وجود

... loading ...

وجود
وجود

یہ جمہوریت ہے

بدھ 20 مارچ 2024 یہ جمہوریت ہے

ب نقاب /ایم آر ملک

اِسے ہم جرائم کی سیاسی سرپرستی کا نام دے سکتے ہیں جس کا خمیازہ روشنیوں کا شہر ایک طویل عرصہ سے بھگت رہا ہے!
جانبدار الیکشن کمیشن نے ثابت کر دیا ہے کہ عوام کا حق خودارادیت چھیننے میں وہ کہاں تک جاسکتا ہے ؟عوام دشمنی میں دو بڑی جمہوری پارٹیوں کی لیڈر شپ نے جہاں تک جانا تھا وہ جاچکیں ، اس سے بڑی عوام دشمنی اور کیا ہو سکتی ہے کہ جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والی جماعتیں شکست کی راکھ فارم 47کی شکل میں اُڑا رہی ہیں ،سیاست کے ڈاکٹر کی اختراع جس نے بھی گھڑی بلاوجہ گھڑی ،جس کیلئے گھڑی گئی وہ شکست خوردہ عناصر کو حکمرانی میں حصہ دار بنانے پر بضد ہے ،سیاست کا منصوبہ ساز ذہن یہ ثابت کررہا ہے کہ وہ سینکڑوں لوگوں کے قاتلوں کو براہ راست حکمرانی سے بالواسطہ حاکمیت کا اختیار اقتدار کی شراکت کے ذریعے چاہتا ہے ۔اسے ملک دشمن قوتوں کی دلالی کہا جا سکتا ہے دو بڑی پارٹیوں کی مفاہمت کی سیاست نے جمہوریت کو متروک اور اکثریت کی زندگی کو عذاب مسلسل میں ڈال دیا ہے ،عوام ذلت اور سماجی اذیت سے چھٹکارا چاہتے ہیں ،پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔
ان جمہوری مافیاز میں گھرے ہوئے عوام کسی مسیحا کی طرف دیکھ رہے ہیں جو روشنیوں کے شہر کے باسیوں کے اعتماد کی بحالی اور دلوں میں اُمید کی شمع روشن کرے ، محض اٹھارہ ماہ کے دور اقتدار میں جمہوریت نے شہر کی رگوں پر اپنے دانت پیوست کئے ڈریکولا سے نمٹنے کیلئے اپنی ناممکن کے تصور کی سوچ کے تحت وطیرہ اپنایا ،اسی شہر میں فیکٹری میں بھتہ خوروں نے زندہ انسانوں کو راکھ بنا ڈالا ،ولی بابر کی لاش گری مگر جمہوری ناخدائوں نے ان لاشوں پر بھی منافعوں کی سیاست کی جن کے گماشتے خون میں ڈوبے شہر سے اپنے ناجائز منافعوں کو وسعت دیتے رہے ۔
آج بھٹو پارٹی کی قیادت کی راسیں ایک ایسی لمپن قیادت کے ہاتھوں میں ہے جو بھٹو دشمن قوتوں کی اطاعت پر اترا رہی ہے جس نے قائد عوام کی پارٹی کو ضیاء باقیات کا گماشتہ بنا کر رکھ دیا ،نواب شاہ کی فضائوں میں الفاظ ایک بازگشت کی شکل میں آج بھی معلق ہیں کہ ”ہم بھٹو خاندان کو داستان ِعبر ت بنا دیں گے”اور پارٹی چیئرمین کی شکل میں سب پہ بھاری بے ہودہ ناٹک رچایا جا رہا ہے ۔بھٹو کو پھانسی دینے والا ضیاء جس پارٹی کو گیارہ برس میں ختم نہ کرسکا ایک لمپن قیادت نے اُس کا تیا پانچہ کر ڈالا۔ حادثاتی طور پر مسلط ایک ایسی نو مولود قیادت جو نظریاتی ورکروں کے روایتی تنقیدی رویئے کو ”پارٹی دشمنی ”قرار دیکر اُنہیں اپنے لے پالک غنڈوں کے ذریعے رستہ سے ہٹاتی رہی۔
احباب کی محفلیں کئی طرح کے سچ اگلتی ہیں ،نظریاتی ورکروں کے بے وقت کھو جانے کا دُکھ جتنا محترمہ بے نظیر بھٹو کو تھا اُتنا بھلا کسی جعلی قیادت کو کیسے ہو سکتا ہے اس کا اندازہ ہم 17جون 2004میں شہر قائد میں گرنے والی ایک نظریاتی ورکر منور سہر وردی کی لاش سے لگا سکتے ہیں جس کی موت کے کرب کی پرچھائیاں محترمہ بے نظیر بھٹو کے حواس پر چھائی رہیں۔ اُن کے ان ریمارکس کو اس موت پر بھلایا نہیں جاسکتا کہ ”مجھے منور سہر وردی کے کھو جانے کا غم اتنا ہی ہے جتنا اپنے سگے بھائیوں شاہ نواز اور مرتضٰی بھٹو کے جدا ہو جانے کا ہے ۔کیا اقتدار کی خواہش رکھنے والے کسی ”ہوس زدہ ”پر دکھ کی یہ کیفیت طاری ہوسکتی ہے جس کی حکمرانی اُن 650شہید پولیس اہلکاروں کے لواحقین کو انصاف نہ دے پائی جنہوں نے پیپلز پارٹی کے دور میں امن کی قیمت اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر چکائی۔ جمہوریت تو ہر دور میں لاشوں کا تماشا رہی انسانیت کے نبض شناس شہید حکیم سعید کو بھتہ خور مافیا کے مذموم عزائم کی بھینٹ اسی سنگدل جمہوریت نے دانستہ چڑھایا۔ ایک مجاہد غازی صلاح الدین کی اذاں کو خاموش کرادیا گیا، قاتل دندناتے ہوئے خونی جمہوریت کی سر پرستی میں انسانیت کی پو شاک لہو سے تر کرتے رہے ،جمہوری ناخدا ان لاشوں کی بساط پر اپنی چالیں چلتے رہے۔
محب وطن دانشوروں کا دامن تو اس سوچ میں اُلجھا ہوا ہے کہ نیٹو اسلحہ کے 19ہزار کنٹینرز کس کے دور حکومت میں روشنیوں کے شہر نے نگل لئے شہر قائد پر مسلط مافیا کا ماضی لوٹانے کی ناکام خواہش پروان چڑھانے کی سعی مگر اس بار جمہوریت کی مصلحت مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ جمہور کا قتل عام کرنے کیلئے مفاہمت کی جمہوریت قاتلوں کے جتھے پال کر تاریخ کے چہرے پر دھوکے اور فریب کی کالک ملتی رہی۔ کیا ایسا نہیں کہ پیپلز پارٹی آج ثریا کی بلندیوں سے ذلت کی گہرائیوں میں جاگری ہے ؟ پھر بھلا ایسی جمہوریت جس کے ہونٹ عوام کے لہو سے رنگین ہوں کب تک جاری رہ سکتی ہے ؟
عوام ایسے نظام کو جو اُن کی زندگیوں کو بر باد کرنے پرتُلا ہو کب تک برداشت کر سکتے ہیں ؟اس جمہوریت کا ،اس نظام کا کہیں نہ کہیں تو The End بھی آنا ہے ماضی کے بغیر کوئی مستقبل نہیں ہوتا اورپیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت نے اپنی پارٹی کی ایک خوبصورت ماضی سے جان چھڑا دی ہے ۔
زرداری کے اس نظریئے نے کہ ”ایم کیو ایم کو سندھ میں شریک اقتدار بنایا جائے” ایک ایسے وقت میں جب پاکستان تحریک انصاف تمام سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر ووٹ کی طاقت سے معصوم انسانوں کی جانوں کے ضیاع پر بند باندھنا چاہتی ہے ،الیکشن کمیشن نے باور کرایا کہ وہ انسانیت کے قاتلوں کے شانہ بشانہ ہے،کیا پیپلز پارٹی کی نظریاتی اکثریت موجودہ قیادت کو بھٹو کی پارٹی کا چہرہکہہ سکتی ہے؟ کیا اسے حقیقی قیادت کا نام دیا جاسکتا ہے ؟کیا محترمہ بے نظیر بھٹو اگر زندہ ہوتیں تو پارٹی کے حالات یہ ہوتے ؟ کیا مظلوم اور استحصال زدہ نظریاتی ورکرزتبدیلی کی جدوجہد سے لاتعلق رہتے ؟کیا قاتلوں کی سر پرستی کرنے والا جمہوریت کا کردار اِسی طرح بقا پاتا ؟ہرگز نہیں !
جمہوری نا خدائوں کے مد مقابل عمران نے ثابت کر دیا کہ قائد اور اقبال کے پاکستان کی بقا کی جنگ اگر کوئی لڑ رہا ہے تو وہ عمران خان ہی ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر