وجود

... loading ...

وجود
وجود

اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے!

منگل 16 اپریل 2024 اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے!

جاوید محمود

چھ ماہ مکمل ہو چکے ہیں جب کہ اسرائیل بلا وقفہ مسلسل بمباری کر رہا ہے۔ غزہ شہر کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے ۔ابھی تک تقریبا 34000فلسطینی شہید ہو چکے ہیں ،خواتین اور بچوں کی تعداد ان میں سب سے زیادہ ہے اور غزہ کا محاصرہ بھی ہے ۔نہ غزہ میں کوئی اندر آ سکتا ہے نہ غزہ سے باہر جا سکتا ہے اور زمین آسمان سے ان کے اوپر صبح شام بمباری ہو رہی ہے۔ یہ بہت ہی اہم موضوع اس پہلو سے ہے کہ چھ مہینے کے اندر جتنی بمباری ہوئی ہے، یوں سمجھیں کہ ایک چھوٹے سے شہر کے اندر غزہ لاہور کا ایک محلہ ہے لاہور جتنا شہر نہیں ہے چھوٹا سا ہے لاہور کے ایک محلہ کے برابر ہے اور دن رات اس کے اوپر بمباری ہو رہی ہے۔ آبادی بھی زیادہ ہے اس کی چونکہ زمین کم ہے آبادی زیادہ ہے ۔لہٰذا وہاں اپارٹمنٹ والی بلڈنگیں ہیں ۔ یعنی ایک کئی منزلہ بلڈنگوں میں لوگ رہتے ہیں۔ تو جب ایک بلڈنگ گرتی ہے تو اس کے کئی طبقات ہیں اور اس میں کثیر آبادی ہے جو شہادت نوش کرتے ہیں۔ ابھی تک کے اعداد و شمار کے مطابق 13000سے زیادہ بچے شہید ہوئے ہیں۔ اور اتنی ہی تعداد میں خواتین شہید ہوئی ہیں۔ اور اسی طرح ہسپتالوں پر بمباری ہوئی ہے جس میں بیمار زخمی وہ شہید ہوئے ہیں ڈاکٹر ہوئے ہیں ہر طبقہ بلکہ اب تو تصاویر ایسی ہیں کہ صحافی رپورٹنگ کرتے ہوئے مائیک پہ بول رہا ہے کیمرہ سامنے ہیں اور اسی وقت بم لگتا ہے اور وہ صحافی بھی وہاں پر شہید ہو جاتا ہے۔ کئی ٹی وی چینلز نے ابھی تک جو بتایا گیا ہے کہ تقریبا 100سے زیادہ صحافی شہید ہو چکے ہیں اور اس سے کئی زیادہ تعداد میں اقوام متحدہ کے کارکن ہیں جو مارے جا چکے ہیں۔ اس بمباری کا یہ ایک پہلو ہے کہ اسرائیل وحشیوں کی طرح نہتے عوام کو ماررہا ہے۔ نسل کشی کر رہا ہے اور اس پر پوری دنیا خاموش ہے تماشا دیکھ رہے ہیں ۔
چھ مہینے کے بعد عالم اسلام کے مرکز ہیڈ کوارٹر سے شاہی فرمان صادر ہوتا ہے کہ غزہ کے لیے چندہ جمع کریں۔ او آئی سی کے سربراہ اسلامی ممالک تنظیم کا ہیڈ کوارٹر جدہ میں ہے اس کی سرپرستی سعودی عرب کے ہاتھ میں ہے ۔ بیالیس ممالک کی فوج اسلامی ممالک کی فوج کا ہیڈ کوارٹر جدہ میں ہے ، غزہ کی یہ حالت ہوئی ہے اور تمام عرب ممالک دیکھ رہے ہیں۔اسرائیل نے ابھی تک اس جنگ کے اندر حماس کا مقابلہ نہیں کیا۔ غزہ کی شہری آبادی کو تباہ کر رہا ہے ۔ حماس سے جنگ میں اسرائیل شکست کھا چکا ہے ۔یہ بات خود اسرائیلیوں نے مان لی ہے۔ اسرائیلی کمانڈروں نے مان لی ہے۔ اسرائیل کے اندر ان کے میڈیا نے مان مان لی ہے اور اسرائیل کے باہر ان کے حامیوں نے مان لی ہے کہ اس جنگ میں اسرائیل شکست کھا چکا ہے ۔ابھی چند دن پہلے امریکی کالم نگارنے جو اسرائیل کا حامی ہے اس نے اسرائیل کی حمایت میں کالم لکھا ہے اس نے کہا کہ اس وقت جو جنگ جاری ہے یہ چھ محاذوں پر جاری ہے۔ اس جنگ کے چھ محاذ ہیں اور اس امریکی کا یہ تجزیہ ہے اسرائیل ہر چھ محاذ پہ شکست کھا چکا ہے اور یہ بہت اہم ہے جو اس نے محاذ گنوائے ہیں۔ کون کون سے محاذ پہ جنگ ہو رہی ہے اور کس کس محاذ پہ پسپا ہو چکا ہے ۔ صرف ایک محاذ ساتواں محاذ ہے جس میں وہ کامیاب اپنے آپ کو سمجھ رہا ہے اور وہ سویلین آبادی پر تباہی اور بمباری ہے ۔ باقی چھ محاذ پہ اسرائیل مکمل شکست کھا چکا ہے ۔ اور اس نے ثبوت بھی دیے ہیں۔ اس نے اس کے اندر باقاعدہ پروف دیے ہیں کہ یہ میرے پاس دلیل ہے ۔ اور اس کے تجزیہ کے مطابق کہ اس شکست سے اسرائیل کبھی بھی سنبھل نہیں پائے گا۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے ۔ جب ریڑھ کی ہڈی پہ چوٹ لگ جائے پھر زندہ بھی رہے کوئی کھڑا نہیں ہو سکتا۔ یہ ان کا تجزیہ ہے کہ اب ایسی ضرب چوٹ لگا دی ہے اب یہ کبھی بھی سیدھا نہیں ہو پائے گا ۔ یہ جو بوکھلاہٹ ہے تشدد ہے جنون ہے شہری آبادی کو تباہ کرنا یہ عاجزی کے تحت کر رہا ہے نا توانائی کے تحت کر رہا ہے کیونکہ جنگ کے قابل نہیں ہیں۔ جنگ جنگجو کے ساتھ ہوتی ہے جنگ فوج کے ساتھ ہوتی ہے جنگ سپاہیوں کے ساتھ ہوتی ہے ۔وہ سپاہی غزہ میں موجود ہیں ۔وہ حماس کے جنگجو جو اسرائیل کے اندر داخل ہوئے وہ اپنی کاروائیاں کر کے سارے غزہ واپس آگئے ہیں۔ اب اسرائیل کو غزہ میں داخل ہونا ہے کوشش کرتا ہے داخل ہونے کی جس دن کوشش کرتا ہے اسی دن ذلت کے ساتھ واپس آ جاتا ہے۔ مزید بندے مروا کے آ جاتا ہے ۔جنگ کے قابل نہیں ہیں اور یہ بات درست ہے۔ یہ بات ظاہراًدو ہزار چھ میں سید مقاومت نے یہ جملہ کہا تھا کہ اسرائیل مکڑی کے جالے کی طرح ہے مکڑی کے گھر کی طرح تارِ عنکبوت ہے۔ یہ بات اس وقت دنیا کو سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ حماس نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ مکڑی کا جالا ہے اور مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے جس طرح قرآن کا فرمانا ہے جو مکڑی کا جالا ہے یہ اس سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ یہ اسرائیل کا جو اس نے بھرم بنایا ہوا تھا دنیا میں ناقابل شکست فوج ایک گروہ چند سو مجاہدوں نے ایسی ذلت آمیز شکست دی اس کو کہ جس کی خفت کو مٹانے کا راستہ نہیں مل رہا۔ جیسے کسی گھر میں بہت بڑی تباہی آجائے پھر دور دراز سے لوگ آتے ہیں آ کے ان کو گلے لگاتے ہیں ،دلاسہ دیتے ہیں تسلیاں دیتے ہیں ،بائیڈن آتا ہے آ کے نیتن یہوکو گلے لگاتا ہے۔ دوسرا آتا ہے آ کے گلے لگاتا ہے۔ برطانوی وزیر آتا ہے ابھی پھر امریکہ کا وزیر خارجہ آج اسرائیل آیا ہے۔ یہ کیوں بار بار آ کے ان کو گلے لگاتے ہیں ۔کیا ہوا ہے ؟یہ تو فوج ہے بڑی طاقتور ہے ۔آپ باہر فون پر ہی بات کر لیں لیکن آنا ضروری ہے۔ تسلی تعزیت سے وہ سہارا دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ڈٹے رہو ، ہم سنبھال لیں گے ۔ حماس نے اسرائیل کی جنگ میں حالت غیر کر دی ہے، وہ مکمل شکست کھا چکا ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر