وجود

... loading ...

وجود
وجود

خورشید ندیم کبھی یوں ، کبھی ووں!!

اتوار 24 مارچ 2024 خورشید ندیم کبھی یوں ، کبھی ووں!!

عماد بزدار

خورشید ندیم صاحب ایک علمی شخصیت ہیں۔ اخبار میں کالم لکھتے ،وقتا فوقتا ٹی وی پر کوئی نہ کوئی مذہبی پروگرام بھی کرتے ہیں۔ آج کل
رحمت العالمین اتھارٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ آیئے ذرا ان کے اپنے لکھے گئے الفاظ کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ کیسے ایک ہی معاملے کے بارے میں حسب ضرورت ان کا مؤقف یوں بھی ہوجاتا اور ووں بھی!!!
رحمت العالمین اتھارٹی اور خورشید صاحب کا”اصولی مؤقف”
رحمت العالمین اتھارٹی عمران خان کی دور حکومت میں وجود میں آئی۔رحمت العالمین اتھارٹی کے چیئرمین بننے سے پہلے اپنے کالم
”اپنا اپنا اسلام” میں رحمت العالمین اتھارٹی پر ان دلائل کے ساتھ تنقید کرتے ہیں۔
”ترجیحات کا جب درست تعین نہیں ہوتا تو پھر وہ رویہ پیدا ہوتا ہے جس کی طرف حضرت مسیح نے اشارہ کیا کہ
لوگ مچھر چھانتے ہیں اور اونٹ نگلتے ہیں۔ ریاست کا پورا نظام عدل فراہم نہیں کررہا ۔ وقت کا حکمران قدم قدم
پر اسلامی اخلاقیات پامال کرتا ہے ۔ اس کے ساتھ اگر وہ رحمت العالمین اتھارٹی نام سے ایک ادارہ بنادیتا یا ٹی وی
کی خواتین اینکر کو دوپٹہ اوڑھا دیتا ہے تو اسے اسلام کا نمائندہ سمجھ لیا جاتا ہے ۔”
اگست دو ہزار تیئس میں خورشید ندیم صاحب اسی اتھارٹی کے چیئرمین بنتے ہیں۔ شاید اس مملکت خداداد میں اگست کے بعد اسلامی اخلاقیات پامال ہونا بند ہوگئے ، ریاست کا نظام زور و شور سے عدل فراہم کرنا شروع ہوگیا تبھی خورشید صاحب نے چیئرمینی قبول کرلی
ورنہ خورشید صاحب خلاف شرع تھوکتے بھی نہیں۔
اچھا احتجا ج برا احتجاج یا جائز احتجاج ناجائز احتجاج
حکومت وقت کے خلاف احتجاج تب جائز ہوا کرتا تھا جب میاں صاحب اپوزیشن میں اور عمران حکومت میں ہوا کرتے تھے ۔ کالم کا عنوان ہے” فیصلے کا دن” اور اس کالم کی تاریخ اشاعت31اکتوبر 2019ء ہے ۔ لکھتے ہیں
”کیا آج فیصلے کا دن ہے ؟ کیا آج پنجاب آزادی مارچ کیلئے نکلے گا؟اس کا جواب مولانا فضل الرحمان
کے پاس نہیں ، ن لیگ کے پاس ہے ۔ نون لیگ پر پھبتی کسی جاتی ہے کہ یہ جی ٹی روڈ کی پارٹی ہے ۔ اس
اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جی ٹی روڈ کے قرب میں جو شہر اور قصبات آباد ہیں وہاں ن لیگ کی اکثریت
ہے ۔ گویا جو نون لیگ کو ایک ملک گیر جماعت ماننے پر آمادہ نہیں ، وہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ لاہور سے
راولپنڈی تک ، نواز شریف عوام کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ن لیگ کو اب اس کا عملی مظاہرہ کرنا ہے ۔ اگر
لوگ نہیں نکلتے تو یہ مولانا کی نہیں نون لیگ کی ناکامی ہوگی ۔ جو حیثیت پیپلز پارٹی کی سندھ میں ہے ، وہی نون
لیگ کی پنجاب میںہے ۔ اگر وہ پوری قوت مولانا کے پلڑے میں ڈال دے تو صرف پنجاب سے ایک لاکھ
کم و بیش ، افراد اسلام آباد بھجوائے جاسکتے ہیں۔خان صاحب غالبا ًنواز شریف کی مزاحمت کا صحیح اندازہ کرسکے
نہ مولانا فضل الرحمان کی سیاسی قوت کا۔ خود پسندی کے حصار میں قید حکومت سیاسی حرکیات سے آخری درجے
میں بے خبر نظر آتی ہے ۔ ہر طبقہ زندگی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ جہاں تاجر کا دم گھٹ رہا ہو ، جہاں میڈیا کا گلا
دبایا جارہا ہو ، جہاں سیاستدان قید کردیے جائیں ، جہاں ہر طبقہ زندگی کے لئے جینا دوبھر کردیا جائے ۔ وہاں
کیسے ممکن ہے کہ صرف حکومت قائم رہ سکے”۔
جب تاجر کا دم گھٹ رہا ہو ، جب میڈیا کا گلا دبایا جارہا ہو ، جب سیاستدان قید کردیے جائیں جب ہر طبقے کا جینا دوبھر ہو تو خورشید
صاحب کی نظر میں ممکن ہی نہیں کہ حکومت قائم رہ سکے ۔ لیکن ٹھہریئے !”اصولی مؤقف”سدا ایک سا نہیں رہتا ،بدلتے وقت کے ساتھ خورشید صاحب کا مؤقف بھی بدل جاتا ہے۔ یہ اسی مارچ کے مہینے کا کالم ہے۔ تاریخ اشاعت 16مارچ 2024ء ہے اور کالم کا عنوان ہے ”احتجاج یا خود احتسابی؟”
وہ احتجاج جو عمران حکومت کے خلاف ضروری ہوا کرتا تھا اب ”اسلامی اصولوں”کی روشنی میں ناجائز ہوجاتا ہے ۔ لکھتے ہیں
مطالبہ، احتجاج، خود احتسابی۔۔۔۔۔ انفرادی شخصیت اور سماج کا اساسی جوہر کیا ہے ؟ میرا جواب ہے خود احتسابی ۔ قرآن مجید کی راہ نمائی یہی ہے ۔ رسالت ماب سیدنا محمد ۖ کی تعلیم کا حاصل یہی ہے ۔ مسلم سماج کا تعارف بھی یہی ہے ۔ اس بات کو تصور آخرت نے آخری درجے میں واضح کردیا ہے ۔ خدا کے حضور میں سب اپنے اپنے اعمال کے لئے جواب دہ ہونگے ۔ ہر کسی کے ہاتھ میں اس کا نامہ اعمال ہوگا۔ کسی دوسرے کا کارنامہ یا جرم اس میں رقم نہیں ہوگا۔ یہ تصور خود احتسابی کا کلچر پیدا کرتا ہے ، دنیا میں بھی۔آگے احتجاج نامی شر سے قوم کو بچانے کے لئے مزید دلائل کچھ اس طرح دیتے ہیں کہ ”مکہ میں مسلمان مذہبی جبر کا شکار تھے ۔یہ صورتحال مسلمانوں کو مضطرب رکھتی تھی ۔ جب ان کی طرف سے یہ حرف شکایت زبان پر آیا کہ ‘اللہ کی نصرت کب آئے گی’ تو جواباً انہیں صبر کی تلقین کی گئی۔”
احتجاج جیسے ناجائز عمل کے لئے ”دلائل” کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے خورشید ندیم مزید لکھتے ہیں کہ سرسید کی تو ساری تگ و دو شخصی تعمیر اور خود احتسابی کے لئے تھی۔ انہوں نے سب سے پہلے مسلمانوں کو احتجاج اور تصادم کی نفسیات سے نکالنے کے لئے آواز اٹھائی۔۔”
اب دونوں کالمز آپ کے سامنے ہیں یا تو احتجاج بذات خود بری چیز ہے جیسا کہ دوسرے کالم میں ہے یا پھر یہ امکان ہوسکتا ہے اس وقت مملکت خداد میں شیر بکری ایک گھاٹ سے پانی پیتے ہیں ، میڈیا آزاد ہے ، سیاستدان پر کوئی جبر نہیں ۔ ہر طبقہ خوش اور خوشحال ہے
اس لئے احتجاج نہیں کرنا چاہیے ۔
صعوبتوں والا جیل اور آسودگی والا جیل
جب میاں صاحب جیل میں ہوتے تھے تب جیل کی زندگی صعوبتوں سے بھر پور بہت مشکل ہوا کرتی تھے ۔ چھبیس اکتوبر دو ہزار انیس کے کالم ”نواز شریف: فرد سے علامت تک” میں اپنے پڑھنے والوں کو بتاتے ہیں”انہوں نے (نواز شریف) ایک خاص لمحے میں مزاحمت کا فیصلہ کیا۔آسودگی کی زندگی پر جیل کی صعوبتوں کو ترجیح دی۔ اقتدار ہی نہیں گیا، ان کی زندگی بھی داؤ پر لگ گئی۔ خاندان بکھر گیا۔ بیٹی پر تعیش محلات سے نکلی اور تکلیف دہ حوالات جا پہنچی۔ یہ نواز شریف کا اپنا انتخاب تھا۔ یقیناً یہ آسان فیصلہ نہیں تھا۔ وہ اس کی قیمت ادا کرنے پر تیار ہو گئے اور یوں فرد سے علامت بن گئے ۔” لیکن اسی اڈیالہ جس میں میاں صاحب قید ہوا کرتے تھے ، میں جب عمران قید ہو گیا تو جیل کی زندگی صعوبتوں والی نہیں رہی بلکہ جیل کی زندگی صعوبتوں سے آسانیوں میں تبدیل ہوگئی۔ سات مارچ دو ہزار چوبیس کے کالم ”سسٹم کیا ہوتا ہے ؟”میں لکھتے ہیں
”یہی نہیں ، یہ لوگ گرفتار ہوتے ہیں تو ان کے لئے جیل بھی جائے قرار بن جائے ۔ حکومت ذاتی انتقام پر
نہ اترے تو قانون یا سسٹم ان کے لئے جیل کی زندگی کو آسان بنا دیتا ہے ۔ عمران خان صاحب، آج جیل
میں کس حال میں ہیں ، سب کو معلوم ہے ۔”
کوئی دن ہے بہار گل پھر آخر ہے خزاں بالکل
چمن ہے منزل عبرت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
ظفر اک بات پر دائم وہ ہووے کس طرح قائم
جو اپنی پھیرتا نیت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر