وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

منگل 30 اپریل 2024 بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

ریاض احمدچودھری

بھارت کی ریاست کرناٹک میں مسلمانوں کو پس ماندہ طبقات کی درجہ بندی میں رکھے جانے پر انتہا پسند ہندوؤں نے واویلا شروع کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو انتہائی پستی کا شکار ہندوؤں کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا غلط ہے کیونکہ اس صورت میں ہندوؤں کی پس ماندہ ذاتوں سے تعلق رکھنے والوں کو بہتر معاشی مواقع آسانی سے میسر نہ ہو پائیں گے اور یوں اْن کی حق تلفی ہوگی۔دی نیشنل کمیشن فار بیک ورڈ کلاسز نے کرناٹک حکومت کے اس اقدام کو سماجی انصاف کے بنیادی اصول کے منافی قرار دیا ہے۔ کرناٹک حکومت نے مسلمانوں میں پائی جانے والی تمام ذاتوں اور برادریوں کو سماجی اور تعلیمی اعتبار سے پس ماندہ کی درجہ بندی میں رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک بڑا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔
کرناٹک میں مسلمانوں کی آبادی 13 فیصد ہے۔ اب حکومت اْن کے لیے سرکاری ملازمتوں اور پروفیشنل کالجوں میں کوٹہ مختص کرے گی تاکہ حالات کی چکی میں پسنے والوں کو بھی ڈھنگ سے جینے کی راہ دکھائی دے۔نیشنل کمیشن فار بیک ورڈ کاسٹس نے بہر حال یہ ضرور تسلیم کیا ہے کہ اسلام میں ذات پات کے نظام کی گنجائش تاہم مسلمان اس سے مکمل طور پر پاک یا محفوظ بھی نہیں۔ مسلمانوں کو مجموعی طور پر پس ماندہ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ وہ مجموعی طور پر بلند معیار کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کی جامعات بھی مودی کے زہریلے پروپیگنڈے کے زیر اثر ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بی جے پی کی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ گئی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامی یونیورسٹی کا بجٹ 15 فیصد کم کر دیا گیا۔ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو ہدف بنانا ہندوتوا سوچ کی عکاسی ہے۔
بھارت میں مودی کا گزشتہ10 سالہ اقتدار فرقہ واریت اور نفرت کی سیاست پر مشتمل ہے۔ صدیوں پرانی یونیورسٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کی فرقہ وارانہ سیاست کا شکار ہو گئی۔ کئی مسلم اکثریتی جامعات مودی کی دور حکومت میں تشدد اور حملوں کی زد میں آئی ہیں۔ مودی نے علی گڑھ کے ایم پی ستیش گوتم کے لیے مہم چلاتے ہوئے مسلم مخالف بیانیے کو دہرایا۔ پی ایچ ڈی سکالر کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں علی گڑھ یونیورسٹی میں تنازعات کو سیاسی رنگ دیا گیا، بی جے پی کا سیاسی بیانیہ روزگار کے بجائے انتہا پسندی پر مرکوز ہے۔طلباء کا کہنا ہے کہ تعلیم کا جتنا استحصال بی جے پی نے کیا کسی اور پارٹی نے نہیں کیا۔طلبہ کے مطابق محدود آسامیوں کے لیے درخواستیں بڑھ رہی ہیں لیکن نوکریاں نہیں ہیں، پرائمری ٹیچر کی آسامیاں گزشتہ پانچ سالوں میں نہیں آئیں، پڑھے لگے نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا جب کہ جو آسامیاں آتی بھی ہیں ان پر بی جے پی اپنے بندوں کو لگا دیتی، ایک جانب نوجوانوں کو روزگار نہیں دیا جاتا، دوسری جانب بی جے پی کی جانب سے فرقہ وارانہ سوچ کو پذیرائی دی جاتی ہے۔اتر پردیش میں سرکاری آسامیوں کے لیے پیپر لیک ہونے کے واقعات کے بعد سیٹیں اپنے من پسند لوگوں کو دے دی جاتی ہیں لیکن حکومت اس کا نوٹس نہیں لے رہی، 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل بی جے پی کی جانب سے طلبہ یونین کے دفتر کی دیواروں پر قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر لٹکانے پر شدید اعتراض کیا گیا، نومبر 2018 میں بی جے پی کے کارندوں نے الزام عائد کیا کہ علی گڑھ یونیورسٹی طالبان نظریہ پر چلائی جاتی ہے۔مسلم طالب علم کی نماز جنازہ ادا کرنے پربھی بی جے پی کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا، بی جے پی کے دیگر رہنماؤں نے بھی طلبہ کی جانب سے فلسطین کی حمایت میں مارچ کے اہتمام پر یونیورسٹی کو دہشت گردوں کا مرکز قرار دیا، 2019 میں شہریت بل کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ پر پولیس کے کریک ڈاؤن کے بعد لاٹھی چارج اور تشدد کا نشانہ بنایا، شہریت بل کے احتجاج پر طلبہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اور یونیورسٹی میں تقریر کرنے پر جیل بھیج دیا گیا۔
بی جے پی کے کارندوں کی جانب سے مودی حکومت کی دوسری میعاد کے لیے حلف اٹھانے پر یونیورسٹی طلبہ کی جانب سے محض احتجاج پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ کی طرف سے کوئی بھی احتجاج ہو تو اسے سیاسی بنا دیا جاتا ہے اور پھر طلبہ کو دہشت گرد کہا جاتا ہے جب کہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے طلبہ احتجاج کرتے ہیں تو ایسی تنقید نہیں ہوتی۔ یہ ہمارے اقلیتی ہونے کا سوال ہے اور پورے ملک میں ایک بیانیہ بنایا جا رہا ہے، آر ایس ایس اور بی جے پی کے کارندوں کے دباؤ کی وجہ سے 2018 کے بعد سے طلبہ تنظیم کے انتخابات روک دیے گئے ہیں، مودی کے کارندوں کی جانب سے تعلیمی اداروں پر حملوں کے علاوہ مرکزی یونیورسٹیوں کے فنڈز میں کٹوتی میں بھی تیزی آئی ہے جو طلبہ کو کم قیمتوں پر اعلیٰ تعلیم فراہم کرتی ہیں۔مودی حکومت کی جانب سے 2014 کے بعد سے ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامی یونیورسٹی کا بجٹ 15 فی صد بھی کم کر دیا گیا جب کہ بنارس ہندو یونیورسٹی کا بجٹ 669.51 کروڑ روپے سے بڑھ کر 1,303.01 کروڑ روپے کر دیا گیا، مودی کے دور میں تعلیمی اداروں پر حملہ اٹل بہاری واجپائی اور آر ایس ایس کی سوچ کا تسلسل ہے۔
بی جے پی کی جانب سے درسی کتابوں کے ذریعے اسکول میں منفی ذہن سازی کی گئی، اگر جامعہ یا اے ایم یو کا کوئی طالب علم یونین پبلک سروس کمیشن کے لیے کوالیفائی کرتا ہے تو وہ اسے جہادی کہتے ہیں، حالیہ انتخابی مہم میں مودی سرکار مسلمانوں پر نئے سرے سے حملہ آور ہو کر مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی ہے، بھارت میں مودی سرکار کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو ہدف بنا نا ہندوتوا سوچ کی عکاسی ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر