وجود

... loading ...

وجود
وجود

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

جمعرات 28 مارچ 2024 ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

جاوید محمود

افغانستان، سری لنکا، کولمبیا ،شام اور روانڈا سمیت بعض دیگر افریقی ملکوں میں خانہ جنگی نے ماحول کو تباہ کر دیا۔ خانہ جنگی کے شکار ممالک پر اکثر غیر ملکی حملے بھی شروع ہو جاتے ہیں جو مزید ماحولیاتی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ جدید ریاستوں میں افغانستان کا شمار ان بدقسمت ملکوں میں ہوتا ہے جہاں اندرونی اور بیرونی سازشوں کی وجہ سے کئی دہائیوں سے جنگ جاری ہے جس سے نہ صرف لاکھوں افغان ہلاک و زخمی ہوئے بلکہ اس سے ماحول کو بھی زبردست نقصان پہنچا۔ 1979میں سوویت یونین کی مداخلت کی وجہ سے اندرونی سیاسی کشمکش خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئی۔ سوویت یونین پر الزام ہے کہ اس نے افغانستان میں لاکھوں بارودی سرنگیں بچھائیں ۔کچھ ماہرین ان سرنگوں کی تعداد 10 لاکھ سے بھی زیادہ بتاتے ہیں جس سے افغانستان کی زرعی زمین بری طرح متاثر ہوئی ۔افغانستان میں دہائیوں پر پھیلی خانہ جنگی اور سابق سوویت یونین کی طرف سے حملے کی دوران یہاں بارودی سرنگوں کا ایک جال بچھایا گیا۔ افغانستان میں زیر کاشت زمین پہلے ہی تھوڑی تھی جو کچھ اندازوں کے مطابق 15 فیصد ہے لیکن اس میں سے بھی صرف چھ فیصد پر کاشت کی جا رہی تھی۔ جنگ اور جنگی اثرات کی وجہ سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ افغانستان اپنی تیس فیصد سے زیادہ زمین اور چرا گاہیں کھو چکا ہے۔ زرعی پیداوار بھی 1979 کے مقابلے میں 50 فیصد کم ہوئی ہے۔ ملک میں جنگلات دو فیصد سے بھی کم ہیں ملک بھی ایک کروڑ کے قریب بارودی سرنگیں ہیں جن سے 20 سے 30 افراد روزانہ ہلاک یا زخمی ہوتے ہیں۔ افغانستان میں 10 چھوٹے بڑے دریا ہیں جو 1964 تک ایک لاکھ 18 ہزار 500ایکڑ زمین کی کو سیراب کرتے تھے۔ مزید ایک لاکھ 70 ہزار 400 ایکڑ کو سراب کرنے کے پروگرام جاری تھے جن میں سے 80 فیصد پر 1973 تک کام بھی مکمل ہو چکا تھا لیکن جنگ اور خانہ جنگی کی وجہ سے یہ پورا آبی نظام بری طرح متاثر ہوا، جس کی وجہ سے ملکی زراعت کی پیداوار میں بھی کمی ہوئی اور پانی بھی آلودہ ہوا۔ 1990 سے 2007تک افغانستان کا ایک تہائی جنگل مکمل طور پر تباہ ہو گیا جبکہ ہجرت کر کے افغانستان آنے والے 85 فیصد جانوروں نے بھی یہاں کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔ افغانستان کی جنگ اور بیرونی مداخلت کی وجہ سے وہاں نہ صرف انسانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا بلکہ ماحول بھی بری طرح متاثر ہوا۔
بالکل اسی طرح سری لنکا میں بھی خانہ جنگی نے قدرتی ماحول کو ناقابل معافی نقصان پہنچایا۔ اس جنگ نے ملک کے شمالی اور مشرقی علاقوں کو خطرناک بارود کی آلودگی سے بھی بھر دیا۔اس جنگ میں ہزاروں انسان تو پہلے ہی ہلاک ہو چکے تھے لیکن 2014 تک اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریبا 22 ہزار انسان دھماکہ خیز مواد اور بارودی سرنگوں کی وجہ سے زخمی ہوئے ۔تصادم سے سری لنکا کی زراعت کو بھی شدید نقصان پہنچا اور ایک اندازے کے مطابق 50 ہزار سے زیادہ ناریل کے درخت شدید متاثر ہوئے جبکہ جنگی ضروریات کے تحت 25 لاکھ سے زیادہ کھجور کے درختوں کو گرایا گیا۔ جنگ نے ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ گھروں کو بھی تباہی سے دوچار کیا یا پھر انہیں نقصان ہوا جس کی وجہ سے آبادی کو منتقل ہونا پڑا اور وہ ایسی کچی آبادیوں میں منتقل ہوئے جہاں پر قدرتی ذرائع کا انہیں بے دریغ استعمال کرنا پڑا۔ریولوشنری ارمٹ فورسز آف کولمبیا سے تعلق رکھنے والے باغیوں اور کولمبیا کی حکومت کے درمیان 2016 میں ایک امن معاہدہ ہوا جس نے لاطینی امریکہ کے اس ملک میں جاری عشروں پر محیط جنگ کا خاتمہ کیا۔ گوریلا جنگ کی حکمت عملی کے تحت لڑی جانے والی جنگ کا میدان زیادہ تر کولمبیا کی جنگلات رہے ۔یہ جنگلات فارکی پناہ گاہیں تھیں اور جب بھی کل کولمبیا کی فوج کو ان کے خلاف کارروائی کرنی ہوتی تو وہ ان جنگلات کا رخ کر لیتی اور پھر یہاں کئی دنوں اور ہفتوں تک جاری رہنے والی جھڑپوں میں دونوں جانب سے انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ قدرتی ماحول کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچتا ۔اس خانہ جنگی میں دو لاکھ 20ہزار سے زائد افراد موت کا شکار ہوئے جبکہ 70 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے یا انہیں نقل مکانی کرنی پڑی لیکن اس جنگ کے جو ماحولیات پر پڑنے والے منفی اثرات سے نمٹنے میں شاید کئی عشرے درکار ہوں گے۔
خانہ جنگیوں کی یہ داستان ایشیا سے لے کر لاطینی امریکہ اور افریقہ تک جا بجا بکھری پڑی ہیں۔ ان میں قیمتی انسانی جانیں تو گئیں ہی تھی لیکن ان لڑائیوں کی وجہ سے قدرتی ماحول کو پہنچنے والے نقصان یہاں پسنے والوں کا مستقبل بھی غیر یقینی سے دوچار کر رکھا ہے۔ افریقہ کے مختلف ملکوں میں خانہ جنگیوں کی وجہ سے جنگلی حیات کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔ براعظم افریقہ میں ہونے والی خانہ جنگیوں نے جنگلی حیات کو بری طرح متاثر کیا۔ مثال کے طور پر 1946 سے لے کر 2010 تک 70 فیصد ایسا علاقہ جو جنگلی حیات کے لیے مختص تھا وہ جنگ کی وجہ سے اس بر اعظم میں متاثر ہوا جس کی وجہ سے ہاتھیوں زرافوں اور کئی دوسرے جانوروں کو بے دردی سے ہلاک کیا گیا۔ ان کے اعضاء بیچ کر اس غیر قانونی تجارت سے ملنے والی رقم جنگی مقاصد کے لیے استعمال کی گئی ۔مثال کے طور پر صرف روانڈا کی خانہ جنگی کے دوران تقریباً سات لاکھ سے زائدمہاجرین ایک قومی پارک میں خیمہ زن ہوئے ۔ان مہاجرین نے کھانا پکانے پناہ گاہیں قائم کرنے اور دوسری ضروریات کے لیے دو سال تک روزانہ ایک ہزار ٹن لکڑی کاٹی۔ جب روانڈا میں جنگ ختم ہوئی تو 105 مربع کلومیٹر کے جنگل کو بری طرح تباہ کر دیا گیا تھا جبکہ 35 مربع کلومیٹر کا جنگل درختوں سے بالکل خالی ہو گیا تھا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر