وجود

... loading ...

وجود
وجود

ملکہ ہانس اور وارث شاہ

جمعرات 18 اپریل 2024 ملکہ ہانس اور وارث شاہ

میری بات/روہیل اکبر
ہمارے دوسرے محکموں کی طرح اوقاف اور آثار قدیمہ کا بھی برا ہی حال ہے جو اپنا کام کرنا تو دور کی بات اسکی طرف آنکھ بھر کر دیکھتے بھی نہیں ہے جس کام کے لیے یہ محکمے بنے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اس کی مخالف سمت میں کام کرنا شروع کررکھا ہے اگر ہمارے ادارے اپنے کام کے 50فیصدپر بھی توجہ دیتے تو آج ہم سبھی خوشحال ہوتے لیکن ہوا اسکے برعکس کہ آج خوشحالی کی بجائے ہر طرف بدحالی ہی بدحالی ہے اور لوگ بھوک سے مر رہے ہیں ہر گھڑی ہزاروں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے گر رہے ہیں اور ہمارے ارباب اقتدار اپنی مستیوں میں گم ہیں۔ کسی کو کسی کی کوئی پراہ ہے اور نہ ہی خیال بلکہ سبھی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کوئی اچھا سوچتا ہے اورنہ ہی کسی کے ساتھ اچھا کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔الٹا لڑائی جھگڑوں میں ہم نے اپنا آپ بھی تباہ کرلیا ہے۔ اسی لڑائی جھگڑے میں ہم نے اپنی ثقافت اور سیاحت کو بھی دفن کردیا ۔پوری دنیا اس وقت سیاحت سے پیسہ کما رہی ہے لیکن ہم نے اپنی اس انڈسٹری کو بھی اپنے ہاتھوں ختم کردیا۔ رہی سہی کسر ہمارے وہ ادارے پوری کررہے ہیں جن کے ذمہ ہماری سیاحت اور ثقافت کو پروان چڑھانا ہے۔ ہمارے بہت سے تاریخی شہر ہیں جنکی ہم دیکھ بھال نہ کرسکے ۔ہمارے پاس ہندوں اور سکھوں کے لاتعداد مقدس مقامات ہیں جن پر لوگوں نے قبضے کرکے انہیں تباہ برباد کردیا۔ ہمارے پاس اسلام کے ابتدائی دنوں کے نادر اور مقدس مقامات ہیں جنکی ہم دیکھ بھال نہ کرسکے۔ ہمارے پاس دنیا کی خوبصورت جھیلیں ،آبشاریں،بلندوبالا پہاڑ ،ہڑپہ ،موہنجوداڑو اور وادی سندھ کی صدیوں پرانی تہذیب ہونے کے باوجود ہم اسے دنیا کے سامنے لانے سے قاصر رہے جس کے بعد ہمارے تاریخی مقامات ختم ہوتے ہوتے اب ختم ہوچکے ہیں۔
عید کے بعد دوستوں فیصل ،جاوید اور شہباز کے ساتھ ساہیوال جانا ہوا وہاں سے پاکپتن کا پرگرام بن گیا راستہ میں ملکہ ہانس سے راناامیر ثاقب خاں کرنالیاں اور رانا عمران کا فون آگیا جنہوں نے رات ہمیں اپنا مہمان بنا لیاانکے ڈیرے تک پہنچتے پہنچتے وہاں کے سیاست دانوں کا تو اندازہ ہوگیا جنکی وجہ سے ملکہ ہانس کی ایک بھی سڑک ،گلی اور نالی درست حالت میں نہیں تھی۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ملکہ ہانس صدیو ںپرانا شہر ہی نظر آتا ہے یہاں کی قدیم اور تاریخی مسجد وارث شاہ جہاں وارث شاہ نے بیٹھ کر ہیر لکھی محکمہ اوقاف اور آثار قدیمہ کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔اس مسجد کی دیکھ بھال اہل محلہ اپنی مدد آپ کے تحت کررہے ہیں مسجد کے سامنے ہی ایک تاریخی پرنامی مندر اور گردوارہ بھی ہے جومحکمانہ لاپرواہیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔باقی سب باتوں سے ہٹ کر اگر ہم ملکہ ہانس کی بات کریں تو یہ پنجاب کا ایک تاریخی قصبہ ہے جو ساہیوال روڈ پر پاکپتن سے تقریباً 15 کلومیٹر اور ساہیوال سے 34 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ پنجابی کے مشہور شاعر وارث شاہ اپنے آبائی گاؤں جنڈیالہ شیر خان سے یہاں آئے اور 1766 میں کلاسک مہاکاوی ہیر کی تخلیق کی مولوی عبداللہ جس نے فقہ پر پنجابی کی ایک مشہور کتاب لکھی، ان کا تعلق بھی ملکہ ہنس سے تھا ۔وہ لاہور آئے اور لوہاری دروازے کے اندر شیراں والی گلی میں رہنے لگے جہاں میاں محمد بخش تین ماہ تک رہے۔ اس علاقے میں کھگہ فیملی اور ڈوگر فیملی کی سیاست زیادہ ہے اور انہی میں سے علاقے کے ایم پی اے اور ایم این اے بنتے ہیںملکہ ہانس کے زیادہ تر رہائیشیوں کا کہنا ہے کہ ہمارے سیاستدان کرپٹ ہیں جنہوں نے 25 سال سے سیوریج اور پانی کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش تک نہیں کی ۔یہ ہمیشہ ایک دوسرے کو چور کہتے ہیں لیکن حقیقت میں دونوں کا خون ایک ہی ہے جنہوں نے ملکہ ہنس کو تحصیل نور پور بنانے کی بجائے پاکپتن کی تحصیل بنانے کا اعلان کردیا جب بینظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں تو انہوں نے ساہیوال ،اوکاڑہ اور وہاڑی کے لوگوں کے لیے ملکہ ہانس میں ہی ائرپورٹ بنانے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد جگہ بھی خریدی گئی لیکن وہ منصوبہ بھی سیاست دانوں کی باہمی چپقلشوں کے بعد ختم ہوگیا اگر ملکہ ہانس میں ائیر پورٹ بنا ہوتا شہریوں کوتو جو سہولیات ملنا تھی اس سے ہٹ کر اس تاریخی شہر کی حیثیت بھی تبدیل ہو جاتی اسکی گلیاں پکی ہوجاتی نالیوں کی بجائے سیوریج بچھ جاتا اور ہمارے تاریخی ورثے بھی بچ جاتے پوری دنیا سے سیاح ملکہ ہانس ائیر پورٹ پر اترتے۔ مسلمان اپنی صدیوں پرانی تاریخ دیکھتے 760ھ میں تعمیر ہونے والی مسجد وارث شاہ دیکھتے ۔پاکپتن میں بابا فریدالدین گنج شکر کے مزار پر حاضری دیتے۔ صدیوں پرانا شہر ہڑپہ کو جانتے جبکہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اپنے اپنے تاریخی مقامات کی سیر کرتے صرف سیاحت سے ہی پاکپتن اورساہیوال کے لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوجاتا ۔یہ کسی ایم پی اے ،ایم این اے یا پھربیوروکریسی کے محتاج نہ رہتے ان شہروں کی سڑکیں پختہ ہوتیں، شہر خوبصورت ہوتے اور لوگ تہذیب یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ خوشحال بھی ہوتے لیکن بدقسمتی سے ہمارے اپنوں نے ہی ہمیں اس حال تک پہنچایا اور آج ہم اپنے دشمن آپ ہی بنے ہوئے ہیں کیونکہ ہمیں اپنے آپ سے عشق ہی نہیں ہم اوازار قسم کے لوگ بن چکے ہیں۔ اپنے گھروں ،گلیوں اور شہروں کو وہی لوگ خوبصورت بناتے ہیں جو اپنے آپ سے پیار اور عشق کرتے ہیں جب ہماری گلیاں ،محلے اور شہر خوبصورت ہونگے تب ہی ہمارا ملک بھی خوبصورت لگے گا لیکن ہمیں ہمارے اپنوں نے ہی لوٹا اور اس خستہ حالی تک پہنچایا۔ آج محترمہ بینظیر بھٹو کا شوہرآصف علی زرداری صدر پاکستان ہے۔ محترمہ کا بیٹابلاول بھٹو زرداری ایم این اے ہے اور انکی بیٹی آصفہ بھٹو بھی ایم این اے بن چکی ہیں کاش وہی اپنی والدہ کا کیا ہوا وعدہ پورا کردیں تاکہ ان علاقوں کے لوگوں کا معیار زندگی بھی بہتر ہوسکے اور ہماری صدیوں پرانی تہذیب قبضہ گروپوں کی بربادی سے بچ پائے آخر میں وارث شاہ کے چند اشعار
بڑا عشق عشق تو کرناں اے
کدی عشق دا گنجل کھول تے سہی
تینوں مٹی وچ نہ رول دیوے
دو پیار دے بول بول تے سہی
سکھ گھٹ تے درد ہزار ملن
کدی عشق نو تکڑی تول تے سہی
تیری ہسدی اکھ وی بجھ جاوے
کدی اندروں پھول تے سہی


متعلقہ خبریں


مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر