وجود

... loading ...

وجود
وجود

سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

منگل 19 مارچ 2024 سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

معصوم مرادآبادی

عام انتخابات کا بگل بجنے کے ساتھ ہی ملک میں مثالی ضابطہ اخلاق نافذ ہوچکا ہے ۔ملک میں اگلے دومہینے سیاسی ہنگامہ آرائیوں سے عبارت ہوں گے ۔ یوں بھی الیکشن کو جمہوریت کا سب سے بڑا جشن کہا جاتا ہے ۔حکمراں بی جے پی لگاتار تیسری بار اقتدار میں آنے کے منصوبے بنارہی ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ اس بار بھی مودی ہی ملک کے وزیراعظم بنیں گے ۔ اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے بی جے پی نے تمام حربے اختیار کئے ہیں۔ رام مندر کی ‘پران پرتیشٹھا’سب سے بڑا حربہ ہے جو اکثریتی طبقہ کے مذہبی استحصال کے لیے روبہ عمل لایا گیا ہے ۔ لیکن الیکشن کی تاریخیں قریب آتے آتے حکومت انتخابی بانڈز کے بھنور میں پھنس گئی ہے ۔کانگریس رہنما راہل گاندھی نے اسے دنیا میں ناجائز وصولی کا سب سے بڑا ریکٹ قرار دیا ہے ۔ انتخابی بانڈز کی مکمل تفصیل فراہم نہ کرنے کے معاملہ میں سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو ایک بار پھر کٹہرے میں کھڑا کیا ہے ۔حکومت کو محسوس ہوتا ہے کہ انتخابی بانڈ زکے اسکینڈل کا بھانڈ ہ پوری طرح پھوٹنے کے بعدوہ کہیں کی نہیں رہے گی۔ اسی لیے عوام کی توجہ اس پر سے ہٹانے کے لیے حکومت نے جو ہتھکنڈے اختیار کئے ہیں ان میں سب سے بڑا ہتھکنڈہ متنازع شہریت ترمیمی قانون(سی اے اے ) کا نفاذ ہے ، جسے شروع سے ہی مسلمانوں کی شہریت کو خطرے میں ڈالنے والا قانون قراردیا جارہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سی اے اے کے نفاذ سے متعلق نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے ساتھ ہی مسلمانوں میں ان تمام اندیشوں نے سراٹھالیا ہے ، جو اس قانون سے ان کے اندر سرایت کرگئے تھے ۔ حالانکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ کسی کی شہریت لینے والا قانون نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد ان غیرمسلموں کو ہندوستانی شہریت فراہم کرنا ہے ، جو پڑوسی ملکوں میں مذہب کی بنیاد پر ستائے جاتے ہیں۔لیکن یہ قانون چونکہ ہندوستانی شہریت کو مذہب سے جوڑتا ہے ، اس لیے اس کی خطرناکی سبھی محسوس کرتے ہیں۔ ہندوستان ہی نہیں امریکہ اور یوروپ نے بھی اس قانون کے خلاف آواز بلند کی ہے ۔
وزارت داخلہ نے مسلمانوں کو اطمینان دلانے کی کوشش کی ہے کہاس قانون سے ان کی شہریت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے ۔یہ شہریت دینے والا قانون ہے ، لینے والا نہیں۔لیکن سب سے بڑاسوال اس وضاحت سے ہی پیدا ہوتا ہے کہ اس قانون کی رو سے ملک کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو تو شہریت ملتی ہے ، لیکن مسلمان اس سے کیوں محروم کردئیے گئے ہیں۔دراصل 2019میں جب یہ قانون پارلیمنٹ سے منظور ہوا تھا تووزیرداخلہ نے یہ کرونالوجی سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ پہلے سی اے اے آئے گا،پھر این آرسی اور اس کے بعد این پی آر۔ بعدکو انھوں نے سی اے اے کے حوالے سے جومسلسل بیانات دئیے وہ مسلمانوں کے خدشات کو بڑھانے والے تھے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی کوئی ان کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے ۔
سی اے اے نافذ ہونے کے بعدجن مذاہب کے لوگوں کو اس کا فائدہ پہنچے گا، ان میں ہندو، سکھ، عیسائی، بودھ، جین اور پارسی مذاہب کے ماننے والے شامل ہیں اور جن ملکوں کے باشندوں کو کسی دستاویزی ثبوت کے بغیرآن لائن ہندوستانی شہریت فراہم کی جائے گی، ان میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔مسلمانوں کو اس قانون میں اس لیے شامل نہیں کیا گیا ہے کیونکہ ان تینوں ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جو ان اقلیتی با شندوں کا جینا حرام کئے ہوئے ہیں۔ خود ہندوستان کی اکثریتی آبادی اپنی اقلیتوں کے ساتھ جو”حسن سلوک” کرتی رہی ہے ، اس کا تذکرہ کرنا یہاں بے معنی ہے ، کیونکہ یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس قانون کا نفاذ ٩١٠٢ میں اسی وقت ہوگیا تھا جب پارلیمنٹ سے پاس ہونے کے بعد اس پر صدرجمہوریہ کی مہر لگی تھی، لیکن اس قانون کے خلاف بے نظیر احتجاج کے پیش نظر حکومت نے اس کے ضابطے وضع کرنے کاکام انتخابات کے وقت کے لیے چھوڑ دیاتھا تاکہ مذہبی بنیادوں پر الیکشن میں اس کا فائدہ اٹھایا جاسکے ۔ حالیہ نوٹیفیکیشن اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔اس کے اجراء کے بعد ایک بار طلباء برادری، سول سوسائٹی اور شہری حقوق کی تنظیمیں سرگرم عمل ہوگئی ہیں اور اس کے خلاف مسلسل آواز بلند کی جارہی ہے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ متنازع شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ کا نوٹیفیکیشن عام انتخابات سے عین قبل کیا گیا ہے ۔ سبھی جانتے ہیں جو اعلانات چناؤسے پہلے کئے جاتے ہیں، ان کا مقصد چناؤ میں فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے ۔حکمراں بی جے پی کو اس میں جو مہارت حاصل ہے ، وہ کسی دوسری پارٹی کو نہیں ہے ۔ کانگریس کا یہ الزام حق بجانب ہے کہ یہ”چناؤ سے پہلے ملک اور خاص طورپر مغربی بنگال اور آسام میں ووٹوں کی صف بندی کرنا ہے ۔اس بحث سے قطع نظر کہ اس قانون کا فائدہ پڑوسی ملکوں میں رہنے والے غیرمسلموں کو کتنا ہوگا اور وہ کس حد تک خود کو محفوظ کرپائیں گے ، یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ جب سے یہ قانون پارلیمنٹ سے پاس ہوا ہے ، اس پر سب سے زیادہ احتجاج شہری حقوق کے محافظوں اور مسلمانوں نے کیا ہے ۔حکومت اس احتجاج کی بے مثال کامیابی سے اس حد تک خوفزدہ ہوگئی تھی کہ اس میں سرگرم حصہ لینے والوں کے خلاف غیرقانونی سرگرمیوں سے متعلق قانون یو اے پی اے کے تحت کارروائی کی گئی۔ ان میں سے کئی لوگ ابھی تک سلاخوں کے پیچھے ہیں۔اسی دوران فروری 2020کے اواخر میں شمال مشرقی دہلی میں خوفناک فساد برپا ہوا، جس کی زد میں آکر پچاس سے زائد بے گناہ لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں اور سیکڑوں زخمی ہوئے ۔ اس معاملے میں دہلی پولیس نے 758 مقدمات درج کرکے جن دوہزار سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا، ان میں بیشتر مسلمان ہیں۔ ان میں سے کئی مقدمات میں عدالتیں دہلی پولیس کو پھٹکار لگاچکی ہیں، کیونکہ ان مقدمات میں شواہد اور گواہوں کا زبردست فقدان ہے ۔
خیال کیا جاتا ہے کہ عام انتخابات سے عین پہلے سی اے اے نافذ کرنے کا سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو مغربی بنگال میں ہوگا۔مغربی بنگال اس وقت حکمراں جماعت کے سب سے زیادہ نشانے پر ہے ۔وہاں سندیش کھالی کے عنوان پر سیاسی شعبدے بازی عروج پر ہے ۔واضح رہے کہ مغربی بنگال کے کئی لوک سبھا ممبران وزیراعظم اور وزیرداخلہ سے شہریت ترمیمی قانون نافذ کرنے کامطالبہ کررہے تھے ۔ اسی لیے نوٹیفیکیشن جاری ہوتے ہی مغربی بنگال بی جے پی نے جشن منایا۔واضح رہے کہ سی اے اے نافذ ہونے سے مغربی بنگال کی متوا فرقہ کو شہریت ملے گی، جس کی آبادی دس لاکھ سے زائد ہے ۔ 2019میں جب یہ قانون پارلیمنٹ سے منظور کیا گیا تھا تو بی جے پی نے متوا فرقہ سے وعدہ کیا تھا کہ سی اے اے کے توسط سے انھیں شہریت دی جائے گی۔ واضح رہے کہ مغربی بنگال کے نادیہ، شمال مغرب 24پرگنہ ضلعوں کی کم ازکم چار لوک سبھا سیٹوں میں یہ فرقہ جیت ہار طے کرسکتا ہے ۔
متنازع شہریت قانون نافذ ہونے کے بعد سب سے زیادہ چہ میگوئیاں مسلم حلقوں میں ہورہی ہیں۔ سرکاری ذرائع مسلمانوں کومطمئن کرنے کے لیے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس قانون کا اثر ان پر نہیں پڑے گا، کیونکہ یہ قانون شہریت دینے والا ہے ، شہریت لینے والا نہیں ہے ۔اس لیے مسلمانوں کی شہریت پر کوئی خطرہ نہیں ہے ۔اصل سوال مسلمانوں کی شہریت کا نہیں ہے بلکہ اس ذہنیت کا ہے جس کی کوکھ سے اس قانون نے جنم لیا ہے ۔ سب سے خطرناک بات یہ ہوئی ہے کہ اس ملک میں پہلی بار ایک ایسا قانون وجود میں آیا ہے جو شہریوں کی درجہ بندی مذہب کی بنیاد پر کرتا ہے ۔ہمارے دستور میں شہریت کی بیناد مذہب کہیں بھی نہیں ہے ۔ اس قانون میں مسلمانوں کے سوا ملک کے تمام فرقوں کو شامل کیا گیا ہے ۔یہی وجہ ہے اس قانون کو ملک کی سب سے بڑی عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے اور وہاں کم وبیش 200عرضیاں زیرسماعت ہیں۔ اقوام متحدہ کے شہریت سے متعلق ادارے نے بھی اس قانون کے خلاف ایک عرضی سپریم کورٹ میں دائر کی ہے ۔ ان عرضیوں کی سماعت کے لیے آئندہ 19/مارچ کی تاریخ مقرر کی گئی ہے ۔ سپریم کورٹ میں سی اے اے کی مختلف دفعات کو چیلنج کیا گیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر