وجود

... loading ...

وجود

مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں!

هفته 19 اپریل 2025 مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں!

آفتاب احمد خانزادہ

”کوئی بھی آپ کو وہ پل نہیں بنا سکتا جس پر آپ کو اور صرف آپ کو زندگی کے دریا کو عبور کرنا ہوگا”۔نوجوان نطشے نے یہ سوچتے ہوئے لکھا تھا کہ اپنے آپ کو تلاش کر نے کے لیے کیا ضروری ہے ، وہ انسانیت کی کچھ انتہائی یقینی روحوں کو متاثر کر نے میں کامیاب ہوا ،ان میں سے نوبیل انعام یافتہ ناول نگار Hermann Hesse شامل ہے ۔ جس نے نطشے کے فلسفے سے سب سے زیادہ انسان دوست نظریات اخذ کیے پھر انہیں اپنی ماروائی انسانیت سے بڑا کیا ۔ اپنے آپ اور دنیا کے لیے ہماری انسانی ذمہ داری کے بارے میں Hesseکے کچھ انتہائی حوصلہ افزا خیالات اس کے ”ایک نوجوان جرمن کے لیے خط ” میں لکھے سامنے آتے ہیں جو 1919 میں ایک مایوس نوجوان کو لکھے گئے تھے ۔ وہ لکھتا ہے
” آپ کو کسی اور کے ہونے یا کچھ بھی نہیں ہونے ، دوسروں کی آوازوں کی نقل کرنے اور دوسروں کے چہروں کو اپنے لیے غلط سمجھنے کی عادت کو چھوڑ دینا چاہئے۔ انسان کو ایک چیز دی جاتی ہے جو اسے دیوتا بناتی ہے جو اسے یاد دلاتا ہے کہ وہ دیو تا ہے وہ ہے تقدیر کو جاننا ۔ جب مقدر باہر سے انسان کے پاس آتا ہے تو اسے اس طرح پست کر دیتاہے جس طرح تیر ہرن کو نیچے کر دیتا ہے ، جب تقدیر انسان کو اندر سے ، اس کے باطن سے آتی ہے تو وہ اسے مضبوط بناتی ہے، اسے خدا بنادیتی ہے جس انسان نے اپنی تقدیر کو پہچان لیا ہو وہ اسے بدلنے کی کوشش نہیں کرتا ۔ تقدیر کو بدلنے کی کوشش ایک بچگانہ جستجو ہے جو انسانوں کو جھگڑنے اور ایک دوسرے کو مارنے پر مجبور کر تی ہے ۔ تمام دکھ ، زہر اور موت مسلط مقدر ہیں لیکن ہر سچا عمل ، ہر وہ چیز جو اچھی اور خوشگوار ہو اور زمین پر ثمر آورہو مقدر ہے ۔
نطشے کے اس اصرار کی بازگشت کہ ایک مکمل زندگی کے لیے بھاگنے کی بجائے اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ Hesse نے نوجوانوں کو اپنے مصائب کااحترام اور تجسس کے ساتھ علاج کرنے کی تلقین کی اور مزید کہا کیا تیرا کڑوا درد تقدیر کی آواز نہ ہو کیا وہ آواز ایک بار سمجھ آجائے تو میٹھی نہ ہوجائے ؟ عمل اور مصائب جو مل کر ہماری زندگی بناتے ہیں ایک مکمل ہیں وہ ایک ہیں ۔ ایک بچہ اپنی پیدائش کو برداشت کر تاہے اسے دودھ چھڑانا برداشت کرنا پڑتا ہے یہ یہاں دکھ اٹھا تا ہے اور وہیں تکلیف اٹھاتا ہے یہاں تک کہ آخر کار اسے موت کا سامنا کر ناپڑتاہے ۔ لیکن ایک آدمی میں وہ تمام خوبیاں ،جن کے لیے اس کی تعریف کی جاتی ہے یا اس سے پیار کیاجاتا ہے وہ محض اچھا دکھ ہے صحیح قسم کی زندہ قسم کی تکلیف ، ایک مکمل تکلیف ۔ اچھی طرح سے تکلیف اٹھانے کی صلاحیت زندگی کے نصف سے زیادہ ہے ۔ پیدائش تکلیف ہے ۔ نشو ونما تکلیف ہے بیج زمین کو تکلیف دیتاہے کلی اپنے پھول کو برداشت کرتی ہے ۔ اسی طرح میرے دوستوں انسان تقدیر کا شکار ہوتا ہے تقدیر زمین ہے یہ بارش اورترقی ہے ۔ تقدیر تکلیف دیتی ہے زندگی بولتی ہے دیکھنا سیکھو جب تقدیر کا سورج تمہارے سائے سے کھیلتا ہے تو زندگی کا احترام کر نا سیکھو ۔ دو ہزار سال بعد سینیکا نے نصیحت کی کہ ” آپ کے تمام دکھ آپ پر ضائع ہوچکے ہیں اگر آپ نے ابھی تک یہ نہیں سیکھا کہ کس طرح دکھی َہونا ہے”۔ نوجوان : آپ کو خود بنایا گیاتھا آپ کو ایک آواز ، ایک لہجے ، ایک سائے کے ساتھ دنیا کو مالا مال کر نے کے لیے بنایا گیاتھا ۔ تم میں سے ہر ایک میں کوئی نہ کوئی وجود چھپا ہوا ہے جو ابھی تک بچپن کی گہری نیند میں ہے اسے زندہ کر و! آپ میں سے ہر ایک میں ایک پکار ، ایک خواہش ، فطرت کا ایک جذبہ ، مستقبل کی طرف ایک تحریک ہے اسے پختہ ہونے دیں اسے گو نجنے دیں اس کی پروروش کریں آپ کا مستقبل یہ یا وہ نہیں ہے یہ پیسہ یا طاقت نہیں ہے یہ آپ کی تجارت میں ،حکمت میں یا کامیابی میں نہیں ہے ۔ آپ کا مستقبل ، آپ کا مشکل خطرناک راستہ یہ ہے پختہ ہونااور اپنے آپ میں خدا کو تلاش کرنا ۔Marcus Aurelius کہتا ہے ” ایک شخص جو نہیں جانتا کہ کائنات کیاہے وہ نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے جو شخص اپنی زندگی کا مقصد نہیں جانتا وہ نہیں جانتا کہ وہ کون ہے یا کائنات کیا ہے ان چیزوں میں سے کسی ایک کو بھی معلوم نہیں کہ وہ یہاں کیوں ہے تو ان لوگوں کا کیا کیاجائے جو ان لوگوں کی تعریف تلاش کرتے ہیں یاان سے گریز کرتے ہیں جن کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں اورکون ہیں ؟” کامیڈین Mitch Hedberg کی ایک مضحکہ خیز کہانی تھی جو اس نے اپنے ایکٹ میں سنائی تھی ۔ ریڈیو پر آن ائیر انٹرویو کے لیے بیٹھے ہوئے ایک ڈی جے نے اس سے پوچھا تو آپ کون ہیں ؟ اس لمحے اسے سو چنا پڑاکیا یہ آدمی گہرا ہے یا میں نے غلط اسٹیشن پر گاڑی چلادی ہے ۔ ہم سے اکثر یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ کون ہیں یا آپ کیاکرتے ہیں یاآپ کہاں سے ہیں ؟ ہم میں سے کوئی بھی بغیر مقصد کے پیدا نہیں کیا گیا ہے اور یہ بھی کہ ہمیں اپنے پیدا ہونے کا مقصد پہلے بتا یا نہیں جاتا ہے ۔ مقصد ہمیں خود ڈھونڈنا پڑتاہے ۔ اسے تلاش باہر نہیں بلکہ اپنے اندر کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے اندربہت دور تک جانا پڑتا ہے Les Brown نے کہاتھا ” ہم میں سے بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اپنے خوابوں کو نہیں جی رہے ہیں بلکہ اپنے خوف کو جی رہے ہیں”۔
ہزاروں کہانیوں میں سے نا قابل فراموش کہانی ایورسٹ گلیو ئے کی ہے جو فرانس کا ہو نہار طالب علم تھا اور بچپن سے ہی ریاضی خصوصاً الجبرے میں حیران کن کارکردگی کا مظاہرہ کر رہاتھا۔ 1831 میں جب وہ صرف20سال کا تھا ایک لڑکی کی وجہ سے اس کاجھگڑا ہو گیا دوسرے شخص نے اسے Duel کا چیلنج کر دیا لڑائی سے ایک رات قبل اسے یقین ہوگیا کہ کل اس کی موت یقینی ہے، اسی خوف اور دہشت کے عالم میں وہ اپنی میز پر بیٹھا اور الجبرے کی ان تمام Equations کی سمری لکھنے لگا جو زندگی بھرا سے پریشان کرتی رہی تھیں۔ وہ رات بھر برق رفتاری اور بھر پور جوش و جذبے سے الجبرے کی مساوتیں لکھتا رہا۔ اگلے دن اپنی توقع کے عین مطابق وہ لڑائی میں مخالف کے ہاتھوں مارا گیا اس کی موت کے کئی سالوں بعد جب اس کے نوٹس کا مطالعہ کرنے کے بعد شائع کر ایا گیاتو الجبرے کے میدان میں ایک انقلاب بر پا ہوگیا ۔اس کے ان نوٹس نے علم ریاضی کے بارے میں ایسے ایسے نکات کا انکشاف کیا جو اپنے عہدسے بہت آگے تھے ۔ یہ جاننا مشکل ہے کہ ایک ہی رات میں وہ اس کے ذہن میں کیسے تخلیق پائے۔ نظریۂ اضافت پر مسلسل دس سال تک کام کرنے کے بعد ایک روز تھک ہار کر البرٹ آئن اسٹائن نے مزید کام نہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔وہ اس شام اپنے بستر پر سونے کے لیے چلا گیا اگلی صبح جب وہ بیدار ہوا تو اسے اپنے مسئلے کاحل مل گیا ۔ ہر مسئلہ اپنا حل لیے وجود میں آتا ہے اور یہ مسئلے کے ساتھ ہی موجود ہوتاہے ۔ اب یہ آپ پرمنحصر ہوتاہے کہ آپ صرف مسئلے کو دیکھتے ہیں یا ساتھ ہی ساتھ حل کو بھی دیکھتے ہیں ۔مایوس اورخوفزدہ وہ ہوتے ہیں جوحل کو دیکھ نہیں پاتے ہیں ۔تب ہی سقراط بار بار ایک ہی بات پر زور دیتا تھا ”سوچو”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارت کی بین الاقوامی میڈیا میں سبکی وجود بدھ 30 اپریل 2025
بھارت کی بین الاقوامی میڈیا میں سبکی

مسئلہ بلوچستان پر سردار نواب بخش باروزئی کی فکر انگیز باتیں وجود بدھ 30 اپریل 2025
مسئلہ بلوچستان پر سردار نواب بخش باروزئی کی فکر انگیز باتیں

ایٹمی جنگ دنیا کوجھنجھوڑ کے رکھ دے گی! وجود بدھ 30 اپریل 2025
ایٹمی جنگ دنیا کوجھنجھوڑ کے رکھ دے گی!

خطہ جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے! وجود منگل 29 اپریل 2025
خطہ جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے!

بھارت کا جھوٹی خبریں پھیلانے میں اول نمبر وجود منگل 29 اپریل 2025
بھارت کا جھوٹی خبریں پھیلانے میں اول نمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر