وجود

... loading ...

وجود

ایک سیکریٹری اور پوری اسمبلی

بدھ 13 نومبر 2024 ایک سیکریٹری اور پوری اسمبلی

میری بات/روہیل اکبر
جب الیکشن آتے ہیں تو ہمارے تقریبا ہر سیاستدان کے پوسٹر ،اسٹکر اور بینر پر ایک لفظ لازمی لکھا ہوا تا ہے ،بے داغ ماضی، روشن مستقبل اور واقعی ہمارے سیاستدانوں نے ابھی تک تو مل جل کر اپنے ماضی کو بے داغ اور مستقبل روشن ہی رکھا ہوا ہے۔ حالانکہ ان میں سے اکثر پر کرپشن کے الزامات ہیں اور بہت سے سیاستدان جیلوں میں بھی رہ آئے ہیں۔ اگر ہم ان کی دولت کا اندازہ لگائیں تو سیاست میں آنے سے پہلے اور اب ان کے اثاثوں میں زمین آسمان کا فرق ہے اور انہی کی دیکھا دیکھی ہمارے بیوروکریٹ بھی انہی کے نقش قدم پر گامزن ہیں ۔اگر کسی کے اندر ملک وقوم کا درد ہوتا ہے تو وہ اس درد کو اپنی سانسوں میں بسا کر خاموشی کی چادر اوڑھ لیتا ہے لیکن اند ہی اندر وہ تڑپ رہا ہوتا ہے کہ میرے ملک کے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے۔ اگر یہ ظلم کسی کی برداشت سے باہر ہو جائے اور وہ وزیروںاور مشیروں کے غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کردے تو پھر اسے نشان عبرت بنانے کے لیے پورا گھر اکٹھا ہو جاتا ہے کہ یہ سب سے الگ کہاں سے آگیا۔
ملک کے برباد ہونے اور لوگوں کے اجڑنے کا درد اسی کے اندر ہوگا جس نے پاکستان کو بنتے دیکھا جسکے خاندان نے قربانیاں دی اور تقسیم کے وقت جنکے سامنے معصوم بچوں کو نیزے کی انیوں پہ اچھالا گیا۔ مائوں ،بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں لوٹی گئی اور ملک کی محبت میں بہن بھائیوں ، والدین اور بچوں سے جدا ہونا پڑا قربانیوں کی ایک طویل مسافت طے کرنے کے بعد پاکستان پہنچنے والے پھر بھی خوش تھے کہ اب اپنا ملک ہے جہاں ہر طرف خوشحالی ہوگی اور اب کسی کو ذلیل و رسوا نہیں ہونا پڑے گا ہر کسی کو حق اس کی دہلیز پر ملے گا۔ یہ ایسا ملک ہوگا جہاں ہر کام میرٹ پر ہوگا جہاں ایماندار کو سزا نہیں بلکہ انعام ملے گا اورملک لوٹنے والوں کو الٹا لٹکادیا جائے پاکستان ایک ایسا ملک ہوگا جہاں غربت کے ہاتھوں تنگ آکر کوئی خود کشی نہیں کرے گا، کوئی کسی وڈیرے،جاگیر دار اور حکمران کے ظلم سے تنگ آکر مظلوم نہیں بنے گا ۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہوگا جہاں تھانوں میں جھوٹے مقدمات درج نہیں ہونگے اور کرپشن میں ڈوبے ہوئے پولیس والے نہیں ہونگے۔ ہمارا نظام انصاف ایسا نہیں ہوگا کہ ہم دنیا کے آخری نمبروں میں ملک سکیں اور ہمارا نظام تعلیم طبقاتی نہ ہو جہاں امیر کے لیے تعلیم کا پیمانہ اور ہو اور غریب کے لیے اور ہمارا نظام حکومت ایسا نہ ہو جیسا اب بن چکا ہے کہ ایک ایماندار ،محب وطن اور درد دل رکھنے والے سیکریٹری کے خلاف پوری اسمبلی مل جائے اور باقی افسران کو دکھانے کے لیے اسے سزا دیدی جائے تاکہ باقیوں کو کان ہو جائیں بابار امان بابر جیسے افسر ہماری بیوروکرسی کی نہ صرف شان ہیں بلکہ وہ اس گندے اور جلے سڑے نظام میں امید کی کرن اور روشن صبح کی چنگاری ہیں جن کے حوصلے سے بہت سے اور لوگ بھی ہمت پکڑیں گے شاید ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے آج تک پاکستان ہم جیسوں کے لیے بھی محفوظ ہے ورنہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے والا کب محفوظ رہتا ہے بابر امان بابر کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں کیا گیا ۔یہ ایک لمبی داستان ہے اس پھر تفصیل سے لکھوں گا۔
ابھی تو ملک میں آلودگی کا موسم چل رہا ہے اور لاہورنے تو تاریخ رقم کردی گندگی کے حوالہ سے جو پورے پنجاب سے یہاں پہنچی ہوئی ہے اور اسی فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے ہماری وزیر اعلی بھی پرفضا مقام یعنی بیرون ملک چلی گئی ہیں۔ محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ ایک طرح سے سمجھدار خاتون ہیں جو ملکی معاملات کی خاطر کسی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتی ۔موصوف وزیر معدنیات شیر علی گورچانی کی جب لینے دینے کے معاملہ پر مبینہ ویڈیو لیک ہوئی ،تو اس پر وزیر اعلیٰ نے کوئی ایکشن نہیں لیا لیکن انہوں نے وزیر صاحب کی شکایت پر سیکریٹری معدنیات کو بھی تبدیل نہیں کیا لیکن جیسے ہی وزیر اعلیٰ ملک سے باہر گئی تو اسمبلی کے ذریعے سیکریٹری معدنیات کو ہٹا دیا گیا بات پھر وہی پر آگئی خیر سے ہمارے سابق وزیراعظم اور انکی صاحب زادی سوئٹزرلینڈ میں ہیں جوعلاج کرانے کی غرض سے گئے ہیں مگر علاج شاید بینک اکاؤنٹ یا اثاثوں کا ہے ورنہ انسانی علاج تو کئی دوسرے ممالک میں ہو جاتا اگر مال و دولت کا علاج ہو یا بہت زیادہ دولت بڑھ گئی ہو تو پھر سوئٹزرلینڈ ہی جانا پڑتا ہے کیونکہ دنیا بھر کے ایسے لوگوں کی دولت یہی ہوتی ہے جو غیر قانونی طریقے سے کماتے ہیں ہمارے حکمران اور لیڈر تو ماشاء اللہ ویسے بھی خاندانی امیر ہیں ۔انہیں کرپشن کرنے کی ضرورت ہی نہیں اپنے پیسے سے دنیا گھومیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن اعتراض اس وقت ہوتا ہے جب کچھ لوگ ہمارے حکمرانوں کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ جاتے ہیں ۔ہماری چیف منسٹر صاحبہ باہر اپنے والد صاحب کے ساتھ تھیں کسی نے جملے کسے اور فارم سنتالیس کی وزیر اعلیٰ کہامیں بطور ایک انسان اس بات کی مذمت کرتاہوں کہ ہم میں سے کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں ہے۔
ہم انسان ہیں غلطیاں کر جاتے ہیں یہاں پر تو ایک پٹواری سے لیکر اوپر تک سبھی عا م لوگوں کے کپڑے اتارنے میں مصروف ہیں ،ہاں کپڑوں سے یاد آیا کہ ہمارے وزیر اعظم نے بھی اپنے کپڑے بیچ کر عوام کو خوشیاں دینے کا وعدہ کررکھا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ خوشیاں ہم سے روٹھ چکی ہیں ہر طرف مہنگائی اور جبر کا موسم تو تھا ہی ساتھ میں یہ آلودہ فضا نے ہمارا جینا مشکل کردیا ہے سموگ نے عام شہریوں کی عمریں 7سال کم کردی ہیں اور اسکے تدارک کے لیے حکومتی کاروائیاں صفر نظر آتی ہیں ہاں اگر کسی سیکریٹری کے خلاف کاروائی کرنا ضروری ہو تو پھر اسکے لیے پنجاب اسمبلی میں سبھی بڑے سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن جب معاملہ عام لوگوں کی صحت کا ہو تو پھر اس پر کوئی عملی کام کرنے کی بجائے لمبی لمبی تقریریں کرکے عوام کو تسلی ضرور دی جاتی ہے اور رہی بات بے داغ ماضی اور روشن مستقبل ، تواس کی زندہ مثال اگر کسی نے دیکھنی ہو تو وہ بابر امان بابر کو دیکھ لے۔ گزشتہ روز علامہ اقبال کا جنم دن تھا تو انہی کا ایک شعر سب پڑھنے والوں کی نذر
اللہ سے کرے دور ،تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ


متعلقہ خبریں


مضامین
پانچ بار کی ورلڈ چیمپئن بلائنڈ کرکٹ ٹیم وجود اتوار 08 دسمبر 2024
پانچ بار کی ورلڈ چیمپئن بلائنڈ کرکٹ ٹیم

حسرتوں کے مینار وجود اتوار 08 دسمبر 2024
حسرتوں کے مینار

آخر ہماری آنکھیں کب کھلیں گی! وجود اتوار 08 دسمبر 2024
آخر ہماری آنکھیں کب کھلیں گی!

مشرقِ وسطیٰ تبدیلیوں کے دوراہے پر وجود اتوار 08 دسمبر 2024
مشرقِ وسطیٰ تبدیلیوں کے دوراہے پر

خواجہ رفیق شہید تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن وجود اتوار 08 دسمبر 2024
خواجہ رفیق شہید تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر