وجود

... loading ...

وجود
وجود

قبضہ مافیا کی رسہ کشی

بدھ 27 مارچ 2024 قبضہ مافیا کی رسہ کشی

میری بات/روہیل اکبر
ملکی سیاست میں تو رسہ کشی تھی ہی ساتھ میںہم نے اس کھیل میں تعلیم کو بھی کھینچ لیا۔ گزشتہ روز ایچی سن کالج کے پرنسپل نے ہمارے انتہائی نیک ،پارسا اور باریش گورنر پنجاب کے بارے میں جو کچھ تحریر کردیا وہ ایک سند کے طور پر ہماری آنے والی آئندہ نسلوں کے پاس بھی محفوظ رہے گا کہ ہم نے جہاں اپنے دوسرے شعبوں کا بیڑہ غرق کیا وہیں پر تعلیم اور اس نظام کا بھی کباڑا کردیا۔ کچھ عرصہ قبل اسلامیہ یونیورسٹی کا ایک اسکینڈل منظر عام پر آیا تھا جس کا مقصد وہاں سے ڈاکٹر اطہر کو ہٹانا تھا۔ سازشی عناصر اپنے اس کام میں کامیاب رہے حالانکہ ڈاکٹر اطہر نے اس یونیورسٹی کو پاکستان کی ٹاپ کی یونیورسٹی بنا دیا تھا۔ تعلیم سب کے لیے عام کردی تھی اور اب وہ اس یونیورسٹی کو دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی صف میںشامل کرنے کے لیے دن رات محنت کرنے میں مصروف تھے۔ ان کے دور میں طلبہ کی تعداد کا بڑھنا ہی ان کے ارادوں کی کامیابی تھی لیکن تعلیم دشمن مافیا نے انہیں کام نہیںکرنے دیا۔ اس میںسب سے زیادہ خرابی ہمارے سیاسی نظام کی ہے اور بدقسمتی سے ہم پرانی غلطیوں سے باہربھی نہیں آرہے جو ہمارے مسائل کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ہمارا سیاسی نظام اس لیے کمزور ہے کیونکہ ہمارا معاشرتی نظام مضبوط نہیں ہوسکا اور ہمارے اندر اعلیٰ معاشرتی اور اخلاقی اقدار کا فقدان ہے جس کی کمی کو پورا کرکے ہی ہم ترقی کر سکتے ہیں پاکستان کے سیاسی نظام کے مسائل سے سب واقف ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سول سوسائٹی آگے آئے اور جامعات کے ساتھ مل کر ملکی مسائل پر جامع پالیسی سازی میں حکومت کی مدد کریں ۔پاکستان میں سول اور ملٹری بیوروکریسی دونوں موجود ہیں۔ موجودہ بیوروکریسی کے تانے بانے ہمیں انگریزی حکمرانوں سے ملتے ہیں جنھوں نے برصغیر میں اپنی حکومت کو مضبوط رکھنے کے لئے ایک ایسا بیوروکریسی کا سسٹم ترتیب دیا جس میں ان کا درجہ آقا کے برابر تھا۔ سر کا کلچر بھی ہمیں انگریزوں نے دیا جس کے مطابق ہماری سوسائٹی کے افراد ان کے آگے ملازم سے بڑھ کر نہ تھے وہ نظام جو آقا اور محکوم کے لئے تھا اور اس کی کسی بھی آزاد ملک میں گنجائش نہیں ہونی چاہئے تھی لیکن ہم آج تک اس نظام کو چلا رہے ہیںسیاسی نظام عوام کے انفرادی کلچر سے بنتا ہے اور عوام کا کلچر ہی سیاسی کلچر کی بنیاد ہوتا ہے جس کا ووٹنگ پر بھی اثر ہوتا ہے ۔ سیاسی نظام ملک کے معاشرے، عوام اور ماحول کے حالات وواقعات سے بنتا ہے۔ سیاسی برتائو بھی عوامی برتائوپر مبنی ہوتا ہے کبھی بھی سیاسی کلچر عوامی کلچر سے مختلف نہیں ہوتا۔ پاکستان اور بھارت میں ووٹر ٹرن آوٹ کا فی کم ہوتا ہے جبکہ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں یہ بہت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ ان کے عوام کو اپنی ووٹ کی طاقت کا ادراک ہے۔ جب تک عوام کو سیاسی نظام میں اپنی شراکت داری کا احساس نہیں ہوگا وہ ووٹ ڈالنے نہیں نکلیں گے۔ صرف آئین اہم نہیں بلکہ اس پر مکمل عملدر آمد سے ہی ہمارے مسائل حل ہونگے ایک دوسرے سے اختلاف رکھنا سب کا حق ہے لیکن ہم سب کا پاکستان کی ترقی پر متفق ہونا بہت ضروری ہے۔ موجودہ دور چونکہ سوشل میڈیا کا ہے اور اس کے مثبت استعمال سے معاشرے میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے ہمیں اپنے نصاب اور تحقیق کو عصرحاضر کے جدیدتقاضوں سے ہم آہنگ اور قومی وبین الاقوامی ضروریات کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی صورت ہم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں۔ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو تعلیم کے شعبے میں ایمر جنسی کا نفاذ کرنا ہوگا۔ ہمارے ہاں جو نصاب پڑھایا جارہا ہے اس کے ذریعے ہم دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس لئے نصاب میں جدت لانے کی ضرورت ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج بھی کروڑوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور جو ماسٹر ڈگریاں ہاتھوں میں پکڑ کر نوکریوں کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھا نے کے بعد اب خاکروب کی نوکری کے لیے بھی درخواستیں جمع کروا رہے ہیں جو لمحہ فکریہ ہونا چاہیے اور ان باتوں پر کوئی بھی توجہ دینے کے لیے تیار ہے۔ میں نے شروع میں ذکر کیا تھا رسہ کشی کا جو ایک کھیل ہے اور اس کھیل کو ہم نے اپنی سیاست سمیت ہر ادارے میںمتعارف کروادیا جبکہ حقیقت میں اس کھیل کو ہم بھول چکے ہیں نہ صرف اس کھیل کو بلکہ ان کھیلوں کو بھی ہم نے نہ صرف فراموش کردیاجن میںہم کبھی ورلڈ چیمپئن تھے بلکہ ان کھیلوں میں سیاسی بھرتیاں کرکے وہاں بھی سیاسی ماحول بنا دیا۔ اس وقت پاکستان ہاکی فیڈریشن دو حصوں میںتقسیم ہو چکی ہے۔ ایک حصے پر پیپلز پارٹی کی شہلا رضا قابض ہے جبکہ دوسرے حصے پر وزیر اعلیٰ بلوچستان کے بھائی قابض ہیں۔ دونوں کا کھیلوں کے ساتھ جو لگائو اور تعلق ہے وہ بھی سب جانتے ہیں جو حشر ہماری ہاکی کے ساتھ اس وقت ہورہا ہے ۔یہی آج سے پہلے ہمارے فٹ بال کے ساتھ بھی ہوچکا ہے ۔جہاں باٹ لڑائی مار کٹائی اور قبضے تک پہنچ جاتی تھی پاکستان فٹ بال فیڈریشن پر ایک دن ایک پارٹی کا قبضہ ہوتا تھا تو دوسرے دن مخالف گروپ ڈنڈے سوٹوں کے ساتھ آکر قبضہ کرلیتا تھا اور پھر آخر کار ہماری اس فیڈریشن پرنہ صرف پابندی لگ گئی بلکہ اسے بلیک لسٹ بھی کردیا گیا۔ اس وقت بھی ہماری بہت سی فیڈریشنوں پر ایسے لوگ مسلط ہیںجن کا کھیلوں کے ساتھ دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ پاکستان ا سپورٹس بورڈ فیڈریشن میںکام کرنے والے بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو مختلف محکموں سے یہاں مزے لینے آتے ہیں۔ کھیلوں میںتباہی اور بربادی پھیلا کر واپس اپنے محکموں میں چلے جاتے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے کھلاڑی اپنے کھیل سے دلبرداشتہ ہو کر چلے جاتے ہیں اور انکی جگہ سفارشی لڑکے آجاتے ہیںجو نہ صرف کھیلوں کی بربادی کا سامان پیدا کرتے ہیں بلکہ بین الاقوامی مقابلوں سے ہی پاکستان کی چھٹی کروادیتے ہیں ۔اب جو کھلاڑی کھیلنے کے لیے ویزے لگواتے ہیں اور باہر جاکر غائب ہو جاتے ہیں ان کے ان کاموں سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ اس کام میں مختلف فیڈریشنوں کے کرتادھرتا لوگ شامل ہیں جو ویزوں کا کاروبار کھلاڑیوں کی شکل میںکررہے ہیں۔ اس وقت ہماری سیاست تو برباد ہوچکی ہے اور کھیلیں برباد ہونے کے لیے تیار ہیں۔ کاش کوئی ہمدرد ،محب وطن ،مخلص ،باشعور اور اعلی تعلیم یافتہ پاکستان کا مقدر سنوارنے کے لیے سامنے آئے تاکہ ہمارا ہر لحاظ سے زرخیز ملک ایک بار پھر ترقی کے سفر پر روانہ ہوسکے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر