وجود

... loading ...

وجود
وجود

قاتل ڈوریاں اور اندھی گولیاں

هفته 30 مارچ 2024 قاتل ڈوریاں اور اندھی گولیاں

زریں اختر

ایک واقعہ لاہور کا ، ایک کراچی کا۔لاہور میں پتنگ کی ڈور نے نوجوان کی جان لے لی اور کراچی میں ایک اندھی گولی نے چالیس سالہ خاتون کی ۔ یہ تقریباًمعمول کے واقعات اور خبریںہیں۔ لاہور میں ہر سال ایسا کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور ہوتاہے او ر کراچی میں بھی شہریوں کے دن دھاڑے راہ میں لٹنے ،مزاحمت پر گولی کا نشانہ بننے کی خبریں ۔۔ وقت کی ستم گری دیکھیے کہ خبر جوغیر معمولی واقعے کابیان ہے اب یہ غیر معمولی واقعا ت معمول کی خبریں بن گئے ہیں۔کراچی کامتذکرہ واقعہ سرِ راہ لٹنے میں مزاحمت کا نہیں بلکہ ڈاکو لوٹ مار کرکے فرار ہو رہے تھے ،لوگوں کے شور شرابہ کرنے اور پولیس کے پیچھاپر انہوں نے فائرنگ کی جس کی زد میں خاتون آگئیں۔ حادثا ت کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں بھی فرد کی غلطی کے علاوہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی بھی بڑی وجہ ہوتی ہے۔ ان تین مختلف وجوہات سے ہونی والی ہلاکتوں کے ذمہ داران کا تعین کرنے کی کوشش کی جائے تو جو مشترکہ وجہ سامنے آتی ہے وہ ہے’ قانون کی عمل داری میں ناکامی’ ، اوراس کی کیا وجہ ہے ؟ بد انتظامی اور بدعنوانی ؛اس میں علت کون سی ہے اور معلول کیاہے ،سبب کون ہے اور نتیجہ کون ؟ بد انتظامی وجہ اور بدعنوانی نتیجہ ہے یا بد عنوانی وجہ اور بد انتظامی نتیجہ ؟ یایہ وجوہ ہی بنا ہیں اور نتیجہ بے گناہ شہریو ں کی بے وقت موت ۔
کب تک ہم نثر ہو یا نظم اسی طرح کے نوحے لکھتے رہیں گے ؟ ہم تو اپنے حکمرانوں سے یہ بھی سنتے رہے ہیں کہ جرائم اور دہشت گردی کے واقعات ہمارا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ عالمی مسئلہ ہے۔ لیکن یہ عالمی مسئلہ ہمارا مسئلہ کیوں بناہے؟ اور کیایہ ہمیں یہ بتانے کے لیے ہیں کہ یہ عالمی مسئلہ ہے؟یہ تو ہمیں مہنگائی کے لیے بھی بین الاقوامی بازار کی قیمتوں کے اتار چڑھائو بتاتے رہے ہیں۔اپنے علاقے میں کب آئوگے؟ اپنی زمین پر کب اترو گے ؟ یہ حکمرانوں کا کام ہے کہ وہ سمجھیں کہ مسائل کیا ہیں ؟ ان کی نوعیتیں کیا کیا ہیں؟ ان کے کیا حل ہیں اور وہ حل کیسے ممکن ہیں؟عوام کیا آپ کے بیانات سے یہ سمجھیں کہ چلو بھئی کم از کم مسائل میں تو ہم عالمی برادری کے ہم پلہ ہوئے۔
بھاگتے ہوئے ڈاکوئوں کی فائرنگ کے واقعات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں،یہ ہلاکتوں کی وہ نوعیت ہے جو مزاحمت میںہونے والی ہلاکتوں سے تھوڑی مختلف ہے۔جو نصیحت اپنے بچوں کو کرتی ہوں ،وہی اپنے طالب علموں کو کرتی ہوں اور وہی عوام کے لیے کہ مزاحمت نہیں کرنی ،کیوں ؟ کیوں کہ قانون کی عمل داری نہیں،ہم سماجی طور پر اس دور میں ہیں جہاں خاموشی سے سر جھکا کر جان بچانا ہی عقل مندی ہے۔ یہ بزدلی نہیں ہے ،یہ وقت کاتقاضاہے جس کا سدھار عوام کے ہاتھ میں نہیں ۔اگرچہ کہ عوام کی جانب سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے واقعات اور بعض وہ بھی جواپنی نوعیت میں ہولناک واقعات ہی کہے جاسکتے ہیں ،سامنے آئے ہیں،جہاں قانون کا نفاذ نہیں ہوتاوہاں ایک نتیجہ یہ بھی سامنے آتاہے کہ لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں،لیکن جب لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں تو پھر قانون ان کے خلاف حرکت میں آسکتاہے اور آتاہے۔
وارداتی ہمیشہ عجلت میں ہوتاہے ،اسے فوراً بھاگناہے ۔ مزاحمت عجلت میں رکاوٹ ڈالتی ہے اس لیے وہ گولی چلانے سے دریغ نہیں کرتا۔ جب وہ واردات کرکے بھاگتا ہے تب اگر کوئی مزاحمت عوام کی طرف سے آتی ہے تو پھروہ فائرنگ کرے گا تاکہ اس کا پیچھا نہ کیا جائے ،وہ ردّعمل میں گولی چلائے گا،اب اس کی پستول سے جو گولی نکلتی ہے وہ اندھی گولی اس لیے کہلاتی ہے کہ کسی کو بھی جا لگے ، پیچھا کرنے والے کو یا کسی راہ گیر کو ، یا کنارے پر کھڑی کسی خاتون کو ،جیسا کہ چند روز قبل چالیس سالہ ناذیہ انجم زوجہ عبدالستار اورنگی ٹائو ن قطر اسپتال کی موٹرسائیکل پارکنگ میں اپنے شوہر کے ساتھ تھی ،شوہر کے بیان کے مطابق واقعہ پولیس کی ڈاکوئوں کو پکڑنے کی ناقص حکمت ِعملی کی وجہ سے پیش آیا۔ جہاں شہریوں کی جانیں پولیس کی حکمت عملی کی بھینٹ چڑھ رہی ہوں وہاں عوام کیا کرلیں گے ۔
اسی نوعیت کا ایک واقعہ ہمارے پرانے محلے جمشید روڈ نمبر ٢ پر ہوا تھا۔ گھر بیٹھے جو خبریں ملیں وہ یہ کہ لڑکے آئے ، دکانوں پر لوٹ مار کی ، اور کھمبے کے پاس جوگولے گنڈے والا کھڑا ہوتاہے اسے گولی لگ گئی ،پھر اطلاع ملی کہ وہ مر گیا، بیو ی تھی ،بچہ کوئی نہیں تھا، والدین کا مجھے پتانہیں۔ روزانہ کے سودا سلف کے لیے میرا بھی بازار آنا جانا رہتاتھا ،گزرتے دیکھتے تھے ،بچے اس سے گولا گنڈا لے کرکھاتے تھے ، آپ کی گلی میں کوئی سبزی بیچنے والا روزانہ آتاہو تو وہ بھی جیسے محلے دار ہی بن جاتاہے ۔ میرے بچوں کو مجھے بڑا افسوس ہوا ۔ ایک دن میں بازار گئی تو اسی جگہ کھمبے کے نیچے اب ایک بھٹے والا کھڑا تھا جو پہلے ذرا فاصلے پر کھڑا ہوتاتھا۔ روح میں کہیں حقیقی واقعہ جاننے کی جستجو موجود تھی ۔ میں نے اس بھٹے والے سے پوچھا کہ اس دن کیا ہواتھا، تم کہاں تھے اس وقت؟ اس نے بتایا کہ لڑکے آئے تھے ،وہ واردات کرنے کے بعد بھاگ رہے تھے ، یہ کہتے ہوئے اس نے گلی کے نکڑ کی جانب اشارہ کیا کہ وہاں پہنچ گئے تھے ، پھر اس نے برف بیچنے والے کی جانب اشارہ کیا جس کی قریب کونے میں دکان تھی کہ’ اس نے ہوائی فائرکیا’ ، میں نے حیرت سے پوچھاکہ کیوں؟ بھٹے والے نے بھی اسی طرح حیرت سے جواب دیاکہ ہاں !کیوں؟ کہنے لگا کہ جب اس نے ہوائی فائرکیا تو انہوں نے کہ وہ گلی کے کونے پر پہنچ گئے تھے جوابی گولی چلائی جو اس گولاگنڈے والے کو لگ گئی ۔ اب کیوں اس برف والے نے ہوائی فائر کیا؟ کیا اس نے کبھی سوچا ہوگاکہ کاش وہ ہوائی فائر نہ کرتا ،جب واردات کے دوران نہیں کیا تو بعد میں کیو ں ، کیا ثابت کرنا چاہ رہاتھا؟ یہ کیسی مہم جویانہ بکواسیت ہے؟ اگر میں اس وقت پیشہ ور صحافی ہوتی اور کسی اخبار میں خبر دینی ہوتی یا کچھ اور تو ضرور اس برف والے سے بھی پوچھتی۔ وارداتیے کو واردات کے بعد بھاگنا ہے ۔ ان کی ذہنی کیفیت خوف اور بے خوفی کی درمیانی کوئی کیفیت ہوتی ہیں ، یہ اس پر بھی منحصر ہے کہ اس راہ پر وہ کتنے آگے جاچکے ہیں۔ لیکن پیچھاکرنا، شور مچانا، مزاحمت کرنا ؛اس سب کا جواب وہ پستول کا دہانہ کھول کر دیں گے۔ کچھ بھی کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر