اجلاس بھی نہیں چل رہا ہے ۔ دہلی میں بیٹھ کر انہوں نے بہار کے جس خیالی پروجکٹ کا افتتاح کیا وہ کام تو چین کے شہرتیانجن سے بھی ہوسکتا تھا یا اگر اس کام کو دو چار دن کے لیے ملتوی کردیا جاتا تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ویسے بھی بہار کے اندر فی الحال عوام کا ان پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے ۔ خیر قیاس تو یہ ہے کہ مذکورہ پریڈ کے ذریعہ چین نے ماضی میں جاپان پر اپنی فتح کی یاد دہانی کی اس موخرالذکر کا اس سے ناراض ہونا فطری ہے ۔ یہ خبر گرم ہے کہ جاپانی وزارت خارجہ نے اپنے دوست ممالک کو اس پریڈ میں شریک ہونے سے روکا تو ہندوستان نے اس کے دباؤ میں شریک نہیں
ہو ا ۔ سچ بات تو یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چین جاتے ہوئے جاپان جانے کی ضرورت ہی نہیں تھی اس طرح غلط ابتداء کا انجام بھی
درست نہیں ہوا۔ و ہاں ایران ، پاکستان، روس اور شمالی کوریا سمیت سارے امریکی دشمن موجود تھے ۔ مودی ان کے ساتھ کھڑے ہونے کے
نتیجے میں ملنے والی امریکی ناراضی سے بچنا چاہتے اس لیے فوراًلوٹ آئے نیز اپنے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر کر دیا۔
چین اور جاپان جیسی مخالف سمت میں چلنے والی کشتیوں میں بیک وقت سواری نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ اسی لیے کوئی ہم پر بھروسہ
نہیں کرتا اور اس مظاہرہ نریندر مودی اور شی جن پنگ کی ملاقات کے بعد سامنے آیا۔ اس اہم میٹنگ کے بعد دونوں رہنما کو ئی مشترکہ بیان
نہیں دے سکے اس سے اشارہ مل گیا کہ اتفاق کم اور اختلافات زیادہ ہیں۔ آگے چل کر جب دونوں جانب سے علٰحیدہ بیانات جسے سفارتی
زبان میں ریڈ آوٹ کہا جاتا ہے جاری ہوئے تو معلوم ہوا کہ ہندوستان اور چین کی ترجیحات میں واضح فرق ہے ۔ چین کے نزدیک معیشت
و تجارت کو زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ مال ہندوستان میں بیچ کر منافع کمانا چاہتا ہے لیکن ہندوستان کے لیے تحفظ
اور دہشت گردی اہم ہے کیونکہ وہ پاکستان کی چینی حمایت سے محروم کرنا چاہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ہندوستان کے علاقائی تحفظ اور
دہشت گردی کے خاتمہ پر زور دیا وہیں چین نے دوستی کی بنیاد تجارت کے فروغ کو بتایا۔ اس نے اپنے بیان میں علاقائی تحفظ کا ذکر کرنا تک
گوارہ نہیں کیا جبکہ حکومت ہند نے اسے اولین ترجیح قرار دیا۔
ہندوستانی بیان میں تجارتی خسارے کو کم کرنے پر زور دیا گیا ۔ اتفاق سے جو شکایت ہندوستان کو چین سے ہے وہی امریکہ کو ہندوستان
سے ہے ۔ چین کا ہندوستان میں اور ہندوستان کا امریکہ میں بر آمد بہت زیادہ ہے جبکہ درآمد کم ہے ۔ ہندوستان چاہتا ہے کہ چین بھی یہاں
کا مال در آمد کرے ۔ امریکہ بھی یہی اصرار کرتا ہے کہ ہندوستان امریکی مال کے لیے ہندوستانی بازار کھولے لیکن ہندوستان اور چین یہ نہیں
کرنا چاہتے ۔ چین سے ہندوستان جو توقع کرتا ہے اسی امریکی آرزو کووہ اپنے قومی مفاد کے خلاف سمجھتا ہے ۔ اسی طرح کا معاملہ ہند چینی
سرحدی تنازع پر بھی ہے ہندوستان چاہتا ہے کہ وہ معاملہ حل ہو مگر چین کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ تو کبھی لداخ کے ہندوستانی
علاقہ میں پُل بنا دیتا ہے اور کبھی ارونا چل پردیش کے برہما پترا ندی پر بند باندھ دیتا ہے ۔ اس نے فوجوں کی پرانی سرحد پر واپسی کاکوئی ذکر
نہیں کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے ہندو پاک کے درمیان یہی صورتحال تھی ۔ پاکستان کا کہنا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرو کیونکہ یہ بنیادی
اور باقی امور ثانوی حیثیت کے حامل ہیں لیکن ہندوستان کہتا تھا کشمیر کے علاوہ باقی بات کرو ۔ اب یہ چین کہتا ہے کہ سرحد کوچھوڑو اور تجارت
کرو۔ یہ نہایت دلچسپ تبدیلی ہے ۔
ہندوستان اور چین کی ترجیحات میں ایک واضح فرق یہ بھی ہے کہ اول الذکر کو سب سے زیادہ دلچسپی دہشت گردی کی روک تھام میں
ہے جبکہ آخرالذکر کے بیان میں اس کا نام و نشان ہی نہیں ہے ۔ ہندوستان کی جانب سے دہشت گردی کا ذکر ہمیشہ پاکستان کو گھیرنے کے
لیے کیا جاتا تھا لیکن اب وقت بدل گیا اس لیے چین میں جب وزیر اعظم نریندر مودی نے پہلگام کا ذکر کیا تو ان کے پاکستانی ہم منصب
نے وہاں کے دہشت گردوں کو پکڑنے نیز ان کی پشت پناہوں کو سزا دینے پر زور دیا کیونکہ ان کا الزام ہے کہ یہ ہندوستان کی اندرونی
سازش ہے اور پاکستان اس میں ملوث نہیں ہے ۔ پہلے یہ اس بیانیہ پر کوئی یقین نہیں کرتا تھا مگر اب لوگ کان دھرنے لگے ہیں۔ ہندوستان
اور چین کے درمیان اس بات پر تو اتفاق ہوگیا کہ دنیا یک قطبی نہیں بلکہ کثیر قطبی ہونا چاہیے کیونکہ چین خود امریکہ کے مقابلے دوسرے قطب
کا دعویدار ہے ۔ اس کے علاوہ ہندوستان کثیر قطبی ایشیا کی بھی وکالت کرتا ہے جو چین کو منظور نہیں کیونکہ وہ اس میں ہندوستانی شراکت داری
کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ ہندوستان کی امریکہ سے قربت کے سبب دیگر لوگ بھی اس کے دعویٰ کی حمایت نہیں کرتے ۔ وہ سمجھتے
ہیں کہ روس سے تیل کے معاملے کو نظر انداز کردیا جائے تو وہ دونوں ایک دوسرے کے ہمنوا ہیں ۔
وطن عزیز کے اندر بہت سارے لوگوں کو اس پر حیرت ہے کہ ہندوستان بیک وقت چین اور امریکہ کے ساتھ نہیں رہ پاتا لیکن پاکستان
کے لیے یہ کیونکر ممکن ہوجاتا ہے ؟ ہندوستان نے دراصل امریکہ و مغربی ممالک کے سامنے جب چین کا حریف بن کر کھڑا ہوتا ہے تو وہ پر
امید ہوجاتے ہیں اسے چین کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ چین کے تئیں بغضِ معاویہ میں ہندوستان کو مغربی دنیا سے مراعات و حمایت
حاصل ہوتی رہی ہے ۔اس لیے اب ہندوستان کی چین سے قربت مغرب کو قابلِ قبول نہیں ہے اسی زمرے میں روس سے تیل خریدنا بھی
آتا ہے ۔ اس کے برعکس پاکستان کے حوالے سے مغرب کو کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم چین کے مقابلے میں آپ کے ساتھ ہیں۔ اس لیے مغرب
اور امریکہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اسے چین کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ پاکستان سے چین کی مخالفت کا تصور تک نہ ہونا اس کے حوالے سے بیجا توقعات پیدا نہیں ہونے دیتا اور نہ مایوسی کو جنم دیتا ہے ۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے مودی نے پوٹن اور شی جن پنگ کے ساتھ اپنی تصاویر پوسٹ کرکے امریکہ کو یہ تاثر دیاہندوستان ،
چین اور روس ایک بڑا محاذ بنا سکتے ہیں۔ امریکی اس پیغام کو سمجھ گئے یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی کے دورہ چین
کے بعد اپنے سخت پیغام میں کہا کہ بھارت نے امریکہ کو دھوکا دیا ہے ۔ امریکہ سے مالی فوائد حاصل کرنے کے عوض کچھ نہیں دیاجوسراسر
دھوکہ ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے یہ اعتراف کیا کہ اب ہندوستان زیرو ٹیرف کی پیشکش کر رہا ہے لیکن بہت دیر ہو چکی ہے ۔ ٹرمپ کے
مطابق چونکہ ہندوستان روس سے ا سلحہ اور تیل خریدتا ہے اس لیے ہندو امریکہ کے درمیان تعاون کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ امریکی انتظامیہ
نے چین کی تصاویر کے باوجود محسوس کیا کہ مودی کو چین میں کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی ۔ اسی لیے ٹرمپ نے ایسا سخت پیغام جاری کیا۔
ٹرمپ کے سامنے مودی کے چینی کی قلعی کھل گئی اس لیے انھوں نے ایک اور سخت پیغام بلکہ وارننگ جاری کر دی نیز کواڈ سمٹ کے لیے رواں
سال کے آخر میں اپنا طے شدہ دورہ بھی منسوخ کردیا۔ہندوستان اس سال کے آخر میں کواڈ سمٹ کی میزبانی کرنے والا ہے ۔ سوال یہ ہے
کہ ایک جانب مودی سرکار بڑے جوش و خروش کے ساتھ جب روس اور چین کے خلاف بنائے گئے کواڈ کا اجلاس منعقد کرتی ہے تو اسی وقت
پوتن کو بھی دورے کی دعوت دے دیتی ہے ۔ اس طرح کے متضاد اقدامات کا نتیجہ یہی ہوسکتا ہے کہ ‘نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ، نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے ‘۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
حضرت محمدۖ ، محسن انسانیت وجود هفته 06 ستمبر 2025
حضرت محمدۖ ، محسن انسانیت

زحمت سے نعمت تک وجود هفته 06 ستمبر 2025
زحمت سے نعمت تک

مودی کے لیے چین بھائی اور امریکہ قصائی وجود هفته 06 ستمبر 2025
مودی کے لیے چین بھائی اور امریکہ قصائی

نئی عالمی بساط کی گونج! وجود جمعه 05 ستمبر 2025
نئی عالمی بساط کی گونج!

سیلابی ریلے : آبادی کی ضروریات اور ماحولیات میں توازن وجود جمعه 05 ستمبر 2025
سیلابی ریلے : آبادی کی ضروریات اور ماحولیات میں توازن

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر