وجود

... loading ...

وجود
وجود

نورتن

پیر 25 مارچ 2024 نورتن

بے لگام / ستارچوہدری

قدیم بادشاہوں کے معاون اور مشیر، اُن کے درباری ہوتے تھے، جن کو آج کے دور میں وزیر و مشیر کہاجاتا ہے۔۔درباری علما ء بھی ہوا کرتے تھے،جن کے ذریعے فتوے جاری کرائے جاتے ،کوئی بھی مذہب ہو۔۔برصغیر میں سب سے معروف مشیر شہنشاہ اکبر کے ہوئے تھے،جو ”نورتن” کے نام سے مشہور ہوئے۔۔ جن میں بیربل، شیخ فیضی، راجہ ٹوڈرمل، عبدالرحیم خان خاناں، مان سنگھ، ابوالفضل اور تان سین شامل تھے۔ دربار میں یہ لوگ دن بھر بادشاہ کی رضا جوئی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سیاہ کو سفید اور دن کو رات کہتے نہ تھکتے۔
اکبرکے یہ نورتن ذہین ہو نے کے ساتھ ساتھ چاپلوسی اور خوشامد میں ماہر تھے، خوشامد کا فن سب سے زیادہ شاہی دربار میں پروان چڑھا کیونکہ بادشاہ کی ذات تمام عقل کل اور اختیارات کی حامل تھی۔ خوشامد کرنے والے اپنی زبان میں شائستگی و خوبصورت اشعارکا استعمال کرتے ،بادشاہوں کی تعریف میں ان کے شجاعت و بہادری کے قصے سناتے، زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے۔ طاقت و اختیارات اور اقتدار ایک انسان کی شخصیت کو بدل دیتے ہیں، خوشامد کے لفظوں میں اس قدر جادو ہوتا کہ بادشاہ وقت اس کے سحر سے آزاد نہیں ہو سکتا تھا۔
وقت نہیں بدلا عہدوں کے صرف نام ہی تبدیل ہوئے،بادشاہوں کو اب صدر،وزیراعظم کہا جاتا ہے،درباریوں کو وزیر،مشیر کہا جاتا ہے، کام دونوں کے وہی پرانے ہیں۔مثال کے طور پر۔۔۔میاں شریف بھی ایک طرح کے ”بادشاہ” ہی تھے،انہوں نے اپنے ”دربار” میں کچھ درباری رکھے ہوئے تھے،جو انکی خوشامد اور انہیں خوش رکھنے کیلئے لطیفے سنایا کرتے تھے،ان میں دو درباری تو بہت مشہور ہوئے اور انہیں انعام کے طورپربڑے عہدوں پر مسلط بھی کیا گیا۔ایک تو تھے رفیق تارڑ۔۔۔جن کی جگہ پر آجکل انکا پوتا عطا تارڑ تعینات ہے،رفیق تارڑ کا ضمنی کام توتھا ججوں کو خریدنا،مرضی کے فیصلے حاصل کرنا،چیف جسٹس سجاد علی شاہ کیخلاف ججوں کی بغاوت کرانے میں موصوف کا ہاتھ تھا، ریکارڈ پر ہے جناب کوئٹہ نوٹوں کا بریف کیس لیکر گئے تھے۔بہتر کارکردگی پر انہیں ملک کا صدر مسلط کیا گیا تھا،دوسرے تھے عطاالحق قاسمی صاحب،انکی بھی اچھی کارکردگی تھی،موصوف کوناروے کا سفیر،پی ٹی وی کاہیڈ انعام کے طور پر بنایا گیا تھا۔۔۔بات کہیں اورنکل گئی، موضوع تھا پرانے بادشاہوں کے درباری۔۔۔ ایک دلچسپ قصہ یاد آگیا۔۔۔ کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے ایک رفوگر رکھا ہوا تھا۔ وہ کپڑا نہیں باتیں رفو کرنے کا ماہر تھا۔ وہ بادشاہ سلامت کی ہر بات کی کچھ ایسی وضاحت کردیتا کہ سننے والے سر دھننے لگتے کہ واقعی بادشاہ سلامت نے صحیح فرمایا۔
ایک دن بادشاہ سلامت دربار لگا کر اپنی جوانی کے شکار کی کہانیاں سنا کر رعایا کو مرعوب کر رہے تھے۔ جوش میں آکر کہنے لگے کہ ایک بار تو ایسا ہوا کہ میں نے آدھے کلومیٹر سے نشانہ لگا کر جو ایک ہرن کو تیر مارا تو تیر سنسناتا ہوا گیا اور ہرن کی بائیں آنکھ میں لگ کر دائیں کان سے ہوتا ہوا پچھلی دائیں ٹانگ کے کھر میں جا لگا۔
بادشاہ کو توقع تھی کہ عوام داد دے گی لیکن عوام نے کوئی داد نہیں دی۔ وہ بادشاہ کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے۔ بادشاہ بھی سمجھ گیا کہ ضرورت سے زیادہ لمبی چھوڑ دی۔ اپنے رفوگر کی طرف دیکھا۔ رفوگر اٹھا اور کہنے لگا حضرات میں چشم دید گواہ ہوں اس واقعے کا۔ دراصل بادشاہ سلامت ایک پہاڑی کے اوپر کھڑے تھے اور ہرن بہت نیچے تھا۔ ہوا بھی موافق چل رہی تھی ورنہ تیر آدھا کلومیٹرکہاں جاتا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے آنکھ کان اور کھر کا تو عرض کردوں کہ جس وقت تیر لگا ہرن دائیں کھر سے دایاں کان کھجا رہا تھا۔ عوام نے زور زور سے تالیاں بجا کر داد دی۔
اگلے دن رفوگر بوریا بستر اٹھا کر جانے لگا۔ بادشاہ پریشان ہوگیا۔ پوچھا کہاں چلے۔ رفوگر بولا بادشاہ سلامت میں چھوٹے موٹے تروپے لگا لیتا ہوں، شامیانے سلوانے ہوں تو عظمیٰ بخاری کو رکھ لو۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر