وجود

... loading ...

وجود
وجود

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

جمعه 29 مارچ 2024 امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

جاوید محمود

امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری 2017کو ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس کے تحت سات مسلم اکثریتی ممالک ایران ،عراق، لیبیا ،سوڈان، شام اور یمن سے 90 دنوں کے لیے امریکہ کے سفر پر پابندی لگا دی گئی اور تمام شامی باشندوں کی آباد کاری کو معطل کر دیا۔ اس حکم نے ملک بھر میں ہوائی اڈوں پر احتجاج کو جنم دیا۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ سب سے بڑی سیاسی غلطی قرار دی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنی دوسری ٹرم میں صدر جو بائیڈن کے مقابلے میں ہار گئے۔ امریکہ میں مسلم آبادی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کو نا پسندیدہ قرار دیاتھا جس میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 6 دسمبر 2017کو یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کیا اور کہا کہ امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کیا جائے ۔اس فیصلے نے مسلمانوں کو بہت رنجیدہ کیا ۔ایک یہ بھی وجہ تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو دوسرے انتخابی مقابلے میں ووٹ نہیں دیے اور انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
جوبائیڈن نے انتخابات جیتنے کے بعد جب اپنے منصوبوں کا اعلان کیا تو اس میں انہوں نے اعلان کیا کہ وہ امیگریشن میں وہ تبدیلیاں جو ڈونلڈ ٹرمپ کر گئے ہیں اس کو منسوخ کر کے اس کو اپنی اصل شکل میں واپس لائیں گے۔ ان کے اعلان کے بعد امریکہ میں آباد مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔حماس کی جانب سے سات اکتوبر کے حملوں کے بعد صدر جو بائیڈن نے ہنگامی بنیادوں پر اسرائیل کا دورہ کیا اور وہاں اعلان کیا کہ اسرائیل کو اپنی دفاع کا پورا حق حاصل ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل کی حوصلہ افزائی ہوئی اور اس نے جارحانہ اقدامات کرتے ہوئے غزہ کو کھنڈر میں بدل کر رکھ دیا جس کے نتیجے میں 32 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید جس میں بڑی تعداد معصوم بچوں اور خواتین کی ہے، واضح رہے کہ غزہ میں جس ظلم اور بربریت کا مظاہرہ کیا گیا، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ پانچ ماہ بڑی طاقتوں اور اقوام متحدہ نے جس سرد مہری کا مظاہرہ کیا اس کی ذمہ داری ان پر جاتی ہے۔ بآلاخر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کرتے ہوئے یرغمالیوں کی فوری غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ نے اس قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ سلامتی کونسل کے 15 میں سے 14 نے قرارداد کی حمایت کی ۔ موجودہ صورتحال میں جو بائیڈین نے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس قرارداد کو ویٹو نہیں کیا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نومبر میں ہونے والے انتخابات میں جو بائیڈن مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے سلامتی کونسل کی قرارداد کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اسرائیل کی حمایت کرنے کے نتیجے میں جو بائیڈن کا گراف انتہائی نچلے درجے پر پہنچ چکا ہے۔ جولائی2022 میں جو بائیڈن نے سعودی عرب کا دورہ کیا صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب کے اپنے دورے سے قبل معروف اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لیے ایک خاص مضمون میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ وہ تیل کی دولت سے مالا مال مملکت کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جو بائیڈن نے اپنے اس مضمون میں لکھا مجھے معلوم ہے کہ بہت سے لوگ ہیں جو میرے سعودی عرب کے اس سفر کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں تاہم انسانی حقوق کے بارے میں میرے خیالات واضح اور دیرینہ ہیں اور جب بھی میں بیرون ملک سفر کرتا ہوں تو بنیادی آزادی ہمیشہ ایجنڈے میں شامل ہوتی ہے۔ امریکی صدر نے اپنے دورے کی یہ دلیل پیش کی کہ ان کی خارجہ پالیسی نے مشرقی وسطیٰ کو ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور کے حالات کے مقابلے میں زیادہ مستحکم اور محفوظ بنایا ہے جبکہ جو بائیڈن کا یہ دعوی حقائق پر مبنی نہیں کیونکہ حالات بالکل اس کے برعکس ہیں ۔
یاد رہے کہ صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب کو خبردار کیا تھا کہ تیل کی پیداوار میں کمی اوپیک پلس کے فیصلے کے بُرے نتائج ہوں گے۔ بڑے ممالک کی نمائندہ تنظیم اوپی پلس نے اعلان کیا تھا کہ وہ تیل کی پیداوار میں دو ملین بیرل کمی کریں گے۔ امریکہ نے تیل کی پیداوار میں کمی نہ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن سعودی عرب سمیت اوپیک پلس ممالک نے امریکہ کی منشا کے خلاف فیصلہ کیا تھا۔ اوپیک پلس تیل برآمد کرنے والے 23 ممالک کا ایک گروپ ہے یہ گروپ مل کر فیصلہ کرتا ہے کہ تیل کی کتنی پیداوار کرنی ہے اور عالمی منڈی میں کتنا تیل بیچنا ہے۔ اوپیک کا قیام 1960 میں ہوا تھا۔ دنیا کا تقریبا 30 فیصد خام تیل اوپیک ممالک سے آتا ہے سعودی عرب دنیا کا سب سے بڑا تیل کی پیداوار کرنے والا ملک ہے جو روزانہ 10 ملین بیرل تیل کی پیداوار کرتا ہے، جب 2016 میں تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی تھی تو اوپیک نے تیل پیدا کرنے والے 10 ممالک کو اس گروپ میں شامل کیا اور اوپیک پلس گروپ تشکیل دیا تھا۔ اس وقت روس بھی او پیک پلس کا حصہ بن گیا تھا۔ روس بھی روزانہ 10 ملین بیرل تیل پیدا کرتا ہے ۔اس گروپ میں 13 ممالک بہت اہم ہیں جن میں زیادہ تر مشرقی وسطیٰ اور افریقی ممالک ہیں۔ اوپیک پلس مل کر دنیا کا 40 فیصد خام تیل پیدا کرتے ہیں ۔تیل پیدا کرنے والے ممالک کے اس فیصلے کے بعد امریکی صدر جو بائڈن نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس فیصلے کے سعودی عرب پر کچھ اثرات مرتب ہوں گے۔ بائیڈن کو سینٹ کے ارکان نے کہا تھا کہ امریکہ کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو فوری طور پر ختم کر دینا چاہیے۔ امریکہ اوپیک ممالک کے تیل کی پیداوار میں کمی کا تعلق روس سے جوڑتا ہے جبکہ سعودی وزارت خارجہ نے ایک طویل بیان جاری کرتے ہوئے اوپیک پلس کے تیل کی پیداوار کم کرنے کے فیصلے پر روسی حمایت اور امریکہ کے خلاف سیاست کرنے کی امریکی الزامات کو مسترد کیا۔ وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری نے کہا تھا کہ یہ واضح ہے کہ اوپیک پلس روس کے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ بعد میں وضاحت کریں گے کہ اس سے امریکہ سعودی عرب تعلقات پر کیا اثر پڑے گا ؟تجزیہ نگاروں کے مطابق اوپیک پلس کے فیصلے سے امریکہ کو دُہرا نقصان پہنچا ہے اگر روس اس سے کچھ منافع کماتا ہے تو وہ اس رقم کو یوکرین کے خلاف جاری جنگ میں استعمال کرے گا۔ دوسری جانب امریکہ نے کہا تیل کی قیمت بڑھنے کی صورت میں اس کا براہ راست اثر نومبر کے ہونے والے انتخابات پر پڑے گا۔
بظاہر سعودی عرب کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ امریکہ کے دائرہ اثر سے باہر آنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے اشارے سال 2006 میں ہی ملے تھے۔ جب سعودی عرب اس وقت کے حکمران شاہ عبداللہ نے انڈیا اور پھر چین کا دورہ کیا تھا ۔تجزیہ نگاروں کے مطابق سعودی عرب کو یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدہ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ امریکہ آہستہ آہستہ مشرقی وسطیٰ سے پیچھے ہٹ رہا ہے اور اس کی پوری توجہ ایشیا پیسیفک پر ہے۔ سعودی عرب کو لگتا ہے کہ اوپیک پلس کہ اس فیصلے سے اس کی معاشی حالت بہتر ہوگی اور اس کا براہ راست تعلق سیاسی استحکام سے ہے۔ اس کے پیش نظر سعودی عرب اپنے روایتی حریف اسرائیل اور ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سعودی عرب کے اس فیصلے پر امریکہ ناراض ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سعودی عرب امریکہ کے غصے کا سامنا کرنے کی ہمت کہاں سے اکٹھا کر رہا ہے؟ اصل میں امریکہ اب اتنا طاقتور نہیں رہا جتنا پہلے تھا 15 برس پہلے جب امریکی صدر صرف فون کرتا تو سعودی عرب وہی کرتا تھا جو امریکہ چاہتا تھا۔ اب یہودی لابی سعودی عرب کے ساتھ ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات اب بہتر ہو رہے ہیں۔ اگر امریکہ نے سعودی عرب پر کسی قسم کی پابندیاں لگانے کی کوشش کی تو اسرائیل اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ سعودی عرب اسرائیلی کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے تیزی سے کام کر رہا ہے۔
امریکہ میں اسرائیل کے مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دی جاتی ہے سعودی عرب کی اسرائیل کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت سے مسلم ممالک میں غم و حصہ پایا جاتا ہے ۔بالخصوص موجودہ صورتحال میں اسرائیل نے جو غزہ میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کر کے فلسطینیوں کو بے دردی سے شہید کیا جس پر سعودی عرب نے خاموشی اپنائی ۔یہ وہ دُہری پالیسی ہے جو سعودی عرب نے اپنے مفادات کی خاطر اپنائی ہوئی ہے۔ نومبر میں امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات مسلمانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ ووٹ کس صدارتی امیدوار کو دیں؟ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا مظاہرہ کر کے انہیں مایوس کیا تھا جبکہ صدر جو بائیڈن نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے دوران پانچ ماہ تک اسرائیل کی بربریت کا مظاہرہ دیکھتے ہوئے خاموشی اختیار کی جس کے نتیجے میں 32 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید جس میں عورتیں اور بچوں کی اکثریت ہے اور 75 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ صدر جو بائیڈن نے اس پانچ ماہ کے دوران یہ ثابت کر دکھایا کہ ان کی تمام ہمدردیاں اسرائیل کے ساتھ ہیں جبکہ فلسطینی جانوں کی اہمیت ان کے سامنے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ان حالات میں امریکہ میں مقیم مسلمانوں کی اکثریت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنا قیمتی ووٹ کسی صدارتی امیدوار کو نہیں دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر