وجود

... loading ...

وجود
وجود

جلدبازی نہیں احتیاط

بدھ 27 مارچ 2024 جلدبازی نہیں احتیاط

حمیداللہ بھٹی

پاکستان کی معیشت ناہموار ہونے کے ساتھ شدید دبائو کا شکار ہے جسے پیداواری شعبے پر توجہ اوربرآمدات بڑھاکر ہی بہتر کیا جا سکتا ہے۔ ایک طرف ملک کو اربوں ڈالر قرض ادائیگی کا سامنا ہے تو ساتھ ہی برآمدی سے درآمدی حجم بڑھتاجارہا ہے۔ یہ صورتحال معیشت کے لیے بدشگونی ہے مگر صاحبانِ اقتدار نے پیداواری شعبے کو ترقی دینے اور برآمدات بڑھانے پرتوجہ دینے کی بجائے تیل و گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ ٹیکس لگانے کے نسخے پر انحصار کر رکھا ہے جس سے نہ صرف مہنگائی بلکہ پیداواری لاگت میں غیر معمولی اضافہ ہوتاجارہا ہے حالانکہ موجودہ حکومت میں شامل دونوں بڑی جماعتوں نے انتخابی مُہم کے دوران مہنگائی میں کمی لانے، دو سو سے لیکر تین سو تک بجلی مفت دینے اور تیل و گیس اور بجلی کے نرخ کم کرنے کے وعدے کیے تھے لیکن اب حکومت تشکیل دینے کے بعدتمام وعدے یکسر فراموش کردیے ہیں جس سے عدمِ استحکام جنم لینے کاخدشہ ہے معروف برطانوی جریدے دی اکنامسٹ نے بھی اپنی رپورٹ میں ایساہی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ڈانواں ڈول معیشت کی وجہ سے ملک کی معاشی مشکلات کم ہوتی نظر نہیں آتیں سرکاری خزانہ خالی ہے اور دہشت گردی نے الگ ملک کو جکڑ رکھا ہے حکومت کو آئی ایم ایف سے ایک ارب دس کروڑ ڈالر قرض ملنے کا انتظار ہے لیکن خود پالیسی بنانے کی بجائے اب تک گومگوں اور بدحواسی کے عالم میں ہے ۔ مذکورہ مسائل کوحکمرانوں نے حل کرنا ہے مگر جب حکومتی ترجیحات پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا کوئی اِشارہ نہیں ملتا جن سے یقین آئے کہ معاشی جادوگرملک کودرپیش مالی مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ ایسا تاثر گہر اہورہا ہے کہ مسائل کا تدارک حکومتی ایجنڈاہی نہیں اوروقت گزار پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔
اسحاق ڈارایک سے زائد بار ملک کے وزیرِ خزانہ رہ چکے ہیں تجارت کا قلمدان بھی رہا اور وہ ہمیشہ دعویدار رہے کہ ملک کو ترقی کی شاہراہ پر لے آئیں گے لیکن بطوروزیرِ خزانہ ااور وزیرِتجارت ناکام ہی ثابت ہوئے اور قرضوں پرملک کا انحصار بڑھتا گیاجس سے معیشت مزید ناہموار ہوتی گئی، اُن کی ناکامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی اب وزارتِ خارجہ کا قلمدان سونپا گیا ہے لیکن اپنے کام سے کام رکھنے کی بجائے وزارتِ خزانہ کو مشورے دینے لگے ہیں۔ہفتہ 23 مارچ کولندن میں پاکستانی ہائی کمشنر ڈاکٹر فیصل کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران انکشاف کیا کہ پاکستان کے تاجر چاہتے ہیں بھارت کے ساتھ تجارت بحال ہو حکومت اِس کا جائزہ لے گی اور بھارت کے ساتھ تجارتی معاملات کو سنجیدگی سے دیکھیں گے۔ انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اگست 2019میں بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی و قانونی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات کو دھچکا لگا ۔اسحاق ڈار کا بھارت کے ساتھ تجارتی حوالے سے موقف بے وقت کی راگنی ہے۔ ماضی میں جب بھی پاکستان نے بھارت سے آزادانہ تجارتی پالیسی اپنائی تو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی ہوا کیونکہ تجارتی حوالے سے ہمیشہ بھارت کو برتری حاصل رہی۔ مکار وعیار بھارت نے پاکستان سے چاول اور نمک منگوا کر عالمی منڈی میں اپنے نام کے ساتھ بیچ کرخوب منافع کمایا ممکن ہے ایک آدھ تاجر کو بھارتی سامان منگوانے سے نفع ہوا ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ بھارت سے تجارت میں پاکستان ہمیشہ خسارے میں رہا ۔
بھارت کے ساتھ کئی ایسے مسائل ہیں جن کی موجودگی میںتجارت اصولی موقف سے انحراف ہوگا۔ ویسے بھی جب وزیرِ تجارت کی حیثیت سے اسحاق ڈار کو بخوبی تجربہ ہو چکا کہ بھارت صرف پاکستان کو اپنے سامان کی منڈی بنانے کے سوا کچھ اہمیت نہیں دیتا تو اب وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے دیارِ غیر میں بیٹھ کر اُنھیں کیا سوجھی کہ بھارت سے تجارت کے فوائد گنوانے لگے؟کہیں ایسا تو نہیں کہ اِس میں اُن کا اپنا کوئی مفاد ہے؟بھارت میں مسلمانوں اور کشمیریوں کی حالتِ زار کے باوجود تجارتی تعلقات مظلوم مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوگا۔ اِس لیے بہتر ہے کہ اسحاق ڈار وزارتِ تجارت کے معامالات میں ٹانگ اڑانے سے گریز کریں اور جن کاکام تجارتی معاملات دیکھنا ہے۔ انھیں اپنی ہدایات کے مطابق چلانے کی بجائے آزادانہ کام کرنے دیں جب یہ واضح ہو گیا ہے کہ بھارتی قیادت کو پاکستان سے بات چیت میں کوئی دلچسپی نہیں نہ ہی وہ پاکستان سے تجارت کی آرزو رکھتی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ پاکستان کے وزرا کیوں تجارت کے لیے ہلکان ہیں ؟
پاک بھارت تجارتی تعلقات کی بحالی کے حوالے سے مبصرین متفق ہیں کہ اِس حوالے سے سٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاقِ رائے کا فقدان ہے نیز دفترِ خارجہ کے اندربھی منقسم رائے پائی جاتی ہے توپھر اتنا تو دریافت کرنے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات کی بحالی کے تناظر میں کسی ٹھوس تجویز پر غور ہی نہیں ہورہا تو وزیرِ خارجہ کو یہ بے پرکی چھوڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟فہمیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار نے یہ بیان عالمی طاقتوں کی خوشنودی کے لیے دیا ہے اور اِس بیان کو عالمی طاقتوں کی آشیر باد حاصل ہے بھارت سے تجارتی تعلقات کی بحالی کے حامیوں کاخیال ہے کہ علاقائی تجارت پاکستان کو اپنی معاشی مشکلات کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے کیونکہ دونوں ممالک میں حقیقی تجارتی صلاحیت بیس سے پچیس بلین ڈالر تک موجودہے مگر سرکاری ذرائع ایسے اندازوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور خدشہ ہے کہ بھارت سے تجارت شروع کرنے سے زرِ مبادلہ کے ذخائر خطرناک حدتک کم ہو سکتے ہیں ۔
حکومت کو چاہیے کہ کسی فیصلے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ ایسے حالات میں جب بھارت میں رواں برس اپریل سے عام انتخابات کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے جو مئی تک جارے رہے گا۔ اِن حالات میں انتظار کرناہی دانشمندی ہے کیونکہ مئی میں نئی دہلی میں نئی حکومت تشکیل پانے کے بعدہی معلوم ہو گا کہ اُس کی ترجیحات کیا ہیں اور کیاپاکستان سے تجارتی تعلقات قائم کرنے میں سنجیدہ ہے؟ابھی تک تو بھارتی قیادت کی طرف سے ایسا کوئی اِشارہ نہیں مل رہا کہ وہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے اور تجارت شروع کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ کشیدہ تعلقات کے باوجود شہبازشریف کو تہنیتی پیغام موہوم سا اشارہ ہے کہ مودی سرکار پاکستان سے مزاکرات کے دروازے بالکل بند نہیں کرنا چاہتی ۔پانچ اگست2019 کومتنازع جموں و کشمیر خطے کی خصوصی حیثیت کی منسوخی ایسا فیصلہ نہیں جو اتنی جلدی بھلا دیا جائے۔ کیا ہمارے حکمرانوں کو معلوم نہیں کہ مارچ2021میں تحریک انصاف کی حکومت نے بھی تجارتی تعلقات کی بحالی کے حوالے سے نرمی کا مظاہرہ کیا اور کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ECC)نے جزوی طورپر تجارت شروع کر نے کا فیصلہ کرنے کی خواہش ظاہر کی جس پر عوامی حلقوں نے شدیدردِ عمل ظاہر کیا۔عوامی مزاج کو بھانپتے ہوئے ہی جزوی تجارت شروع کرنے کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا گیا ۔اب اسحاق ڈار کا اچانک اصولی موقف کے برعکس تجارتی تعلقات کی وکالت کرنا عوامی جذبات کو اُبھارنے کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسے حالات میں جب تحریکِ انصاف احتجاجی سیاست پر متفق ہے ،عوامی مزاج کے برعکس حکومتی فیصلوں سے اپوزیشن کوفائدہ ہوسکتاہے جس سے ایک بڑی تحریک جنم لے سکتی ہے۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ عوامی غصے کو شدید ترکرنے سے گریز کیا جائے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر