وجود

... loading ...

وجود

ابن ِ خلدون کی پاکستان کے متعلق پیش گوئی

جمعرات 19 جون 2025 ابن ِ خلدون کی پاکستان کے متعلق پیش گوئی

آواز
۔۔۔۔
ایم سرور صدیقی

سات صدیاں قبل لکھی گئی دنیا کے ممتاز فلسفی ابن خلدون کی ایک تحریرنے کمال کردیا۔یوں محسوس ہوتاہے جیسے انہوں نے یہ آج کے پاکستان کے بارے میں لکھا ہو ۔ابن خلدون کی بات تو سچ ہے لیکن یہ بات بھی رسوائی کی ہے ۔پاکستان آزاد تو77سال پہلے ہوگیا تھا لیکن یہاں عام آدمی آج بھی محکوم بلکہ اشرافیہ کا غلام ہے۔ ان کا لکھا کس قدر ہمارے حسب ِ حال ہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔ابن خلدون کا کہنا ہے ”محکوم معاشرہ اخلاقی اقدار سے دستبردار ہو جاتا ہے ، ظلمت کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا ہے، ذہنی و جسمانی طور پر محکوم سماج کا انسان اتنا ہی جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے، ایک وقت آتا ہے کہ محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کے لیے زندہ رہتا ہے”۔ جب ریاستیں ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو ان میں نجومی، بھکاری، منافق، ڈھونگ رچانے والے، چغل خور، کھجور کی گٹھلیوں کے قاری، درہم و دینار کے عوض فتویٰ فروش فقہیہ، جھوٹے راوی، ناگوار آواز والے متکبر گلوکار، بھد اڑانے والے شاعر، غنڈے، ڈھول بجانے والے، خود ساختہ حق سچ کے دعویدار، زائچے بنانے والے، خوشامدی، طنز اور ہجو کرنے والے، موقع پرست سیاست دانوں اور افواہیں پھیلانے والے مسافروں کی بہتات ہوجاتی ہے”۔ ( غورکا مقام ہے سوچیں اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں کہ یہ ساری باتیں پاکستانی معاشرے پر صادق نہیں آتیں) ”ہر روز جھوٹے روپ کے نقاب آشکار ہوتے ہیں مگر یقین کوئی نہیں کرتا ، جس میں جو وصف سرے سے نہیں ہوتا وہ اس فن کا ماہر مانا جاتا ہے، اہل ہنر اپنی قدر کھو دیتے ہیں، نظم و نسق ناقص ہو جاتا ہے، گفتار سے معنویت کا عنصر غائب ہوجاتا ہے ، ایمانداری کو جھوٹ کے ساتھ، اور جہاد کو دہشت گردی کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے)۔ پاکستانی معاشرے کی جیتی جاگتی حقیقت بھی یہی ہے کہ ہم ایک قوم بننے کی بجائے اپنی عافیت ذاتوں،برادریوں، لسانی گروہوں،فرقہ واریت اور سرمایہ داری نظام، جاگیرداری سسٹم اورلاحاصل بحث مباحثہ میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں ابن خلدون نے 7 سوسال پہلے ہی پیش گوئی کردی تھی کہ” جب ریاستیں برباد ہوتی ہیں، تو ہر سو دہشت پھیلتی ہے اور لوگ گروہوں میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں، عجائبات ظاہر ہوتے ہیں اور افواہیں پھیلتی ہیں، بانجھ بحثیں طول پکڑتی ہیں، دوست دشمن اور دشمن دوست میں بدل جاتا ہے، باطل کی آواز بلند ہوتی ہے اور حق کی آواز دب جاتی ہے، مشکوک چہرے زیادہ نظر آتے ہیں اور ملنسار چہرے سطح سے غائب ہو جاتے ہیں، حوصلہ افزا خواب نایاب ہو جاتے ہیں اور امیدیں دم توڑ جاتی ہیں، عقلمند کی بیگانگی بڑھ جاتی ہے، لوگوں کی ذاتی شناخت ختم ہوجاتی ہے اور جماعت، گروہ یا فرقہ ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔
دراصل جب انسان روشن ضمیرہوجاتاہے توعلوم اس پر حقیقت ِ حق آشکارکردیتاہے اس طرح اس کی باتیں ایک ایسا آئینہ دکھائی دیتاہے جس میں وہی نظر آتاہے جو اصل ہوتاہے یہاںتو مٹی چہرے پر پڑی ہوتی ہے اور اکثرآئینہ صاف کرتے دکھائی دیتے ہیں بڑی بڑے مذہبی ،سیاسی، معاشرتی رہنمائوںکا یہ حال ہے کہ وہ حقیقت کے برخلاف اپنی را ئے دوسروںپر تھونپ کر سمجھتے ہیں انہوںنے تیرمارلیاہے اسی تناظرمیں ابن ِ خلدون جیسے فلسفیوں کا لکھا معتبر ہوجاتاہے وہ لکھتے ہیں
”مبلغین کے شور شرابے میں دانشوروں کی آواز گم ہو جاتی ہے۔بازاروں میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے اور وابستگی کی بولیاں لگ جاتی ہیں، قوم پرستی، حب الوطنی، عقیدہ اور مذہب کی بنیادی باتیں ختم ہو جاتی ہیں اور ایک ہی خاندان کے لوگ خونی رشتہ داروں پر غداری کے الزامات لگاتے ہیں”۔ ” بالآخر حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ لوگوں کے پاس نجات کا ایک ہی منصوبہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے “ہجرت”، ہر کوئی ان حالات سے فرار اختیار کرنے کی باتیں کرتا ہے، تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے، وطن ایک سرائے میں بدل جاتا ہے، لوگوں کا کل سازو سامان سفری تھیلوں تک سمٹ آتا ہے، چراگاہیں ویران ہونے لگتی ہیں، وطن یادوں میں، اور یادیں کہانیوں میں بدل جاتی ہیں”۔
اب آپ ہی بتائیے کیا یہ سب کچھ پاکستانی معاشرے کی حقیقت کشائی نہیں کی گئی ایک حکومتی سروے میں کہا گیا کہ صرف ایک سال کے دوران 800000 سے زائد پاکستانی ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں جابسے اور دن بہ دن خود جلاوطن ہونے والوںکی تعدادمیں برابر اضافہ ہوتاچلاجارہاہے اور حکومت کو اس بارے مطلق احساس نہیں کہ ملک جوہر ِقابل سے خالی ہوتاجارہاہے حکمران اور اشرافیہ اس بات سے خوش ہیں کہ ملک میں ان” جلاوطنوں” کی وساطت سے زر ِ مبادلہ آرہاہے ۔ کیا ابن ِ خلدون کی پیش گوئی سچ ہورہی ہے کہ لوگوں کے پاس نجات کا ایک ہی منصوبہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے “ہجرت”، ہر کوئی ان حالات سے فرار اختیار کرنے کی باتیں کرتا ہے، تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے، وطن ایک سرائے میں بدل جاتا ہے، لوگوں کا کل سازو سامان سفری تھیلوں تک سمٹ آتا ہے، چراگاہیں ویران ہونے لگتی ہیں، وطن یادوں میں، اور یادیں کہانیوں میں بدل جاتی ہیں” اور اہلیان ِ وطن کے لئے یہ یادیں اتنی بھیانک ہو جاتی ہیں کہ اپنے پیاروںکی جدائی میں وہ دن رات تڑپتے رہتے ہیں بیماری، دکھ ،تکلیف میں کوئی اپنا پاس نہ ہو تو دل پر کیا گذرتی ہے یہ وہی جانتے ہیں کبھی ”جلاوطن” غریب الدیاربن کرپردیسی ملک میں منوں مٹی تلے سو جاتے ہیں اورحالات کی ستم ظریقی، مالی مشکلات، بروقت فلائٹ نہ ملنے کے باعث کبھی وہ اپنے پیاروںکا آخری دیار بھی نہیں کرپاتے غیر جنازے اٹھاتے ہیں تو ان کے دلوںپر کیا حشر بپا ہوتا ہوگا یہ ناقابل ِ بیان ہے جبکہ حکمران اور اشرافیہ اس بات سے خوش ہیں کہ ملک میں پردیسیوںکی وساطت سے زر ِ مبادلہ آرہاہے۔ آہ ابن ِ خلدون آہ آپ کتنے روشن ضمیر تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مودی کی فرقہ وارانہ پالیسی وجود جمعرات 19 جون 2025
مودی کی فرقہ وارانہ پالیسی

ابن ِ خلدون کی پاکستان کے متعلق پیش گوئی وجود جمعرات 19 جون 2025
ابن ِ خلدون کی پاکستان کے متعلق پیش گوئی

اسرائیلی جارحیت ایک مخصوص سو چ کی عکاس وجود بدھ 18 جون 2025
اسرائیلی جارحیت ایک مخصوص سو چ کی عکاس

مسلمانوں کی حب الوطنی پرسوال وجود بدھ 18 جون 2025
مسلمانوں کی حب الوطنی پرسوال

مذاکرات کے درمیان ایران پر اسرائیلی حملہ کیوں؟ وجود بدھ 18 جون 2025
مذاکرات کے درمیان ایران پر اسرائیلی حملہ کیوں؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر