وجود

... loading ...

وجود
وجود

ایرانی حملے کے اثرات

بدھ 17 اپریل 2024 ایرانی حملے کے اثرات

حمیداللہ بھٹی

رواں ماہ یکم اپرایل کو شام کے دارالحکومت دمشق میں قائم ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر اسرائیل نے حملہ کیا جس میں دیگر اموات کے ساتھ پاسداران ِ انقلاب کے ایک اہم رہنما بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، اِس حملے کو اِس لیے بھی بلاجواز اور غیر قانونی کہہ سکتے ہیں کہ سفارتی احاطے اور سفارتکار جنیوا کنونشن کے تناظر میں محفوظ تصور کیے جاتے ہیں مگر اسرائیلی نے ایک طرف قونصل خانے کی عمارت کو نشانہ بنا کر ایک غلط روایت قائم کی اور سفارتی تحفظ کی عالمی روایت کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ اُسے کسی عالمی ضابطے یا قانون کی کوئی پرواہ نہیں۔ لبنان،شام ،عراق،مصر ،فلسطین سمیت کئی ہمسایہ ممالک پر حملوں سے یقین دلا چکا ہے کہ وہ کسی ملک کی آزادی و خودمختاری کے احترام کا قائل نہیں کچھ ممالک اُردن ،مصر وغیرہ تو غیر اعلانیہ طورپر اسرائیلی بالادستی تسلیم کر چکے مگرایران کی پراکسیوں سے خطے کے کئی ممالک خطرہ محسوس کرتے ہیں اسی لیے کسی حد تک ایسی اشتعال انگیزی سے گریز کیا جاتا ہے جس سے ایرانی قیادت مشتعل ہو بغداد ہوائی اڈے سے نکلتے ہوئے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو امریکہ نے نشانہ بنا کر ماردیا تو جواب میں ایران نے میزائل حملوں سے امریکی اہداف کو نشانہ بنایا۔ دمشق قونصل خانے پر ہونے والے حملے کا جب ایران نے بدلا لینے کا اعلان کیا تو امریکہ نے کوشش کی کہ ایسی نوبت نہ آئے۔ چین و ایران کے بڑھتے سفارتی و اقتصادی تعلقات کی وجہ سے چین سے گزشتہ ہفتے مطالبہ کیا کہ ایران پر چین زور دے کہ وہ اسرائیل پر حملے کااِرادہ ترک کر دے لیکن 13اپریل کی شب ایران نے تین صد کے قریب میزائل اور ڈرونز سے اسرائیل پر حملہ کردیااِس میں بھی کوئی بڑاجانی و مالی نقصان نہیں ہوسکا البتہ ایک آدھ جگہ معمولی نقصان ہوا ہے جس میں ایک دفاعی اڈا بھی شامل ہے جس کی وجہ سے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ایرانی ساختہ کامیکازی ڈرون فضائی بم کی مانند ہے جو دھماکہ خیز مواد لیکر احکامات ملنے تک ہدف کے آس پاس پرواز کرتا رہتا ہے اور ہدف سے ٹکراکر پھٹ جاتا ہے اسی لیے خود کش ڈرون بھی کہا جاتا ہے ایسے ہی ڈرون روس بھی یوکرین جنگ کے خلاف استعمال کررہا ہے اِس کا ریڈار سے سراغ لگانا اِس لیے مشکل ہے کہ یہ بہت نیچی پرواز کرتاہے اِس بناپر فضائی دفاع کے زریعے نمٹنے میں مشکل پیش آتی ہے لیکن اسرائیل کو ایرانی ڈرونز تلف کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی کیونکہ میزائل اور ڈرونزکو اسرائیلی حدود میں داخل ہونے سے قبل ہی زیادہ تر کو ایرونامی فضائی و دفاعی نظام سے تباہ کر دیا گیا اِس دوران اُردن جیسے اتحادیوں نے بھی اسرائیل کی معاونت کی البتہ حملوں سے ایران دنیا کوکسی حدتک یقین دلانے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ جس طرح جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ عراق میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنا کر لیاگیا اسی طرح دمشق قونصل خانے پر بمباری کا بدلا اسرائیل پر حملے سے لیاجاچکاہے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ کاروائی ایک نئے شور کے سوا کچھ نہیں جس میں فلسطینیوں کی چیخیں دب گئی ہیں۔
ایک غیر موثر حملے پر دنیا نے غیر معمولی ردِ عمل دیا ہے اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیوگوتریس نے ایرانی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے دونوں ممالک سے تصادم بند کرنے کی اپیل کی ہے برطانوی وزیرِ اعظم رشی سوناک نے اسرائیل کی سلامتی کے لیے اُردن اور عراق جیسے علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے امریکی صدرجو بائیڈن نے اسرائیل کو غیر متزلل حمایت کا یقین دلایاہے مگر ایران پر حملے کی صورت میں تعاون نہ کرنے کا اشارہ کیا ہے اسی طرح کینیڈا،جرمنی اور یورپی یونین نے بھی مذمت کی ہے جبکہ جی سیون نے ایران پر نئی پابندیوں کا عندیہ دیا ہے یہ اسرائیل کو دوبارہ عالمی حمایت ملنے کا اشارہ ہے روس اور چین نے ایران واسرائیل کومزید اشتعال انگیزی سے بچنے اور تحمل کا مشورہ دیا ہے۔ ایرانی حملوں کے تناظرمیں سلامتی کونسل کا ہنگامہ خیز اجلاس کسی فیصلے پر پہنچے بغیرختم ہو چکا۔اِس دوران ایرانی مشن نے موقف اپنایا کہ اُس نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے مطابق صرف دفاع کا حق استعمال کیا ہے مگر اسرائیل ہرصورت ایرانی حملے کا بھر پور جواب دیناکااراداہ ظاہر کررہا ہے جس پر ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری نے انتباہ دیا ہے کہ جواب آیاتو پہلے حملے سے بڑی کاروائی کریں گے صورتحال کیا رُخ اختیار کرتی ہے اگلے چند دنوں میں واضح ہو جائے گا۔ بظاہر امریکہ نے اسرائیل کی طرف سے ایران پر کسی حملے کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن یہ گریز کب حمایت میں بدل جائے اِس بارے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے اسی لیے دنیا کی نگاہیں امریکہ پرلگی ہیں سچ یہی ہے کہ امریکی حمایت کے بغیر اسرائیل اکیلے کسی ایسی کاروائی کا متحمل نہیں ہو سکتا جس کے نتیجے میں ایرانی پراکسی سے مزید نقصان کا ہو۔
اگر ایرانی حملے کے اثرات کی بات کی جائے تو ایک بے ضررحملے کے نتیجے میں جارح اسرائیل کو فوری طورپردنیامیں ایک مظلوم ریاست کامقام حاصل ہو گیا ہے حالانکہ گزشتہ برس سات اکتوبر سے غزہ کے نہتے اور معصوم فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث ہونے کی وجہ سے نہ صرف عالمی حمایت کھونے لگا تھا بلکہ کئی ممالک تعلقات پر نظر ثانی کرنے لگے تھے لیکن ایرانی حملے سے نہ صرف ایک بار پھر بڑی طاقتیں اسرائیل کی حمایت میں متحدہونے لگی ہیں اور اسرائیلی جارحیت سے دنیا کی نظریں ہٹ گئی ہیں خود ایران نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اُس کا حملہ محض دمشق میں موجود اپنے قونصل خانے پر ہونے والے حملے کا بدلا لینے کے لیے ہے جس کا مطلب ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کوئی اہم نہیںحالانکہ غزہ پر ٹوٹنے والی قیامت ایرانی حمایت یافتہ حماس کی حماقت کا نتیجہ ہے لیکن ایران فلسطینیوں پر ہونے والے حملوں کا نتیجہ کہنے میں محتاط ہے جس سے ایسا تاثر تقویت پانے لگا ہے کہ کوئی بھی ملک فلسطینیوں کی حمایت میں آگے آنے کو تیا ر نہیں یہاں تک کہ ایران بھی اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرنے سے گریزاں ہے جس سے دنیا یا اسرائیل کو بے بس اور نہتے فلسطینی مسلمانوں کی پشت پناہی کا پیغام جائے ایرانی حملے سے صرف اِتنا ہواہے کہ اسرائیل کے اِس موقف کو تقویت ملی ہے کہ خطے کے کچھ گروہ اورممالک اُس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں جن کا خاتمہ نہایت ضروری ہے حماس کی آڑ میں وہ فلسطینیوں کی نسل کشی کا مرتکب ہے لیکن اُس کے جرائم کو ایرانی حملے نے ڈھانپ دیا ہے اندرونِ ملک نیتن یاہو کی مخالف اپوزیشن کے مظاہر ے ختم اور حکومت کولاحق خطرات دم توڑ چکے حالانکہ غزہ جنگ بندکرنے اور مغویوں کو رہاکرانے کے لیے رواں ماہ تک ملک پُرتشدد مظاہروں کی لپیٹ میں تھا مگر ایرانی حملے نے ملک میں سیاسی استحکام کا امکان بڑھا دیا ہے ۔
عالمی طاقتوں کی بے جا طرفداری نے اسرائیل کو اِس حدتک بے لگام کر دیا ہے کہ امن ، معیشت اور تجارت کومزید خوفناک خطرات
بڑھنے لگے ہیں اِس حقیقت کو آج بھی جھٹلانا مشکل ہے کہ تیل کی سپلائی کے ماخذ کی بات کی جائے تو مشرقِ وسطیٰ کی اہمیت سے انکار مشکل ہے علاوہ ازیں مشرق و مغرب کو ملانے والی اہم بحری گزرگاہیں اسی خطہ میں ہیں اور یہاں جنم لینے والی کشیدگی کے اثرات سے درجنوں ممالک متاثر ہوتے ہیں جس کا ادراک ہونے کے باوجودخطے میں تصادم کو طول دینے کی لیے کچھ طاقتیں کوشاں ہیں البتہ مسئلہ فلسطین کا ایسامنصفانہ حل جوتمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو دنیا کے امن ،معیشت اور تجارت کو لاحق خطرات سے محفوظ بنا سکتا ہے۔ ایرانی حملے کے نتیجے میں سعودیہ ،کویت ،قطر،اردن ،مصرسمیت خطے کے کئی ممالک کی سٹاک مارکیٹیں گراؤٹ کا شکار ہیں جبکہ تیل کے نرخ میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اسی طرح بحری راستوں سے تجارتی سامان کی ترسیل بھی متاثر نظر آتی ہے جس سے مہنگائی و کسادبازاری کی نئی لہر جنم لینے کاخدشہ ہے ۔روس و یوکرین، یمن ،غزہ ،سوڈان کے بعد اسرائیل اور ایران کشیدگی بھی اگر بڑے ٹکرائو میں تبدیل ہوتی ہے تو مشرقِ وسطیٰ کا منظر نامہ اپنی پسند کے مطابق رکھنے کے لیے کوشاں قوتوں کی معیشتوں کوبھی دھچکا لگ سکتاہے ۔اِس لیے بہتر یہ ہے کہ تنازعات بڑھانے کے بجائے عالمی طاقتیں امن کو فروغ دینے والے اقدامات کریں وگرنہ جتنی تاخیر کی جائے گی غربت و افلاس کے ساتھ ایک اور بڑی جنگ سے جانی نقصان کا خدشہ حقیقت کاروپ دھار سکتا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر